Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

عقیدہ امامت در پردہ ختم نبوت کا انکار ہے

  مولانا مہرمحمد میانوالی

سوال: کیا کوئی روایت بخاری مسلم ترمذی ابن امیہ ابن داؤد نسائی ان کے علاوہ مشکوٰۃ اور مؤطا امام مالک یعنی ان آٹھ کتابوں میں مل سکتی ہے کہ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ حضرت علی زین العابدین رحمۃ اللہ سیدنا محمد باقر رحمۃ اللہ سیدنا جعفر صادق رحمۃ اللہ سیدنا موسیٰ کاظم رحمۃ اللہ سیدنا علی الرضا رحمۃ اللہ سیدنا محمد تقی رحمۃ اللہ سیدنا علی نقی رحمۃ اللہ سیدنا حسن عسکری رحمۃ اللہ سیدنا مہدی العصر والزمان رحمہم اللہ علیھم اجمعین اہل سنت و الجماعت کے بارہ امام ہیں اگر نہیں تو اپنے بارہ اماموں کے نام بتائیں جب کہ حضورﷺ نے فرمایا:

عن جابر بن سمرة قال سمعت رسول اللهﷺ يقول لا يزال الاسلام عزيز إلى اثنی عشر خليفه كلهم من قریش (مشکوٰۃ) 

کیا آپ کے بارہ امام وہی تو نہیں جن کا تذکرہ تاریخ الخلفاء: صفحہ، 18 اور شرح فقہ اکبر: صفحہ، 76 پر درج ہے ارے ان میں تو چھٹا یزید بن معاویہ ہے اس فرمان رسولﷺ من مات ولم يعرف امام زمانه فقد مات ميتة جاهلية۔ (منصب امامت: صفحہ، 74) غور سے پڑھ اور سمجھ کر فیصلہ دیں۔

جواب: ابنِ داؤد کسی کتاب کا نام نہیں ابو داؤد نام ہے جو صحاحِ ستہ اہلِ سنت میں شامل ہے افسوس کہ جو شخص اہلِ سنت کی صحاح ستہ کے نام نہیں جانتا وہ اھلِ سنت پر اعتراضات کرتا ہے بلکہ سابق سنی عالم ہونے کا مدعی ہے اس کے جھوٹے اور پر قریب دعویٰ کی حقیقت اسی سے نمایاں ہے۔

اہل سنت کا معیار امامت:

اس حدیث کا مفہوم اور 12خلفاء کی تعیین سے قبل ہم اس حقیقت کو الم نشرح کرتے ہیں کہ ان کی خلافت پر مشتمل اس حدیث کو معترض اپنے فاسد مذہب اور عقیدہ امامت پر کیسے منطبق کرنے کی جرات کر رہا ہے حالانکہ سنی نقطہِ نظر سے خلافت اور عند الشیعہ تصور امامت میں زمین و آسمان کا فرق ہے اہلسنت کے ہاں خلافت و امامت ایک انتظامی عہدہ ہوتا ہے جو پیغمبرِ اکرمﷺ کی پیروی سے آپ کی جانشینی و حکمرانی کا نام ہے خلیفہ نہ نبی سے افضل یا اس کے مساوی ہوتا ہے نہ وہ مستقل مطاع اور نبی کی طرح مفترض الطاعہ ہوتا ہے نہ وہ حلال و حرام کرنے میں خود مختار ہوتا ہے نہ اس پر وحی آتی ہے نہ وہ قرآنِ پاک اور سنتِ نبوی کے علاوہ کسی تیسری وحی یا آسمانی کتاب و ہدایت کا حامل ہوتا ہے نہ اس کے لیے عصمت شرط ہے نہ اس سے اختلاف کفر ہے نہ اس کے نام کا کلمہ ہے نہ اس کی تعلیم تعلیمِ نبوی کے متوازی ہے نہ اس کے نام کی الگ امت بنامِ شیعہ فلاں ہوتی ہے نہ اس کا نام بطورِ ورد و استعانت استعمال کرنے کی اجازت ہے بلکہ امام و خلیفہ کا منصب صرف اس قدر ہے کہ وہ شرائطِ خاصہ کے تحت اس کا اہل ہو اشارۃ النص استخلافِ نبوی یا انتخابِ عامہ کے تحت اس عہدہ کو سنبھالے اور حکومت و طاقت کے ذریعے قرآن و سنت کو نافذ کرے اور انتظامِ مملکت کو سر انجام دے تمام جائز امور میں اس کی اطاعت ضروری ہے اور مخالفت و انکار حرام ہے اھلسنت کے ہاں ایسے منتظم شرعی خلیفہ مقتدر کے لیے یہ 8 شرائط ہیں:

1: مسلمان ہو۔ 2: عاقل و بالغ ہو۔ 3: مرد ہو۔ 4: متکلم اور سمیع و بصیر ہو۔ 5: مجتہد ہو۔ 6: بہادر اور صاحب الرائے ہو۔ 7: عادل و منصف ہو۔ 8: قریشی النسب ہو۔ 9: على قول الاصح کتابت بھی شرط ہے۔ (ازالہ الخفاء)

مذکورہ بالا سنی حدیث اس قسم کے خلفاء کی پیشینگوئی پر مبنی ہے۔

شیعہ کے 12 امام ہر گز مراد نہیں:

اس حدیث کا شیعہ کے 12 ائمہ کے ساتھ نہ کوئی تعلق ہے نہ ہی امامت کے تصور کی قرآن و سنت میں کوئی گنجائش ہے کیونکہ وہ منصبِ رسالت کے متوازی اور ختمِ نبوت کے عین برعکس ہے امامیہ حضرات کے اس عقیدہ کا حاصل یہی ہے کہ کوئی شخص قرآن و سنت کی شریعت سے آزادی حاصل کر کے امامی خود ساختہ شریعت پر عمل کا دعویدار بن جائے اگرچہ وہ عملاً اس کا تارک اور ہویٰ نفس کا پیروکار ہو ہم یہاں شیعہ کی سب سے مستند اور عظیم مذہبی کتاب اصولِ کافی کے کتاب الحجۃ سے شیعی امامت کا تعارف کراتے ہیں تاکہ ان کے ختمِ نبوت کے منکر ہونے پر شک و شبہ نہ رہے۔

1: امام بھی نبی کی طرح مرسل من اللہ ہوتا ہے:

باب الفرق بین الرسول والنبی و المحدث میں ہے راوی نے پوچھا کہ امام کا مقام کیا ہے؟ تو سیدنا باقرؒ نے فرمایا: يسمع الصوت ولا يرى ولا يعاين الملك ثم تلا هذه الاية وما ارسلنا من قبلك من رسول ولا بنی ولا محدث۔ (کافی: صفحہ، 176)

امام فرشتے سے وحی کی آواز سنتا ہے مگر مشاہدہ اور معاینہ نہیں کرتا پھر یہ آیت پڑھی کہ ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول نبی اور محدث امام نہیں بھیجا ۔

اس باب میں تین اور ایسی حدیثیں بھی ہیں جن میں محدث کے عنوان سے امام کو بھی مرسل من اللہ اور مہبطِ فرشتہ تسلیم کیا ہے اور سورت حج کی آیت محولہ میں ولا محدث کا اضافہ کر کے تحریف کی ہے

اہلِ حق شیعہ کے بر خلاف ان احادیث سے یہ استدلال کر سکتے ہیں کہ امامت نبوت سے کم تر رتبہ ہے۔ کیونکہ نبی و رسول فرشتہ وحی کو دیکھنا بھی ہے اور امامت کو نبوت سے افضل کہنا قرآن کریم اور احادیث ائمہ کی کھلی خلاف ورزی ہے ارشاد ربانی ہے:

وَكُلًّا فَضَّلۡنَا عَلَى الۡعٰلَمِيۡنَ ۞(سورہ الانعام: آیت 86)

ترجمہ: ہر ایک پیغمبر کو ہم نے سب جہانوں پر فضیلت دی۔

2: امام بھی پیغمبر کی طرح حجۃ اللہ ہے:

باب ان الارض لا تخلوا من حجة میں ہے امام علی رضاؒ فرماتے ہیں:

ان الحجة لا تقوم لله على خلقه الا بامام حتیٰ یعرف۔ (کافی: صفحہ، 177)

ترجمہ: امام کے بغیر اللہ کی حجت مخلوق پر نہیں ہوسکتی حتی کہ اس کا پہچاننا ضروری ہے۔

حدیثِ ہذا میں حصر کے ساتھ حجتہ اللہ کو امام میں محدود کر دیا ہے اور انبیاء علیہم السلام کا ذکر نہیں کیا حالانکہ اللہ پاک یہ منصب صرف پیغمبروں کو عنایت فرماتے ہیں:

رُسُلًا مُّبَشِّرِيۡنَ وَمُنۡذِرِيۡنَ لِئَلَّا يَكُوۡنَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّٰهِ حُجَّةٌ بَعۡدَ الرُّسُلِ‌ الخ۔

(سورۃ النساء: آیت 165)

ترجمہ: ایسے رسول جو خوشخبری دینے والے بھی تھے اور ڈرانے والے بھی تاکہ ان کے آنے کے بعد کوئی حجت باقی نہ رہے۔ (ترجمه مقبول)

3: امام پر ایمان اور تمام دینی امور اس کی طرف لوٹانا ضروری ہے:

باب معرفة الامام اولاد والرد الیہ میں ہے

سیدنا جعفرؒ فرماتے ہیں کہ جو شخص ہم اہلِ بیتؓ کے امام کو نہیں بنتا فانما يعرف ويعبد غير الله هكذا

بلا شبہ وہ غیراللہ کو مانتا اور بخدا غیر اللہ کی گمراہی سے عبادت کرتا ہے۔

حالانکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِىۡ شَىۡءٍ فَرُدُّوۡهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوۡلِ اِنۡ كُنۡـتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَـوۡمِ الۡاٰخِرِ‌ الخ۔

(سورۃ النساء: آیت 59)

ترجمہ: پھر اگر کسی معاملے میں تم آپس میں جھگڑ پڑو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو بشرطیکہ تم اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو۔

معلوم ہوا کہ وَاُولِى الۡاَمۡرِ سے اختلاف کی صورت میں صرف خدا اور رسول ہی فیصل آخری حجت اور مرجع عوام ہیں ان کے بعد امام ہوتا تو اس کا ذکر ضرور ہوتا

پیغمبر کی طرح امام کی اطاعت بھی فرض ہے۔

4: پیغمبر کی طرح امام کی اطاعت بھی فرض ہے:

باب فرض طاعۃ الامام میں ہے:

من إبى عبد الله يقول نحن قوم فرض الله طاعتنا۔

ترجمہ: سیدنا ابو عبداللہؒ فر ماتے ہیں ہم وہ قوم ہیں کہ اللہ نے ہماری اطاعت فرض کر دی ہے۔

حالانکہ قرآنِ پاک میں بیسیوں مقامات پر یہ جملہ آیا ہے: اَطِيۡـعُوا اللّٰهَ وَاَطِيۡـعُوا الرَّسُوۡلَ الخ۔

ترجمہ: کہ تم اللہ کی اطاعت کرو اور اللہ کے رسول کی صرف ایک مقام پر وَاُولِى الۡاَمۡرِ کی اطاعت کا ذکر ہے مگر وہ بھی ضمناً اور طبعاً ہے کہ ان سے اختلاف کی صورت میں خدا و رسول کی طرف رجوع اور ان کی اتباع کرنی ہوگی (پارہ 5 آیت 5) خدا و رسول کی اطاعت پر ہی جنت کا وعدہ اور مخالفت پر جہنم کی جگہ جگہ وعید سنائی گئی ہے البتہ ایک مقام پر مخالفت رسول کے ساتھ سبیل مؤمنین کی مخالفت پر جہنم کی وعید سنا کر اجماعِ امت کی حقانیت پر دلیل دی ہے نیز یہ ارشاد صرف انساع نبوی کو فرض قرار دیتا ہے:

وَمَاۤ اٰتٰٮكُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهٰٮكُمۡ عَنۡهُ فَانْتَهُوۡا‌ الخ۔ 

(سورۃ الحشر: آیت 7)

ترجمہ: جس بات کا تم کو رسول حکم دیں مانو اور جس سے وہ روکیں رک جاؤ۔

5: ائمہ ہی اللہ کی شریعت کے والی اور اس کے علم کا خزانہ ہیں:

یہ کافی اس باب کا ترجمہ ہے: 

باب ان الأئمة ولاة أمر الله وخزنة علمه۔

نیز سیدنا جعفرؒ کی یہ حدیث ہے ہم اللہ کی شریعت کے مالک اس کے علم کا خزانہ اور اس کی وحی کا سٹاک ہیں۔

اور دوسری حدیث میں ہے کہ ہمارے عبادت کرنے سے اللہ کی عبادت کی گئی اگر ہم نہ ہوتے تو اللہ کی عبادت نہ ہوتی۔ (صفحہ، 193)

حالانکہ یہ منصب صرف پیغمبروں کا ہے اور ایسے واضح تعلی آمیز الفاظ انبیاء علیہم السلام کے متعلق قرآنِ پاک میں نہیں ملتے نہ وہ ارشاد فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ پیغمبروں کے ذکر کے بعد فرماتے ہیں:

اُولٰٓئِكَ الَّذِيۡنَ اٰتَيۡنٰهُمُ الۡـكِتٰبَ وَالۡحُكۡمَ وَالنُّبُوَّةَ‌ الخ۔

(سورۃ الانعام: آیت 89)

اُولٰٓئِكَ الَّذِيۡنَ هَدَى اللّٰهُ‌ فَبِهُدٰٮهُمُ اقۡتَدِهۡ ‌الخ۔

(سورۃ الانعام: آیت 90)

ترجمہ: وہ وہی ہیں جن کو ہم نے کتاب اور حکومت اور نبوت عطاء کی پھر اگر یہ کفار ان چیزوں کا انکار کرتے ہیں تو کچھ پرواہ نہیں کیونکہ ہم نے تو یہ ان لوگوں کے سپرد کی ہیں جو ان کے منکر نہیں ہیں وہ وہی تو ہیں جن کو اللہ نے راستہ دکھلایا ہے پس اے رسولﷺ تم ان ہی کے راستے پر چلو۔ 

(ترجمہ مقبول: صفحہ، 165)

مذکورہ بالا دعا دی اور متکبرانہ الفاظ منصبِ نبوت میں شرکت کے دعویٰ اور نخوت و خود پسندی پر صریح دال ہیں مرزا غلام احمد قادیانی تو ایسے لفظ بول سکتا ہے مگر ہم ائمہ اہلِ بیتؓ کی طرف انہیں ہرگز منسوب نہیں کر سکتے۔

6: آئمہ اللہ کا نور ہیں:

اس نام کے باب میں ہے کہ امام ابوالحسین سے اللہ کے اس ارشاد کے متعلق پوچھا گیا:

يُرِيۡدُوۡنَ لِيُطْفِئُوا نُوۡرَ اللّٰهِ بِاَ فۡوَاهِهِمْ وَاللّٰهُ مُتِمُّ نُوۡرِهٖ الخ۔

(سورۃ الصف: آیت 8)

ترجمہ: کفار یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو مونہوں سے بجھا دیں حالانکہ اللہ تعالیٰ اپنے نور یعنی امامت کو پورا کرنے والا ہے اور امامت ہی نور ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ وَالنُّوۡرِ الَّذِىۡۤ اَنۡزَلۡنَا‌ الخ۔(سورۃ التغابن: آیت 8)

ترجمہ: کہ اللہ پر اس کے رسول پر اور اس کے نازل کردہ نور امامت علی پر ایمان لاؤ۔ (کافی: صفحہ 196)

