رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو جنگ مشرکوں سے ہوں مثلاً جنگ بدر احد خندق خیبر حنین مکہ تبوک وغیره تو ان تمام جنگوں میں نمایاں کارروائی کس بزرگ کی ہے کیا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے زیادہ بہادر عالم عابد سخی امین کوئی اور بزرگ بھی ہے اگر کسی کا نام لینا چاہیں تو ارشاد فرمائیں اس بزرگ نے بدر احد خندق خیبر حنین وغیرہ میں کتنے دشمن اسلام قتل کیے اور یہ بھی ارشاد فرمائیں کہ اَشِدَّآءُ عَلَى الۡكُفَّارِ نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کتنے کافر قتل کیئے اور اپنے دور حکومت میں اپنی تلوار سے کتنے مشرک مارے۔
مولانا مہرمحمد میانوالیخلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اوصاف کا تقابلی مطالعہ:
جواب: یہ سوال دراصل حضرت ابوبكرؓ و حضرت علیؓ کی افضلیت اور استحقاقِ خلافت سے متعلق سنی شیعہ نزاع پر مبنی ہے حضرت ابوبکر صدیقؓ کی افضلیت اور اس پر کچھ دلائل ہم سوال 3 کے تحت عرض کرچکے ہیں مراجعت کرلی جائے یہاں چند اصولی باتیں ذکر کی جاتی ہیں۔
اولاً: شیعہ کے ہاں افضلیت اور خلافت نص پر مبنی ہوتی ہے اوصاف خاصہ یہ ہرگز نہیں قتال علم وغیرہ میں کمال کے باوجود اگر نص نہ ہو تو اسے خلیفہ یا افضل نہیں کہا جا سکتا مثلاً عید مرتضوی کی جنگوں میں سب سے زیادہ کاروائی اشتر نخعی کی ہے اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے بروایت شیعہ اس کے حق میں فرمایا ہے۔
کہ اشتر از برائے من چناں بود کہ من از برائے حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم واشتر درمیان میمنہ و میسرہ چوں شیر زیان تبیغ و سنان حملہ میکرد۔
(مجالس المؤمنین: صفحہ، 287)
ترجمہ: اشتر میرے حق میں ایسا تھا جیسے میں حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں اور اشتر لشکر کے دائیں حصے اور بائیں حصے میں نیزے اور تلوار کے ساتھ شیر ببر کی طرح حملے کرتا تھا
اور اہلِ سیرت و تاریخ کے اتفاق کی روشنی میں حضرت علیؓ کے تمام اصحاب اور طرفداروں میں جو مرتبہ علم و نفقہ میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا تھا وہ حضرات حسنینؓ کا نہ تھا اور نہ حضراتِ حسنینؓ کے ہاتھوں جمل و صفین و نہروان میں چنداں مقتول ہوئے اس تفاوت کے باوجود سیدنا علیؓ کے جانشین حضرت حسن رضی اللہ عنہ و حضرت حسین رضی اللہ عنہ قرار پائے کیونکہ شیعہ کے یہاں وہی منصوص تھے اور اشتر و حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا کو یہ مقام حاصل نہ ہوسکا لہٰذا شیعہ کا حضرت علیؓ کے صحابیانہ کمالات و اوصاف سے استدلال کرنا اصولاً غلط ہوا ان کو نص صریح کے ثبوت پر توجہ دینی چاہیئے اس کے جواب میں حضرت ابوبکرؓ صدیق رضی اللہ عنہ و حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے لیے اس سے واضح اور جلی نص ہم پیش کر چکے ہیں کہ حضورﷺ نے ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو بشارت دی تھی:
ان ابا بکرؓ على الخلافة بعدى ثم ابوك فقالت من انباك قال نبانى العليم الخبير۔
(تفسیر قمی: صفحہ، 354 مجمع البیان: جلد، 5 صفحہ، 314 تفسیر صافی: صفحہ، 523)
ترجمہ: بے شک میرے بعد خلیفہ ابوبکرؓ ہوں گے پھر اس کے بعد تیرے والد عمرؓ ہوں گے کہنے لگی آپ کو کس نے بتایا فرمایا مجھے علیم خبیر خدا نے بتایا۔
ثانیاً: شیعہ اثناء عشریہ حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ و حضرت عثمانؓ نے کو العیاذ باللہ مؤمن اور صحیح مسلم ہی نہیں مانتے اسم تفضیل کا استعمال مفضل اور مفضل علیہ کا نوع و جنس میں اتحاد چاہتا ہے خلفائے ثلاثہؓ اور سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے فضائل و اوصاف میں موازنا چاہنا یا آپ کو ان پر فضیلت دینا اس بات کا اعتراف کر لینا ہے کہ وہ حضرات بھی ایمان و اسلام میں حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے ہم نوع و ہم جنس ہیں اور بوجوہ عند الشیعہ حضرت علیؓ سے افضل ہیں اس اعتراف و استدلال سے شیعہ اثناء عشریہ اپنے مذہب سے ہی خارج ہو جاتے ہیں یہ حق صرف شیعہ زیدیہ و تفضیلیہ کا ہے اثناء عشریہ اس کے ہرگز مستحق نہیں مگر افسوس کہ آج یہ تقریر و تحریریں اور تمام مساعی میں زور صرف وہی چیزوں پر دیتے ہیں تیسرا کوئی مسئلہ ہی نہیں نہ اس پر ان کی تقریر رنگین اور واہ واہ کی مستحق ہو سکتی ہے ایک سیدنا علیؓ کے صحابیانہ کارنامے دوم جنگ سیدنا حسینؓ بایزید۔ حالانکہ حضرت علیؓ شیعہ کے ہاں محبوب و مکرم صحابی کی حیثیت سے نہیں بلکہ بعد از پیغمبر امام و ہادی کی حیثیت سے ہیں یہی وجہ ہے کہ غیر صحابی 9 اور افراد بھی حضرت علیؓ کی طرح شیعہ کو محبوب و مکرم ہیں شیعہ کو امام کی حیثیت سے بعد از پیغمبر 30 سالہ زندگی کے اوصاف و کارناموں سے فقط استدلال کرنا چاہیے لیکن وہ اس سے اس بنا پر کتراتے ہیں کہ اگر کھلے تاریخی حقائق کی روشنی میں ان کو دیانتہً بیان کریں تو ان کا مذہب باطل ہوجاتا ہے اور اگر تقیہ کے پردوں میں مستور مخصوص لٹریچر سے بیان کریں تو حضرت علیؓ مسلمانوں سے الگ شخصیت نظر آتے ہیں اسی طرح حضرت حسینؓ کا یزید کے مدِ مقابل ہونا شیعہ کے اصول تقیہ کے بالکل خلاف ہے نہ سنتِ علوی و حسنی تھی نہ بعد والے کسی امام کی سیدنا جعفر صادقؒ کا فرمان واضح ہے۔
التقية من دينی و من دين ابائی ولا دين لمن لا تقية له۔
(کافی باب تقیہ)
ترجمہ: تقیہ میرا مذہب ہے اور میرے باپ دادے کا بھی اور جو تقیہ نہ کرے وہ بے دین غیر مسلم ہے۔
میرے سنی بھائی اس نکتہ کو مجھ سے لیں اور شیعہ کو اپنے مذہب کے خلاف اور غیر متعلقہ اصول سے گفتگو نہ کرنے دیں۔
ثالثاً: کسی جماعت میں سے ان کے افضل ترین فرد کا پتہ 4 وجوہ سے معلوم ہوسکتا ہے :
1: خود مربی اس کا فیصلہ کر دے۔
2: مربی اس کو اس خدمت پر لگائے جو سب سے افضل سے لی جا سکتی ہے جیسے استاذ کسی کو جماعت کا مانیٹر بنا دے اور وہ استاد کی غیر موجودگی میں کلاس کو کام کرائے۔
3: پوری جماعت کے رحجان میں وہ شخص سب سے زیادہ درجہ رکھتا ہو۔
4: تمام مضامین کے مجموعی نمبر سب سے زیادہ ہوں اگرچہ بعض مضامین کے انفرادی نمبر کچھ دوسروں کی بہ نسبت کم ہی ہوں۔
ان چاروں اصول کی روشنی میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کی افضلیت حضرت علیؓ پر متحقق اور واضح ہے۔
امرِ اول: سب سے بڑے مربی اور شارع اللہ تعالیٰ شانہ ہیں اس نے سورۃ اللیل میں آپ کو الۡاَتۡقَى سب سے بڑا پرہیز گار بتایا ہے اور سب سے بڑا پرہیز گار ہی اللہ کے ہاں زیادہ معزز ہے۔
اِنَّ اَكۡرَمَكُمۡ عِنۡدَ اللّٰهِ اَ تۡقٰٮكُمۡ الخ۔
(سورۃ الحجرات: آیت 13)
ترجمہ: بلا شبہ اللہ کے ہاں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو بڑا متقی ہے۔
سنی شیعہ تفاسیر سے آیت بالا کا حضرت ابوبکرؓ کے حق میں نزول سوال 3 کے تخت بیان ہوچکا ہے سورت نور میں اللہ پاک نے آپ کو أُولُو الْفَضْلِ فرمایا ہے:
وَلَا يَاۡتَلِ اُولُوا الۡـفَضۡلِ مِنۡكُمۡ وَالسَّعَةِ اَنۡ يُّؤۡتُوۡۤا اُولِى الۡقُرۡبٰى وَالۡمَسٰكِيۡنَ وَالۡمُهٰجِرِيۡنَ الخ۔
(سورۃ النور: آیت 22)
ترجمہ: تم میں سے شان والے اور گنجائش والے اس بات کی قسم کھائیں کہ وہ اپنے رشتہ داروں مسکینوں اور مہاجروں کو نہ دیں گے۔
باتفاقِ مفسرین یہ آیت حضرت ابوبکر صدیقؓ کے حق میں نازل ہوئی جب آپ نے قذف بر عائشہ صدیقہؓ کی وجہ ث حضرت مسطحؓ کو مالی امداد نہ دینے کی قسم کھائی تھی یہاں آپ کو صاحبِ فضیلت فرمایا ہے جو مرتبہ عنداللہ میں افضلیت کا متقاضی ہے اور مالی لحاظ سے صاحبِ وسعت فرمایا۔
آپ نے مغفرت خدائی کو پسند کیا تو اللہ پاک نے چند روزہ امانت کی بندش کو بھی معاف فرما دیا۔
سورت برأت میں آپ کو صَاحِبہٖ صاحبِ پیغمبرﷺ فرمایا جو صرف آپ ہی کے ساتھ مخصوص ہے اور ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ فرمایا یعنی دونوں میں سے دوسرا اگر حضورﷺ اول ہیں تو حضرت ابوبکر صدیقؓ ثانی ہیں قرآن کا فیصلہ واضح ہے اپنے مقام پر تفصیل گزر چکی ہے۔
امرِ دوم: کے لحاظ سے بھی افضلیت واضح ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا مقصد بعثت عباد کا قیام ہی ہوتا ہے نماز بالاتفاق سب سے افضل ہے اور امامت سے ہی کامل ادا ہوتی ہے حضورِ اکرمﷺ نے سنی شیعہ احادیث اور تایخی حقائق کی روشن میں آپؓ ہی کو امام نماز بنایا تو آپؓ ہی سب سے افضل ہوئے دوسری اہم عبادت حج ہے جو مالی اور جسمانی عبادت سے مرکب ہے اس میں بھی امیر و پیشوا کی ضرورت ہوتی ہے امیر حج بھی حضورِ اکرمﷺ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ ہی کو بنایا احادیث و تاریخ سے یہ حقیقت بھی نا قابلِ انکار ہے۔
ابنِ اسحاق نے کہا کہ رسول اللہﷺ بقیہ رمضان شوال و ذی قعده کے پورے دو ماہ مقیم رہے پھر 9ھ کے لیے حضرت ابوبکرؓ کو امیرِ حج بنا کر بھیجا کہ وہ جاکر مسلمانوں کے حج کا انتظام کریں بہرحال حضرت ابوبکرؓ اور وہ مسلمان جو ان کے ساتھ جانے والے تھے مکہ کے لیے روانہ ہوگئے۔
(سیرت ابنِ ہشام: جلد، 2 صفحہ، 654)
پھر سورت براۃ نازل ہوئی اس کی آیات پیش کرنے کے بعد اعلانِ برات کے عنوان سے لکھا ہے:
ابنِ اسحاق نے کہا مجھ سے حکم بن حکیم بن عبد بن حنیف نے ابو جعفر محمد بن علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کی روایت بیان کی کہ جب رسول اللہﷺ پر سورت برات نازل ہوئی اور اس وقت آپﷺ حضرت ابوبکرؓ کو حج کا انتظام کرنے کے لیے روانہ فرما چکے تھے تو آپﷺ سے کہا گیا یا رسول اللہﷺ! کیا اچھا ہو کہ آپ حضرت ابوبکرؓ کے پاس کسی کو برات کے لیے روانہ فرمائیں اس پہ آپﷺ نے فرمایا میری طرف سے یہ فرض کوئی انجام نہیں دے سکتا بجز میرے اہلِ خانہ میں سے ایک شخص کے اس کے بعد حضرت علیؓ بن ابی طالب کو بلایا اور فرمایا:
اخرج بهذه القصة من صدر براءة واذن فی الناس يوم النحر اذا اجتمعوا بمنى انه لا يدخل الجنة كافی ولا يحج بعد العام مشرك ولا يطوف بالبيت عريان ومن كان له عند رسول اللهﷺ عهد فهو الى مدته۔
ترجمہ: شروع سورت برات سے اس قصہ کو لے جاؤ اور عید کے دن لوگوں میں جب کہ وہ منیٰ میں جمع ہوں یہ اعلان کرو کہ کافر جنت میں داخل نہ ہوگا اور اس سال کے بعد مشرک حج نہ کرے گا اور بیت اللہ کا ننگے طواف نہ کرے گا جس کا حضورِ اکرمﷺ کے ساتھ معاہدہ ہے وہ تا مدت بحال رہے گا۔
چنانچہ اس سال کے بعد کسی مشرک نے حج نہ کیا اور نہ کسی نے برہنہ ہوکر بیت اللہ کا طواف کیا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ کے پاس واپس آگئے (سیرت ابنِ ہشام: صفحہ، 558)
کچھ آگے یہ بھی ہے کہ جب سیدنا علیؓ سیدنا ابوبکرؓ کو جا ملے تو آپ نے پوچھا امیر ہو کر آئے ہو یا مامور بن کر سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا مامور ہو کر ہاں سورت برات نازل ہوئی ہے تو اعلانِ برات حضورﷺ نے میرے ذمہ لگایا ہے۔
جیسے صحیح بخاری: جلد، 2 صفحہ، 671 کتاب التفسیر میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ اس سال مجھے بھی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یوم النحر میں ان اعلان کرنے والوں میں منیٰ بھیجا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ ننگے طواف کرے حمید کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے حضرت علیؓ بن ابی طالب کو یہ حکم دے کر بھیجا کہ برأت کا اعلان کریں حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ پھر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے ہمارے ساتھ اہلِ منیٰ میں نحر کے دن برأت کا اعلان کیا یعنی سورت برأت کا اول ربع سنایا اور یہ بھی کہا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک نہ حج کرے نہ ننگے طواف کرے۔
اس سے یہ بھی معلوم علوم ہوا کہ حضرت ابوبکرؓ بدستور امیرِ حج رہے ان کا منصب ان سے نہیں لیا گیا البتہ قومی دستوں کی بنا پر نقض معاہدہ کا اعلان حضورﷺ نے اپنے بجائے حضرت علیؓ سے کروایا جو یہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کو معزول کیا گیا یا ان میں سورت برأت کی تبلیغ کی بھی اہلیت نہ تھی وہ بڑے بے انصاف اور حقائق کے منکر ہیں معتصب شیعہ بھی اس طرح بیان کرتے ہیں کہ جب ث ابوبکرؓ حضورِ اقدسﷺ کے پاس واپس آئے تو پوچھا یا رسول اللہﷺ میرے متعلق کوئی نئی بات ہوئی تو آپ نے فرمایا تجھ میں بدستور نیکی ہی ہے لیکن مجھے یہ حکم ملا ہے کہ اس نقض عہد کی تبلیغ یا میں کروں یا جو میرا رشتہ دار ہو۔
(کشف الغمہ: صفحہ، 411)
امرِ سوم: کے لحاظ سے بھی حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ و حضرت عثمانؓ حضرت علیؓ سے افضل ہیں کیونکہ سب صحابہ کرامؓ (کلاس پیغمبرﷺ کے طلباء) نے ان تینوں حضرات پر بالترتیب اتفاق کیا۔ شیعہ سنی حوالہ جات مذکور ہوچکے ہیں۔ عہد نبوی ہی میں اسی ترتیب سے ان کو دیکھا جاتا تھا۔ سیدنا ابوبکرؓ صدیق اور ثانی اثنین کے لقب سے اور سیدنا عمرؓ فاروق اور ناطق الملک علی لسانہ کے لقب سے عہد نبوی میں ہی مشہور تھے (رجال کشی)
حضورِ انورﷺ بھی ان کو اسی ترتیب سے بلاتے تھے مثلاً حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے بحکمِ وحی سیدہ فاطمہؓ کا حضرت علیؓ سے نکاح کرنے کے لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اسی طرح بلایا:
فانطلق فادع لى ابابكرؓ و عمرؓ و عثمانؓ وعلياؓ وطلحةؓ والزبيرؓ و بعددهم من الانصار۔
(وكشف الغمہ: صفحہ، 470)
ترجمہ: جا اور میرے لیے ابوبکرؓ عمرؓ عثمانؓ علیؓ طلحہٰؓ اور زبیرؓ کو بلالا اور اتنے ہی انصار حضرات کو بلاتے آ۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ذہن میں حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ اس قدر مقبول تھے کہ بطورِ مدح اگر کسی اور کا ذکر ہوتا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین شیخینؓ مراد لیتے مثلاً ایک دفعہ حضورﷺ نے فرمایا کہ اے قریش یا تو باز آجاؤ گے یا تم پر اللہ اس شخص کو مسلط کر دے گا جس کا اللہ نے ایمان کے لیے دل آزما لیا ہے بعض حاضرین نے کہا کیا سیدنا ابویکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں؟ فرمایا نہیں کیا سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں؟ فرمایا نہیں بلکہ وہ جوتا مرمت کرنے والے سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہیں۔
(کشف الغمہ: صفحہ، 281)
مجلسی نے اسی حقیقت کو یوں جل کر بد زبانی سے ادا کیا ہے کہ سب قریش مسلمان اپنے دو بتوں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی بہت تعظیم کرتے تھے اور ان کی مخالفت نہیں کرتے تھے۔ (حیات القلوب: جلد، 2)
امر چہارم: خلفاء اربعہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اوصاف حسنہ میں موازنہ:
معترض کا یہ کہنا کہ جنگوں میں نمایاں کارواںٔی کس کی ہے کیا حضرت علیؓ سے زیادہ بہادر عالم، عابد سخی، امین کوئی اور بزرگ بھی ہے گو بے معنیٰ بات ہے کیونکہ جب قرآنِ پاک عمل پیغمبرﷺ اور اتفاق صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ایک بات ثابت ہو جائے تو اوصافِ حسنہ کے ایک ایک جزئیہ میں تقابل کرنا اور ایک کو کم دوسرے کو زیادہ دکھانا کوئی مستحسن بات نہیں خصوصاً ہمارے جیسے لوگ جو ان کی خاکِ پاکے بھی برابر نہیں اور یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص کسی امیدوار کے مجموعی نمبرات کے اضافے اور ممتحن کے فیصلے سے صرف نظر کر کے ہر سوال کے جواب کا جزوی طور پر دوسرے کمتر امیدوار کے ہر سوال سے مقابلہ کرے پھر دو چار سوالوں کے فرق کو اہمیت دے کر یہ کہنے لگے کہ یہ ثانی بہتر کامیاب اور پہلے کا نتیجہ غلط نکالا گیا ہے تاہم اس خطرناک وادی میں ہم مجبوراً اترتے ہیں تاکہ شیعہ کو عذر کا موقعہ نہ رہے۔
واضح رہے کہ مختصراً افضلیت کے اسباب تین ہو سکتے ہیں:
1: قوت ایمانی 2: کثیر الہدایت ہونا 3: ذاتی خوبیوں کا مالک ہونا ہر ایک کا موازنہ ملاحظہ ہو:
قوت ایمانی:
ایمان ایسی دولت ہے کہ اس کی وجہ سے اعمال میں جان اور وزن ہوتا ہے اور جوں جوں اس کی کیفیت میں اضافہ ہو اعمال کا درجہ بڑھتا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم اہلِ سنت کے اعتقاد کے مطابق انبیاء کی دو رکعت نماز امتی کے تمام عمر کے فرائض سے افضل ہے صحیحین کی حدیث معتبر کے مطابق ایک صحابی کا تین پاؤ غلہ راہِ خدا میں صرف کرنا غیر صحابی کے احد پہاڑ جتنا سونا خرچ کرنے سے افضل ہے گو تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ایمان کامل تھا تاہم اصحابِ حدیبیہ، اہلِ احد، اہلِ بدر پھر مہاجرین، عشرہ مبشرہ اور خلفائے اربعہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا بالترتیب سب سے افضل تھا اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی فوقیت مندرجہ ذیل وجوہ سے ہے:
1: آنحضرتﷺ ہمیشہ اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرماتے تھے۔
ما سبقكم ابوبكرؓ بصوم ولا صلواۃ ولكن بشیء وقر فی صدره۔
(مجالس المؤمنین: صفحہ، 206)
حضرت ابوبکرؓ تم سے صرف روزے اور نماز کی وجہ سے افضل نہیں بلکہ اس چیز قوتِ ایمانی و اخلاص کی وجہ سے جو ان کے دل میں معزز بنادی گئی ہے۔
2: حضورِ اکرمﷺ کا ارشاد ہے جس شخص کو بھی میں نے اسلام کی دعوت دی اس کو کچھ نہ کچھ جھجک اور تردد اور فکر ضرور پیدا ہوئی سوائے سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے کہ جیسے ہی میں نے ان کو اسلام کی دعوت دی فوراً بلا تردد و تامل انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور ذرا بھی دیر نہ لگائی۔
(راز ابنِ اسحاق حیاۃ الصحابہ: جلد، 1 صفحہ، 57)
مگر سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو جب آپ نے دعوت دی میں تم کو بھی اللہ کی طرف بلاتا ہوں جو تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور اس کی عبادت کا حکم دیتا ہوں اور یہ کہ لات و عزی کو بالکل چھوڑ دو سیدنا علیؓ نے کہا یہ ایسی بات ہے کہ آج سے قبل میں نے کبھی نہیں سنی میں اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں دے سکتا جب تک کہ اپنے والد ابو طالب سے بیان نہ کر لوں آپﷺ کو حضرت علیؓ کا یہ فرمانا ناگوار گزرا فرمایا اے علیؓ اگر تم اسلام نہیں لاتے تو اس معاملہ کو ابھی پوشید رکھنا پھر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے دوسرے دن از خود ایمان قبول کر لیا (بدایہ) اور اسلام لے آئے اور ابو طالب کے ڈر سے آپ کے پاس چھپ چھپ کر آتے رہے اور اپنے اسلام کو چھپائے رکھا ظاہر نہ ہونے دیا۔
(بدایہ: جلد، 3 صفحہ، 24)
3: اس کے برعکس سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اسلام لاتے ہی ظاہر کر دیا اور کفار کی سختیاں برداشت کرتے رہے۔
چنانچہ حضرت علیؓ خود فرماتے ہیں حضرت ابوبکرؓ مجھ سے چار باتوں میں بڑھ گئے پہلے اسلام آشکارا کیا مجھ سے پہلے حجت کی نبی کے یار غار ہوئے نماز قائم کی جب کہ وہ اسلام ظاہر کرتے تھے میں چھپاتا تھا۔
(تنزیہہ المكانة الحیدریہ: صفحہ، 27)
4: سابقين إلى الاسلام حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ و حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ میں سے سیدنا ابوبکرؓ ہی آزاد مرد بالغ تھے چنانچہ اپنے اثر و قوت سے جو حضورﷺ کی اعانت اسلام کی وہ دوسروں سے نہ ہوئی۔
5: اسلام قبول کرتے ہی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضورﷺ کے مشن کے مبلغ بن گئے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام لانے کے بعد سیدنا عثمانؓ رضی اللہ عنہ حضرت طلحہٰ رضی اللہ عنہ حضرت زبیرؓ رضی اللہ عنہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے یہ حضرات بھی آپ کی دعوت سے مسلمان ہوگئے دوسرے روز سیدنا ابوبکرؓ حضورﷺ کے پاس حضرت عثمان بن مظعون ابو عبیدہ عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ حضرت ابو سلمہ بن عبد الاسدؓ، حضرت ارقم بن الارقمؓ کو لے کر حاضر ہوئے اور یہ سب بھی مشرف باسلام ہوئے۔
(بدایہ: جلد، 3 صفحہ، 29 عن حافظ ابو الحسن طرابسی)
یہ سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین قدیم الاسلام عشرہ مبشرہ جیسے مشاہیر ہوئے ہیں اس کے برعکس مکی زندگی میں سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر یا آپ کی ترغیب سے کسی کا مسلمان ہونا کتبِ سیرت و تاریخ میں ہمیں نہیں ملا ہاں حضرت ابو ذر غفاریؓ کو جو از خود اسلام اور پیغمبرﷺ کی تلاش میں آئے تھے آپﷺ نے مہمانی کھلا کر اور آمد کا مقصد پوچھ کر حضورﷺ کی خدمت میں پہنچا دیا تھا۔
6: قوتِ ایمانی سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کفار سے بڑی تکلیفیں بھی دیکھیں باوجود یکہ آپ نہایت اونچے خاندان کے معزز اور رںٔیسں تھے چند واقعات ملاحظہ ہوں:
ا: ایک دن سیدنا ابوبکر صدیقؓ تقریر کے لیے کھڑے ہوئے اور رسول اللہﷺ تشریف فرما تھے اسلام میں یہ وہ پہلے خطیب ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی طرف دعوت دی مشرکین چاروں طرف سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مار بھی اور روندا بھی عتبہ بن ربیہ فاسق ان کے قریب آیا اور اپنے کئی تلے والے جوتے سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مارنا شروع کیا چہرے پر مارتا تھا اور آپؓ کے پیٹ پر بھی کودا حتیٰ کہ آپ کا چہرہ اور ناک نہ پہچانی جاتی تھی خاندان بو تمیم کے لوگ بھاگ کر آئے اور آپ کو چھڑا لے گئے اور ان لوگوں کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی موت میں شک نہ تھا مگر جب ہوش میں آئے تو سب سے پہلے حضورﷺ کا حال پوچھا الخ۔
(حیاۃ الصحابہ: جلد، 2 صفحہ، 290)
ب: حضرت اسماء بنتِ ابوبکر رضی اللہ عنہا سے لوگوں نے پوچھا کہ حضورﷺ کی تکالیف میں سے سب سے زیادہ سخت تکلیف تم نے کون سی دکھی فرمایا کہ ایک مرتبہ مسجد حرام میں کفار اپنے معبودوں کا تذکرہ کر رہے تھے اتنے میں حضورﷺ آگئے تو وہ سب آپ پر جھپٹ پڑے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تک ان کے شور و غوغا کی آواز پہنچی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہم لوگوں کے پاس سے اٹھے اور ان کے سر پر چار زلفیں تھیں اور فرماتے تھے تمہارا ناس ہو کیا تم ایسے آدمی کو قتل کرنا چاہتے ہو جو یہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے مشرکین نے حضورﷺ کو تو چھوڑا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر ٹوٹ پڑے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب گھر واپس آ گئے اور شدت زد و کوب سے یہ حال تھا کہ سر کی جس مینڈھی کو ہاتھ لگاتے وہ بال ہاتھ لگاتے ہی جھڑ جاتے اور سیدنا ابوبکرؓ کہہ رہے تھے تبارکت یا ذالجلال والاکرام۔ (اخرجہ ابولیلی)
ج: ابنِ دغنہ کو جب آپ امان واپس کر چکے تو ایک کافر نے بیت اللہ شریف کو جاتے ہوئے آپ کے سر پر مٹی ڈال دی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس سے مغیرہ یا عاص بن وائل گزرا سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ تم نے دیکھا اس جاہل نے کیا کیا؟ اس نے کہا کہ تم نے خود اپنے ساتھ یہ کام کیا ہے سیدنا ابوبکرؓ کہنے لگے اے رب تو کتنا بردبار ہے کتنا بردبار ہے۔ (بدایہ: صفحہ، 935)
د: ایک دفعہ عقبہ بن ابی معیط نے حضورﷺ کے گلے میں چادر ڈالی اور مروڑی حضرت ابوبکر صدیقؓ نے چھڑایا اور روتے ہوئے کہا اتقتلون رجلا ان يقول ربی اللہ کیا تم اس آدمی کو قتل کرتے ہو جو کہتا ہے میرا رب اللہ ہے۔
(کشف الغمہ: صفحہ، 245 پر ہے کہ نوفل بن خویلد حضورﷺ کا سخت ترین دشمن تھا اسی شخص نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت طلحہٰ رضی اللہ عنہ کو ہجرت سے قبل رسی میں جکڑ دیا اور دن بھر رات تک عذاب دیتا رہا حتیٰ کہ لوگوں کو ان کی تلاش کرنی پڑی۔
بجرم توام میکشند چہ غو غائیت
تو نیز بر سر بام آنچہ خوش تماشائیست۔
ایمان لانے اور قوت ایمانی کی بنا پر یہ شدائد برداشت کرنے کی یہ صدیقی جھلک تھی۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ایمان:
اب سیدنا عمر فاروقؓ کی ایمانی قوت کا حال بھی سن لو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ گو کچھ بعد میں سن 5 یا 6 نبوت میں اسلام لائے مگر آپ حضورﷺ کی دعا کا مقصود اور مراد ہیں آپ نے دعا مانگی تھی اے میرے اللہ! اسلام کو عمر بن خطاب یا ابو جہل بن ہشام کے ذریعہ قوت عطا کر اللہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ کی یہ دعا قبول کر لی چنانچہ ان کے اسلام لاتے ہی بت پرستی کی دیواریں منہدم اور اسلام کی بنیادیں قوی ہوگئیں۔
(طبرانی حیات الصحابہؓ: صفحہ، 57)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا اپنا بیان ہے کہ حضورﷺ نے میری قمیص پکڑ کر کہا خطاب کے بیٹے اسلام لے آ اور ساتھ ہی یہ دعا کی اے اللہ اسے ہدایت دے فوراً میرے منہ سے نکلا اشهد ان لا الہ الا الله و اشهد انک رسول اللہ میرے اسلام لاتے ہی مسلمانوں نے اتنی زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا کہ مکے کی ہر گلی میں اس کی آواز گونج اٹھی۔