حالانکہ سیاق و سباق کی روشنی میں یہاں نور اللہ سے مراد اللہ کی توحید ہے اس کے اتمام اور غلبے کا وعدہ فرمایا ہے مگر شیعہ نے اس سے وہ امامت مراد لے لی جسے عہدِ رسول میں بھی بقول شیعہ کسی نے تسلیم نہ کیا بعد از رسولﷺ تو صراحت سے غصب کر لی گئی اور اس نورِ خدا امام کے گلے میں رسی ڈال کر گھسیٹا گیا۔ (جلاء الجبون: صفحہ، 145) 

اور اس منصب کو آپ کی اولاد سے ایسے دور رکھا گیا کہ وہ نورِ خدا آج 1250 سال سے ایک نا معلوم غار میں غروب ہو چکا ہے اور وعدہ خدائی آج تک شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ ( العیاذ باللہ)

یہ تو نورِ وصفی کا بیان ہوا اگر ائمہ کے نور اللہ ہونے سے ان کی ذوات کا غیر بشر اور نور من نور اللہ ہونا مراد ہو جیسے عامہ شیعہ کا آج کل یہ عقیدہ ہے تو یہ شرک صریح ہے جب اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر سے یہ اعلان کروائیں

 هَلۡ كُنۡتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوۡلًا ۞(سورۃ الاسراء: آیت 93)

ترجمہ: نہیں ہوں میں مگر ایک انسان رسول۔

قُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثۡلُكُمۡ يُوۡحٰٓى اِلَىَّ الخ۔(سورۃ الکہف: آیت 110)

ترجمہ: فرمائیں بلاشبہ میں تمہارے جیسا آدمی ہوں مگر مجھے وحی آتی ہے تو آپﷺ کی بشری اولاد میں سے 12 حضرات کیسے غیر بشر اور نور اللہ بن جائیں؟

7: ائمہ نبوت کا درخت اور مہبط ملائکہ ہیں:

کافی: صفحہ، 220 میں ایک باب کا عنوان ہے:

باب ان الأئمة معدن العلم و شجرة النبوة ومختلف الملائكة۔

ترجمہ: سیدنا جعفر صادقؒ نے اپنے شاگرد خیثمہ سے فرمایا ہم نبوت کا درخت ہیں رحمت کا گھر ہیں حکمت کے خزانے ہیں علم کی کان ہیں رسالت کی جگہ ہیں فرشتوں کے اترنے کی جگہ ہیں اللہ کے بھید کی جگہ ہیں ہم اللہ کے بندوں میں اس کی امانت ہیں ہم اللہ کا حرمِ اکبر ہیں اللہ کا ذمہ اللہ کا عہد ہیں جس نے ہم سے عہد پورا کیا اس نے اللہ سے عہد پورا کیا جس نے ہم سے بد عہدی کی اس نے اللہ سے بد عہدی کی۔

8: ائمہ اللہ کی زبان اور دروازہ ہیں:

کافی باب النوادر: صفحہ، 145 میں ہے:

سیدنا باقرؒ فرماتے ہیں ہم ہی اللہ کی حجت ہیں اس کا دروازہ ہیں اس کی زبان ہیں اس کا چہرہ ہیں اس کی آنکھ ہیں ہم اللہ کے بندوں میں معاملات کے سر پرست ہیں اور ایک روایت میں امیر المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ نے فرمایا میں اللہ کی آنکھ ہوں اس کا ہاتھ ہوں اس کا پہلو ہوں اس کا دروازہ ہوں۔

"اپنے منہ میاں مٹھو بننا" اس کو کہتے ہیں ہم تو پیغمبروں کی ذات و صفات میں شرکت کا تذکرہ کر رہے تھے خیر سے خدا بھی وحدہ لا شریک لہ نہ رہا اور اس کے بھی ہاتھ آنکھ پہلو زبان و غیرہا اعضاء تسلیم کر کے ائمہ ان پر قابض ہو گئے حالانکہ اس کا ارشاد ہے 

لَيۡسَ كَمِثۡلِهٖ شَىۡءٌ اس کے مانند کوئی شی نہیں تعجب ہے اگر الگ وجود فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں مانا جائے تو اللہ پاک وَجَعَلُوۡا لَهٗ مِنۡ عِبَادِهٖ جُزۡءًا‌ ؕ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَـكَفُوۡرٌ مُّبِيۡنٌ ۞

(سورۃ الزخرف: آیت 15)

 کفار نے اللہ کے بندوں کو اس کا جزء بنالیا بلا شبہ انسان کھلا کافر ہے۔ سے کفر کا کھلا فتویٰ دیں اور ائمہ کو خدا کے اجزاء مانا جائے تو اسلام بن جائے؟

9: ائمہ عالم الغیب ہیں:

کافی میں ایک باب کا عنوان یہ ہے ائمہ جب علم غیب چاہتے ہیں غیب معلوم کر لیتے ہیں ایک کا عنوان یہ ہے ائمہ ما کان وما یکون یعنی گزشتہ و آئندہ تمام باتوں کا علم جانتے ہیں ان سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے صفحہ، 261 اور اس میں یہ حدیث ہے کہ سیدنا جعفر صادقؒ نے فرمایا میں ضرور جانتا ہوں جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے میں جانتا ہوں جو کچھ جنت میں ہے جو کچھ دوزخ میں ہے میں جانتا ہوں جو کچھ ہو چکا اور جو کچھ آئندہ ہو گا حالانکہ ایسا قول اور ایسا عقیدہ قرآن کی بیسیوں آیات کی تردید اور خاصہ خداوندی میں ہاتھ ڈالتا ہے جیسے اس کا ارشاد ہے: 

وَلِلّٰهِ غَيۡبُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ الخ۔

(سورۃ ہود: آیت 123)

ترجمہ: آسمانوں اور زمین کا غیب صرف اللہ کو ہے۔

وَعِنۡدَهٗ مَفَاتِحُ الۡغَيۡبِ لَا يَعۡلَمُهَاۤ اِلَّا هُوَ‌ الخ۔

(سورۃ الانعام: آیت 59) 

ترجمہ: غیب کے خزانے اور کنجیاں اسی کے پاس ہیں ان کو سوائے اس کے کوئی نہیں جانتا۔ 

اِنَّ اللّٰهَ يَعۡلَمُ غَيۡبَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ‌ الخ

(سورۃ الحجرات: آیت 18)

ترجمہ: بے شک اللہ آسمانوں اور زمین کا غیب جانتا ہے۔ 


قُلْ لَّا يَعۡلَمُ مَنۡ فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ الۡغَيۡبَ اِلَّا اللّٰهُ‌

(سورۃ النمل: آیت 65)

ترجمہ: آپ فرمائیں آسمان وزمین کی کوئی مخلوق علم غیب نہیں جانتی سوائے اللہ کے۔

10: ائمہ موت و حیات میں مختار ہیں اور اپنی موت کا وقت جانتے ہیں:

اس عنوان کے باب صفحہ، 28 میں یہ حدیث ہے کہ سیدنا جعفر صادقؒ نے فرمایا جو امام یہ نہ جانے کہ اسے کیا تکلیف آئے گی اور اس کا کیا انجام ہو گا تو وہ خدا کی مخلوق پر اس کی حجت اور امام نہیں ہے

حالانکہ اللہ تعالیٰ غیوب خمسہ میں فرماتے ہیں:

وَّمَا تَدۡرِىۡ نَـفۡسٌۢ بِاَىِّ اَرۡضٍ تَمُوۡتُ الخ۔

(سورۃ لقمان آیت 34)

ترجمہ: کوئی نفس یہ نہیں جانتا کہ وہ کب کس زمین میں مرے گا نیز ارشاد ہے:

وَلِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ‌ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمۡ لَا يَسۡتَاۡخِرُوۡنَ سَاعَةً‌ وَّلَا يَسۡتَقۡدِمُوۡنَ‏۞

(سورۃ الاعراف آیت 34)

ارشادِ قرآنی کے مطابق جب کوئی اپنے انجام اور موت کا وقت نہیں جان سکتا تو اعتراف امام کے مطابق انبیاء علیہم اسلام کے سوا کوئی بھی بندوں پر حجت خداوندی نہیں۔

11: ائمہ پیغمبروں کے ساتھ علم میں مساوی ہیں:

باب ان الائمة ورثوا علم النبی وجميع الانبیاء: صفحہ، 23 پر ہے۔

سیدنا جعفر صادقؒ فرماتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد علیہ السلام کے وارث بنے اور حضرت محمدﷺ حضرت سلیمان علیہ السلام کے اور ہم حضرت محمدﷺ کے وارث بنے اور ہمارے پاس توراۃ، انجیل، زبور اور الواحِ موسیٰ علیہ السلام کی تبیان کا بھی علم ہے۔

ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدﷺ کو حضرت آدم علیہ السلام سے تا حضورﷺ سب پیغمبروں کی سنتیں یعنی انبیاء علیہم السلام کے تمام علوم عطاء فرما دیے اور رسول اللہﷺ نے صير ذلك كله عند امير المؤمنين۔ (222)

ترجمہ: تمام حضرت امیر المومنین کے سپرد کر دیئے۔

یعنی سیدنا علیؓ بمعہ لوازم نبی بن گئے۔

12: ائمہ مستقل اسمانی کتابوں والے ہیں:

باب فیه ذكر الصحيفة والجفر والجامعة و مصحف فاطمة عليها السلام میں ہے:

کہ سیدنا جعفر صادقؒ نے فرمایا ہمارے پاس جامعہ ہے جس کا طول حضورﷺ کے ذراع سے 70 گز ہے اس میں تمام مخلوق کے حالات لکھے ہیں اس میں حلال و حرام کا بیان ہے اور ہر وہ چیز ہے جس کی ضرورت امت کو ہوگی حتیٰ کہ خراش اور طمانچے سے زخم کی بھی دیت مذکور ہے جفر کے متعلق فرمایا ہے وہ ایک بڑا مخزن ہے جس میں تمام انبیاء اوصیاء اور بنی اسرائیل کے علماء کے علوم ہیں اور یہ اتنے معتبر نہیں ہیں پھر فرمایا ہمارے پاس مصحفِ فاطمہؓ بھی ہے وہ ایسا قرآن ہے جس میں تمہارے اس قرآن جیسے سہ گنا احکام ہیں خدا کی قسم اس میں تمہارے قرآن کا ایک حرف بھی نہیں ہے۔ (صفحہ، 239)

عیاں راچہ بیان شیعہ کے ائمہ نے کتاب اور سنت کے برعکس مذکورہ بالا خیالی کتب پر ہی اپنے مذہب کی بنیاد رکھی ہے اور قرآن سے اس قدر جدائی ہے کہ اپنی طرف اس کی نسبت بھی نہیں کرتے مخاطبین کی طرف (قرآنکم) کی نسبت کرتے ہیں اور جس مصحف کی اپنی طرف نسبت کرتے ہیں اس میں قرآن کے ایک حرف نہ ہونے کا بھی اعتراف کرتے ہیں سبحان اللہ۔

13: ائمہ حلال و حرام میں مختار ہیں:

بابو مولد النبیﷺ صفحہ 439 میں ہے:

 وفوض امورها اليهم فهم يحللون ما يشاؤن ويحرمون ما يشاءون ولن يشاء والا ان يشاء الله۔

ترجمہ: الله پاک نے اہلبیت رضی اللہ عنہم کو پیدا فرما کہ تمام مخلوق کے امور ان کے سپرد کر دیے پس وہ حلال کرتے ہیں جو چاہتے ہیں اور حرام کرتے ہیں جو چاہتے ہیں وہ نہیں چاہتے مگر جو اللہ چاہے۔

حضور خاتم الشریعت والنبیین کے بعد اس منصب کا کسی کو مختار ماننا شریعتِ محمدی پر خط کھینچنا ہے نیز قرآنی تعلیم میں یہ عہدہ حقیقتاً پیغمبروں کا بھی نہیں بلکہ شارع و محلل و محرم صرف اللہ کی ذات ہے انبیاء کرام علیہم السلام کی طرف مجازاً صرف بایں معنیٰ نسبت کی جاتی ہے کہ وہ وحی جلی یا خفی کے ذریعے منجانب اللہ حرمت و حلت کو بیان فرماتے ہیں جیسے ارشاد ہے:

يٰۤاَيُّهَا النَّبِىُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَـكَ‌ الخ۔

(سورۃ التحریم: آیت 1)

ترجمہ: اے نبی آپ کیوں وہ چیز حرام کرتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کی۔

اور اصولِ کافی باب الشرک: صفحہ، 398 پر آیت اِتَّخَذُوۡۤا اَحۡبَارَهُمۡ وَرُهۡبَانَهُمۡ اَرۡبَابًا الخ۔

(سورۃ التوبہ: آیت 31) 

ترجمہ: کہ نصاریٰ نے اپنے علماء اور مشائخ کو خدا بنالیا۔ کے متعلق ہے کہ بخدا انہوں نے نصاریٰ کو اپنی عبادت کی طرف نہیں بلایا ولكن احلو الهم حراما وحرموا عليهم حلا لا فعبدوهم من حيث لا يشعرون ۔ لیکن انہوں نے ان کے لیے کئی چیزیں از خود حلال اور حرام کر دیں اور وہ غیر شعوری طور پر ان کے گویا عبادت گزار بن گئے ۔ (مجمع البیان جلد 1 صفحہ 455)

14: ائمہ درجہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مساوی یا افضل ہیں:

 کتاب الحجہ کے ایک باب میں ہے:

عن ابي عبد الله قال ما جاء به على أخذه ومانها عنه انتهى عنه جرى له من الفضل ما جرى لمحمد ولمحمد الفضل على جميع من خلق الله عزوجل المتعقب عليه كا لمتعقب على الله ورسوله والراد عليه فی صغيرة او كبيرة على حد الشرك بالله كان امير المؤمنين باب الذی لا يؤتى الأ منه وسبيله الذی الامن سلك بغير ملك وكذلك يجرى الأئمة الهدى واحد الجد واحد۔

(اصولِ کافی: صفحہ: 117 لکھنو اردو: صفحہ، 225 کراچی) 

سیدنا جعفر صادقؒ فرماتے ہیں جو شریعت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ لائے ہیں میں وہ لیتا ہوں جس سے وہ روکیں رکتا ہوں آپ کا وہی مرتبہ ہے جو محمدﷺ کا ہے آپ کو تمام مخلوق پر برتری ہے سیدنا علیؓ پر اعتراض کرنے والا خدا اور رسولﷺ پر اعتراض کرنے والا ہے کسی چھوٹی بڑی بات کو آپ پر رد کر نے والا اللہ کے ساتھ گویا شرک کرتا ہے امیر المومنینؓ ہی وہ دروازہ ہیں جس کے ذریعے اللہ تک پہنچا جاتا ہے اور وہ راستہ ہیں جو اس کے خلاف چلے گا ہلاک ہو گا اسی طرح یکے بعد دیگرے ائمہ ہدایت کی شان ہے۔

15: حق صرف ائمہ کے پاس ہے:

کافی: صفحہ، 399 میں ایک باب یہ ہے"کہ سب لوگوں کے پاس کچھ بھی حق نہیں ہے بجز اس کے جو ائمہ سے نکلے اور جو چیز ان سے نہ نکلے وہ باطل ہے اس میں سیدنا باقرؒ کی کئی احادیث ہیں۔