(ابونعیم فی الحلبیہ: جلد، 1 صفحہ، 41)
حضرت عبد الله بن مسعودؓ فرماتے ہیں جب سے حضرت عمرؓ اسلام لائے ہم غالب ہوتے گئے سیدنا عمرؓ کا اسلام مسلمانوں کی قوت تھی ہجرت اسلام کی فتح تھی اور خلافت اللہ کی رحمت و برکت تھی۔(بخاری)
سیدنا عمرؓ کے اسلام لانے کے بعد ہی مسلمانوں نے علی الاعلان کعبہ میں جا کر نماز پڑھی حضرت عمرؓ جس رات اسلام لائے تو سوچا کہ جو شخص اسلام کا سب سے بڑا دشمن ہے اسے بھی بتا آؤں صبح ابو جہل کا دروازہ کھٹکھٹا کر بلایا اس نے کہا اے میرے بھانجے سیدنا عمرؓ ابوجہل کی بہن حنتمہ بنتِ ہشام بن المغیرہ کے فرزند تھے تو سزاوار مقام پہ آیا ہے کیوں آنا ہوا؟ آپؓ نے فرمایا یہ بتانے آیا ہوں کہ میں اللہ پر اور اس کے رسول حضرت محمد مصطفیٰﷺ پر ایمان لا چکا ہوں اور ان کی لائی ہوئی ہر چیز کی تصدیق کی ہے فرمایا کہ پھر تو ابو جہل نے وہ دروازہ میرے منہ پر مارا اور کہا اللہ تجھے اور اس چیز کو جو تو لایا ہے برباد کرے۔
(سیرت ابنِ ہشام: جلد، 1 صفحہ، 351)
حضرت عمرؓ نے عمداً جمیل بن معمر الحجمی کو اپنے اسلام کی خبر دی وہ قریش کی طرف چل دیا آپؓ اس کے پیچھے ہوگئے اس نے اعلان کیا کہ اے گروہ قریش عمرؓ بےدین ہوگیا حضرت عمرؓ اس کے پیچھے کہتے جاتے تھے اس نے جھوٹ کہا بلکہ میں نے اسلام اختیار کیا ہے اور گواہی دی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ حضرت محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں ان لوگوں نے آپ پر حملہ کر دیا آپ بھی ان سے جنگ کرتے رہے یہاں تک کہ آفتاب ان کے سروں پہ آگیا آپؓ تھک کر بیٹھ گئے اور قریش آپؓ کے سر پر کھڑے رہے آپؓ نے فرمایا تم جو چاہو کر میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ اگر ہم مسلمان تین سو مرد ہو جائیں تو پھر ہم باقاعدہ لڑیں پھر یا ہم مکہ کو تمہارے لیے چھوڑ دیں گے یا تم ہمارے لیے چھوڑ دو گے
(سیرت ابنِ ہشام: جلد، 1 صفحہ، 350 والبدایہ: جلد، 3 صفحہ، 82 و قال ہذا اسناد و جید قوی)
آخر وہ وقت بھی آ گیا کہ سب شہر آپ کے قتل پر تل آیا اور آپ کو گھر میں غار ثور کی طرح پناہ لینی پڑی آپ کے پاس ابو عمرو عاص بن وائل سہمی آیا اور یہ زمانہ جاہلیت میں آپ کا حلیف تھا اس نے سیدنا عمرؓ سے پوچھا کہ تمہارا کیا حال ہے؟ سیدنا عمرؓ نے فرمایا میں اسلام لے آیا اور تمہاری کافر قوم مجھ کو قتل کرتی ہے عاص نے کہا جاؤ میں نے تم کو امان دی وہ ایسا نہیں کر سکتی عاص چل دیا اور لوگوں سے ملا جن سے جنگل بھر گیا تھا پوچھا کہ تم لوگ کہاں جا رہے ہو لوگوں نے کہا ابنِ خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس کہ وہ بے دین ہوگیا ہے عاص نے کہا اب تمہارے لیے سبیل نہیں کیونکہ میں پناہ دے چکا ہوں اور لوگوں کو لوٹا دیا۔
(بخاری: جلد، 1 صفحہ، 545)
یہ سیدنا عمرؓ کے ایمان مضبوط کا رد عمل تھا کہ کفار قریش کہنے لگے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بھی اسلام قبول کر لیا ہے وہ اور حضرت حمزہؓ بن عبد المطلب رسول اللہﷺ اور آپ کے اصحاب کے ساتھ ہوگئے ہیں اور اسلام قبیلوں میں پھیلنے لگا ہے تو وہ لوگ جمع ہوئے اور مشورہ کیا کہ ایک کاغذ پر بنو ہاشم بن عبدالمطلب کے خلاف بائیکاٹ کا معاہدہ لکھیں۔ (ابنِ ہشام: جلد، 1 صفحہ، 351)
یہی حال حضرت عثمانؓ کا بھی تھا آپ کو اپنا چچا حکم بن ابو العاص ایک بڑی چٹائی میں لپیٹ کر دھواں دیا کرتا تھا محمد بن ابراہیم تیمی کہتے ہیں کہ جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اسلام لے آئے تو ان کے چچا حکم بن ابو العاص نے ان کو کپڑا اور رسیوں میں باندھ دیا اور کہا کہ تو اپنے باپ دادا کے دین سے ایک نئے دین کی طرف پھر گیا خدا کی قسم میں تجھ کو بندھا رہنے دوں گا کھولوں گا نہیں جب تک کہ تو اس دین کو نہ چھوڑے گا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں کبھی بھی اس دین کو نہ چھوڑوں گا جب ہم نے دیکھا کہ یہ اپنے دین کے بارے میں انتہائی سخت ہیں تو ان کو چھوڑ دیا۔
(ابنِ سعد: جلد، 3 صفحہ، 37)
لیکن ہمیں تلاش کے باوجود سیرت و تاریخ کی کسی کتاب میں ایسا نہیں ملتا کہ حضرت علیؓ کے اسلام سے بھی کفار مشتعل ہوئے ہوں یا آپ کو کسی قسم کی تکلیف دی ہو یا آپ کے قتل کا محور بنایا ہو یا آپ کو گرفتار کیا ہو یا حضورﷺ سے متعلق آپ سے باز پرس کی ہو جب کہ ہجرت کے موقعہ پر حضرت اسماء بنتِ ابی بکرؓ سے ابو جہل لعین وغیرہ نے حضورﷺ اور حضرت صدیقِ اکبرؓ کا پتہ پوچھا جب اس نے نہ بتایا تو اس زور سے منہ پر طمانچہ مارا کہ کان کی بالی گرگئی۔
(سیرت ابنِ ہشام: صفحہ، 419)
حتیٰ کہ باقر علی مجلسی جیسے شدید متعصب شیعہ بھی جلاء العیون اور حیات القلوب میں ایک واقعہ بھی تخلیق و استانہا کے ہنر کے باوجود ذکر نہ کر سکے بجز اس بات کے کہ ایک مرتبہ حضورﷺ کو کفار نے زد و کوب کیا سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ و حضرت خدیجتہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کو گھر میں پتہ چلا تو رونے لگے ہو سکتا ہے اس کا سبب صغر سنی ہی ہو لیکن سن 6 نبوت کے بعد تو سیدنا علیؓ کی عمر 14، 16، 18 سال کی علی اختلاف الروایات ہوگی ان مواقع پر آپ کا ذکر ملنا چاہیئے۔
یہ نکتہ غور کرنے کے قابل ہے کہ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کو ہجرت کرنا پڑی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قتل کا منصوبہ بنا ہجرت کی رات حضرت نبی کریمﷺ اور یارِ غار حضرت صدیقِ اکبرؓ کی تلاش میں 100، 100اونٹ انعام مقر کیا گیا تھا مگر سیدنا علیؓ کو بلا خطر حضورﷺ نے اپنے بستر پر سلا دیا اور ی تسلی بھی دی مجھے کفار ہرگز کچھ نہ کہیں گے۔
پھر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں کہ حضورِ اکرمﷺ کی ہجرت کے بعد تین دن مکہ میں ٹھہرا ایک دن بھی نہ چھپا اور اسی طرح پر پھرتا رہتا تھا امانتوں کے ادا کرنے کے بعد میں نے حضورﷺ کے پاس پہنچنے کا راستہ اختیار کیا۔
(کنز العمال: جلد، 8 صفحہ، 335)
آخر کوئی بات تو حضرت پیغمبرﷺ اور حضراتِ خلفائے ثلاثہؓ میں ایسی تھی جو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ میں نہ تھی کہ کفار ان کے خون کے پیاسے تھے اور حضرت علیؓ کو موقع ملنے کے باوجود بھی کچھ نہ کہتے تھے حلانکہ یہ حضرات مکہ کے ضعفاء میں سے نہ تھے بلکہ معزز خاندانوں کے اصحابِ ثروت اور سردار و رئیس تھے در حقیقت ان حضرات کا تمام منافع دنیوی اور عیش و سکون کی زندگی کو چھوڑ کر مکہ کے درِ یتیم محمد بن عبدالله و رسول اللہﷺ کی اتباع کرلینا اپنی جان و مال آپ پر نثار کرنا اور آپ کی دعوت کا مبلغ بن جانا ہے جہاں حضورﷺ کے دل میں ان کی قدر و منزلت کو سب سے افضل بنا رہا تھا وہاں کفار کے بغیظ و غضب کو بھی تیز کرتا تھا اور وہ بھی حضورﷺ کے بعد اسلام کے اہم ستون حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ ہی کو جانتے تھے یہی وجہ ہے کہ جنگِ احد کے خاتمہ پر حضرت ابو سفیانؓ سے قتل حضورﷺ کی افواہ کی بنا پر اپنی جے میں حضورِ اکرمﷺ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ و حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا نام لیا تھا جیسے صحیح بخاری: جلد، 2 صفحہ، 579 میں بھی ہے حضرت ابو سفیانؓ اونچی جگہ چڑھ کر مسلمانوں کو آواز دینے لگا کیا مسلمانوں میں محمدﷺ زندہ ہوں حضورﷺ نے فرمایا مت جواب دو پھر کہا کیا ابنِ ابی قحافہؓ ہیں حضورﷺ نے فرمایا جواب نہ دو پھر پوچھا گیا حضرت عمرؓ بن الخطاب ہیں؟ جب جواب نہ ملا پھر کہنے لگا یہ سب قتل ہوگئے اگر زندہ ہوتے تو جواب دیتے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ضبط نہ کر سکے فرمایا اللہ کے دشمن تو نے جھوٹ کہ۔ اللہ نے تجھے رسوا کرنے کا سامان باقی رکھا ہے پھر اس نے اعل ہبل آج کل شیعی نعرہ یا علی مدد بھی اسی نعرہ کا چربہ ہے جب حضورﷺ نے اسے مٹا کر اللہ مولانا ولا مولی لکم ہمارا مددگار اللہ ہے تمہارا کوئی مددگار نہیں سکھایا ہے تو ہم شیعہ نعرہ کے جواب میں یا اللہ مدد اور اللہ اکبر کا نعرہ لگانا چاہیے جو مسلمان جنگوں میں لگاتے تھے اے ہبل تو بلند ہو کا نعرہ لگایا تو حضورﷺ نے فرمایا کہو اللہ اعلیٰ واجل اللہ بزرگ و برتر ہے پھر اس نے کہا ہمارا عزیٰ مشکل کشا ہے تمہارا عزیٰ نہیں تب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضورﷺ کے حکم سے جواب دیا اللہ ہمارا مولا ناصر و مددگار ہے اور تمہارا مولیٰ کوئی نہیں حضرت علی المرتضیٰؓ نے بلاشبہ مدنی زندگی میں شجاعت و بہادری کے جوہر دکھائے مگر اس وجہ سے کبھی اپنے کو حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ سے افضل نہیں بتایا نہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ایسا جانا نہ حضورﷺ نے اپنے قول و عمل سے اس کی تعلیم دی۔
دوم کثیر الہدایت ہونا:
ہدایت کی کثرت اور فیضان کی بہتات اور خیر کی اشاعت یقیناً ہادی و مبلغ کو بلند مرتبہ بنا دیتی ہے کیونکہ یہ ایسی متعدی نیکی ہے جس کی انتہا معلوم نہیں ہوسکتی حدیث شریف میں آیا ہے کہ آدمی کے مرنے پر اس کے سارے اعمال ختم ہو جاتے ہیں مگر تین اعمال کا ثواب اسے بدستور ملتا رہتا ہے اولادِ صالح جو والدین کی تربیت سے اچھے کام کرے اور والدین کے لیے دعائے رحمت کرتی رہے۔
صدقہ جاریہ جیسے رفاہی کاموں پر خرچ کرنا جب تک وہ مدرسہ یا مسجد باقی رہے گی بنانے والے کو ثواب ملتا رہے گا۔
علم کی اشاعت یا تصنیف و تالیف کہ جب تک اس علم یا کتاب کا وجود رہے گا عالم و مصنف کو ثواب ملتا رہے گا۔
انبیاء علیہم السلام اسی بناث پر سب خلاںٔق سے افضل ہوتے ہیں کہ وہ منبع علم و ہدایت ہوتے ہیں بنی نوع انسان میں علم کی حد وہی ہیں کوئی امتی جس قدر بنیاد کے علم و ہدایت کے مطابق اعمال بجا لائے گا یقیناً اس کا ثواب اپنے پیغمبر کو پہنچتا رہے گا۔ من سن سنة حسنة فله اجرھا۔
ہمارے پیغمبرِ اکرمﷺ کو جو اللہ تعالیٰ نے سب انبیاء علیہم السلام پر فضیلت بخشی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ آپﷺ کی ہدایت تمام اقوام اور تمام زمانوں کے لیے عام ہے اور اربوں انسانوں نے آپ ہی کے چشمہ ہدایت قرآن و سنت سے اپنی پیاس بجھائی ہے یہ مقام کسی اور نبی کو نہیں مل سکا حالانکہ ان میں ہزار برس تبلیغ کرنے والے حضرت نوح علیہ السلام بھی ہیں فرعون کو شکست دینے والے حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی مقامِ خلت سے سرفراز حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی اور زہد و توکل کا سر چشمہ حضرت عیسیٰ روح اللہ بھی علیہم الصلوۃ والسلام اسی لیے آپ کے حق میں سراجاً منیرا ہادیا و داعیا الی اللہ، اور و لکل قوم ہاد کے القابات قرآن حکیم نے صادر فرمائے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ و حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بعد از پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم بڑے ہادی ہیں:
یہ حقیقت اظہر من الشمس اور نا قابلِ انکار ہے کہ فیضان و ہدایت اور اس کی اشاعت میں حضورِ اکرمﷺ کے واقعی جانشین اور سب سے افضل سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ ہیں حدیث بالا کے موجب تینوں قسم کے جاری و متعدی کام تا یوم قیام یادگار چھوڑے ہیں۔
قرآن حکیم کی اشاعت:
قرآنِ کریم حسب ضرورت جس ترتیب سے اترا حضورﷺ نے اس سے جدا ترتیب پر جو لوح محفوظ میں مقرر ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو پڑھایا لیکن مستقل مکمل کتابی شکل میں جمع کرنے کی ضرورت نہ سمجھی عہدِ صدیقی میں مرتدین اور مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگوں میں کافی قراء و حفاظ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین شہید ہوئے تو مفکرِ امت وملہم من اللہ سیدنا عمرؓ کو خدشہ ہوا اور دربارِ صدیقی میں آکر عرض کی کہ قرآنِ پاک کو کتابی شکل میں جمع کیا جائے اور تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے توقف کیا کہ جو کام حضورﷺ نے نہیں کیا میں کیسے کروں پھر زمانے کا تقاضا بھانپ گئے تو حضرت زیدؓ بن ثابت جو مشہور قاری حافظ اور کاتبِ وحی تھے ان کی سرکردگی میں ایک جماعت کی جمع قرآن پر ڈیوٹی لگا دی وہ فرماتے ہیں۔
فتبعت القرآن اجمع من الرقاع و الاکتاف و العشب و صدور الرجال۔ (بخاری)
ترجمہ: چنانچہ میں نے کاغذ و کپڑے کے ٹکڑوں کندھے کی ہڈیوں، درختوں کے پتوں اور حفاظ کے سینوں سے قرآن جمع کیا۔ الخ
گویا وَاِنَّا لَهٗ لَحٰـفِظُوۡنَ ۞ ہم ہی قرآن کے محافظ ہیں کا جو وعدہ اللہ نے فرمایا حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ کے ہاتھ پر پورا فرما دیا آج 1400 سال سے شرق وغرب کے تمام مسلمان صرف ایک ہی کتاب اللہ کے عالم حافظ اور قاری ہیں جس کے ایک حرف و شوشہ میں بھی تبدیلی نہیں کی گئی پھر اسی قرآن کی نقلیں مزید کروا کر سیدنا عثمانؓ نے اطرافِ اسلامیہ میں پھیلا دیں اور وحدت کتاب اللہ انہی حضرات کی مساعی کا نتیجہ ہے امت نہ ان کے بار احسان سے سبکدوش ہوتی ہے اور نہ ان کے درجات و ثواب کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے خود سیدنا علی المرتضیٰؓ فرماتے ہیں:
کہ قرآنِ پاک کی اشاعت کے سلسلے میں سب سے بڑا درجہ سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کو ملے گا کیونکہ سب سے پہلے آپ ہی نے دو گتوں کے درمیان قرآن کو جمع فرمایا۔
(رواہ ابو یعلیٰ بحوالہ تاریخ الخلفاء: صفحہ، 64)
سنت و فقہ کی اشاعت:
علم کا یہ شعبہ اور شجرِ طیبہ بھی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ و سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اقطارِ عالم میں پھیلا آپ تمام مفتوحہ ممالک میں علماء اور حفاظ و قراء کو بھیجتے تھے جو وہاں کے لوگوں کو تبلیغ کرتے اور قرآن و سنت کی تعلیم دیتے تھے کوفہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو معلم بنا کر بھیجا تو فرمایا۔
بعثت اليكم ابن ام عبد و اثرتکم علی نفسی۔
ترجمہ: میں نے تمہاری طرف حضرت ابنِ مسعودؓ کو بھیجا ہے اور تمہیں اپنی ذات پر ترجیح دی ہے۔
اور ان کی کار کردگی کا یہ عالم تھا کہ جب سیدنا علی المرتضیٰؓ کوفہ میں وارد ہوئے تو چار ہزار کوفہ کے علماء تابعین نے آپ کا استقبال کیا جو سب حضرت عبداللہؓ کے شاگرد اور تربیت یافتہ تھے شام میں حضرت ابو الدردارؓ کو بھیجا بصرہ میں حضرت انس بن مالکؓ کی ڈیوٹی لگائی بڑے بڑے فاصل صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر مشتمل ایک مجلس شوریٰ منعقد کر دی تھی جس میں کثرتِ فتوحات اور حادثات نو کے پیشِ نظر ہر مسئلہ زیرِ بحث آتا اور صائب فیصلہ سے مشرف ہوتا تھا یہی قضایا احکام سنت و فقہ کا وہ بہترین خزانہ ہیں جن پر فقہی مذاہب کا دارو مدار ہے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا علم میزان کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور دوسرے میں سب لوگوں کا تو سیدنا عمرؓ کا علم زیادہ ہوگا ہادی نے جب یہ قول حضرت ابراہیم نخعی کے سامنے ذکر کیا تو کہنے لگے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس سے بھی زیادہ آپ کی تعریف کی ہے کہ سیدنا عمر فاروقؓ کی وفات پر فرمایا تھا۔
ذهبت تسعة اعشار العلم۔
(اسد الغابہ: جلد، 4 صفحہ، 60)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی وفات سے علم کے 9/10 حصے رخصت ہوگئے کتاب الاموال لابی عبید اور مسعودی وغیرہ میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں تمام موذنین مدرسین مبلغین خطباء اور قاریوں کے بیتُ المال سے وظائف مقرر تھے اگر کسی شخص کا یہ اعتقاد ہے کہ مذہب اور انتظامی طور پر حضورِ اکرمﷺ جن لوگوں کو مختلف کاموں پر لگاتے تھے ان کے حسنِ اعمال کا ثواب حضورِ اکرمﷺ کو بھی پہنچا تھا تو اس کے نزدیک حضورﷺ کے علمی و عملی جانشین سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ و حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ و حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ و حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ و حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ کو بھی ان سب امور کا ثواب ملنا چاہیئے چونکہ روایت احادیث کے سلسلے میں حضراتِ شیخین بڑی احتیاط کرتے۔ قصہ گو واعظوں کی تو درہ سے تربیت کرتے تھے اور بسا اوقات حدیث پر شاہد بھی طلب کرتے تھے اور ان کے مختصر عہد میں تابعین کی روایت حدیث درجہ فروغ کو پہنچی تھی اور امورِ خلافت و فتوحات میں بہت مصروفیت رہتی تھی لہٰذا ان کے علم کی بہ نسبت روایتِ حدیث کم ہوئی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے 142 سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے 539 اور سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے کچھ زاںٔد 586 احادیث مروی ہیں سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ بھی احادیثِ نبوی کے ممتاز حافظ تھے وروی جملة كثيرة من العلم۔
(تذکرۃ الحفاظ: جلد، 1 صفحہ، 18)
علم کا ایک کثیر حصہ روایت کیا ہے لیکن کلامِ رسول میں تغیر و تبدل کے خوف سے روایت بہت کم کرتے تھے اس لیے مرفوع روایات کی تعداد آپ سے کم مروی ہے فقہ و استنباط میں اگرچہ آپؓ کا پایہ حضرت عمرؓ و حضرت علیؓ کے برابر نہ تھا لیکن آپ بھی مجتہد کی حیثیت رکھتے تھے اور دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم آپ کے اجتہاد سے استناد کرتے تھے۔
(بخاری کتاب الغسل و مسند احمد وغیره)
علمِ فرائض میں آپ جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم میں ممتاز تھے حضرت زید بن ثابتؓ اور سیدنا عثمانِ غنیؓ انہی دونوں بزرگوں نے اس فن کو باقاعدہ مرتب کیا حضراتِ شیخینؓ کے عہد میں وراثت کے جھگڑوں کا فیصلہ اور اس کی مشکلات کو یہی دونوں حل کرتے تھے اس عہد کے بزرگوں کا خیال تھا کہ اگر یہ دونوں اٹھ گئے علمِ فرائض کا خاتمہ ہو جائے گا۔
(کنز العمال: جلد، 6 صفحہ، 72 بحوالہ تاریخ اسلام ندوی: جلد، 1 صفحہ، 241)
فتوحات تبلیغ اسلام کے لیے تھیں
حضراتِ خلفائے ثلاثہؓ کے زمانے میں باقاعدہ تبلیغی وفود بڑے بڑے بادشاہوں کے پاس مختلف ممالک میں تبلیغ اسلام کے لیے جاتے تھے موسیٰ بن عقبہ کی روایت میں ہے کہ ہشام بن عاص اور نعیم بن عبد اللہ اور ایک اور صحابی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانے میں بادشاہِ روم کے پاس بھیجے گئے تھے حضرت ہشام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ جبلہ بن ایہم کے پاس دمشق پہنچے وہ کالے کپڑے پہنے ہوئے تھا اور ہر شے اس کے دربار کی سیاہی سے رنگی ہوئی تھی اس نے کہا اے ہشام کہو ہشام نے اس سے گفتگو کی اور اللہ کے دین کی دعوت دی۔
(ابو نعیم فی الدلائل: صفحہ، 9)
علامہ شبلیؒ الفاروق صفحہ 399 پر صیغہ مذہبی کے عنوان سے رقم طراز ہیں:
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد میں نہایت کثرت سے اسلام پھیلا اور اس کی بڑی وجہ یہی تھی کہ انہوں نے اپنی تربیت اور ارشادات سے تمام مسلمانوں کو اسلام کا اصلی نمونہ بنا دیا تھا اسلامی فوجیں جس ملک میں جاتی تھیں لوگوں کو خواہ مخواہ ان کے دیکھنے کا شوق ہوتا تھا کیونکہ چند ہادیہ نشینوں کا دنیا کی تسخیر کو اٹھنا حیرت اور استعجاب سے خالی نہ تھا تو ایک ایک مسلمان سچائی سادگی پاکیزگی جوش اور اخلاص کی تصویر نظر آتا تھا یہ چیزیں خود بخود لوگوں کے دلوں کو کھنچتی تھیں اور اسلام ان میں گھر کر جاتا تھا مثلاً شطا مصر کا رئیس مسلمانوں کے حالات ہی سن کر اسلام کا گرویدہ ہوا اور آخر دو ہزارہ آدمیوں کے ساتھ مسلمان ہوگیا۔
حدود اسلام کی وسعت:
تکثیر ہدایت اور فیضان جاری کی تیسری قسم خلفائے ثلاثہؓ کی وہ عظیم فتوحات ہیں جن کی بدولت اسلام جزیرہ عرب سے نکل کر تمام اقطارِ ارضی پر پھیل گیا اس وقت موجود دنیا کی سب سے بڑی حکومتیں کسریٰ و قیصر اسلام کی قلمرو میں آگئیں تاریخی طور پر وہ پیغمبرِ اسلامﷺ کی متواتر پیشینگوئیاں پوری ہوئیں جو آپﷺ نے مسلم و کافر اور اپنے اور بیگانے کے سامنے اپنی صداقت پر بطورِ دلیل متعدد مرتبہ ارشاد فرمائیں مثلاً عدیؓ بن حاتم طائی کو اسلام کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا تھا بخدا مسلمان اس قدر مالدار ہوں گے کہ لینے والا کوئی نہ ہوگا اس قدر ان کی تعداد اور قوت و افر ہوگی کہ ایک عورت تنہا قادسیہ سے حج کرنے آئے گی اور بخیریت واپس ہوگی خلافت اور حکومت ان کو ایسی حاصل ہوگی کہ ارضِ بابل کے سفید محلات بھی ان کے ہاتھ پر فتح ہوجائیں گے عدی کہتے تھے میں نے دو باتیں تو دیکھ لیں فراوانی دولت بھی دیکھ لوں گا۔
(سیرت ابنِ ہشام: جلد، 2 صفحہ، 715 مختصراً)
فتح کا نام لینا آسان نہیں ایک مربع میل کا رقبہ بھی کوئی نہیں دیتا اور اس پر کتنے قضیے کرنے پڑتے ہیں لیکن بالکل غیر متمدن اونٹوں اور بکریوں کے چرواہوں نے معلمِ کائنات حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی تعلیم و تربیت سے دنیا کا نقشہ ہی بدل دیا یہ اسلام کی صداقت پیغمبرﷺ کے اعجاز اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ایمان پر ایسی زبردست دلیل ہے جس کا کوئی سلیم الفطرت انسان انکار نہیں کر سکتا آج کا ایران اور ان کے ہم نوا اعداء صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضرت فاروقِ اعظمؓ و فاتحینِ اسلام کو مطعون کرتے ہیں حالانکہ ان کو سیدنا فاروقِ اعظمؓ وغیرہ کا ممنون احسان ہونا چاہیئے کہ ان کو کفر سے نجات دلا کر اسلام میں داخل کیا فاتحینِ ایران صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر ان کا غضبناک ہونا اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ وہ توحید و رسالت کے کلمہ اسلام کی آمد پر نہ خوش ہیں نہ ایمان رکھتے ہیں اور نہ سابقہ کفار کی رسوم اور یادگاروں کو بھلا سکتے ہیں ورنہ وہ سہ ہزار سالہ قدیم کافرانہ تہذیب کے جشن پر کروڑوں ڈالر خرچ نہ کرتے جیسے 72ء میں منایا گیا۔
الغرض حضرت عمرؓ کے مفتوحہ ممالک کا کل رقبہ 2251030 مربع میل تھا یعنی مکہ معظمہ سے شمال کی جانب 1036 مشرق کی جانب 1087 جنوب کی جانب 483 میل تھا اس میں شام مصر عراق جزیرہ خوزستان عراق عجم آرمینہ آذر بائیجان فارس کرمان خراسان اور مکران جس میں بلوچستان کا بھی کچھ حصہ آجاتا ہے شامل تھا۔
(الفاروق: صفحہ، 270)
حضرت عثمانؓ کے عہد میں مغربی ممالک شمالی افریقہ روم قوقاز جزیرہ قبرص اور رؤوس کی فتوحات کا اضافہ ہوا اور ان ممالک میں لا الہ الا اللہ کا جھنڈا ایسے لہرایا کہ آج تک سرنگوں نہیں ہوا ظاہر ہے کہ ان فتوحات سے کروڑہا انسانوں کے حلقہ بگوش ہدایت ہونے کا ثواب حغ عمرؓ و حضرت عثمانؓ کے نامہ اعمال ہی میں لکھا جائے گا جیسے حضرت علیؓ کو یمن بھیجتے وقت حضورِ اکرمﷺ نے فرمایا تھا۔
لان يهدى الله بك رجلا خير لك من حمر النعم۔ (صحيحين)
اگر اللہ تعالیٰ تیرے ذریعے ایک آدمی کو بھی ہدایت دے دے تو تیرے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔
ہدایت کے ان تین شعبوں میں اول و ثالث میں تو حضرت علیؓ کی شرکت ہی نہیں نہ آپ جمع و تدوینِ قرآن میں شریک تھے نہ بقول شیعہ آپ کا جمع کردہ صحیفہ کسی مسلمان کو دیکھنا نصیب ہوا نہ آپ کے عہد میں کوئی علاقہ یا گاؤں فتح ہوا۔ آپس کی خانہ جنگی کی وجہ سے سرکاری سطح پر سابقہ تبلیغی سرگرمیاں بھی رک گئیں ہاں سنت و فقہ کی انفرادی اشاعت میں حضرت علیؓ کا حصہ یقینی ہے اور آپ سے ہزاروں انسانوں نے فیضِ ہدایت پایا اور آج تک اس کے اثرات موجود ہیں لیکن حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ میں یہ وصف بھی تاریخ و حدیث کے عام مروج سنی ذخیرہ پر اعتماد کی بدولت تسلیم کیا جا سکتا ہے اور سیدنا علیؓ کو چہارم پیشوائے دین ماننے کا سہرا فقط اہلِ سنت کے سر پر باندھا جائے گا ورنہ شیعی مخصوص لٹریچر میں عمر بھر سیدنا علیؓ تقیہ کے پابند رہے تھے اسلام کی واقعی بات کا اظہار ایک وصیت کی وجہ سے ممنوع تھا آپ کے مخلص شاگرد اور قابلِ اعتماد مؤمن چند نضر ہی تھے آپ کے علم کا سمندر اندر ہی اندر خشک ہوگیا حتیٰ کہ شیعہ کو اپنا مذہب رسول اور وصی رسول کے بجائے دوسری صدی کے ایک تابعی بزرگ سے روایت کرنا پڑا حد یہ ہے کہ ان کو یہ بھی کہنا پڑا کہ سیدنا علیؓ کی خلافت برائے نام سے زیادہ نہ تھی ہمیشہ خلفائے ثلاثہؓ کے معتقدین میں گھرے رہتے اور بدستور قدرت کے فقدان اور ساتھیوں کی غداری اور بے وفائی کی شکایت کرتے رہتے تھے الخ۔ (مجالس المؤمنین: صفحہ، 54)
معرکہ جنگ میں تبلیغی فراںٔض