ظاہر ہے کہ اس سے قرآنِ پاک بھی باطل ٹھہرا کیونکہ بالاتفاق وہ ان ائمہ سے نہیں نکلا نہ وہ اس کے راوی ہیں نہ جامع و ناقل بقول شیعہ ان کا قرآن تاہنوز لوگوں کے پاس آیا ہی نہیں وہ امام مہدی صاحب الغار کے پاس ہے تمام سننِ محمدیہﷺ اور احادیثِ نبویہﷺ یہ بھی باطل ہوئیں کیونکہ ان کو براہِ راست حضورﷺ سے نقل و روایت کرنے کا حق صرف سیدنا علیؓ و سیدنا حسینؓ کو تھا کیونکہ یہی زیارت و صحبتِ نبویﷺ سے مشرف ہوئے تھے مگر تمام شیعہ لٹریچر گواہ ہے کہ ان بزرگوں نے حضور کے ارشادات بہت ہی کم دو چار فیصد ہی نقل کیے باقی سب ارشاداتِ نبوی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ہی نقل کیے عند الشیعہ سیدنا باقرؒ و سیدنا جعفرؒ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے بمشکل پانچ فیصد ہی اس کی نسبت حضورﷺ کی طرف ہے ان کی روایات کا مصدر و منبع غالباً وہی جفر جامعہ صحیفہ مصحفِ فاطمہؓ اور 12 طلائی مہروں والے صحیفے ہیں جو خود ساختہ اور وہمی ہیں کتاب اللہ اور سنتِ نبوی سے ان کو ذرا بھی تعلق نہیں۔

لہٰذا آپ تابعی ہیں تابعی کی مرسل روایات مطلقاً حجت نہیں خصوصاََ حب کہ آپ سے روایت کرنے والے اصحابِ شیعہ علم جرح و تعدیل کی روشنی میں نہایت مجروح بلکہ کذاب و ملحد ہیں تو ان پر کیا اعتماد کیا جائے الغرض اس اصول سے تمام شریعت کا صفایا ہو جاتا ہے۔

16: ائمہ کا منکر و مخالف بھی کافر و مرتد ہے:

حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 684 پر حضورﷺ نے فرمایا:

یا علیؓ ہر کہ منکر امامت تست بعد از من چنان است که انکار رسالت من کرده باشد در حیات من۔

ترجمہ: اے علیؓ میرے بعد جو تیری امامت کا منکر ہے یعنی خلیفہ بلا فصل نہیں مانتا وہ میری زندگی میں میری رسالت کے منکر کی طرح کافر ہے۔

نیز اسی کتاب میں جلد، 2 صفحہ، 623 پر یہ فتویٰ بھی موجود ہے:

وہ مہاجرین و انصار جو بیعتِ علیؓ کرنے سے مرتد ہو گئے اور امیر المؤمنین کی خلاف ورزی کی اور اس کے دشمنوں سیدنا ابوبکرؓ وغیرہ کی مدد کی وہ تمام کفار سے بدتر ہیں۔ (العیاذ بالله)

نیز ملا باقر علی مجلسی نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ جو سیدنا علیؓ کو حسبِ عقاید شیعہ پہچانے وہ مؤمن ہے اور جو انکار کرے وہ کافر ہے جو کوئی دوسرے کو آپ کی بیعت میں شریک کرے وہ مشرک ہے۔ 

(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 542)

17: ائمہ سب انبیاء کرام علیہم السلام سے بھی افضل ہیں:

ملا باقر علی مجلسی لکھتے ہیں:

اکثر علماء شیعہ را اعتقاد دانست که حضرت امیر و سائر آئمہ افضلند از سائر پیغمبران و حدیث مستقیضه بلکه متوانید از آئمہ خود دریں باب روایت کردو اند (حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 526)

ترجمہ: اکثر علماء شیعہ کا یہ اعتقاد ہے کہ حضرت امیر اور سب ائمہ افضل ہیں اور سارے انبیاء کرام علیہم السلام سے اور اپنے ائمہ سے اس پر مشہور بلکہ متواتر احادیث روایت کرتے ہیں۔

عصرِ حاضر کے شیعی حجتہ الاسلام سید محمد کاظم شریعت مدار نہج البلاغہ مترجم کے دیباچہ صفحہ، 4 جنرل بک ایجنسی لاہور پر لکھتے ہیں:

الفرض بعد از کلامِ ربانی سعادت علم و دانش کا سر چشمہ ہے اگر ہے تو خطباتِ علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ علیہ کیوں نہ ہو؟ ہمارے لیے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی ذات والا صفات سرمایہ حیات ہے۔ جو منصوص من اللہ ہے۔

معلوم ہوا کہ شیعہ کے ہاں قرآن کے بعد ارشاداتِ رسولﷺ کی کوئی حیثیت نہیں صرف خطباتِ علیؓ ہی سر چشمہ علم و دانش ہے۔

قارئین کرام بخوفِ طوالت یہ سلسلہ میں ختم کرتا ہوں آپ کو یقین ہوچکا ہوگا کہ شیعہ دراصل ختمِ نبوت کے منکر اور امامت کے پردہ میں اپنے بزرگوں کو نبی مانتے ہیں آخر جب وہ مرسل من الله حجة الله آخری مرجع مفترض الطاعتہ شجرہ نبوت مہبطِ ملائکہ اللہ کی زبان اور دروازہ ہیں تمام پیغمبروں کا علم رکھتے ہیں مرتبہ میں ان سے افضل ہیں مستقل آسمانی کتب اور وحی و الہام کے مالک ہیں شریعت الہٰی اور احکامِ خداوندی کا واحد مصدر منبع اور خزانہ ہیں حلال و حرام میں خود مختار میں معصوم ہیں بعد از قرآن صرف ان کا کلام ہی علم و دانش کا سر چشمہ ہے اور ان سے اختلاف رکھنے والا بھی کافر و مرتد ہے ان اوصاف کے باوجود وہ کیسے نبی نہیں ہیں آخر نبوت و رسالت کس عہدہ یا وصف کا نام ہے جس سے حضورﷺ سرفراز ہیں مگر ائمہ محروم ہیں خدارا کوئی شیعہ مجتہد و فاضل اس نکتہ کو حل کر دے امامی عقیدہ کے موجدین اور صاحبِ کافی کو انکارِ نبوت کا یہ الزام صریح نظر آرہا تھا ان ابواب کے بعد فوراً یہ باب باندھا کہ ائمہ گزشتہ پیغمبروں جیسے ہیں مگر ان کو نبی کہنا مکروہ ہے پھر یہ حدیث سیدنا جعفرؒ سے نقل کی کہ حلال و حرام پر اطلاع تو ہم سے حاصل ہوگی مگر نبوت ہم میں نہیں نیز یہ فرمان بھی کہ ائمہ رسول اللہ کے مرتبہ منصب پر ہیں مگر وہ پیغمبر نہیں ہیں اور ان کو اتنی بیویاں جائز نہ تھیں جو نبیﷺ کو جائز تھیں اس کے علاوہ وہ تمام باتوں میں رسول اللہﷺ کے بمنزلہ تھے۔ (صفحہ، 270)

اللہ اللہ! کس قدر وضاحت کے ساتھ ختمِ نبوت کا انکار اور اپنی نبوت کا اعترات ہے چار سے زائد ازواج کا امام کے لیے حلال نہ ہونے کا عذر لنگ بھی کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی کا ایک بہانہ ہے ورنہ یہ بات نبوت کی حقیقت یا لوازم میں سے نہیں بلکہ آپﷺ کے خصائص میں سے ہے۔

شیعہ در باطن ائمہ کو نبی مانتے ہیں:

خود مستند علماء شیعہ نے ائمہ کو در پردہ صراحتاً پیغمبر نبی تسلیم کیا ہے ملا باقر علی مجلسی لکھتے ہیں:

1: مرتبه امامت نظیر مرتبہ نبوت و مثل آنست بلکه چنانچه نبوت رسالتے است از جانب خدا بوساطت ملک امامت نیز فی الحقیقت نبوتے است بوساطت نبی۔

ترجمہ: امامت کا مرتبہ نبوت کا مقابل ہے اور اس کی مثل ہے بلکہ جیسے خدا کی جانب سے بواسطہ فرشتہ پیغمبری ہے امامت بھی فی الحقیقة بواسطہ نبی ایک نبوت ہے۔

(حیات القلوب: جلد، 3 صفحہ، 81)

2: بالضرورت نص تعیین امام را که فی الحقيقت نبوتے است بحسب معنیٰ البته باحتیارِ امت نخواهد بود۔ 

(حیات القلوب: جلد، 3 صفحہ، 23)

ترجمہ:یقیناََ امام کا مقرر کرنا کہ در حقیقت بحسب معنیٰ یہ ایک نبوت ہے امت کے اختیار میں نہ ہو گا۔

3: منصبِ امامت نظیرِ نبوت است زیرا که هر دو ریاستے عام است برہمہ مکلفین در جمیع امور دنیا۔ 

(حیات القلوب: جلد، 3 صفحہ، 23 بحوالہ مقدمہ حدیثِ ثقلین: صفحہ، 12)

ترجمہ: امامت کا منصب نبوت کی نظیر و مثل ہے کیونکہ دونوں میں تمام مکلفین پر تمام دنیا کے امور میں سرداری و حکومت ہوتی ہے۔

علامہ طوسی شیخ الطائفہ تہذیب الاحکام کتاب المزار: صفحہ، 33 پر رقم طراز ہیں:

هم مختلف الملائكه ومهبط الوحی

ترجمہ: کے وہ فرشتوں کے آنے جانے کا مقام اور وحی کے اترنے کی جگہ ہیں۔

ملاحسن الملقب بملا فيض منهاج النجات: صفحہ، 280 ایران میں لکھتے ہیں:

كل ما شرط فى النبی من الصفات فهو شرط فی الامام ما خلا النبوة قال الصادق عليه السلام كل ما كان لرسول الله قلنا مثله الا النبوة و الزواج.

ترجمہ: جو صفات نبی میں شرط ہیں وہی امام میں شرط ہیں سوائے نبوت کے سیدنا صادقؒ نے فرمایا جو منصب رسول اللہ کا تھا اسی کا ہم نے دعویٰ کیا سوائے نبوت اور نکاح کے۔

الغرض شیعہ کی ایسی تصریحات کی کمی نہیں جن میں لفظاً ائمہ کی نبوت کے انکار و اعتراف میں اختلاف ہے مگر باطناً بالاتفاق نبوت کا اعتراف اور ختمِ نبوت کا انکار ہے آخر شیعہ کا 9/10 حصے اصول تقیہ اس فریب دہی میں کام دے گا تو کہاں دے گا۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ ایسے الحاد کے متعلق لکھتے ہیں:

او قال ان النبی خاتم النبوة ولكن معنىٰ هذا الكلام انه لا يجوز ان يسمى بعده احد بالنبی واما معنىٰ النبوة وهو كون الانسان مبعوثا من الله تعالیٰ إلى الخلق مفترض الطاعة معصوما من الذنوب ومن البقاء على الخطاء فهو موجود فی الأئمة بعده فذلك هو الزنديق۔ (والمسوى شرح موطا: جلد، 2 صفحہ، 110 دہلی)

ترجمہ: یا کوئی یہ ہے کہ پیغمبر خاتمِ نبوت ہیں لیکن اس کا معنیٰ یہ ہے کہ آپ کے بعد کسی کو نبی نہ کہا جائے لیکن نبوت کا معنیٰ یعنی ایک انسان کا منجانب اللہ مخلوق کی طرف مبعوث ہونا اور واجب الاطاعت گناہوں سے معصوم اور بقاء علی الحظاء سے محفوظ ہونا آپ کے بعد ائمہ میں موجود تھا تو ایسا شخص زندیق ہے۔

نیز تفہیمات الہیہ: صفحہ، 244 میں بھی عقیدہ امامت کو ختمِ نبوت کے منافی بتاتے ہیں۔

اما با صطلاح ایشان مفترض الطاعة منصوب المخلق است و وحی باطنی در حق امام تجویز میکند در حقیقت ختم نبوت را منکر اند گو بزبان آنحضرت ﷺ را خاتم الانبیا مے گفته باشند.

ترجمہ: لیکن ان شیعہ کی اصطلاح میں وہ امام مفترض الطاعت مخلوق کے لیے مقرر کیا ہوا ہے اور وحی باطنی امام کے لیے جائز کہتے ہیں پس یہ در حقیقت ختمِ نبوت کے منکر ہیں اگرچہ زبان سے آنحضرتﷺ کوخاتم الانبیاء کہتے ہوں۔

حضرت شاہ صاحبؒ کے یہ دو حوالے مقصد بالا کی وضاحت اور ہمارے استدلال کے مؤید ہونے کے علاؤہ ان سادہ لوح علماء و عوام اہلِ سنت کے لیے بھی سرمئہ بصیرت ہیں جو شیعی لٹریچر اور ان کے عقائد سے یکسر غافل ہیں ان کو اپنے جیسا مسلمان اور ختمِ نبوت کا قائل جانتے ہیں، اور مرزائیوں کے متعلق ان کے سیاست باز لیڈروں کے بیانات سے دھوکہ میں آجاتے ہیں حالانکہ ظاہر سانپ سے یہ مارِ آستیں زیادہ موذی اور خطرناک ہیں۔

شیعہ ائمہ کے دعاوی اور مرزا قادیانی کے دعاوی کا سرسری معائنہ:

ہم بزرگانِ اہلِ بیتؓ کو مذکورہ بالا تمام دعاوی سے مبرا اور انہیں تقیہ باز مفسدِ دین گروہ کا کرشمہ قرار دیتے ہیں مگر واضح ہونا چاہیئے کہ دجل و تلبیس اور اخفاء و اسرار میں اہلِ باطل یکساں اصول سے اپنی تحریکیں چلاتے ہیں شیعہ حضرات نے تعلیماتِ نبوی اور قرآن سے گلو خلاصی کے لیے جہاں قرآنِ پاک کی صحت و سالمیت کا انکار کیا آپ کے تمام شاگردوں کو مرتد اور منافق کہا نبوت کے انکار کے لیے "عقیدہ امامت" کو آڑ بنایا چونکہ یہ عقیدہ پورے اسلام کی بیخ کنی کرتا تھا اور اسے آشکار کرنا انتہائی خطر ناک تھا لہٰذا عقیدہ تقیہ کو ایجاد کیا اور تمام مذہب کے 9/10 حصے اس کے حوالے کیے جیسے سیدنا جعفر صادقؒ نے فرمایا:

ان تسعة اعشار الدين فی التقية ولا دين لمن لا تقية له۔ (باب الفقیہ: جلد، 2 صفحہ، 217 من الکافی)

ترجمہ: بلا شبہ دین کے 9 حصے تقیہ یعنی مذہب کو چھپانے اور جھوٹ بولنے میں ہیں جو تقیہ نہیں کرتا وہ بے دین ہے۔

یعنی مذہبِ شیعہ کا صرف دسواں حصہ ظاہر و باطن میں یکساں ہے گو وہ بھی قرآن و سنت کے مخالف ہو ورنہ 9/10 حصے ظاہر و باطن میں مخالف ہیں شیعہ جو ظاہر کریں گے وہ مراد نہ ہوگی بلکہ اس کے خلاف ہوگی اور جو باطن مراد ہوگی اسے لفظوں میں کبھی ظاہر نہ کریں گے اس کے خلاف کہیں گے تمام عقلاء اسے جھوٹ ہی کہتے ہیں عقیدہ امامت بھی زیرِ زمین تحریک سے پیدا ہوا چنانچہ سیدنا باقرؒ فرماتے ہیں:

ولاية الله اسرها الى جبرئيل عليه السلام واسرها جبرئيل إلى محمدﷺ واسرها محمدﷺ الى علیؓ واسرها علیؓ الى من شاء الله ثم انتم تذيعون ذلك الى ان قال ولا تذیعوا حدیثنا۔

ترجمہ: اللہ نے حضرت علیؓ کو امام بنانا بطورِ راز جبرئیل علیہ السلام کو بتایا حضرت جبرئیل علیہ السلام نے یہ راز حضورﷺ کو بتایا حضرت محمدﷺ نے یہ راز سیدنا علیؓ کو بتایا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے یہ راز مشیتِ خداوندی سے کسی کو بتایا اب وہ آشکارا ہوگا تم اس کو مشہور کرتے ہو۔

(اصول کافی: صفحہ، 225)