حضراتِ خلفائے ثلاثہؓ کی فتوحات ملک گیری کے تحت نہ تھیں محض تبلیغ اسلام کی خاطر تھیں اپنے امراء اور کمانداروں کو تاکیدی وصایا کے ساتھ بھیجتے تھے مثلاً سیدنا ابوبکر صدیقؓ جب شام کی طرف لشکر روانہ فرمائے جن پر امیر حضرت یزید بن ابی سفیان، عمرو بن العاص اور شرحبیل بن حسنہؓ تھے۔ آپ وداعہ تک ان کے ساتھ پیدل چلے کہ ان قدموں سے اپنی خطاؤں کو بخشواؤں پھر وصیت کرتے ہوئے فرمایا اللہ پاک سے ڈرتے رہنا اللہ کے راستے میں جہاد کرنا جن لوگوں نے اللہ کے دین سے انکار کیا ہے ان سے جہاد کرنا اللہ اپنے دین کا مدد گار ہے غداری نہ کرنا امانت میں خیانت نہ کرنا بزدلی نہ برتنا زمین میں فساد نہ پھیلانا اور جس چیز کا تمہیں حکم دیا جا رہا ہے اس کے خلاف نہ کرنا تمہارا اگر تقدیر الہٰی مشرک قوموں سے سامنا ہو جائے تو انہیں تین باتوں کی دعوت دینا اگر مان لیں تو جنگ سے رک جانا۔
اولاً: ان کو اسلام کی دعوت دینا اگر اسلام اختیار کرلیں تو ان کے اسلام کو قبول کرنا الخ۔
(حياة الصحابہ: جلد، 1 صفحہ، 219 از بیہقی و ابنِ عساکر: جلد، 9 صفحہ، 80)
سیدنا عمر بن خطابؓ نے فاتحِ ایران حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو لکھا کہ لوگوں کو تین دن تک اسلام کی دعوت دینا جو شخص مسلمان ہوجائے اس کے لیے وہ تمام منافع ہیں جو دیگر مسلمانوں کے لیے ہیں اور اسلام میں ان کا حصہ ہے اور جس نے تمہارا کہا لڑنے کے بعد یا شکت کھانے کے بعد مانا اس کے لیے مسلمانوں جیسا فے نہیں ہے یہی میرا حکم ہے اور خط لکھنے سے غرض۔
(حیاتِ الصحابہؓ: صفحہ، 224)
خلفائے اربعہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ذاتی خوبیوں میں تقابل:
شجاعت:
بلاشبہ حضرت علیؓ شجاع تھے اور روایات مغازی کی روشنی میں عہدِ نبوی کی سب جنگوں میں ڈیڑھ درجن کے قریب آپ کے ہاتھوں کفار مقتول ہوئے جو حضراتِ شیخین رضی اللہ عنہما کے مقتولوں سے زیادہ ہیں اپنی جگہ جہاد میں قتلِ کفار واقعی ثواب کا کام ہے لیکن ایک کافر کو کلمہ پڑھوا دینا اس سے زیادہ کارِ ثواب اور اسلام کی مفید خدمت ہے کیا سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا کلمہ پڑھتے ہی سیدنا عثمانؓ سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ سیدنا عبد الرحمٰن بن عوفؓ سیدنا طلحہٰؓ سیدنا زبیرؓ سیدنا ابوعبیدہ بن جراحؓ سیدنا عثمان بن مظعونؓ سیدنا ابوسلمہ ارقم بن ارقمؓ جیسے اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حلقہ بگوش اسلام کرا دینا اور مسلمانوں کی جماعت بنا دینا اس سے زیادہ افضل نہ تھا؟ بقول سعدی:
و گر خفیہ ده دل بدست آوری ازاں بہ کہ صدره پیشخوی بری۔
مدارِ فضیلت تو جنگوں میں شرکت ثابت قدمی اور جرات ہے بالفعل قتل کرنا تو اتفاقی ہے حضرت ابو ذر غفاریؓ حضرت سلمان فارسیؓ حضرت ابو الدرداءؓ جیسے عند الشیعہ کاملُ الایمان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی اس کا ثبوت مشکل ہے اور اشجع الناس حضورِ اکرمﷺ سے صرف ایک شخص نیزہ نبوی سے خراش کی وجہ سے بطورِ معجزہ قتل ہوا۔
قزمان نامی ایک شخص نے احد میں بروایت ابنِ ہشام 9 آدمیوں کو قتل کیا مگر بالآخر خود کشی کر لی حسبِ روایت بخاری: جلد، 2 صفحہ، 611 مرفوعاً حضرت خالد بن ولیدؓ سیف اللہ کے ہاتھ سے غزوہِ مؤتہ میں فتح ہوئی اور مورخین کے بیان کے مطابق آپ کے ہاتھ میں تلواریں مؤتہ میں ٹوٹیں اور بلاشبہ ان کے ہاتھوں کفار زیادہ قتل ہوئے۔
(نخوہ ازابی عامرؓ در طبقات بن سعد: جلد، 2 صفحہ 130)
معلوم ہوا کہ مقتولوں کی کثرت مدار افضلیت نہیں بلکہ مجموعی طور پر اوصافِ خاصہ ہیں جرأتِ صدیقی کے متعلق سیدنا علیؓ فرماتے ہیں لوگو میں تم سے بیان کروں کہ ہم سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟ حضرت ابوبکر صدیقؓ ہیں جب غزوہ بدر ہوا تو ہم لوگوں نے رسول اللہﷺ کے لیے ایک جھونپڑا بنایا اور ہم نے کہا کہ رسول اللہﷺ کے ساتھ کون رہے گا؟ ایسا نہ ہو کہ مشرکین میں سے کوئی آپ کی طرف آئے پس خدا کی قسم اس کام کے لیے آپ کے قریب کوئی نہ آیا سوائے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے کہ یہ تلوار سونت کر آپﷺ کے سرہانے کھڑے ہوگئے جب کوئی آپﷺ کی طرف آنے کا قصد کرتا یہ اس کی طرف جھپٹ کر جاتے یہ تمام لوگوں میں سے زیادہ بہادر تھے اس کے بعد سیدنا علیؓ نے بدر کا پورا واقعہ بیان کیا۔
(کذا فی المنتخب: جلد، 5 صفحہ، 240)
احد کے موقعہ پر حضرت ابوبکرؓ نے اپنے بیٹے عبدالرحمٰن کو قتل کرنا چاہا مگر حضورﷺ نے فرمایا تلوار میان میں کر کے اپنی جگہ واپس آجاؤ اور اپنی ذات سے ہمیں نفع پہنچاؤ۔
(کشف الغمہ: صفحہ، 253)
مکی زندگی میں تنہا کفار کے نرغے سے حضورِ اکرمﷺ کو چھڑانا اور تکالیف سہنا پہلے مذکور ہوچکا ہے جو جرأت کا اعلیٰ شاہکار ہے ہجرت کے موقعہ پر بحکمِ خداوندی حضورﷺ کا سیدنا ابوبکرؓ کو ساتھ لینا اور رفاقتِ غار کے علاؤہ سب سفر میں تنہا آپ کی حفاظت فرمانا صدیقی جرأت ہی کا خاصہ ہے مولانا غلام رسول مہر "رسولِ رحمتﷺ" میں رقم طراز ہیں:
کاشانہ مبارک سے نکل کر رسول کریمﷺ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ جن کا مکان مکہ مکرمہ کے جنوبی حصے میں تھا شہر سے جنوبی سمت میں چل پڑے چھ میل کے فاصلے پر ثور نامی پہاڑ تھا جس کے اندر بہت اونچائی پر ایک بڑا غار تھا راستہ سخت پتھریلا اور کٹھن تھا سیدنا ابوبکرؓ نے رسولِ انورﷺ کو تکلیف سے بچانے کیلیے تھوڑی دور تک کندھوں پر بٹھا لیا چلتے وقت وہ کبھی سرورِ دو عالمﷺ کے آگے کبھی بچھے کبھی دائیں اور کبھی بائیں ہو جاتے گویا چاہتے تھے کہ ہر سمت سے حضورﷺ کی حفاظت میں اپنی جان قربان کر دیں غار کے دہانے پر پہنچ کر سیدنا ابوبکرؓ پہلے خود داخل ہوئے اور غار کو خوب صاف کیا اپنے کپڑے پھاڑ پھاڑ کر تمام سوراخ بند کیے پھر رسولِ خداﷺ اندر تشریف لے گئے اس غار میں رسول کریمﷺ اور سیدنا ابوبکرؓ نے تین دن اور تین راتیں گزاریں۔
سانحہ وفات نبویﷺ پر جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین فرطِ غم سے بےحال ہو رہے تھے جرأتِ صدیقی نے وہاں بھی راہنمائی کی جب مرتدین منکرینِ زکوٰۃ مسیلمہ کے پیرو کار اور منافقوں کی سازشوں سے بڑے بڑے اکابر ہراساں ہوگئے تو جرأتِ صدیقی اور عزمِ صاحبِ رسول ہی نے تنہا مقابلے کی ٹھانی اور فرمایا خدا کی قسم اگر مجھے درندے نوچ ڈالیں تب بھی میں حضرت اسامہؓ کے لشکر کو باہر جانے سے نہ روکوں گا چنانچہ سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حوصلے بلند ہوگئے اور تمام مشکلات پر مکمل فتح پائی حضرت سلمہؓ بن اکوع کا بیان ہے کہ عہدِ نبوی میں ہم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ کفار پر رات کو حملہ کیا اور ان کو قتل کیا۔
(ابو داؤد مشکوٰۃ: صفحہ، 343)
جرأت فاروقی:
کے متعلق حضرت علی المرتضیٰؓ فرماتے ہیں کہ جس کسی نے بھی ہجرت کی جہان تک مجھے علم ہے چھپ کر کی سوائے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے کہ جب انہوں نے ہجرت کا ارادہ کیا تو اپنی تلوار گلے میں لٹکائی اور اپنے کندھے پر کمان رکھی اور اپنے ہاتھوں میں نکال کر تیر لیے اور بیت اللہ کے پاس آئے سردارانِ قریش اس کے صحن میں بیٹھے ہوئے تھے بیت اللہ کا پورا طواف کیا پھر مقامِ ابراہیم پر نفل پڑھ کر ایک ایک مشرک کے پاس آئے اور کہا یہ چہرے ذلیل ہو جائیں گے جس کا ارادہ ہو کہ اس کی ماں اسے ناپید کر دے اور اولاد یتیم ہو جائے اور اس کی بیوی رانڈ ہو وہ مجھ سے اس وادی کے پرے ملے ایک بھی ان میں سے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پیچھے نہ گیا۔ (منتخب کنز العمال: جلد، 4 صفحہ، 387)
جنگِ بدر میں حضرت عمرؓ نے مشہو بہادر پہلوان اپنے ماموں العاص بن ہشام بن المغيرة بن مغیره برادر ابو جہل عمرو بن ہشام کو قتل کیا۔
(سیرت ابنِ ہشام: جلد، 1 صفحہ، 778)
پھر کوئی پہلوان آپ کے سامنے آتا ہی تھا جنگِ احد میں سیدنا عمرؓ نے ابوسفیان سالارِ لشکر کو صرف پتھروں سے مار بھگایا۔
(سیرت النبی: جلد، 1 صفحہ، 378)
رسول اللہﷺ اپنے اصحاب کے ساتھ گھاٹی ہی میں تھے کہ اسی اثناء میں قریش کے کچھ لوگ پہاڑ پر چڑھ آئے بروایتِ ابنِ ہشام ان چڑھنے والے سالاروں کے سالار خالد بن ولید تھے آخر سیدنا عمرؓ بن خطاب اور مہاجرین کی ایک جماعت نے زبردست مقابلہ کر کے انہیں پہاڑ سے اترنے پر مجبور کر دیا۔
(ابنِ ہشام: جلد، 2 صفحہ، 53 و طبری: صفحہ، 211)
احد میں چند اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ بھی حضورﷺ کے ساتھ ثابت قدم رہے ابنِ اسحاق کہتے ہیں پھر جب مسلمانوں نے رسول اللہﷺ کو شناخت کر لیا تو آپ مسلمانوں کے ساتھ ہو لیے اور ایک گھاٹی کی طرف چلے گئے اس وقت حضرت ابوبکر صدیقؓ حضرت عمر بن خطابؓ حضرت علی بن ابی طالبؓ حضرت طلحہٰ بن عبید اللہؓ حضرت زبیر بن عوامؓ حضرت حارث بن صمہؓ اور دوسرے مسلمانوں کا گروہ آپ کے ساتھ تھے۔
(سیرت ابنِ ہشام: جلد، 2 صفحہ، 50)
اور حیاتُ القلوب مجلسی: جلد، 2 صفحہ، 366 کی ایک طعن آمیز روایت سے حضراتِ شیخین کی ثابت قدمی کا اعتراف ہے غزوہِ خندق میں سیدنا عمرؓ کو حضورﷺ نے جس حصے پر متعین کیا تھا اور آج وہاں ایک مسجد بھی آپ کے نام کی موجود ہے ایک دن کافروں نے حملہ کا ارادہ کیا تو حضرت عمرؓ نے حضرت زبیرؓ کے ساتھ آگے بڑھ کر روکا اور ان کی جماعت درہم برہم کر دی۔
(طبری: صفحہ، 452 الفاروق: صفحہ، 95)
اسی جنگ میں عرب کے مشہور پہلوان ضرار اسدی کا تعاقب کر کے حضرت عمرؓ نے بھگا دیا۔
(سیرت النبی: جلد، 1 صفحہ، 428)
اس جنگ میں عمرو بن ود جو عرب کا مشہور پہلوان اور 90 برس کا تھا حضرت علیؓ کے ہاتھوں مارا گیا اس نے بطورِ تحقیر کہا تھا کہ میں تم سے لڑنا نہیں چاہتا آپ نے فرمایا میں تو لڑوں گا چنانچہ جوابی حملے میں اسے ڈھیر کر دیا۔
جرأت عثمانی:
حضرت عثمانؓ کا اسلام کی خاطر کفارِ مکہ سے مظالم سہنا حدیبیہ کے موقعہ پر تنہا سفارت کے فرائض سر انجام دینا قید ہو جانا مگر حضورﷺ کے بغیر طواف سے انکار کرنا بلوائیوں کے ہاتھوں شہادت پا جانا مگر خلع خلافت نہ کرنا اور باوجود سیدنا امیرِ معاویہؓ کے اصرار پر جرمِ مدینہ اور جوارِ نبوی کو نہ چھوڑنا آپ کی جرأتِ ایمان اور اخلاص پر کھلے دلائل ہیں الغرض تمام غزوات میں ان حضرات نے شرکت کی لیکن قتل کے واقعات کم پیش آئے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حضرات بہ نسبت حضرت علیؓ کے معمر تھے حضورﷺ ان سے سپاہیانہ خدمات لینے کے بجائے بطورِ وزیر و مشیر اپنے ساتھ رکھتے تھے اور خصوصی محافظ بھی ہوتے تھے جیسے خود حضرت علیؓ نے حضرت حسنؓ و حضرت حسینؓ سے جنگِ جمل و صفین میں جنگی خدمات کم لیں ہر ممکن تحفظ کی کوشش کی بدر میں حضرت ابوبکرؓ عریش میں آپ کے باڈی گارڈ رہے حضرت عثمانؓ آپ کے فرمان کے مطابق حضرت رقیہؓ کی تیمار داری میں مدینہ میں رہے اور آپ نے ان کو غنیمت اور ثواب کا پورا حصہ دلایا احد میں سیدنا ابوبکرؓ کی محافظانہ حیثیت رہی اور حضورﷺ نے عام حملہ سے روکے رکھا ہاں حضرت عمرؓ نے نمایاں خدمات سر انجام دیں متعدد غزوات میں حضورﷺ نے حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ کو سپہ سالار بھی بنایا بخاری: جلد، 2 صفحہ، 612 کتاب المغازی میں سلمہ بن اکوعؓ کا بیان ہے کہ 9 جنگی سرایا میں حضورﷺ کے بھیجے ہوئے لشکر میں میں بھی تھا علینا مرة ابوبكرؓ ومرة اسامةؓ کبھی سیدنا ابوبکرؓ کو امیر لشکر بنایا اور کبھی حضرت اسامہ بن زیدؓ کو اَشِدَّآءُ عَلَى الۡكُفَّارِ قیصر و کسریٰ کی حکومتیں الٹ دیں اور نصف معلوم دنیا کو فتح کر کے لا الہ الا اللہ کا جھنڈا گاڑ دیں اس میں زیادہ کمال ہے یا بالفعل دو چار کافروں کو قتل کرنے میں زیادہ بہادری ہے کیا بادشاہ، وزیر یا جرنیل کی کامیابی صرف اسی میں ہے کہ وہ سپاہی کی حیثیت سے دو چار قتل خود کریں خدا معترض کو عقل دے۔شجاعت کے اثرات میں تقابل:
حضرت علیؓ تلوار سے اس قدر رعب اور اصلاحی کام نہیں کر سکے جس قدر حضرت عمرؓ نے درہ ہاتھ میں رکھنے سے کیا اپنی خلافت کے دوران حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تلوار کے بجائے صرف درہ ہاتھ ہیں رکھتے تھے مگر آپ کے رعب و دبدبہ سے انتظامِ حکومت بھی ٹھیک تھا اور بڑے بڑے بادشاہ بھی تھراتے تھے ادھر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ذوالفقار ہاتھ میں لے کر جمل و صفین میں کشتوں کے پشتے لگا رہے ہیں مگر مخالف کو اپنے مقصد میں ناکام کر دینا تو کجا خود آپ کے فوجی بھی درست نہیں رہتے نہ آپ کے کنٹرول میں رہ کر اطاعت و وفاداری کرتے ہیں حتیٰ کہ آپ تمنا کرتے ہیں کہ کاش حضرت امیرِ معاویہؓ میرے دس دس سپاہیوں کے بدلے میں ایک ایک سپاہی دے دیتا۔ (نہج البلاغہ)
یہ نکتہ بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ چند ناموں کے سوا شیخینؓ کا کسی سے مقابلہ یا قتل کفار کا روایات میں نہ ملنا بالکل نفی کی دلیل نہیں ہے کیا ضروری ہے کہ ہر مقتول کا نام و پتہ ہم تک بھی پہنچے حضرت علی رضی اللہ عنہ ہو کے مقتولین کے بھی ابنِ ہشام نے درجن سے کچھ زائد نام بتائے ہیں حالانکہ قتل ان سے کچھ زیادہ ہوئے ہوں گ۔ معلوم ہوا کہ مشہور کلیہ کے مطابق عدم ذکر شئی عدم وجود شیٔی کو مستلزم نہیں در اصل شیعہ حضرات کا مذہب ہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر طن و تبرا بازی ہے وہ کسی طرح حملہ کا بہانہ تلاش کرتے ہیں ورنہ حضرت طلحہٰ رضی اللہ عنہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ حضرت ابو عبيدة بن الجراح رضی اللہ عنہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ جرأت اور جنگی خدمات میں حضرت علیؓ کے ہمسر رہے ہیں ان کے مقتولوں کی تعداد بھی بکثرت ہے احد کے نازک موقعہ پر حضورﷺ کی خدمت میں حضرت سعدؓ حضرت طلحہٰؓ اور حضرت ابو عبیدہؓ یقیناً حضرت علیؓ سے بھی آگے ہیں جیسا کہ سیرت کے طالبِ علم پر نفی نہیں ہے پھر کیوں شیعہ ان کی بہادری خدمات بلکہ ایمان کا بھی اعتراف نہیں کرتے اور کوستے رہتے ہیں۔
در حقیقت شیعہ کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بغض یا چند حضرات سے دعوئے الفت اس بناء پر ہے ہی نہیں کہ ان کی اسلام کی اشاعت اور نصرت پیغمبرﷺ میں خدمات کم و بیش ہیں بلکہ اس کے برعکس وہ محبت و نفرت کا معیار حضرت علیؓ کی خلافت بلا فصل کو بناتے ہیں انکے خیال میں تین چار حضرات حضرت علیؓ کے خواہاں تھے حالانکہ یہ وہم ہی ہے وہ انہی کو مؤمن مانتے باقی سب کو بے ایمان (العیاذ باللہ) مانتے ہیں خواہ وہ اسلام کے کتنے بڑے خادم ہوں یا پیغمبرِ اسلامﷺ کے قریب ترین رشتہ دار ہوں۔
علم میں موازنہ:
بلاشبہ حضرت علیؓ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بلند پایہ عالم ہیں مگر حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ آپ سے کسی طرح کم نہ تھے بلکہ زائد تھے اس پر چند شہادتیں ملاحظہ ہوں:
علم صدیقی:
1: حضرت ابنِ عمرؓ سے پوچھا گیا کہ کون صاحبِ حضورﷺ کے زمانہ میں فتویٰ دیتے تھے تو جواب دیا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ و حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے علاؤہ مجھے کسی دوسرے کا علم نہیں۔ (ابنِ سعد: جلد، 4 صفحہ، 151)
2: قاسم بن محمد نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ و حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ و حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ و حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں فتویٰ دیتے تھے۔ (ایضاً ابنِ سعد)
3: سہل بن ابی خیثمہ نے بیان کیا ہے وہ حضرات جو حضورﷺ کے زمانہ میں فتویٰ دیتے 146 تھے تین نفر مہاجرین میں سے تھے اور تین نفر انصار میں سے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ۔
(ابنِ سعد: جلد، 4 صفحہ، 167)
4: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایک روایت میں ہے اور انہوں نے پوری حدیث بیان کی ایسا نہیں ہوا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کسی نقطہ میں اختلاف کیا مگر میرا باپ اس کے میدان اور اس کی فصل تک ضرور اڑا لوگوں نے کہا رسول اللہﷺ کہاں دفن کیے جائیں گے ہم نے کسی کے پاس اس کا علم نہیں پایا تو حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا میں نے حضورﷺ سے سنا ہے کہ کوئی نبی ایسا نہیں کہ جس کو کسی جگہ وفات دی گئی ہو مگر وہ اس کی وفات کی جگہ دفن کیا گیا ہے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ کی میراث کے بارے میں اختلاف کیا تو کسی کے پاس اس کا علم نہیں پایا تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے حضورﷺ سے سنا ہے آپ فرماتے تھے کہ ہم انبیاء علیہم السلام کی جماعت میں ہمارا کوئی وارث نہیں بنایا جاتا جو کچھ ہم چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہے۔
(حیات الصحابہ: جلد، 3 صفحہ، 294 از بغوی ابنِ عساکر)
5: علامہ ابنِ تیمیہؒ منہاج السنہ میں لکھتے ہیں: مانعین زکوٰۃ سے نبرد آزما ہونے میں تنازعہ ہوا تو آپ نے نص کی روشنی میں حضرت عمرؓ پر اس کی حقیقت واضح کی لَـتَدۡخُلُنَّ الۡمَسۡجِدَ الۡحَـرَامَ اِنۡ شَآءَ اللّٰهُ اٰمِنِيۡنَ الخ۔
(سورۃ الفتح: آیت 27)
ترجمہ: اگر خدا نے چاہا تو تم خانہ کعبہ میں کامل امن و امان سے داخل ہوگئے حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے آنحضورﷺ کے اس ارشاد کی تشریح کی تھی کہ اپنے بندے کو اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا تھا کہ وہ دنیا و آخرت میں سے جسے چاہے پسند کر لے کہ وہ حضورﷺ کی ذات تھی وكان ابوبکرؓ اعلمنا سیدنا ابوبکرؓ ہم سے زیادہ عالم تھے۔ (از انسؓ در بخاری)
حضرت ابوبکرؓ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بتایا کہ کلالہ کسے کہتے ہیں حضرت علیؓ نے بھی آپ سے استفادہ کیا تھا بہت سے علماء نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ علم الصحابةؓ تھے منصور بن سمعانی نے بھی اس پر اجماع نقل کیا ہے۔
6: نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے میرے بعد حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ کی پیروی کرو۔ (ترمذی)
7: صحیح مسلم میں ہے کہ آنحضورﷺ کے ساتھ دورانِ سفر بہت سے مسلمان تھے اپنے فرمایا اگر لوگ حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ کی اطاعت کریں گے تو راہِ راست پر قائم رہیں گے آنحضورﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ کے حق میں فرمایا جب تم دونوں کسی بات پر متفق ہو جاؤ گے میں تمہاری مخالفت نہیں کروں گا حضرت ابنِ عباسؓ سے ثابت ہے کہ جب وہ کتاب و سنت میں کوئی نص نہ پاتے تو سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کے قول کے مطابق فتویٰ دیتے تھے۔
(بحوالہ المنتقیٰ: صفحہ، 727، 728)
8: صحیحین کی حدیث میں ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا تھا اللہ کی قسم میں ان لوگوں سے لڑوں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں رکن کے لحاظ سے فرق کریں گے۔ شیخ ابو اسحاق الفرانی وغیرہ نے استدلال کیا ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ عالم تھے اس مسئلہ کا حل صرف آپ نے بتلایا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اتفاق کیا۔
9: حضورﷺ کا حضرت ابوبکرؓ کو امام نماز بنانا افضلیت اور اعلم ہونے کی دلیل تھی کیونکہ آپ کا ارشاد ہے لوگوں کو وہ نماز پڑھائے جو ان سے زیادہ کتاب اللہ پڑھنے والا ہو۔
چنانچہ ترمذی میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا جس قوم میں ابوبکرؓ ہوں ان میں سے کسی اور کو جماعت کرانا مناسب نہیں کیونکہ آپ ہی سب سے زیادہ سنتِ نبوی کے عالم تھے جیسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین متعدد مواقع میں آپ کی طرف رجوع کرتے اور آپ سنتِ نبوی ان پر ظاہر کرتے اور ایسے مسائل جانتے تھے جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو معلوم نہ ہوتے تھے۔
(تاریخ الخلفاء: صفحہ، 39)
10: آپ کا تفوق علمی اس سے بھی ظاہر ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے سقیفہ کے دن اپنی فی البدیہہ تقریب میں کوئی چیز جو قرآن میں انصار کے فضائل میں اتری نہ چھوڑی اور نہ کوئی ایسی حدیث جو حضورﷺ نے انصار کے بارے میں فرمائی تھی مگر سب کا تذکرہ کیا۔
(کنز العمال: جلد، 3 صفحہ، 137 والہیثمی: جلد، 5 صفحہ، 191)
11: عہدِ جاہلیت کے علوم علم الانساب علم تعبیر الرؤیا اور خطابت میں جب آپ سب سے زیادہ عالم تھے۔
(تاریخ الخلفاء: صفحہ، 40)
تو علمِ شریعت جو صحبتِ نبوی کا عکس تھا اور آپ کو شرفِ صحبت سب سے زیادہ ملا تھا اس میں آپ سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بڑے عالم کیوں نہ ہوں۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا علم:
1: بخاری و مسلم میں مرفوع حدیث ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا مجھے خواب میں ایک پیالہ پیش کیا گیا جس میں دودھ تھا وہ میں نے پی لیا یہاں تک کہ سیری کا اثر میرے ناخنوں میں ظاہر ہونے لگا جو بچ گیا وہ میں نے حضرت عمرؓ کو دے دیا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی آپ نے اس کی کیا تعبیر ارشاد فرمائی فرمایا دودھ سے مراد علم ہے۔
2: ترمذی میں حضرت عقبہ بن عامرؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہوتے ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔
3: بخاری و مسلم میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا اممِ سابقہ میں ملہم موجود تھے اگر میری امت میں کوئی ملہم ہوا تو وہ حضرت عمرؓ ہیں۔
(المنتقیٰ: صفحہ، 730)
4: یہ اسی الہام اصابت رائے اور فراستِ ایمانی کا اثر تھا کہ دو درجن کے قریب احکام اور قرآنی آیات اتریں، جیسے آپؓ نے خواہش کا اظہار کیا تھا ملاحظہ ہو: (تاریخ الخلفاء: صفحہ، 96)
5: بروایتِ ابو وائل حضرت عبد اللہؓ نے فرمایا کہ اگر حضرت عمرؓ کا علم ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے تو سیدنا عمر فاروقؓ کا علم ان سب کے علم سے وزنی ہوگا وکیعؒ کہتے ہیں میں نے ابراہیم نخعیؒ سے اس کا ذکر کیا تو فریایا خدا کی قسم حضرت عبداللہؓ نے اس سے بھی بڑھ کر بات کی ہے کہ بے شک 9 حصے علم کے اٹھ گئے جس دن سے حضرت عمرؓ نے وفات پائی۔ (طبرانی و ہیثمی: جلد، 9 و حاکم)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے بے شک حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اللہ کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے اور ہم سب سے زیادہ کتاب اللہ کے پڑھنے والے تھے اور اللہ کے دین کے بارے میں ہم سب سے زیادہ سمجھدار تھے۔
(مجمع الزواںٔد: جلد، 9 صفحہ، 69)
6: حضرت حذیفہؓ نے فرمایا گیا کہ لوگوں کا علم حضرت عمرؓ کے ساتھ قبر میں دفنایا گیا۔
(حیاۃ الصحابہ: جلد، 3 صفحہ، 293 از ابنِ سعد)
7: مدینہ کے ایک شخص نے بیان کیا کہ میں حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو فقہاء کا ان کے پاس بچوں جیسا حال تھا ان سب پر حضرت عمرؓ فقہ اور علم میں غالب تھے۔ (ایضاً از ابنِ سعد)
8' حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں جب تک نیکوں کا ذکر ہوگا تو حضرت عمرؓ کو مبارک کہی جائے گی بے شک حضرت عمرؓ ہم سب سے زیادہ کتاب اللہ کو جاننے والے تھے اور اللہ کے دین کے زیادہ سمجھ دار تھے۔ (طبرانی)
9: حضرت علیؓ سے آپ کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا آپ میں پختگی فراست و ہوشیاری علم اور شرافت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔
(تاریخ الخلفاء: صفحہ، 95)
10: حضرت قبیصہؓ بن جابر فرماتے ہیں خدا کی قسم میں نے حضرت ابوبکرؓ سے بہتر اور رعایا پر شفیق کوئی نہیں دیکھا اور میں نے حضرت عمرؓ کے سواء کتاب اللہ کا بڑا عالم اللہ کے دین کا بڑا سمجھ دار اللہ کی حدوں کو زیادہ قائم کرنے والا اور لوگوں کے دلوں میں زیادہ بارعب نہیں دیکھا اور سیدنا عثمانؓ سے بڑھ کر زیادہ حیا والا نہیں دیکھا۔
(ابنُ الاثیر: جلد، 4 صفحہ، 60)
علم عثمانی:
1:حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ بھی بڑے عالم تھے حضورﷺ کے زمانہ میں فتویٰ دیتے تھے جیسے پہلے گزر چکا ہے۔
2: آپ سے زیادہ تر احادیث حضرت زید بن خالد جہنی ابن الزبير، سائب بن یزید، انس بن مالک زید بن ثابت، مسلمہ بن الاکوع ابو امامہ باہلی ابن عباس ابنِ عمر، عبدالله بن مغفل، ابو قتادہ اور ابو ہریرہ وغیرہم فاضل صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے روایات کی ہیں اور تابعین کی تعداد شمار سے باہر ہے۔
3: ابنِ سعد نے حضرت عبد الرحمٰن بن ابی حاتمؓ سے روایت کی ہے کہ میں رسول اللہﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے بڑھ کرہ زیادہ مکمل اور بہتر طریق پر حدیثیں بیان کرنے والا نہیں دیکھا مگر یہ کہ حدیث بیان کرنے سے آپ ڈرتے بہت تھے مبادا الفاظ حدیث میں کمی بیشی ہو جائے۔