سبحان اللہ عقیدہ امامت کیا ہی راز تھا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام و پیغمبرﷺ و سیدنا علیؓ کو معلوم ہوا اور باقی فرشتے انبیاء علیہم السلام اور حضرت فاطمہؓ حضرت حسنینؓ بھی اس سے محروم رہے پھر قرآن میں یہ کیسے ذکر ہو سکتا تھا یہ راز سر بستہ خاندانِ نبوت کے لوگوں کو بھی معلوم نہ تھا۔ اصولِ کافی: صفحہ، 100 میں ایک لمبی حدیث ہے کہ سیدنا زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے حضرت زید شہید کے سامنے احول نامی شخص نے مسئلہ امامت بیان کیا تو آپ نے فرمایا میرے باپ مجھے ایک دستر خوان پرکھانا کھلاتے لقمے ٹھنڈے کر کے دیتے تا کہ میرا منہ نہ جلے گرم روٹی سے تو مجھے بچایا مگر جہنم کی آگ سے بچانے کی کوئی فکر نہ کی کہ تجھے مسئلہ امامت بتایا اور مجھے نہ بتایا؟

ایک حدیث میں امام نے فرمایا تقیہ میرا دین ہے اور میرے باپ دادا کا مذہب ہے جو تقیہ نہ کرے وہ لامذہب کافر ہے ہماری امامت کو ظاہر کرنے والا منکر امامت کی طرح ہے۔ 

(باب الکتمان: صفحہ، 224)

ہم ان روایات سے اس مسئلہ کے درپے نہیں ہیں کہ آج شیعہ اپنے ائمہ کے ارشادات کی کھلی مخالفت کر کے علی الاعلان یا کسی نہ کسی رنگ میں جو امامت کے عقیدہ کو ظاہر کرتے ہیں وہ اپنے ائمہ کے فتویٰ کی رو سے کھلے بے دین اور امامت کے منکر ہیں مقصد یہ ہے کہ جیسے شیعہ نے تقیہ کی آڑ میں رفتہ رفتہ الحاد پھیلایا اور حسبِ اعتراف مجلسی امامت بواسطہ نبی نبوت ہے کا فتنہ نکالا اسی طرح مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی رفتہ رفتہ دعاوی کیے اور نبوت کی سیٹ تک بایں دلیل تک جا پہنچے کہ خاتم الانبیاء کی مہر سے ایک شخص مثلِ نبی اور بروزی نبی بن سکتا ہے ایک چراغ سے دوسرا چراغ جلایا جا سکتا ہے۔ (ملاحظہ ہو ملفوضاتِ مرزا: جلد، 5)

دعویٰ نبوت:

ائمہ شیعہ کی طرح مرزا کے کلام میں اس قدر تضاد ہے کہ لاہوری گروہ کو نبی کے بجائے مجدد ماننا پڑا ایک طرف یہ کہتا ہے وہ مسیح موعود جو آخری زمانہ کا مجدد ہے وہ میں ہی ہوں۔

(حقیقۃ الوحی: صفحہ، 194)

دوسری طرف یہ کہتا ہے: 

آدمم نیز احمد مختار در برم جامئہ ہمه ابرار

آنچه داد است ہرنبی را جام داد آن جام را بتمام۔ 

(نزول المسیح: صفحہ، 99)

 منم مسیح زمان و منم کلیم خدا منم محمد احمد مجتبیٰ باشد۔

(تریاق القلوب: صفحہ، 3) 

ترجمہ: جو شخص مجھ میں اور نبی مصطفیٰﷺ میں فرق کرتا ہے اس نے مجھے نہیں جانا اور نہیں پہچانا۔ (خطبہ الہامیہ: صفحہ، 171)

محدثیت کا دعویٰ:

 جیسے شیعہ ائمہ نے محدث ہونے کا دعویٰ کیا اس طرح مرزا نے بھی کیا: اس عاجز کے رسالہ فتح الاسلام، توضیح المرام، ازالہ اوھام، میں جس قدر ایسے الفاظ ہیں کہ محدث ایک معنیٰ میں نبی ہوتا ہے یا یہ کہ محدثیت جزوی نبوت ہے یا یہ کر محدثیت نبوتِ ناقصہ ہے یہ تمام الفاظ حقیقی معنوں پر محمول نہیں صرف سادگی سے ان کے لغوی معنوں سے بیان کیے گئے ہیں مجھے حقیقی نبوت کا ہرگز دعویٰ نہیں۔

(حقيقة النبوة: صفحہ، 91 از میاں محمود احمد)

بباطن نبوت کا اعتراف:

 پھر شیعہ علماء کی طرح بباطنِ نبوت کا اقرار بھی ہے ان بروزی و ظلی معنوں کی رو سے مجھے نبوت اور رسالت سے انکار نہیں اس لحاظ سے صحیح مسلم میں بھی مسیح موعود کا نام نبی رکھا ہے اگر خدا تعالیٰ سے غیب کی خبریں پانے والا نبی کا نام نہیں رکھتا تو پھر بتلاؤ کس نام سے اس کو پکارا جائے۔ 

(اشتہار ایک غلطی کا ازالہ: صفحہ، 3)

شیعہ ائمہ کی طرح تشریع سازی اور تحریم و تحلیل بھی کی۔ رسالہ الاربعین: صفحہ، 774 میں لکھتا ہے: 

یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے جس نے اپنی وحی کے ذریعے سے چند امر اور نہی بیان کیے اور اپنی امت کے لیے ایک قانون مقرر کیا وہی صاحب الشریعہ ہوگیا پس اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہیں اور نہی بھی۔

منکر جہنمی ہیں:

 ائمہ شیعہ کی طرح مرزا اپنے منکروں کو کافر اور جہنمی کہتا ہے:

1: ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے۔

 (حقیقۃ الوحی: صفحہ، 163)

2: اے مرزا جو شخص تیری پیروی نہ کرے گا اور بیعت میں داخل نہ ہوگا وہ خدا اور رسولﷺ کی نافرمانی کرنے والا اور جہنمی ہے۔ 

(رسالہ معیار الاخیار: صفحہ، 8)

لفظی ختم نبوت کا اقرار:

ائمہ شیعہ کی طرح لفظی نبوت کا قائل تھا نہ مجھے دعویٰ نبوت آنحضرتﷺ کے خاتم النبین ہونے کا قائل اور یقین کامل سے جانتا ہوں اور محکم ایمان رکھتا ہوں کہ ہمارے نبیﷺ خاتم الانبیاء ہیں آپﷺ کے بعد اس امت کے لیے کوئی نبی نہیں آئے گا ہاں محدث آئیں گے جو اللہ سے ہی ہم کلام ہوتے ہیں اور نبوتِ تامہ کے بعض صفات ظلی طور ر اپنے اندر رکھتے ہیں بلحاظ بعض وجوہ شانِ نبوت کے رنگ سے رنگین کیے جاتے ہیں ان میں سے ایک میں ہوں۔ 

(شہادۃ المسلمین: صفحہ، 28)

مسلمانوں سے قطع تعلق:

مرزا کہتا ہے تمہیں دوسرے فرقوں کو جو دعویٰ اسلام کرتے ہیں بکلی ترک کرنا پڑے گا۔

(حاشیہ تحفہ گولڑویہ: صفحہ، 27)

  غیر احمدیوں سے دینی امور میں الگ رہو۔

(نہج المصلیٰ: صفحہ، 382)

میں تم کو بتاکید منع کرتا ہوں کہ غیر احمدی کے پیچھے نماز نہ پڑھو۔

(الحکم فروری: صفحہ، 3، 19)

شیعہ:

شیعہ بھی کہتے ہیں تمام مسلمانوں سے ان کا الگ خاص مذہب ہے کلمہ نماز روزہ حج تمام دینی امور میں ان کے طریقے اور مسائل الگ تھلگ ہیں متن قرآن تفسیر حدیث فقہ اصولِ عقائد اعمال غرض ہر شعبہ میں لٹریچر بھی الگ ہے وہ کسی عام مسلمان سے نہ قرآن و سنت سکھتے ہیں ان کے پیچھے نہ نماز پڑھتے ہیں ملتِ قادیانیہ کی طرح ملتِ شیعہ علی کہلاتے ہیں امتِ محمدیہ کہلانے پر کبھی فخر نہیں کرتے۔

معاملات میں قطع تعلق:

قادیانی کسی مسلمان کو رشتہ نہیں دیتے نہ ان کا جنازہ پڑھتے ہیں۔

(دیکھیئے انوار خلافت: صفحہ، 92، 94 )

شیعہ بھی مسلمانوں سے رشتہ ناطہ نہیں کرتے نہ ان کا جنازہ پڑھنا جائز سمجھتے ہیں اگر کوئی تقیہ کر کے سنی کا جنازہ پڑھے تو یہ دعا کرتا ہے اے اللہ اس کی قبر کو آگ سے بھر دے۔

کلمہ میں علیحدگی:

شیعہ صدیوں سے اپنا کلمہ الگ پڑھتے ہیں علی ولی اللہ وصی رسول اللہ و خلیفتہ بلا فصل مگر قادیانیوں نے 74ء میں نائجیریا میں ایک معبد پر یہ کلمہ لکھا: لا الہ الا الله احمد رسول الله

(بحوالہ چٹان: 10 دسمبر 1974 )

تمام مسلمان کنجریوں کی اولاد ہیں:

مرزا کہتا ہے ہر مسلمان مجھے مانتا ہے اور میری دعوت قبول کرتا ہے الاذريتة البغايا مگر کنجریوں کی اولاد نہیں مانتی۔ (آئینہ کمالات اسلام ) 

شیعہ کے امام جعفر صادقؒ بھی فرماتے ہیں:

والله يا ابا حمزة ان الناس كلهم اولاد البغايا ما خلا شيعتنا۔

اے ابو حمزہ خدا کی قسم سب لوگ کنجریوں کی اولاد ہیں سوائے ہمارے شیعہ کے۔ (روضہ کافی)

تمام مسلمان سور خنزیر اور لعنتی ہیں:

مرزا کا یہ شعر مشہور ہے ۔

ان العدى صاروالخنازير الفلا ونساءهم من دونھن الاكلب۔

ترجمہ: میرے دشمن جنگلوں کے سور ہیں اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ کر ہیں۔

(نجم الہدیٰ: صفحہ، 10)

 شیعہ کے امام صادقؒ امتِ محمدیہ غیر شیعہ کے متعلق فرماتے ہیں:

هذه الامة اشباه الخنازير وفیہ فما ھذہ الامہ الملعونہ۔

ترجمہ: يہ امت خنزیروں جیسی ہے اور اسی باب میں ہےکہ یہ کیسی ملعون امت ہے۔

(اصولِ کافی: جلد، 3 صفحہ، 33)

تمام مخالفین مسلمانوں کو قتل کرنے کے منصوبے:

خلیفہ قادیان کہتا ہے اب زمانہ بدل گیا ہے دیکھو

پہلے جو مسیح آیا تھا اسے دشمنوں نے صلیب پر چڑہایا مگر اب میں اس لیے آیا کہ اپنے مخالفین کو موت کے گھاٹ اتار دے۔

(عرفانِ الہٰی صفحہ، 94)

شیعہ کا یہ قطعی عقیدہ ہے کہ حق تعالیٰ نے حضورﷺ کو رحمت کے لیے بھیجا ہے مگر قائم آلِ محمد مہدی کو عذاب کے لیے بھیجا۔

(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 611) 

چنانچہ آپ 313 مؤمنوں ل کو ساتھ لے کر تمام امتِ محمدیہﷺ سے جنگ کریں گے اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا انتقام لیں گے یعنی کہ روضہ محمدیہ کو گرا کر (العیاذ باللہ) شیخینؓ کی لاشوں کو باہر نکالیں گے اور انتقام لیں گے (اصولِ کافی) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو بھی قبر سے نکال کر حد لگائیں گے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا بدلہ لیں گے۔

(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 611)

انبیاء علیہم السلام اور بزرگان دین کی توہین:

مرزا نے حضرت عیسٰی علیہ اسلام سے لے کر حضرت حسینؓ تک کی توہین کی ہے میسح علیہ السلام کا چال چلن کیا تھا ایک کھاؤ پیو شرابی نہ زاہد نہ عابد نہ حق کا پرستار متکبر حودبین خدائی کا دعویٰ کرنے والا۔

 (مکتوبات احمدیہ: صفحہ، 277)

او شیعو !تم مردہ حسینؓ کا ماتم کیوں کرتے ہو تم میں ایک زندہ حسین (مرزا) موجودہے۔

صد حسینم در گریبانم۔ (العیاذ بالله)

شیعی احادیث میں یہ بہت طویل اندوہناک موضوع ہے مختصر یہ کہ پنج تن مزعومہ بارہ آئمہ اور ان کو شرکاء فی النبوة و اجزائے محمدﷺ ماننے والے شیعہ کے سوا امت کا ایک فرد بھی نہیں جس پر خصوصاً یا عموماً لعنت اور تبرانہ کیا گیا ہو چنانچہ سیدنا ابوبکرؓ، سیدنا عمرؓ، سیدنا عثمانؓ، سیدنا طلحہؓ، سیدنا زبیرؓ، جملہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین امہات المؤمنين رضوان اللہ خصوصاً حضرت عائشہؓ و حضرت حفصہؓ بناتِ رسولﷺ بصورتِ انکار و طعن در نسب دامادگانِ رسولﷺ آپ کے چچے خالو جان چچازاد و پھوپھی زاد برادرانِ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین واہل بیتؓ کو نام بنام یا عموماً لعنتیں کی گئی ہیں یا ان کو ماننے والی تمام امت کو کافر ملعون اور دوزخی کہا گیا ہے یعنی کہ سیدنا عمارؓ سیدنا ابوذرؓ سیدنا حذیفہؓ سیدنا سلمان فارسیؓ اور سیدنا مقدادؓ کے ایمان میں بھی کیڑے نکالے گئے ہیں جن کے متعلق ضخیم کتاب تیار ہوسکتی ہے یہاں صرف ابو الانس والانبیاء حضرت آدم علیہ السلام کی توہین کا حوالہ کافی ہے:

اصول الكفر ثلاثة الحرص والاستكبار والحسد فاما الحرص فان آدم عليه السلام حين نهى عن الشجرة حمله الحرص على ان اكل منها۔

(اصولِ کافی: جلد، 2 صفحہ، 289)

ترجمہ: کفر کے تین اصول ہیں لالچ تکبر اور حسد لالچ تو حضرت آدم علیہ السلام نے کیا جب درخت سے روکے گئے تو لالچ نے ان کو کھانے پر آمادہ کیا اور کفر کر بیٹھے۔

مکہ و مدینہ کی توہین:

مرزا محمود حقیقہ الرؤيا: صفحہ، 46 پر لکھتا ہے:

 قادیان تمام بستیوں کی ماں ہے پس جو قادیان سے تعلق نہیں رکھے گا وہ کانٹا جائے گا تم ڈرو کہ تم میں سے کوئی کاٹا نہ جائے پھر یہ تازہ دودھ کب تک رہے گا آخر ماؤں کا دودھ بھی سوکھ جایا کرتا ہے یا مکہ اور مدینہ کی چھاتیوں سے یہ دودھ سوکھ گیا کہ نہیں مکہ اور مدینہ کی توہین اور اہلِ مکہ کے کافر خدا کے کھلے منکر اور رومی عیسائیوں سے بدتر و پلید ہونے پر امام جعفر صادقؒ کی شہادات اصولِ کافی: جلد، 2 صفحہ، 409 پر مفصل گزر چکی ہیں سماعت کر لی جائے۔ 

مکہ کے سوا دوسری جگہ کا حج:

خلیفہ قادیان لکھتا ہے ہمارا سالانہ جلسہ ایک قسم کا حج ہے خدا نے قادیان کو اس کام حج کے لیے مقرر کیا ہے۔(برکاتِ خلافت: صفحہ، 5)

 شیعہ کی مرفوع حدیث ہے کہ جو شخص حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی زیارت کو جائے ایسا ہے جیسے حج کرنے گیا ہو اور عمرہ بجالایا ہو ابن قولویہ نے معتبر سند کے ساتھ سیدنا صادقؓ سے روایت کی ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ جو شخص شہادتِ حسینؓ کے بعد آپ کی قبر کی زیارت کرے حق تعالیٰ میرے ایک حج کا ثواب اس کے لیے لکھیں گے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے تعجب کیا تو فرمایا ایک دو چار نہیں بلکہ میرے 90 حجوں کا ثواب ملے گا۔

(جلاء العیون: صفحہ، 327)

نیز فروعِ کافی: جلد، 2 صفحہ، 580 پر ہے کہ جو غیر عید کے دن حضرت حسینؓ کا حق پہچان کر زیارت کرنے آئے اس کو 20 حج مبرور 20 عمرہ مقبول اور 20 نبی مرسل کے ہمراہ حج کرنے کا ثواب ملے گا۔

نوٹ: عشرہ محرم میں تعزیوں کی ساخت اور گلی گلی پھرانا ان نبوی 90 حجوں کے ثواب کمانے کا سستا طریقہ ہے۔

قارئین کرام! مسئلہ امامت کی حقیقت اور اس کے مضمرات میں جاکر ہم نے تفصیل اس لیے کی کہ شیعہ اسی مایہ ناز مسئلہ سے عوام کو گمراہ کرتے اور مسلمانوں کو خارج از ایمان قرار دیتے ہیں مگر اس کا حاصل ختمِ نبوت سے انکار مسلمانوں سے علیٰحدگی کے سوا کچھ نہیں جیسے آپ قادیانیت کے ساتھ موازنہ سے معلوم کر چکے ہیں شیعہ چونکہ قادیانیوں سے زیادہ پر مکر اور ہوشیار ہیں اور تقیہ کی آڑ میں بالکل سیدھے مسلمان بن جاتے ہیں اس لیے انکارِ ختمِ نبوت کی وجہ سے تکفیر سے اپنا بچاؤ کر لیتے ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ کی خاص نصرت سے مسلمانان پاکستان کو 7 ستمبر 1974 کا جو مبارک دن نصیب ہوا اور قادیانیوں کو قومی اسمبلی نے بالاتفاق کافر قرار دے کر آئین میں جو نئی دفعہ شامل کی وہ امامت کے متعلق ایسا غالی عقیدہ رکھنے والوں کو بھی شامل ہے ہم فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں سابقہ سترہ عنوانات متعلقہ امامت کو اس پر جانچ لیں۔

آئین پاکستان کے آرٹیکل 260 میں دفعہ 2 اس کے بعد نئی دفعہ یہ ہے: جو شخص حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے خاتم النبین ہونے پر مکمل اور غیر مشروط طور پر ایمان نہ رکھتا ہو یا حضرت محمدﷺ کے بعد الفاظ کے کسی بھی مفہوم یا اظہار کی صورت میں نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہو یا اسی قسم کے دعویدار کو نبی یا مصلح مانتا ہو وہ آئین یا قانون کے مقاصد کے تحت مسلمان نہیں اور تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295 میں یہ تشریح بھی شامل کر دی گئی ہے کہ جو شخص حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے خاتم النبین ہونے کے تصور کے خلاف عقیدہ رکھے عمل کرے یا پرچار کرے اسے اس دفعہ کے تحت سزا دی جا سکے گی۔

(نوائے وقت راولپنڈی: 8 ستمبر 1974ء)

شیعہ کے ائمہ مراد نہ ہونے پر دوسری دلیل:

 سابقہ تفصیل سے علوم ہو چکا کہ حدیث زیرِ بحث میں شیعہ کے مزعومہ 12 بزرگ مراد نہیں ہوسکتے کیونکہ ان کی امامت نبوت سے بھی افضل ہے اور انہیں ماننے پر ختمِ نبوت کا انکار ہے۔

اب ہم یہ واضح کرتے ہیں کہ حدیث میں عزتِ اسلام اور اس کے غلبہ کی جو پیشینگوئی ہے وہ بالاتفاق ان بزرگوں کے زیرِ خلافت پوری نہیں ہوئی کیونکہ حضرت علی المرتضیٰؓ کے سوا باقی 11 حضرات کو منصب خلافت و امامت عطا ہی نہیں ہوا جو حدیث ہذا میں مذکور ہے مثلاً صحیح بخاری: جلد، 2 صفحہ، 1072 پر ہے یکون اثناء عشر امیرا۔ اسی طرح جامع ترمذی: جلد، 2 صفحہ، 113 پر ہے يكون من بعدی اثناء عشر امیرا کہ میرے بعد 12 امیر و حاکم ہوں گے خلافت معہودہ کے لیے بالاتفاق حکومت اور رعایا پر حکمرانی شرط ہے چنانچہ شیعہ کی اصول کافی: جلد، 1 صفحہ، 404 پر یہ باب ہے:

باب ما يجب من حق الامام على الرعية وحق الرعية على الامام۔

ترجمہ: يعنی رعایا پر خلیفہ کے اور خلیفہ پر رعایا کے حقوق۔

اس میں یہ حدیث ہے کہ سیدنا باقرؒ سے پوچھا گیا کہ لوگوں کا امام پر کیا حق ہے؟

قال يقسم بينهم بالسوية ويعدل فی الرعیہ۔

ترجمہ: کہ انصاف سے لوگوں میں مال تقسیم کرے اور رعایا میں عدل برقرار رکھے۔

سیدنا باقرؒ سے ایک دوسری مرفوع حدیث میں ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا امامت اس آدمی کی ہی درست ہو سکتی ہے جس میں یہ تین خصلتیں ہوں جسے تقویٰ گناہوں سے روکے جس کا علم و حوصلہ غصے پر غالب ہو جو اپنے ماتحتوں پر اچھی حکومت کرے۔

حتىٰ يكون كالوالد الرحيم وفي رواية اخرى يكون الرعية كاباب الرحيم۔

ترجمہ: یہاں تک کہ مہربان والد کی طرح ہو اور دوسری روایت میں ہے کہ رعیت کے لیے مہربان باپ کی طرح ہو۔

اسی طرح ایک باب کا عنوان ہے باب ان الارض كلها للامام سب زمین پر حکومت امام کا حق ہے اور اس میں یہ ہے کہ"جو مسلمان بنجر زمین آباد کرے اس کا خراج امام اہلِ بیت کو ادا کرے۔

ان تمام روایتوں سے معلوم ہوا کہ خلیفہ کے لیے ظاہری حکومت رعایا کے لیے فیصلے کرنا اور ان کے معاملات میں تصرف کرنا خراج لینا اور مال تقسیم کرنا شرط ہے اور مرفوع حدیث نے تو شیعہ کی منصوص امامت کا بھی ابطال کر دیا ہے کہ ارشادِ نبوی کے مطابق ہر وہ شخص جائز خلیفہ اور امام ہے جس میں تین شرطیں پائی جائیں اور عصمت بھی شرط نہیں۔

بلکہ تقویٰ کے زور سے گناہوں سے بچنا یعنی عدالت ضروری ہے۔

اصولِ کافی: صفحہ، 120 طبع لکھنؤ میں یہ صراحت ہے کہ بیشک امامت خلافت دین کی باگ مسلمانوں کا نظام اور دنیا کی اصلاح اور مؤمنوں کی عزت ہے بے شک امامت درختِ اسلام کی بڑھنے والی جڑ ہے اور اس کی بلند شاخ ہے بے شک امام کے ساتھ نماز زکوٰۃ روزہ حج اور جہاد کے فرائض ادا ہوتے ہیں فے اور صدقات کی کثرت ہوتی ہے اور حدودِ احکامِ شرعیہ کا جاری کرنا ملکی سرحدوں اور بلادِ اسلامیہ کی حفاظت ہے وہ اللہ کے حلال کو حلال بتاتا ہے حرام کو حرام اور قائم کرتا ہے حدودِ خدا کو اور دفع کرتا ہے دشمنوں کو دینِ خدا سے اور بلاتا ہے دینِ خدا کی طرف لوگوں کو الخ۔

(کافی اردو: جلد، 1 صفحہ، 230 )

جب خلافت و امامت کے لیے اقتدار اجراء حدود جہاد وغیرہ کا بھی مشروط ہونا ظاہر ہو چکا تو ان شرائط پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ و حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ بھی بمشکل پورے اترتے ہیں۔ سیدنا حسنؓ نے تو خلافت سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کر کے بیعتِ خلافت کر لی اور سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے تقریباً ساڑھے چار سال حکومت کی مگر کافی کے یہ اوصاف وہاں نظر نہیں آتے آپ کے دورِ خلافت میں نہ مسلمان منظم تھے نہ دنیا کی اصلاح اور مؤمنوں کی عزت نظر آتی ہے نہ اسلام پڑھنے والی جڑ اور بلند شاخ کی صورت پیدا کر سکا افراتفری کے دور میں مقبوضہ علاقوں کو سنبھالنا بھی مشکل ہوگیا تھا اور حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ ان پر قابض ہوتے گئے جیسے پہلے کتبِ شیعہ و تاریخ سے مسطور ہو چکا ہے۔

حدود و احکام شرعیہ کے نفاذ نہ کر سکنے کے متعلق خود سیدنا علیؓ روضہ کافی کی ایک لمبی تقریر میں فرماتے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ مجھ سے پہلے خلفاء نے ایسے کام کیے جن میں عمداً انہوں نے رسول اللہﷺ کی خلاف ورزی کی۔

ناقضين العهده مغیرین لسنته ولو حملت الناس على تركها وحولتها الی مواضعها والى ما كانت فی عهد رسول اللهﷺ لتفرق عنی جندی حتیٰ ابقی وحدی او قلیل من شیعی۔ 

آپ کا عہد توڑنے والے اور سنت بدلنے والے تھے اگر میں لوگوں کو ان باتوں کے چھوڑنے پر آمادہ کروں اور سب کام اپنی جگہ درست کر دوں جیسے کہ حضورﷺ کے عہد میں تھے تو میرا لشکر مجھ سے جدا ہو جائے اور تنہا رہ جاؤں یا پارٹی کے چند آدمی ساتھ ہوں پھر مثالیں دیتے ہوئے آپ نے فرمایا اگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے وارثوں کو فدک واپس کر دوں حضورﷺ کا صاع غلہ ماپنے کا پیمانہ جاری کر دوں رسول اللہﷺ کی دی ہوئی جاگیریں حقداروں کو دیدوں ظلم کے فیصلے رد کر دوں، ناحق مردوں سے عورتیں چھین کر خاوندوں کو دے دوں خیبر کی تقسیم رد کر دوں عطیات کے مبنی بر فضیلت کم و بیش دیوان ختم کر دوں اور برابر تقسیم کروں کفوء کی شرط اڑا کر نکاح میں مساوات جاری کر دوں خمس رسول کو نافذ کروں رسول اللہﷺ کی مسجد کو گرا کر پہلی بنیادوں پر کر دوں یعنی تنگ کر دوں مسح علی الخفین حرام کر دوں نبیذ کھجوروں کا میٹھا پانی پر حد لگاؤں متعہ کی حلت کا فتویٰ دے دوں جنازہ پر پانچ تکبیریں کہوں لوگوں پر بلند آواز سے بسم اللہ پڑھنا لازم کردوں لوگوں کو قرآن کے فیصلے اور طلاقِ سنت پر آمادہ کردوں تمام صدقات وصول کروں وضو غسل اور نماز اپنے دستور اور وقت پر لوٹاؤں فدیہ اہلِ نجران کو واپس کردوں فارس کی باندیاں واپس کر دوں اور تمام قوموں کو سنت نبوی اور کتاب اللہ کی طرف لوٹا دوں تو اس وقت سب لوگ مجھ سے الگ ہو جائیں میں نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ ماہِ رمضان میں صرف فرض کے لیے جمع ہوں اور بتلایا کہ نوافل یعنی تراویح میں اجتماع بدعت ہے تو لوگوں میں شور و غوغا بلند ہوا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سنت بدلی جا رہی ہے الخ۔

(روضہ کافی: صفحہ، 59 ایران خطبہ فی الفتن و البدع)

حضرت امیر رضی اللہ عنہ پر شیعہ کے اس افتراء جو خلفائے ثلاثہؓ کی دشمنی پر تصنیف کیا گیا سے معلوم ہوا کہ العیاذبالله خلفائے ثلاثہؓ نے تمام شریعت کا ستیاناس کر دیا تھا مگر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے صرف حکومت چھن جانے اور شکر واحباب کے جدا ہونے کے خوف سے کسی ایک مسئلہ کو بھی قرآن و سنت کی طرف نہ لوٹایا نہ امامت کا فریضہ سر انجام دیا اسے کہتے ہیں پرائے شگون کی خاطر اپنی ناک کٹوانا۔

خلفائے ثلاثہ راشدینؓ کی دشمنی میں شیعہ نے سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو امامت غیرت اور عقل و خرد سے بھی محروم ثابت کر دکھایا کہ مسجدِ نبوی کی توسیع پر بھی نا خوش ہیں اور رمضان کی تکثیر عبادت پر بھی ناراض ہیں عورتیں غیر مردوں کے تحت دیکھ رہے ہیں مگر خاوندوں کو واپس نہیں کرتے۔ حالانکہ خلفائے ثلاثہؓ کے اگر کوئی کام خلافِ شرع ہوتے تو ضرور ان کو بدلتے کیونکہ امام کا سب سے بڑا فریضہ ہی یہی تھا جیسے اصولِ کافی: صفحہ، 178 میں ہے کہ زمین پر بہر صورت امام ہوتا ہے تاکہ اگر مسلمان دین میں کچھ اضافہ کریں تو وہ رد کر دے اگر کوئی بات کم کر دیں تو وہ تکمیل کرے دوسری روایت میں ہے کہ امام کا کام یہ ہے کہ وہ حلال و حرام کو پہچانے اور لوگوں کو خدا کی طرف بلائے خلفائے ثلاثہؓ اور ان کے کارناموں سے الفت کا اندازہ صرف اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت علی المرتضیٰؓ باوجود فقیہہ ہونے اختلاف کا حق رکھنے اور خلافت کی بدولت خود مختار ہونے کے قضاۃ کے سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ وہی پہلے فیصلے جاری رکھو۔ 

اقضوا بما كنتم تقضون حتى يكون الناس جماعة او اموات كمامات اصحابى ۔

ترجمہ: جیسے پہلے فیصلے تم کرتے تھے اسی دستور پر فیصلے کرتے رہو حتیٰ کہ سب لوگ ایک جماعت

کی طرح ہو جائیں یا اپنے اصحاب خلفاء سابقین کی طرح میں فوت ہو جاؤں۔

(مجالس المؤمنین: صفحہ، 54)

صحیح بخاری: جلد، 1 صفحہ، 526 پر یہ لفظ بھی ہیں فانی اکرہ الاختلاف میں اختلاف کو نا پسند کرتا ہوں تعجب ہے کہ شیرِ خدا سیدنا علی المرتضیٰؓ پر یہ بزدلی موقع پرستی اور مداہنت کا الزام شیعہ نے خود آپ ہی کے خطبات میں نہیں لگایا بلکہ ہر زمانہ میں شیعہ علماء اس سوال کے جواب میں کہ سیدنا علیؓ نے پھر شیعوں کا مسلک کیوں نہ ظاہر کیا متعہ کو کیوں نہ رائج فرمایا وغیرہ یہی کہتے آئے ہیں چنانچہ شیعہ کے شہیدِ ثالث نور اللہ شوستری بھی لکھتے ہیں 