(تاریخ الخلفاء: صفحہ، 116)
غالباً یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ و حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ وغیرہ فقہائے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بہ نسبت آپ سے احادیث کم مروی ہیں کم گوئی اور شدت حیا کا ان چیزوں پر اثر پڑ کر رہا ورنہ علم میں آپ کم نہ تھے جیسے:
4: محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ مناسک و مسائل حج کو سب سے ذیادہ جانے تھے۔ (ایضاً: صفحہ، 116)
5: اور آپ کے فقہی فیصلے بدستور حضراتِ شیخینؓ کے ہم پلہ تھے جیسے عبیدہ بن عبداللہ بن عتبہ سیدنا ابنِ عباسؓ کی مدح میں فرماتے ہیں کہ میں نے کسی کو سیدنا ابنِ عباسؓ سے بڑھ کر حضرت ابوبکر صدیقؓ و حضرت عمر فاروقؓ و حضرت عثمانِ غنیؓ رضی اللہ عنہم کے فیصلوں کو جانے والا نہ دیکھا۔
(از ابنِ سعد: جلد، 4 صفحہ، 183 حیات الصحابه: جلد، 3 صفحہ، 299)
6: آپؓ کے علم میں کون شک و شبہ کر سکتا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی مدح یوں فرمائی ہے۔ آیا وہ شخص جو رات بھر سجدے اور قیام میں اللہ کی عبادت کرتا ہے آخرت سے ڈرتا اور خدا کی رحمت کا امید وار ہے آپ فرمائیے کیا عالم اور غیر عالم برابر ہو سکتے ہیں؟ بلاشبہ عقلمند ہی نصیحت پکڑتے ہیں۔(سورۃ زمر: رکوع، 2)
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں یہ آیت حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے حق میں نازل ہوئی (اخرجہ الواحدی والحاكمی والفضائلى، رياض النضرة فی مناقب العشر:ة صفحہ، 136 حليته الاولياء: جلد، 1 صفحہ، 56)
علم مرتضوی:
1: حضرت علیؓ کے علم کی بھی ایک جھلک ایک جھلک ملاحظہ کر لیں آپ بھی حضورﷺ کے زمانے میں مفتی تھے۔
2: مسروق کہتے ہیں کہ میں نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بہت قریب سے دیکھا ہے تو یہ پایا کہ ان کا علم چھ حضرات پر ختم ہے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضرت على عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہما حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ پھر ان سب کا مدار حضرت علیؓ و حضرت عبد الله بن مسعودؓ پر ہے۔
(حیات الصحابہ: جلد، 3 صفحہ، 297)
3: طبرانی کی ایک مرفوع مرسل حدیث میں حضورﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شکایات کے جواب میں ان کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا میں نے تیری شادی اس سے کی ہے جو سب سے پہلے اسلام لانے والا اور بڑا عالم ہے اور بڑا بردبار ہے۔
(حیات الصحابہ: صفحہ، 295)
4: کوفہ کے باشندوں سے حضرت علیؓ فرمایا کرتے تھے خدا کی قسم کوئی آیت ایسی نہیں اتری جس کو میں نہ جانتا ہوں کہ کس کے بارے میں اتری اور کہاں کن لوگوں کے متعلق اتری بے شک میرے رب نے مجھے سمجھدار دل اور فصیح زبان عطا فرمائی ہے
5: یحییٰ بن سعید بن المسیبؒ نے بیان کیا کہ حضرت عمرؓ اس مشکل مسئلہ کے لیے پناہ مانگتے تھے جس کے لیے ابو الحسن حضرت علیؓ موجود نہ ہوں۔
(از ابنِ سعد، حیات الصحابہ: جلد، 3 صفحہ، 295)
نوٹ: خلفائے رابعہؓ کے علم و فضل پر اور بھی کئی شہادتیں مل سکتی ہیں جو آدمی فیصلہ نہ کر سکے تو وہ حضورِ اکرمﷺ کو اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حکم مقرر کرے حضورﷺ نے جن کو امامِ نماز بنایا اور اپنے بعد پیروی کا حکم دیا اور سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان پر اتفاق کیا وہی افضل اور بڑے عالم ہیں۔
عبادت میں موازنہ:
1: حضرت ابو ہریرہؓ نے فرمایا کہ آپﷺ نے ایک لشکر بھیجا جو بڑی جلدی فتح پاکر بہت بڑی غنیمت لے کر واپس آ گیا کسی نے کہا یا رسول اللہﷺ اس سے زیادہ غنیمت والا اور جلدی لوٹنے والا ہم نے لشکر نہیں دیکھا تو آپﷺ نے فرمایا کیا میں تم کو نہ بتلاؤں کہ جو لوٹنے میں ان سے بھی زیادہ سریع ہو اور غنیمت میں ان سے زیادہ۔ وہ وہ آدمی ہے جس نے وضو کیا اور اچھا وضو کیا پھر کعبہ کا قصد کیا اور اس میں صبح کی نماز پڑھی پھر اس کے بعد نماز چاشت ادا کی وہ لوٹنے میں زیادہ سریع رہا اور غنیمت میں بہت بڑا اور ایک روایت میں ہے کہ وہ آدمی حضرت ابوبکرؓ ہیں (حیات الصحابة: جلد، 3 صفحہ، 175)
2: حضرت یحییٰ بن سعیدؒ سے روایت ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ شروع رات میں وتر پڑھتے اور جب آپ نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے تو دو دو رکعت کر کے پڑھتے ایسا پڑھنا افضل ہے۔ (ابنِ ابی شیبہ)
3: سیدنا ابوبکرؓ کا مکہ میں گھر کے سامنے چبوترہ بنا کر نماز پڑھنا سوز و گداز سے قرآن پڑھنا اور رونا حتیٰ کہ مشرکین کی عورتوں اور بچوں کا اسلام کی طرف مائل ہونا اور کفار کا شکایت کرنا تکالیف دینا پھر ابنِ دغنہ کا پناہ دینا مگر حضرت کا واپس کر دینا کتب سیرت سے حوالہ کی حاجت نہیں۔
4: حضرت سہل بن ساعدؓ نے فرمایا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز میں اپنی کسی جانب التفات نہیں کرتے تھے۔ (منتخب الکنز)
5: سیدنا ابنِ عباسؓ نے فرمایا کہ جب سورۃ مزمل کا پہلا حصہ نازل ہوا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین قریب قریب رمضان کے مہینے کے دن تا سحر قیام کے قیام کرتے تھے اور اس سورۃ کے شروع و اخیر میں سال بھر کا فاصلہ تھا۔
6: سیدنا عثمانؓ بن ابی العاص نے سیدنا عمرؓ کی ایک بیوہ سے محض اس لیے شادی کی کہ ان سے رات کی نماز کا پوچھیں وہ فرماتی ہیں سیدنا عمرؓ عشاء کی نماز پڑھتے پھر حکم دیتے کہ ہم ان کے سرہانے پانی سے بھر کی پیتل کا گھڑا رکھ دیں وہ رات کو بیدار ہوتے تو اپنا ہاتھ پانی میں ڈالتے اور اپنے چہرے اور ہاتھ پر پھیرتے اس کے بعد اللہ کا ذکر کرتے رہتے جب تک ذکر کرنا چاہتے پھر اس طرح کئی دفعہ بیدار ہوتے یہاں تک کہ وہ ساعت آ جاتی جس میں یہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے۔ (طبرانی رجالہ ثقات)
7: حضرت سعید بن المسیبؒ نے کہا کہ حضرت عمرؓ بن خطاب رات کے جگر یعنی وسط میں نماز پڑھنا پسند کرتے تھے۔ (کنز)
8: حضرت اسلم سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ بن خطاب جب تک اللہ چاہتا کہ وہ نماز پڑھیں وہ نماز پڑھتے یہاں تک کہ جب آدھی رات ہوتی تو اپنے اہل کو نماز کے لیے بیدار کرتے پھر ان سے کہتے الصلوٰة اور یہ آیت پڑھتے۔ وامر اهلك بالصلوٰۃ والعاقبة للتقوى تك (اخرجه مالك والبیہقی)
9: حضرت عبداللہ بن شداد نے فرمایا۔ میں نے صبح کی نماز میں حضرت عمرؓ کے رونے کی آواز سنی میں آخری صف میں تھا۔ آپ سورہ یوسف پڑھتے تھے اور اس آیت پر پہنچے انما اشکوا بثی و حزنی الی اللہ۔ میں تو صرف اللہ سے اپنے حزن و غم کی شکایت کرتا ہوں۔ (عبد الرزاق و ابن ابی شیبه)
10- حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے فرمایا کہ میں نے حضرت عمرؓ کے بچھے نماز پڑھی تو میں نے ان کے رونے کی آواز تین صفوں کے پیچھے سے سن لی۔ (ابو نعیم فی الحلیہ)
11: حضرت عثمانؓ تو گویا رئیس العابدین تھے بروایت ابنِ عمرؓ آیت امن هو قانت اناء الليل ساجد وقائما الخ کیا وہ شخص جو رات کے اوقات میں سجدے اور قیام میں عبادت کرتا ہے کا نزول سیدنا عثمانؓ کی شان میں بیان ہو چکا ہے۔
(وکذا فی حلیة الاولیاء: جلد، 1 صفحہ، 56)
12: حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ ان لوگوں میں سے تھے جو ایمان لائے اور اچھے اعمال بجا لائے پھر متقی رہے اور مؤمن رہے پھر تقویٰ اختیار کیا اور نیکی کی اللہ کی کرنے والو کو پسند کرتا ہے۔
(حلیۃ الاولیاء: صفحہ، 56)
13: حضرت ابنِ عمرؓ حضورﷺ سے راوی ہیں کہ حضرت عثمانؓ میری امت میں سب سے زیادہ حیا دار اور شریف ہیں۔ (ایضاً)
14: نیز حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قریش کے تین آدمی سب سے زیادہ حسین سب سے زیادہ خوش اخلاق اور سب سے بڑے حیا دار ہیں اگر آپ سے بات کریں تو جھوٹ نہ بولیں گے اگر آپ ان سے بات کریں تو آپ کو نہیں جھٹلائیں گے حضرت ابوبکر صدیقؓ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ حضرت ابو عبیده بن الجراحؓ۔ (ایضاً)
15: زہیمہ کہتی ہیں حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نے عمر بھر روزے رکھتے تھے اور معمولی نیند کے سوا سب رات عبادت میں کھڑے رہتے۔
16: عبد الرحمٰن تیمی کا بیان ہے میں نے ارادہ کیا کہ آج میں مقامِ ابراہیم پر قابض ہو کر عبادت کروں گا جب میں عشاء کی نماز پڑھ کر مقامِ ابراہیم پر گیا تو ایک شخص نے میرے کندھوں کے درمیان ہاتھ رکھا وہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے فاتحہ شروع کی اور پڑھتے ہی پڑھتے سارا قرآن ختم کر دیا پھر رکوع اور سجدہ کر کے دو رکعت پوری کیں اور جوتا لے کر چلے گئے مجھے معلوم نہیں اس سے پہلے کچھ پڑھایا نہیں۔
17: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ اور نائلہ زوجہ عثمانؓ بلوائیوں سے فرماتی تھیں اگر تم ان کو قتل کر دیا چھوڑو بہرحال یہ ایک رکعت میں سارا قرآن پڑھتے اور پوری رات لگاتے ہیں۔
(حلیۃ الاولیاء: صفحہ، 56)
18: مسروق نے اشتر نخعی سے کہا تھا کیا تم نے حضرت عثمانؓ کو قتل کیا؟ ظالمو تم نے صائم الدہر اور قائم اللیل کو قتل کیا۔ (ایضاً)
19: تذکرۃ الحفاظ: جلد، 1 صفحہ، 9 میں حافظ ذہبیؒ نے لکھا ہے حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ ان لوگوں سے تھے جو علم عمل روزہ تہجد استقامت جہاد فی سبیل اللہ اور صلہ رحمی کے جامع ہوتے ہیں اللہ روافض کا ستیا ناس کرے۔
20: حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے متعلق لوگوں کی شکایت کے جواب میں آپﷺ نے فرمایا لوگو علیؓ کی شکایت نہ کرو بخدا وہ اللہ کی ذات میں خوب ڈرنے والے ہیں۔
(حلیۃ الاولیاء: صفحہ، 68)
21: امام زہری رحمۃ اللہ سیدنا زین العابدینؓ سے بروایت حضرت حسینؓ راوی ہیں میں نے سیدنا علیؓ سے سنا ہے فرماتے تھے میں اور حضرت فاطمہؓ سحری کے وقت سوئے ہوئے تھے تو حضورﷺ ہمارے پاس آئے اور دروازے پر کھڑے ہو کر کہا کی تم نماز تہجد نہیں پڑھتے؟ میں نے جواب دیا یا رسول اللہﷺ! ہماری جان اللہ کے قبضے میں ہے جب وہ اٹھانا چاہے تو اٹھا دیتا ہے حضورﷺ واپس ہوگئے اور جواب نہ دیا میں نے سنا کہ جاتے وقت فرماتے تھے اور ہاتھ ران پر مارتے تھے کہ انسان بڑا جھگڑالو ہے۔
(حلیتہ الاولیاء: صفحہ، 68)
22: حکایاتِ صحابہ: صفحہ، 69 پر ہے کہ حضرت علیؓ کی عادت شریفہ یہ تھی کہ جب نماز کا وقت آ جاتا تو بدن میں کیکپی آجاتی اور چہرہ زرد ہو جاتا کسی نے پوچھا یہ کیا بات ہے؟ فرمایا کہ اس امانت کا وقت ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے زمینوں اور پہاڑوں پر اتارا تو وہ اس کے تحمل سے عاجز آ گئے اور میں نے اس کا تحمل کیا ہے۔
23: ابو اسحاق ہمدانی نے بیان کیا ہے کہ حضرت علیؓ بن ابی طالب رمضان کی پہلی رات میں عبادت کے لیے نکلے قندیلیں روشن تھیں کتاب اللہ کی تلاوت کی جا رہی تھی تو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے ابنِ خطاب اللہ تیری قبر کو منور کر دے جس طرح پر کہ تو نے اللہ کی مسجدوں کو قرآن سے منور کر دیا ہے۔
(کذا فی الکنز: جلد، 4 صفحہ، 284)
سخاوت میں موازنہ:
اس وصف میں بھی ہم بجا طور کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کسی کی سخاوت و فیاضی اور ایثار مالی نہیں ہے حاتم طائی کے قصے ان کے مقابلے میں لاتے ہیں ان کی فیاضی اور زہد وہ قناعت پر ایک شیعہ عالم محقق جیلانی نے کیا خوب شہادت دی ہے۔
آنہا نفوس خود را از اموال باز داشتند وشیوه زہد در دنیا پیش گرفتند و رغبت بدنیا و زینت آنرا ترک کردند و قناعت با قلیل اکل خشن و لباس کر پاس ملک خود ساختند در حالتی کہ اموال برائے ایشا حاصل و دنیا رو کرده بود و آن را در میان قوم خود قسمت میکروند خود را بان اصلا آلود نمی کردند۔
(فتح السبل بحوالہ تفسیر آیات قرآنی: صفحہ، 138)
ترجمہ: تینوں خلفاء نے اپنے آپ کو مال دنیا سے علیحدہ رکھا اور دنیا میں زہد کا طریقہ اختیار کیا اور دنیا کی طرف رغبت اور اس کی زینت کو ترک کر دیا اور تھوڑی چیز پر قناعت کرنا اور موٹا کھانا اور ٹاٹ پہنا اختیار کیا جس وقت کہ مال ان کے لیے موجود تھے اور ان لوگوں پر تقسیم کر دیتے تھے اور اپنے کو اس کے ساتھ آلودہ نہ کرتے تھے۔