دیگر آنکه چون حضرت امیر در ایام خلافت خود دید کہ اکثر مردم حسن سیرت ابو بکرؓ و عمرؓ را معتقد اندو ایشاں را برحق میدانند قدرت برآں نداشت کہ کار سے کند کہ دلالت بر فساد خلافت ایشاں داشتہ باشدتا آنکہ حضرت بنا بر مصلحت وقت ایشاں بحال خود (در نماز تراویح) داشت حاصل کلام آنکہ ایشاں رادراں ایام نام خلافت بیش نبود۔ 

دوسرا جواب یہ ہے کہ جب سیدنا امیر رضی اللہ عنہ نے اپنے ایام خلافت میں دیکھا کہ اکثر لوگ بلکہ سب حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ کہ حسنِ سیرت کے معتقد ہیں اور ان کو برحق جانتے ہیں تو قدرت اس بات پر نہ پائی کہ آپ ایسا کام کریں جو ان کی خلافت کے فساد پر دال ہو حتیٰ کہ سیدنا امیرؓ نے مصلحت وقت کی خاطر ان کو (نماز تراویح میں) بہر حال خود رکھا خلاصہ کلام یہ ہے کہ آپ کی خلافت ان دنوں بھی برائے نام سے زیادہ نہ تھی۔

اور ہمارے معاصر محمد حسین ڈھکو نے بھی حامد حسین وغیرہ کی اتباع میں تجلیات صداقت میں بھی کچھ لکھا ہے حالانکہ سیدنا امیرالمومنینؓ اگر اپنے نظریہ کے خلاف کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ کرتے یا مصلحت وقت کی خاطر مداہنت کو گوارا کرتے تو حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کو معزول نہ کرتے آپ کے مطالبہ کے باوجود حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے قصاص میں تاخیر نہ کرتے پھر کبھی جمل و صفین میں 70 ہزار مسلمانوں کے خون کی ندیاں نہ بہتیں جس کے نتیجہ میں رائے عامہ بالآخر آپ سے بدظن و متنفر نہ ہوتی منظم حکومت عراق و حجاز کے سوا آپ کے ہاتھ سے نہ جاتی سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ بھی برسرِ اقتدار نہ آسکتے اور امت میں تاہنوز ختم نہ ہونے والی تفرقہ بازی کبھی پیدا نہ ہوتی مگر ہمارا ایمان ہے کہ دل و زبان میں ایک مردِ مؤمن سیدنا علی المرتضیٰؓ نے یہ سب نقصانات مصائب مخالفین کے طعنے حتیٰ کہ جانِ عزیز تک کی قربانی منظور کر لی مگر اپنے نظریے کے خلاف کرنا جوان مردی اور جرأت کے خلاف جانا اور زبان و دل کے تغایر اور تقیہ بازی کو کسی صورت میں منظور نہ کیا ظاہر میں کچھ باطن میں کچھ کا آپ پر منافقانہ الزام ہمیں سننے کا حوصلہ نہیں اگر شیعہ حضرات یہ واقعی اور سیدھی بات مان لیں کہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ صاف گو پاک باطن اور نڈر تھے جو کچھ قولاً و فعلاً تاریخ و نقولِ کثیرہ کی روشنی میں آپ نے کیا وہی آپ کا مذہب برحق اور عقیدہ تھا جو آج تک جمہور اہلِ اسلام کا مذہب چلا آرہا ہے تو ہم بھی اپنے مفاد کے خلاف یہ کہہ دیں گے کہ طبعاً از خود حضرت علیؓ اہلِ شام کے بھی میں کشیدگی اور بغیر دوستانہ جذبات رکھتے تھے زندگی میں اسی پر عمل ہوا ان کے متعلق احکم الحاکمین ہی بہتر فیصلہ کرے گا ہم سیدنا امیرِ معاویہؓ کی بہ نسبت سیدنا علیؓ سے زیادہ الفت و محبت رکھتے ہیں اور حتی الامکان اتباع کر کے کسی کی بدگوئی نہیں کرتے۔

الحاصل 12 حضراتِ ائمہ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم شیعہ مذہب میں کبھی مراد نہیں ہوسکتے کیونکہ ان میں سے صرف ایک سیاسی حاکم سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے بعد میں بھی اسلام عزیز و غالب نہ رہا تھا تابدیگران چہ رسد مذہب اہلسنت میں آپ چوتھے امام تھے۔

ائمہ اہل بیت رضی اللہ عنہم مراد نہ ہونے کی تیسری دلیل:

تیسری دلیل ان کے مراد نہ ہوسکنے کی یہ ہے کہ ان کی امارت کبھی بھی امت میں مسلم اور مجمع علیہ نہ ہوئی اور حدیث کا مصداق وہ ہیں کلهم تجتمع عليه الامة۔ (ابو داؤد: جلد، 2 صفحہ، 588) کے امتیاز سے موصوف ہوں رابعاً اس حدیث کا مصداق اگر یہ بارہ ائمہ ہوتے تو انہیں منقسم قریب کے عنوان سے ذکر کیا جاتا یعنی کلهم من بنی ہاشم کہا جاتا يا كلهم من ذريتی کہا جاتا كلهم من قريش سب قریش سے ہوں گے کے عنوان سے مقسم بعید کا ذکر نہ کیا جاتا کیونکہ دو چند چیزوں کی وحدت یا اشتراک ذکر کرنا ہو تو اسے قریبی وحدت و جنس سے ذکر کیا جاتا ہے مثلاً اگر حضورِ اکرمﷺ اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی خاندانی قربت کو بیان کرنا ہو تو بنو ہاشم بلکہ بنو عبد المطلب سے اس کا تعارف صحیح ہوگا اور بنو اسماعیل کا عنوان بلاغت و مفاد کے خلاف ہوگا اب آئیے حدیث کے اصل مفہوم و مصداق کی طرف جس کی وضاحت معترض کو درکار ہے۔

حدیث کا مفہوم:

حضورﷺ کے اس ارشاد میں خلافت علی منہاج النبوت کے حاملین مراد نہیں بلکہ خلفاء سے مراد مطلق امراء ہیں اور برے بھی یہ صرف ایسے بارہ امراء و حکام کی خبردی جا رہی ہے جن کی حکومت تمام قلمرو اسلامیہ میں مسلم ہوگی اور ان 12 حکام تک ایک ہی بیک وقت خلیفہ ایک دار الخلافہ اور ایک ہی جھنڈا ہو گا تو انہیں خلیفہ کہنا حکومت کے لحاظ سے ہے جیسے کہ ترمذی و بخاری کے حوالہ سے اثناء عشر امیراً کے لفظ گزر چکے ہیں صرف حضورﷺ کی جانشینی کے لحاظ سے ہرگز نہیں حقیقی خلافت اور مجازی خلافت ہر دو کے سربراہان اس مطلق خلافت میں جمع ہو سکتے ہیں سننِ ابی داؤد شریف میں آنحضرتﷺ نے ان بارہ کی علامت یہ بیان فرمائی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی حکومت پر پوری امت کا اتفاق ہوگا كلهم تجتمع عليه الامة۔

(ابوداؤد: جلد، 2 صفحہ، 588 ) 

اس قید سے معلوم ہوا کہ خلفائے بنو عباس میں سے کوئی اس کا مصداق نہیں ہو سکتا کیونکہ اس وقت مسلمانوں کے جھنڈے دو تھے۔ کہ اس وقت سپین میں بھی خلفائے بنوامیہ بالکل خود مختار تھے عصرِ حاضر کے حکمران بھی اس کے ماتحت نہیں آسکتے کیونکہ یہ بھی بجائے ایک حکومت یا جھنڈے کے ماتحت ہونے کے بجائے متعدد مستقل و آزاد خود مختار حکومتوں میں منقسم ہیں یہاں صرف تین اشکال باقی ہیں:

ا: سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ان بارہ افراد میں کیسے شامل ہو سکتے ہیں جب کہ آپ کے عہد میں حضرت امیرِ معاویہؓ بھی امیر تھے جواباً گزارش ہے کہ اس وقت خلافت کا جھنڈا صرف ایک یعنی حضرت علی المرتضیٰؓ کا تھا ان کے مقابلے میں حضرت امیرِ معاویہؓ خلافت کے مدعی ہرگز نہ تھے بلکہ ان کی حیثیت خلیفہ برحق حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے مقدر کردہ گورنر کی تھی اور وہ اپنی اسی حیثیت پر قائم تھے جب تک کہ نئے خلیفہ انہیں شہادتِ عثمانؓ کے جملہ شبہات سے مطمئن نہ کر دیں حافظ ابنِ تیمیہؒ نے منہاج السنہ میں سیدنا امیرِ معاویہؓ کے اس مؤقف کی خود حضرت امیرِ معاویہؓ سے ہی تصریح نقل کی ہے جیسے طبری وغیرہ کے حوالے سے ہم بھی سوال سن 11، 14 عیسوی کے تحت بیان کر چکے ہیں پس جب وہ اس عبوری دور میں ایک مستقل خلافت کے مدعی نہ تھے تو یہ ہر گز نہیں کہا جا سکتا کہ اس وقت دو خلیفہ تھے خلیفہ برحق حضرت علی المرتضیٰؓ تھے اور حضرت امیرِ معاویہؓ عبوری طور پر ایک اجتہادی غلط فہمی سے اس چوتھی خلافت کو تسلیم کرنے سے رکے ہوئے تھے پھر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کرنے کے بعد یہ اختلافات بھی ختم ہو گئے اور جمہور اہلِ سنت نے سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی سابقہ حکومت کے برحق ہونے پر اجماع کر لیا اور اسی طرح یہ چوتھی خلافت بھى كلهم تجتمع عليه الامہ کے ماتحت آگئی اور یہ اجماع عام ہے کہ وقتِ حکومت ہو یا بعد الحکومت بہر حال حکومت مجمع علیہ ہونی چاہیئے۔

ب: سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ ان بارہ حکام میں کیسے شامل ہو سکتے ہیں جب کہ آپ نے سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے اختلاف کیا جواب یہ ہے کہ حضرت امیرِ معاویہؓ نے اس وقت بارہ میں معدود ہیں جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اپنی حکومت بھی ان کے سپرد کر دی اور اس وقت تمام مسلمانوں کا جھنڈا ایک ہو گیا تھا اس دور میں سے تا وفات 20 سال تک سیدنا امیرِ معاويہؓ كلهم تجتمع عليه الامة كا يقيني مصداق تھے۔ 

(بحوالہ عبقات: صفحہ، 384 از علامہ خالد محمود)

ج: سیدنا امیرِ معاویہؓ کا بیٹا یزید جس کے مقابل حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ خود مختار حکومت کے مدعی تھے ان بارہ میں شمار ہوگا یا نہیں جواباً گزارش یہ ہے کہ جمہور اہلِ سنت کے نزدیک یزید ان بارہ میں شامل نہیں علامہ حافظ سیوطیؒ نے تاریخ الخلفاء میں ایک قول اور ملا علی قاریؒ نے شرح فقہ اکبر میں بے شک اس کو شمار کیا ہے مگر یہ ایک قول کی حکایت یا ان کی ذاتی رائے ہے اجماعی مسلک نہیں شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ قرۃ العینین میں رقم طراز ہیں:

و یزید بن معاویہؓ خود ازیں میاں ساقط است بجہت عدم استقرار ومدت ا متد بها وسوء سیرت او۔

(قرة العینین: صفحہ، 298 مجتبائی دہلی)

ترجمہ: یزید بن معاویہؓ اس شمار سے باہر ہے کیونکہ معتد بہا مدت تک اسے استقرار نہ رہا اور اس کی سیرت بری تھی۔

مگر شیعہ حضرات کو شرح فقہ اکبر تاریخ الخلفاء کے بیان سے اتنا جزبز نہ ہونا چاہیئے کیونکہ ان کے چوتھے امام نے تو یزید کے ساتھ 15 دن دستر خوان پر کھانا کھایا ہدایا اور مالی نقصانات وصول کیے حرہ میں یزید کی مخالفت نہ کی بلکہ روضہ کافی: صفحہ 230 کے بیان کے مطابق خود کو یزید کا مجبور غلام کیا اور عملاً بیعت کر لی یزید کے نامبارک دور میں حادثہ کربلا و واقعہ حرہ جیسے عظیم حادثات پیش آئے مگر ان کی زیادہ تر ذمہ داری ماتحت عملہ اور فوج پر ہی آتی ہے اور براہِ راست اس کی طرف نسبت نہ کرنے میں مصلحت یہ ہے کہ عہدِ مرتضوی میں جمل و صفین میں اس سے کہیں زیادہ مسلمانوں کی عزت اور جانوں کا نقصان ہوا جب کہ براہِ راست کمان آپ کے ہاتھ میں تھی بلاشبہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ و یزید میں تقابل کا سوال نہیں مگر امت میں فرقہ بندی کے پیشِ نظر ایک ناصبی یزید کے خلاف مواد کو حضرت علیؓ کے خلاف استعمال کر سکتا ہے تو یہ کہنا زیادہ موزوں ہے کہ جیسے حادثہ کربلا کی ذمہ داری بیشتر اہلِ کوفہ ابنِ زیاد اور شمر پر ہے اور حرہ کی چند سیاسی شاطروں اور درندہ صفت فوجیوں پر ہے۔ اسی طرح جمل و صفین کے خونی ڈرامے بلوائیانِ عثمان اور سبائیوں کے باتفاق مؤرخین رہینِ منت ہیں گو وہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے فوجی ہیں اس طرزِ ادا سے یزید سے دفاع مقصود نہیں بلکہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے دشمنوں کی زبان بند کرنا ہے ان بارہ میں مروان بن حکم کے بجائے سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ کو شمار کرنا زیادہ موزوں ہے یہی امام مالکؒ کی رائے ہے اور یہی محدث ابنِ جوزئیؒ کا فیصلہ ہے۔

اس حدیث کی تفہیم کے متعلق ایک اہم بات یہ ہے کہ اس روایت کے کسی طریق میں ان بارہ خلیفوں کی کوئی دینی ثناء منقول نہیں حافظ ابنِ حجر عسقلانیؒ لکھتے ہیں:

لم يروا الحديث لمدحهم والثناء عليهم بالدين وعلى لهذا فاطلاق اسم الخلافة فی هذا الحديث بالمعنىٰ المجازى واما حديث الخلافة من بعدى ثلاثون سنة فالمراد خلافة النبوة۔

يہ حدیث ان خلفاء کی دینی مدح و ثناء میں مروی نہیں بنا بریں خلافت کے لفظ کا اطلاق اس حدیث میں حجازی معنیٰ کے طور پر ہے ہاں اس حدیث میں خلافت سے مراد حقیقی معنیٰ خلافتِ نبوت ہے۔ خلافت میرے بعد تیس سال ہوگی۔ (فتح الباری)

یہ بے شک صحیح ہے کہ بارہ امراء کی اس روایت میں لا یزال هذا الدین عزیزاً آیا ہے کہ یہ دین ان بارہ امراء کے زمانے تک ضرور غالب رہے گا لیکن اس غلبے سے مراد دین کا داخلی غلبہ نہیں کہ ان کے زمانے میں تمام لوگ بڑے نیک اور دین دار ہوں گے بلکہ مراد دین کا خارجی غلبہ ہے کہ کوئی غیر مسلم بیرونی طاقت مسلمانوں پر حملہ آور نہ ہو سکے گی اور رقبہ اسلام ہر مخالف سلطنت کے لیے ارض منیع و محفوظ ہو گا جس کی طرف ہر غیر مسلم طاقت کو رخ کرنے میں رکاوٹ ہوگی جیسے کتبِ تاریخ میں ہے کہ جب خلافت مرتضوی میں اندرونی خانہ جنگی سے فائدہ اٹھا کر روم کے بادشاہ نے مقبوضاتِ علوی پر حملہ کرنا چاہا تو حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ نے اسے للکارا او رومی کتے! میں اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ بھائی ہیں اگر تو نے ان کے علاقہ کا رخ کیا تو میں ان سے صلح کر کے ان کی طرف سے تمہارا ایسا مقابلہ کروں گا کہ اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا چنانچہ شاہِ روم سہم گیا اور حملہ کی جرات نہ کی عزیز کا معنیٰ دین کا خارجی غلبہ خود حضورِ اکرمﷺ سے بھی منقول ہے۔

لا يزال هذا الدين عزيز ا منيعا الى اثنی عشر خليفة۔

ترجمہ: یہ دین غالب اور بیرونی حملوں سے محفوظ رہے گا جب تک بارہ خلفاء ہوں گے۔

(مسلم: جلد، 2 صفحہ، 119)

علاوہ ازیں یہ امر بھی پیشِ نظر رہے کہ یہاں عزیز ہونا دین کی صفت ہے ان بارہ امراء کی صفت نہیں اگر ان بارہ میں بعض ظالم اور غلط کار بھی ہوں مگر عوامی سطح پر دین غالب رہے تو ایسا بسا اوقات ہوا ہے دیگر پہلووں سے اللہ نے دین کی خدمت لے کر اسے مضبوط کیا ہے۔

حدیث کے مصداق کون سے بارہ افراد ہیں:

 ان کی تعیین میں واقعی ابہام اور اختلاف ملتا ہے مہلب کہتے ہیں میں کسی کو بھی نہ ملا جو اس کی قطعیت کا دعویٰ کرتا ہو چند اقوال یہ ہیں:

1: ان بارہ میں سے کچھ ہو چکے ہیں اور کچھ باقی ہیں گنتی ابھی تک پوری نہیں ہوئی۔

2: اس وقت تک اسلام کا غلبہ رہے گا جب تک مسلمان حکومتوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ 12 ہو گی۔

3: یہ بارہ حضرات وہ ہوں گے جو امام مہدی کی وفات کے بعد ولایت سنبھالیں گے کتاب دانیال میں ہے کہ امام مہدی کی وفات کے بعد پانچ افراد ان کے بڑے بیٹے کی نسل سے پھر پانچ چھوٹے کی اولاد میں سے فائز حکومت ہوں گے ان پانچ کے بعد پھر بڑے بیٹے کی نسل میں سے ایک شخص والی حکومت ہوگا اور اس کے بعد اس کا بیٹا جانشین ہوگا۔

(حاشیہ بخاری: جلد، 2 صفحہ، 1072)

 اس صورت میں یہ حدیث خالص اشراط الساعۃ کے سلسلے میں شمار ہوگی الغرض محدثین نے تمام مختلف اقوال ذکر کر دیے مگر عند الشیعہ 12 بزرگوں کو کسی نے شمار نہیں کیا۔

راجح یہ معلوم ہوتا ہے کہ حدیثِ مذکور میں جن بارہ حکمرانوں کی خبر دی گئی ہے وہ یہ ہیں۔ 

1: سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ  

2: سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ 

3: سیدنا عثمان ذو النورین رضی اللہ عنہ

4: سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ  

5: سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ 

6: سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ رضی اللہ عنہ

7: عبد الملک

8: ولید 

9: سلیمان

10: سیدنا عمر بن عبد العزيزؒ 

11: یزید بن عبد الملک 

12: ہشام بن عبد الملک

ہشام بن عبدالملک آخری خلیفہ ہیں جن کے عہد تک مسلمانوں کا جھنڈا ایک رہا بعد میں ولید بن یزید کے دور سے بنوامیہ کا زوال شروع ہو گیا قاضی عیاض خلافت کی عزت قوتِ اسلام اور اجتماعی امور کی درستی خلیفہ واحد یہ سب کا اتفاق مراد لے کر ولید سے خلل مانتے ہیں شیخ الاسلام ابنِ حجرؒ قاضی عیاض کے قول کو بہتر اور راجح کہتے ہیں

(تاریخ الخلفاء للسیوطی: صفحہ، 16)

علامہ سیوطیؒ متعدد اقوال اس بحث میں نقل کر کے آخر میں لکھتے ہیں:

ایک قول یہ بھی ہے کہ بارہ خلفاء کا وجود بلا تسلسل تا قیامت مراد ہے جو اپنے اپنے عہد میں عمل بالحق کریں گے اس کی تائید وہ حدیث کرتی ہے جو محدث مسدد تو نے اپنی مسندِ کبیر میں روایت کی ہے۔

لا تهلك هذه الأمة حتىٰ يكون منها اثنی عشر خليفة كلهم يعمل بالهدى ودين الحق منهم رجلان من اهل بیت محمدﷺ۔

ترجمہ: یہ امت اس وقت تک ہلاک نہ ہو گی جب تک بارہ خلیفے رہیں گے ہر ایک ہدایت اور دینِ حق کے مطابق عمل کرے گا ان میں سے دو خلیفے حضرت محمدﷺ کے اہلِ بیتؓ سے ہوں گے۔

بنا بریں 12 میں سے 8 خلیفے تو گزر چکے ہیں، خلفائے اربعہ راشدینؓ حضرت حسن رضی اللہ عنہ حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت ابن الزبیر رضی اللہ عنہ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ بنو عباس میں سے مہتدی باللہ کو اس میں شمار کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ ایسا نیک تھا جیسے عمر بن عبد العزیزؒ بنوامیہ میں نیک تھے اسی طرح طاہر باللہ بھی عدل و انصاف والا تھا اب دو کی انتظار ہے ایک ان میں مہدی ہیں جو اہلِ بیت رضی اللہ عنہم محمدﷺ ہیں۔

(تاریخ الخلفاء: صفحہ، 17)

حدیث من مات کی بحث:

اب آئیے حدیث من مات ولم یعرف امام زمانہ جیسے معترض نے "منصبِ امامت" کے حوالے سے نقل کیا ہے منصبِ امامت میں اسی سیاق و سباق میں کہ امامِ وقت کی اطاعت ضروری ہے ورنہ ربِ قدیر کی دار و گیر سے خلاصی نہ ہو سکے گی یہ جملہ یعنی منقولہ تو ہے مگر اسے نہ حدیثِ نبوی بتایا نہ اثرِ موقوف علی الصحابی بتایا نہ کسی کتاب کا حوالہ ہے ہمارے علم میں بھی اس کا صحیح حدیثِ نبوی ہونا نہیں ہے جب تک اس کے مأخذ اور سند کا پتہ نہ چلے اور نہ معترض بتائے اصولاً ہمیں اس کا جواب دینا لازم نہیں ہاں اس کے قریب المعنیٰ ایک اور حدیث سیدنا شاہ صاحبؒ نے لکھی ہے کہ رسولِ خداﷺ نے فرمایا ہے: صلوا خمسكم و صوموا شهركم وادوا زکوٰۃ اموالكم واطیعوا امیرکم اذا امركم تدخلوا جنة ربكم۔ 

(منصبِ امامت: صفحہ، 144)

ترجمہ: پانچ نمازیں پڑھو ماہِ رمضان کے روزے رکھو اپنے مالوں کی زکوٰۃ دو اور حاکموں کی فرمانبرداری کرو جب وہ جائز بات کا حکم دیں اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔

اس حدیث سے جو کچھ مستفاد ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ تم اپنے حاکموں اور امراء کی اطاعت کرو سو الحمدللہ اہلِ سنت کا یہی مذہب ہے وہ نظامِ خلافت کے قائل اور خلیفہ کی تمام جائز باتوں میں اطاعت واجب کہتے ہیں اور یہ بات لاتعداد احادیث سے ثابت ہے۔

شرعی احکام استطاعت سے واجب ہوتے ہیں اور کئی احکام کا وجوب زمان مکان اور خاص حالات و شرائط کے تحت ہوتا ہے اور شرط یا قید کے فقدان سے اس حکم کی وہ کیفیت باقی نہیں رہتی انقلابات زمانہ اور مرور دہر سے نظامِ خلافت پر اثر پڑا اور مسلمان متعدد حکومتوں اور ریاستوں میں تقسیم ہوگئے اور ان کو باضابطہ خلیفہ مل نہ سکا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب سب لوگ مرتد سمجھے جائیں گے اور عہدِ جاہلیت کے احکام ان پر مرتب ہوں گے اور اس کے برعکس یہ مطلب بھی نہیں کہ اگر کسی جگہ مسلمانوں کی سیاسی حکومت قائم ہو اور اس کا سر براہ خلافت علی منہاج النبوۃ کے اوصاف و شرائط پر پورا نہ اترے تو اس کی جائز باتوں میں بھی اطاعت نہ کی جائے یا علمِ بغاوت بلند کیا جائے کیونکہ یہ دونوں باتیں افراط و تفریط کے ذیل میں آئیں گی ایسی صورت میں اسلامی سیاست و قوانین کو سامنے رکھ کر یہی قدر مشترک نکالا جائے گا کہ تمام مسلمان اس کوشش میں ضرور رہیں کہ سب دنیا میں ان کا مرکز خلافت ایک ہو اور تمام حکومتیں آزاد اور خود مختار ریاستیں ہونے کے باوجود عالمی طور پر ایک ایسا سر براہ ضرور بنا لیں جو بڑے بھائی کی طرح ان کی حکومتوں کی نگرانی کرے ان کے سرحدی جھگڑوں کا تصفیہ کرے اور تمام ممالکِ اسلامیہ کا یہ متحدہ بلاک غیر مسلم قوتوں کے ساتھ بھی معاہدے اور خارجہ پالیسی اختیار کر سکے اور جب تک ایسی صورت میسر نہ آئے ہر ملک کے باشندے اپنی حکومتوں سے صحیح تعاون کریں اطاعت کریں اور شرعی احکام نافذ کرنے کے لیے حکومت کو مجبور کریں فرض کیجئے کہ ان تمام تر کوششوں کے باوجود حکومتِ شرعی قوانین جاری نہیں کرتی جیسے پاکستان وغیرہ میں مشاہدہ ہو رہا ہے اور لوگ خلیفہ شرعی کی اطاعت سے باوجود تمنا کے محروم ہیں تو اس کا وبال ان حکومتوں پر ہو گا یا ان قومی نمائندوں پر جو اسمبلیوں میں جاکر اپنے فرائض سرانجام نہیں دیتے بلکہ ظالموں کا تر نوالہ بن کر قوم سے خیانت کرتے ہیں ایسی صورت میں کسی شرعی دفعہ سے یا عقل و آئین کی رو سے ان تمام عامی مسلمانوں کو زمانہ جاہلیت کی طرح ایمان و نجات اخروی سے محروم مانا جائے گا؟ مجبوری کے تحت ان حالات میں مقامی حکام کی جائز باتوں میں اطاعت ایسی ہو گی جیسے ایک شرعی خلیفہ کے عمال اور نمائندوں کی ہوتی ہے اور اطیعوا امیرکم کے فرامین بلاشبہ ان چھوٹے چھوٹے سرکاری افسروں اور نمائندوں کو بھی بھاری ہوں گے۔

اصولِ کافی جلد، 1 صفحہ، 402 پر یہ باب ہے باب ما امر النبیﷺ بالنصيحة لائمة المسلمين واللزوم بجماعتهم۔

پھر ایک حدیث میں حضورﷺ کا یہ فرمان ہے:

ثلاث لا یغل عليهن قلب امرء مسلم اخلاص الامر لله والنصيحة لأئمة المسلمين واللزوم بجماعتهم فان دعوتهم محيطة من وراءھم

ترجمہ: مسلمان کے دل میں تین باتوں کے متعلق کھوٹ نہیں ہوتا خالص خدا کے لیے کام کرنا مسلمان محاکموں کا خیرخواہ و مطیع ہونا ان کی جماعت میں شامل رہنا کیونکہ ان کی دعوت سب کو شامل ہوتی ہے۔

اور ایک حدیث میں آپ کا یہ ارشاد ہے:

عن أبی عبد الله قال من فارق جماعة المسلمين قيد شبر فقد خلع ربقة الاسلام من عنقه۔

ترجمہ: سیدنا جعفر صادقؒ نے فرمایا جو مسلمانوں کی جماعت سے بالشت بھر علیحدہ چلے اس نے اسلام کا پٹہ اپنے گلے سے نکال دیا۔

یہ شیعی احادیث وضاحت سے اس امر پر دال ہیں کہ اجتماعی نظم و نسق کے لیے حکام اور ان کے ماتحت نمائندوں کی جائز امور میں اطاعت ضروری ہے جب سب مسلمان یا ان کی اکثریت جائز امور میں اس سربراہ کی اطاعت کرنے لگے تو وہ سیاسی حاکم وامام ہے تو اب کسی کو بلا مسئلہ شرعی کے اس سے انحراف و مخالفت جائز نہیں اور جماعتِ مسلمین سے بالشت بھر انحراف گویا اسلام سے انحراف ہے اب اس کی خیر خواہی لازم ہے کیونکہ ایسے ائمہ حکام کی دعوت سب کو شامل ہے گویا اس مسئلہ میں سنی شیعہ کا اختلاف نہیں ہے۔

اگر کسی صاحب کو شبہ ہو کہ اس سے مخصوص عند الشیعہ بارہ ائمہ مراد ہیں تو سیاق و الفاظ اس کے متحمل نہیں اور نہ وہ حضرات سیاسی سطح پر ابھر کر اطاعت کا مقام حاصل کر سکے۔

حدیث من مات کے معنیٰ:

اب مذكورة الصدر حدیث اگر ثابت ہے تو اس کا یہی مفہوم ہے کہ مسلمانوں کے سیاسی حکمرانوں کی جائز امور میں اطلاعت ضروری ہے اور بلاوجہ اس کی اطاعت نہ کرنا یا مخالفت کرنا گویا زمانہ جاہلیت کا دستور اپنانا ہے اگر یہ حدیث ثابت ہے تو خود شیعہ پر عظیم حجت ہے کیونکہ ان کی تاریخ کا ایک ایک ورق گواہ ہے کہ مسلمان سیاسی حکام و پیشواؤں کی انہوں نے کبھی اطاعت نہیں کی بلاوجہ مخالفتیں روح اسلام کے خلاف مقاصد کے لیے بغاوتیں کیں خود بھی کئی مصائب و محن میں الجھے اور حکومتوں کو بھی پریشان کیا اور مسلمانوں کے مسائل کو حتی الامکان الجھایا اور حکام کا کہنا ہی کیا ہے خود خلیفہ راشد رابع حضرت علی المرتضیٰؓ کی مخالفت کی اور پریشان کیا جیسے نہج البلاغہ روضہ کافی کے بکثرت خطبات ان کی شکایت و مذمت میں بھر پور ہیں حضرت امیرِ معاویہؓ سے مصالحت اور بیعت کی وجہ سے حضرت حسن رضی اللہ عنہ پر انہوں نے قاتلانہ حملہ کیا مذل المؤمنین بتایا برسوں تک سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے اس عمل و فیصلہ پر اطمینان و ایمان کا اظہار نہ کیا حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے جو سلوک ان لوگوں نے کیا وہ کسی کہ ومہ سے مخفی نہیں سیدنا زین العابدینؒ نے تمام شیعوں سے دل گرفتہ ہو کر یزید سے مصالحت و حمایت کی ٹھانی اور یزید سے عطیات لیتے رہے واقعہ حرہ میں کوئی شرکت نہ کی یزید نے بھی سیدنا زین العابدینؒ اور ان کے متعلقین کی حفاظت کا خصوصیت سے حکم دیا سیدنا باقرؒ و سیدنا جعفرؒ نے سیاست کو طلاق دے کر صرف علمی مشغلہ اختیار کیا اور مدینہ منورہ کو ہی جگمگایا مگر کافی باب الکتمان کی روایت کے مطابق آپ کے سترہ حمایتی شیعہ بھی نہ تھے ورنہ آپ شاہ وقت کا ضرور مقابل کرتے بعد والے ائمہ کو تو مزید قحط رجال شیعہ کا شکار ہونا پڑا اور موجود چند بوالہوسوں کو خوب سنائیں اور حضرت صاحب العصر مہدی تو ساڑھے گیارہ سو سال سے نامعلوم غارمیں 313 مؤمنوں کے انتظار میں چھپے ہوئے ہیں یہ تمام امور باحوالہ ہم سابق ذکر کرچکے ہیں یہاں بطورِ مثال و اشارہ کافی ہے۔