1: ایک مرتبہ حضور ﷺ نے دریافت فرمایا تم میں سے آج کون روزہ سے ہے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا میں ہوں فرمایا کہ تم میں سے کسی نے جنازہ کو الوداع کیا ہے حضرت ابوبکرؓ نے کہا میں ہوں نے جنازہ پڑھا ہے پھر آپﷺ نے دریافت کیا کیا تم میں سے کسی نے صدقہ دیا ہے سیدنا ابوبکرؓ نے کہا میں نے صدقہ دیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا جس شخص میں یہ سب باتیں جمع ہو جائیں وہ جنتی شخص ہے۔
2: سرورِ کائناتﷺ نے فرمایا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مال سے جس قدر مجھے نفع پہنچا دوسرے کسی کے مال سے نہیں پہنچا۔ (صحیحین)
3: بخاری و مسلم میں روایت کیا گیا ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا صحبت اور رفاقت اور اتفاق مال کے اعتبار سے حضرت ابوبکرؓ میرے سب سے بڑے محسن ہیں اور اگر میں کسی کو سوائے اللہ کے مقام خلت سے نوازتا تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بتاتا لیکن اسلامی اخوت و ثبت قائم ہے مسجدِ نبوی کی طرف کھلنے والی کھڑکیاں بند کر دی جائیں مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کھلی رہے۔ (صفحہ، 653)
4: ترمذی و ابو داؤد میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورﷺ نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا میرے پاس ان دنوں مال کافی تھا میں نے کہا آج میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بڑھ جاؤں گا چنانچہ میں نے آدھا مال لاکر حضورﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا حضورﷺ نے پوچھا بال بچوں کے لیے کیا باقی چھوڑا میں نے کہا اس کے برابر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ گھر کا تمام اثاثہ لے آئے آپﷺ نے ان سے پوچھا گھر میں کیا باقی چھوڑا؟ عرض کیا خدا اور رسول کا نام۔
پروانے کو شمع ہے بلبل کو پھول ہیں
صدیق کے لیے ہے خدا اور رسول بس
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے کہا اس کے بعد میں کبھی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مقابلہ نہیں کروں گا۔
5: ابنِ عساکر حضرت عروہ بن زبیرؓ سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا ابوبکرؓ جس دن ایمان لائے تو 40 ہزار دینار یا دراہم کے مالک تھا وہ سب رسول اللہﷺ پر اور غلاموں کے آزاد کرانے پر خروج کر دیئے سیدنا ابنِ عمرؓ بھی کہتے ہیں کہ اسلام کے دن سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس چالیس ہزار درہم تھے جب ہجرت الی المدینہ کی تو صرف پانچ ہزار تھے جو سب ساتھ لے لیے تھے اور یہ سب مال غلاموں کو آزاد کرانے اور خدمتِ اسلام میں صرف کیے۔
6: ابنِ عساکر نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ حضرت صدیق اکبرؓ نے سات وہ غلام آزاد کرائے جو سب اللہ کے راستے میں عذاب پاتے تھے۔
(تاریخ الخلفاء للسیوطی: صفحہ، 38)
حضرت بلالؓ وغیرہ کی آزادی کا ذکر حیات القلوب، کشف الغمہ وغیرہ کتب شیعہ میں بھی ہے۔
7: ترمذی نے حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہمارے ذمہ کسی کا احسان نہیں ہے مگر ہم اس کا بدلہ اتار چکے ہیں سوائے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ان کا ہم پر احسان ایسا ہے جس کا بدلہ قیامت کے دن دیں گے مجھے کسی کے مال نے اتنا نفع نہ دیا جتنا صدیقِ اکبرؓ کے مال نے۔ (ایضاً صفحہ 38)
8: حضرت اسماءؓ کا بیان ہے کہ ہجرت کی رات 5، 6 ہزار درہم کا تمام مال آپ لے کر مدینہ چلے گئے میں نے اس کی جگہ پتھر رکھ دیا اور دادا جان کا ہاتھ لگوا کر تسلی دی وہ خوش ہوئے کہ تمہارے لیے خرچ چھوڑ گئے حالانکہ آپ سب کچھ ساتھ لے لے گئے تھے۔
(حیات الصحابہ: صفحہ، 184 از ابنِ اسحاق)
9: فتح مکہ سے پہلے بھی ایک دفعہ 4 ہزارہ کا سب مال حضورﷺ پر خرچ کر دیا تھا اور حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بواسطہ پیغمبرﷺ آپؓ کو اللہ کا سلام پہنچایا اور یہ کہ آپ اس فقر پر راضی ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں میں راضی ہوں۔
(ابو نعیم فی حلیہ: جلد، 7 صفحہ، 105)
10: عمیر بن سلمہ ددںٔلی کا بیان ہے کہ حضرت فاروقِ اعظمؓ کے پاس ایک دیہاتی عورت آئی اپنی مسکنت اور بچوں کا اظہار کیا آپؓ نے آٹا سے بھری ہوئی بوری اور تیل اس کو دیا پھر فرمایا ہم سے خیبر میں ملنا چنانچہ وہ خیبر میں ملی تو آپؓ نے دو بوری اور منگوا کر دیں۔
(حیات الصحابه: جلد، 2 صفحہ، 190)
11: اسلم مولیٰ عمرؓ فرماتے ہیں بازار میں سیدنا عمرؓ کو ایک نوجوان چھوٹے بچوں والی بیوہ عورت ملی کچھ دیر گفتگو کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ گھر گئے اپنے مضبوط پیٹھ والے اونٹ پر دو بڑے بڑے تھیلے غلے کے بھر کر لادے اور ان کے بیچ میں اور سامانِ خرچ اور کپڑا رکھا پھر اس کی نکیل عورت کے ہاتھ میں پکڑا کر فرمایا اس کھینچ لے جا ختم نہ ہو پائے گا کہ اللہ تعالیٰ اور بھیج دے گا زیادہ دینے پر ایک شخص نے تعجب کا اظہار کیا تو فرمایا اس کا باپ حدیبیہ میں نبی کریمﷺ کے ساتھ تھا خدا کی قسم میں نے اس عورت کے بھائی اور باپ کو دیکھا جنہوں نے ایک قلعہ کا عرصہ تک محاصرہ کیا پھر ہم لوگوں نے اس قلعہ کو فتح کیا۔
(حیاۃ الصحابہ: جلد، 2 صفحہ، 191 بخاری و بہیقی)
12: حضرت اسلم مولیٰ عمرؓ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد زیادہ پختہ کار اور فیاض و سخی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر نہیں پایا۔ (بخاری: صفحہ، 521)
13: امیر المومنینؓ ایک دفعہ رات کو شہر کی چوکیداری کر رہے تھے ایک جگہ معلوم ہوا کہ ایک عورت حالت زچگی میں کراہ رہی ہے فوراً گھر آئے اپنی اہلیہ حضرت امِ کلثوم بنتِ فاطمہ و علی رضی اللہ عنہم کو ساتھ لیا اور تیل گڑ گھی غلہ وغیرہ بھی ساتھ لے لیا سیدہ امِ کلثومؓ نے زچہ و بچہ کو سنبھالا اور آپ نے ہانڈی میں کھانا تیار کیا جب حضرت امِ کلثومؓ سے بچہ پیدا ہونے کی بشارت سنی تو بہت خوش ہوئے سب کو کھلا پلا کر گھر واپس ہوئے تو مالکِ خانہ سے فرمایا کل آنا تمہارے لیے مستقل وظیفہ کا بندوبست کیا جائے گا۔
(حکایات صحابہ' صفحہ، 85)
14: حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ فرماتے ہیں کہ جیش عسرہ غزوہ تبوک کے موقعہ پر سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نے سات سو اوقیہ سونا دیا ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے سواریوں سے کے متعلق حضرت قتادہؓ فرماتے ہیں کہ سیدنا عثمانؓ نے ایک ہزار سواریاں دی تھیں جس میں پچاس گھوڑے تھے باقی اونٹ حسن کی روایت ہے کہ سیدنا عثمانؓ نے ساٹھ سے نو صد اونٹ اور پچاس گھوڑے دیئے یا راوی نے اس طرح کہا 570 اونٹ اور تیس گھوڑے غزوہِ تبوک میں دیئے۔ (کذا فی المنتخب: جلد، 5 صفحہ، 13)
15: حیات الصحابہ: جلد، 2 صفحہ، 186 پر ہے کہ حضرت عثمانؓ نے لشکر 30 ہزار کے تہائی سامان کا غزوہِ تبوک میں خرچ برداشت کیا تھا یہاں تک کہ کہا جانے لگا کہ لشکر والوں کی کوئی حاجت باقی نہ رہی جو انہوں نے پوری نہ کر دی ہو اسی صفحہ پر حضرت حذیفہ بن یمانؓ کی روایت میں ہے کہ سیدنا عثمانؓ نے 10 ہزار دینار آپﷺ کی خدمت میں بھیجے حضورﷺ ان کو ہاتھ سے الٹتے پلٹتے تھے کبھی دونوں ہاتھوں کی پشت ظاہر ہوتی اور کبھی ہتھیلیاں اور آپ دعا دے رہے تھے اے عثمانؓ اللہ تیرے ہر اس گناہ کو جو تو نے چھپ کر یا علانیہ یا باطن میں کیے ہیں اور جو کچھ کہ قیامت تک ہونے والے ہیں اللہ مغفرت فرما دے عثمانؓ کو کوئی پرواہ نہیں اگر اس کے بعد کوئی عمل نہ کرے۔ (منتخب: جلد، 5 صفحہ، 12)
16: سیدنا عثمانِ غنیؓ کو چھ مرتبہ آپ نے جنت کی بشارت دی تھی:
1:جب جیش عسرۃ کو تیار کیا۔
2: جب مسجدِ نبوی کی تعمیر و توسیع کرائی۔
3: جب بیر رومہ یہودی سے خرید کر مسلمانوں پر وقف کر دیا۔
4: جب اپنے عہدِ خلافت میں مسجد نبوی کی توسیع کرنی چاہی تو فرمایا میں نے حضورﷺ سے سنا ہے جس نے اللہ کے لیے مسجد بنائی اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایسا ہی گھر بنائے گا۔
5: جب آپﷺ نے سیدنا عثمانؓ پر بلوے اور شہادت کا ذکر کیا تو فرمایا انہیں جنت کی بشارت ہو۔
6: حضورِ اکرمﷺ نے متعدد مرتبہ اصحاب عشرہ مبشرہ بالجنہ میں تیسرے نمبر پر آپؓ کا نام لیا۔ (صحاح ستہ)
7: سیدنا علی رضی اللہ عنہ بلاشبہ طبعاً فیاض تھے اور ناداری کے باوجود صدقہ کرنے اور غرباء کو کھانا کھلانے کے کئی واقعات ملتے ہیں لیکن خلفائے ثلاثہؓ ان مشترکہ اوصاف کے علاوہ گذشتہ بالا واقعات میں منفرد ہیں خدا داد کثیر مال سے جو خدمت اسلام اور اعانت پیغمبر ان کے مقدر میں آئی اور تحریک اسلام کو زبردست کامیابی ہوئی اس کا جواب نہیں بےشک ایک غریب یا مزدور کا دن بھر کی کمائی ساری یا کچھ اللہ کی راہ میں دینا کامل فیاضی ہے لیکن ایک امیر کا سالوں کی سب کمائی یا نصف و ملت کو اللہ کی راہ میں دینے کا حوصلہ کرنا اور رأس المال بھی نہ چھوڑنا اس سے زیادہ فیاضی اور جگر گردے کا کام ہے حضرت علیؓ شروع سے نادار تھے آپ کے ذاتی و خانگی اخراجات بھی خود حضورِ اقدسﷺ اٹھاتے تھے ظاہر ہے کہ دینے والا ہاتھ لینے والے سے افضل ہوتا ہے۔
نوشت است بر گور بہرام گور
کہ دست کریم بہ ز باز وی زور
امانت:
بلاشبہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ امین تھے اور کفار کی امانتیں خواہ وہ متاعِ دنیوی کفار کی حلال امانت یا حرام کی حضورِ اقدسﷺ آپ کے سپرد کر گئے تھے اور آپ نے اس کو پہنچائیں لیکن سیدنا ابوبکرؓ سے مقابلہ کی کیا نسبت آپ کے پاس اللہ کی وہ عظیم ترین امانت تھی اور اس کی حفاظت فرما رہے تھے جس کے قدموں پر ساری دنیا و مافیہا قربان کی جاسکتی ہے اور وہ امانت انصار مؤمنین کے سپرد کی گئی جن سے محبت کرنا عین ایمان ہے اور نفرت رکھنا نفاق و کفر ہے صحیح بخاری: جلد، 2 صفحہ، 629 پر قصد اہلِ نجران میں ہے انہوں نے آپ سے کہا ہمارے ساتھ اپنا امین نمائندہ بھیجیں حضورﷺ نے فرمایا میں ایسا امین بھیجوں گا جو امانت کا حق ادا کرے گا حق ادا کرے گا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین منتظر ہونے لگے تو آپﷺ نے ابو عبیدہ بن الجراحؓ کو کھڑا کر کے فرمایا هذا امين هذه الامۃ یہ اس امت کے امین ہیں کفار عہدِ جاہلیت میں خلفائے ثلاثہؓ کے پاس امانتیں رکھا کرتے تھا ابنِ دغنہ نے حضرت ابوبکرؓ کو مکہ واپس لاتے ہوئے کہا تھا حضرت ابوبکرؓ تیرے جیسا آدمی نہ نکل سکتا ہے نہ نکالا جا سکتا ہے کیونکہ آپ نادار کو کم کر دیتے ہیں صلہ رحمی کرتے ہیں مہمان نواز ہیں مصائب آنے پر لوگوں کی امداد کرتے ہیں واپس جائیں میں آپ کو پناہ دیتا ہوں الخ۔
(بخاری: جلد، 2 صفحہ، 542)
سیدہ خدیجہؓ نے پہلی وحی کے دن حضورِ اکرمﷺ کے بھی یہی اوصاف بیان کیے تھے۔ (بخاری)
قارئین کرام! ہم نے قدرے بسط سے معترض کے ذکر کردہ اوصاف حسنہ میں نہایت احتیاط سے موازنہ کر دیا اگر کسی سے متعلق فروگزاشت ہوئی تو اللہ معاف فرمائے دراصل اس موازنہ کے ہم اہل ہی نہیں یہ صرف اللہ و رسولﷺ کا کام تھا انہوں نے جس کام اور منصب کا جسے مستحق جانا وہ کام لیا اور خدا کی طرف سے ایمان اخلاص صداقت اور جنت و کامیابی کی سندیں پانے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بالترتیب ان کے درجات پر اتفاق کیا اور وہ حضرات خلفائے راشدینؓ کو ہم سے بہت بہتر جانتے تھے تو انہی کا فیصلہ برحق ہوا فماذا بعد الحق الا الضلال۔
ہم اس بحث کا خاتمہ حضرت شاہ ولی اللہؒ کے اس اقتباس پر کرتے ہیں۔
رہا آنحضرتﷺ کا ان سے ولی عہد کا معاملہ کرنا تو اس کے دلائل ہیں کہ حضورﷺ نے حضرت ابوبکرؓ کے سپرد امامت نماز کی جب تبوک کے موقعہ پر آپ قبیلہ عمرو بن عوف میں گئے تھے اور مسلمانوں کی فوجیں شہر سے باہر آگئی تھیں اور اس موقع پر نماز کے علاوہ لشکر کا نگران بھی حضرت ابوبکرؓ کو بنایا نیز مرضِ وفات میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ امام نماز بنایا اور یہ متواتر بالمعنیٰ ہے اور 9ھ میں حضرت ابوبکرؓ کو امیرِ حج بنایا اور چند بار غزوات میں بھیجا مسلمانوں کے معاملات میں ہمیشہ حضرت ابوبکرؓ حضرت عمرؓ سے مشورہ کیا حضرت عمرؓ کو بھی غزوات میں امیرِ لشکر بنایا نیز مدینہ کے صدقات کا عامل ڈپٹی کلکٹر بنایا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اہلِ مکہ کی طرف حدیبیہ کے فوائد کے لیے سفیر بنایا حضرت علی المرتضیٰؓ کو یمن کا والی بنایا اور دعا فرمائی ان کے لیے قضا آسان ہو اور یہ احادیث مجموعی طور پر متواتر بالمعنیٰ ہیں۔ (ازالۃ الخفاء: جلد، 1)