الفرض امام زمانہ سے مراد کچھ بھی ہو شیعہ نے یقیناً ان کی مخالفت کی اطاعت سے انحراف کیا اور زمانہ جاہلیت کی موت قتل و غارت ان کو نصیب ہوئی۔

2: بیشتر شیعہ اس حدیث کو حضرت مہدی منتظر پر چسپاں کرتے ہیں اور ان کا لقب ہی امام العصر و امام زمان مشہور کیا ہے بایں معنیٰ بھی یہ حدیث شیعہ کے سخت مخالف ہے کیونکہ معرفت امام زماں سے اگر کم از کم پہچان اور رویت ہی مراد ہو تب بھی تمام شیعہ 150 سال سے ان کی معرفت سے محروم ہیں آخر کس نے امام کو دیکھا کس نے ان کی عملی زندگی مشاہدہ کی کون جانتا ہے کہ امام موصوف نماز روزہ کیسے ادا کرتے ہیں ان کے عبادت کے دیگر معمولات کیا ہیں ان کی معاشرتی زندگی کیسی ہے ان کی عائلی زندگی کس طرح گزرتی ہے وہ امامت کے فرائض کیسے سر انجام دیتے ہیں وہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض کس کو اور کیوں کر ادا کرتے ہیں ان کی ظاہری وضع قطع اور شیعہ کے لیے اسوہ حسنہ کیا ہے ظاہر ہے کہ شیعہ کا کوئی فرد یا کوئی جماعت نہ ان باتوں کو معلوم کر سکتی ہے ان کے پاس کوئی ذریعہ ہے اگر نائب امام یا سفیر و ترجمان امام کا کوئی نہ فرضی و خلاف شرعِ امامیہ عہدہ ہے تو پھر پہچان صرف اسے ہی ہوگی اور تو کسی کو نہیں پھر ان کو بھی نہ زیارت کا شرف حاصل ہوا نہ ہی ہاتھ ملانے کا کیا معلوم ان کے کان میں جو آواز گونجتی تھی وہ کسی ناری مخلوق کے اس فرد کی ہو جس کی اسلام و انبیاء سے روز اول سے دشمنی ہے کیا معرفت امام اسی جہالت کا نام ہے؟ اگر معرفت سے مراد اطاعت ہے اور حدیث کا بھی یہی مطلب و تقاضا ہے ورنہ نفسِ پہچان رؤیت یا کلام بلا اطاعت و ایمان تو کفار کو انبیاء علیہم السلام سے بھی حاصل رہا ہے پھر اس معرفت نے ان کو فائدہ نہ دیا تو شیعہ اثناء عشریہ سب سے زیادہ مسکین اور قابلِ رحم فرقہ ہے جن کا نام خود انہی کے خوف سے بعمر 4، 5 سال سے غارِ سر من رای میں جا چھپا ہے اور تاہنوز باہر نکلنے کی جرأت نہیں ہے حالانکہ شیعہ کے بقول ان کے ہم مذہب ایران جیسی حکومت بھی قائم ہے شیعہ "امامت" کا منشاء و مقصد تو صرف یہ تھا کہ امام زمان تازہ بتازه احکام دے اور زمانے کے تقاضے کے مطابق شیعہ کی راہنمائی کرے بدعات کا خاتمہ کرے قوانینِ اسلام کا نفاذ کرے اور لوگوں کو ان پر عمل کروائے مشکلات میں ان کا ساتھ دے دینی اختلافات رفع کر دے یہ مقصد تو از خود دفن ہوگیا اور شیعہ امام زمانہ کی اطاعت اور تعلیم و تربیت سے یکسر محروم ہو گئے آج ان کے پاس منسوخ شدہ امامتوں کے کچھ ارشادات ہیں وہی ان کے مذہب کا ڈھانچہ ہیں اس سے قطع نظر کہ یہ بھی ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور کا مصداق ہیں اور شیعہ آج سیدنا جعفرؒ و سیدنا باقرؒ کے سینکڑوں ارشادات کی کھلی خلاف ورزی کر کے غیر معصوم خاطی شریعتمداروں نام نہاد مجتہدوں بلکہ فاسق و فاجر ذاکروں کی پیروی کرتے ہیں جو مسائل آج امامیہ کا شعار ہیں اور ان کی تردیج پر ہی سب کوششیں مرکوز ہو رہی ہیں مثلاً کلمہ اذان ترکِ تقیہ اشاعتِ مذہب عزاداری بجمیع اقسام وغیرہ تمام تر ائمہ کی تعلیمات کے خلاف ہیں قابلِ توجہ یہ بات ہے کہ اصولِ شیعہ کے مطابق ایک امام کے اقوال صرف اس کی زندگی تک حجت اور معمول بہا ہیں بعد از وفات امام بھی نیا احکام بھی نئے تبھی تو ہر زمانے کا امام جدا مانا گیا ورنہ ایک امام ہی کافی تھا جسے شیرِ خدا اقصیٰ الامتہ کہا جاتا ہے اگر آپ کے ارشادات حجت و ائمہ ہوتے تو آپ کی وفات سے لوگوں کے ذہن سے از خود مٹ تو نہ گئے تھے رہتی دنیا تک آپ کے ماننے والوں کے ذریعے راہنمائی کا کام دے سکتے تھے پھر کیوں سیدنا حسن رضی اللہ عنہ پھر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ الخ کو یکے بعد دیگرے امام مانا گیا اور ایک کی زندگی میں دوسرے کو کبھی امام و حجت نہ مانا گیا اگر ایک امام کی سنت اور ارشاداتِ دائماً حجت ہوتے تو پھر ائمہ میں اختلاف نہ ملتا سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا خلفائے ثلاثہؓ سے تعاون سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا یزید سے مقابلہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی سیدنا امیرِ معاویہؓ سے جنگ سیدنا حسنؓ کی مصالحت و بیعت سیدنا حسینؓ کی یزید سے جنگ اور سیدنا زین العابدینؒ کی بیعت و مجبورانہ غلامی علی هذا القياس تضادات نہ ملتے یہ تمام حقائق اس بات پر دال ہیں کہ ہر امام اپنے اپنے زمانے کا مستقل ہوتا ہے سابقہ امام کے اقوال و افعال اس کے ہاں منسوخ ہوتے ہیں ایک پیغمبرِ وقت کی طرح وہ زمانہ کے مسائل حل کرتا اور لوگوں سے اتباع کرواتا ہے۔

اگر امامِ سابق کے ارشادات اس کی وفات کے بعد بھی حجت اور واجب العمل ہیں تو پیغمبر آخر الزمانﷺ اس منصب کے زیادہ مستحق ہیں پھر عقیدہ امامت کے اختراع کی ضرورت ہی کیوں ہوئی کیا آخری دین کے علمبردار شریعت ابدیہ کے تاجدار سید و آقا، نامدار سید رسل محمد مختارﷺ کے اقوال افعال زندگی کے تمام مسائل کے لیے کافی نہ تھے یا کیا وہ حضورﷺ کی وفات سے ہی آپ کے ساتھ رخصت ہو گئے ہزاروں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ہزاروں ارشادات یاد تھے اور وہ ان پر عمل کرتے اور دوسروں کو تبلیغ کرتے تھے مگر ایک شیعہ کے نزدیک وہ تمام حضرات دین علم اور ایمان سے اس لیے کورے تھے کہ انہوں نے از سر نو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے سامنے زانوئے تلمذ طے نہ کیا اور ان سے علم و شریعت کا سر رشتہ تعلیم استوار نہ کیا اس کا مطلب واضح تر ہے کہ ارشاداتِ محمدیہﷺ بھی عند الشیعہ ہدایت کے حامل اور دائمی راہنما نہ تھے یہ سیٹ سیدنا علیؓ نے لی اور اسی طرح حضرت علیؓ نے یکے بعد دیگرے حضرت مہدی تک پہنچی اور پھر یہ سلسلہ ایسا جام ہوا کہ شیعہ حضرات کو بہت پیچھے جا کر پانچویں یا چھٹے امام سے رابطہ قائم کرنا پڑا حالانکہ ان کے کے ارشادات سے تمسک اب ایسا ہی ہے جیسے کوئی پیغمبر آخرالزمانﷺ کا امتی حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ارشادات سے تمسک کرے کیونکہ شیعہ کے نزدیک امامت نبوت کی طرح ہے اور ایک امام کا دوسرے سے اختلاف۔ ایک پیغمبرِ وقت کے دوسرے پیغمبرِ وقت سے اختلاف کی طرح ہے۔

حاصل کلام یہ نکلا شیعہ کو معرفتِ امام اس کی اطاعت سے ہی مفید ہے اور اطاعت کے لیے ارشادات و اعمال کا سامنے ہونا ضروری ہے اور حضرت مہدی غائب سے اس کا تصور بھی ممکن نہیں تو معرفتِ امام سے جہالت اور اطاعت سے محرومی میں شیعہ برابر ہو گئے شیعہ کو الزام دہی کا موقع نہ رہا۔

کچھ شیعہ نے اس مشکل کو بھانپ کر یہ عذر لنگ ضرور تراشا ہے کہ کافی حضرت مہدی کی مصدقہ ہے اس پر عمل گویا حضرت مہدی کی تعلیمات پر عمل ہے مگر یہ بوجوہ مردود ہے: 

اولاً: تمام شیعہ علماء کو اس پر اتفاق نہیں بھلا امام معصوم ایک غیر معصوم شخص کی تمام مرویات کو بلا رد و قدح کیسے تصدیق کر کے ہذا کاف لشیعتنا کہہ سکتا ہے جو اسکے پونے دو صد سال بعد پیدا ہوا ہے۔

ثانیاً: اگر ایسا ہو تو یہی کتاب کافی سمجھی جائے مگر شیعہ تین اور اہم کتابوں کو بھی اصولی اور واجب الاتباع مانتے ہیں اور مزید دسیوں کتب کو جز و مذہب اور قابلِ اطاعت سمجھتے ہیں یہ تو کھلا شرک ہوا یا فرمانِ امام کی تکذیب و تردید ہوئی۔

ثالثاً: شیعہ علماء کو بلا چون و چرا کافی کی تمام روایات ماننی چاہیں مگر وہ اس کی ہزاروں روایات سے آج گریزاں ہیں اور غلط ماننے پر مجبور ہیں جیسے کلام اللہ کی تحریف والی روایات بعض کے نزدیک یا جو روایات بھی آج ان کے رواجی مذہب کے خلاف ہوں۔

جاہلیت کی موت کیوں ہو گی؟

امام زمان کو پہچاننے اور عدم پہچان پر جاہلیت کی موت کی وعید تشبیہ کے طور پر بطورِ تغلیظ ہے کہ جسے عہدِ جاہلیت میں لوگوں کا اجماعی نظام نہ تھا ہر قوم و قبیلہ خود مختار تھا اور مسلسل لڑائیاں اور فتنے رونما ہوتے تھے اسی طرح اگر مسلمانوں میں اجتماعی نظام کی وحدت نہ ہو کوئی منظم حکومت اور سربراہِ مملکت نہ ہو تو گویا جاہلیت کا دور ہے انتخاب خلیفہ کے ذریعے اس کا ازالہ ضروری ہے ورنہ سب گنہگار ہوں گے یہی وجہ ہے کہ انگریز کی سازش اور مصطفیٰ کمال کے خونی انقلاب سے جب ترکی سے خلافت کا خاتمہ ہوا تو تحریکِ خلافت کے نام سے تحریکیں مختلف ممالک میں بیدار ہوئیں متحدہ ہند میں بھی اس کا زور رہا حضرت مولانا عبید اللہ سندھی جیسے حضرات اس حالت کو عہدِ جاہلیت کی یادگار ہی جانتے تھے گویا یہ حدیث خبر بمعنیٰ انشاء ہے کہ مسلمان نظامِ خلافت کو ضرور قائم کریں اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر ایسا متحدہ نظامِ خلافت حاصل نہ ہو سکے تو سب لوگ عہدِ جاہلیت کی طرح کافر سمجھے جائیں گے اور ارتداد کا فتویٰ ان پر لگے گا کیونکہ عہدِ جاہلیت میں بھی "امتِ مسلمہ" کے تحت شیعہ ایک قریش کی جماعت کو مؤمن مانتے ہیں اور کتبِ تاریخ و سیرت بھی معدود افراد کا رسومِ جاہلیت سے پاکدامن ہونے کا پتہ دیتی ہیں جیسے زید بن عمرو بن نفیل، ورقہ بن نوفل متعدد راہبان وغیرہم۔

امام زمان کا ایک اور مصداق:

یہ بھی مطلب بعض علمائے کرام بتاتے ہیں جیسے امام اہلِ سنت مولانا عبدالشکور لکھنویؒ نے النجم دور قدیم میں زیرِ بحث حدیث من مات ولم یعرف امام زمانہ کا لیا تھا کہ امام زمانہ سے مراد آسمانی کتاب ہو اور مطلب یہ ہو کہ جو شخص اپنے زمانہ کے امام یعنی کتاب اللہ پر ایمان نہ لائے اور اس کی اتباع نہ کرے وہ جاہلیت کی موت مرے گا اور امام کا اطلاق کتاب اللہ پر ہوا جیسے: 

وَمِنۡ قَبۡلِهٖ كِتٰبُ مُوۡسٰٓى اِمَامًا وَّرَحۡمَةً‌ الخ۔(سورۃ ہود: آیت 17)

ترجمہ: اور اس سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب شاہد تھی درانحالیکہ امام اور رحمت تھی۔

جب توراۃ امام ورحمت ہے تو قرآنِ مجید بدرجہ اتم امام و رحمت ہے اور فرشتہ کتاب پر امام کا اطلاق اور آیات میں بھی آیا ہے جیسے سورۃ یٰس میں ہے: 

اِنَّا نَحۡنُ نُحۡىِ الۡمَوۡتٰى وَنَكۡتُبُ مَا قَدَّمُوۡا وَاٰثَارَهُمۡ وَكُلَّ شَىۡءٍ اَحۡصَيۡنٰهُ فِىۡۤ اِمَامٍ مُّبِيۡنٍ ۞

(سورۃ یٰسین: آیت 12)

ترجمہ: بے شک ہم ہی مردوں کو زندہ کریں گے اور جو کچھ وہ آگے بھیجتے ہیں اور جو آثار ان کے پیچھے رہ جاتے ہیں ان سب کو ہم لکھتے جاتے ہیں اور ہم نے ہر چیز کو امام مبین میں ازروئے علم و شمار جمع کر لیا ہے۔

روشن امام سے مراد یا لوحِ محفوظ ہے یا اعمال نامہ۔ سورۃ سباء میں اعمال نامہ کی تائید ہوتی ہے۔

وَلَاۤ اَصۡغَرُ مِنۡ ذٰ لِكَ وَلَاۤ اَكۡبَرُ اِلَّا فِىۡ كِتٰبٍ مُّبِيۡن ۞(سورۃ سبا: آیت 3)

ترجمہ: اور نہ اس ذرے سے چھوٹی چیز پوشیدہ ہے اور نہ بڑی مگر یہ کہ کھلی کتاب میں سب مذکور ہے۔

العرض لغت و شرع کی رو سے امامِ زمان قرآنِ مجید کو کہنے پر کوئی امتناع نہیں جب شیعی امامِ زمان کی اتباع ناممکن ہے سنی ائمہ کو شیعہ نہیں مانتے تو بہتر یہی ہے کہ بالاتفاق قرآن کو امام زمانہ تسلیم کر کے اس کی اتباع سے جنت اور رضائے مولیٰ کی سند حاصل کی جائے اور نزارع کا خاتمہ ہو جائے۔