فدک کا ہبہ ہونا تواتر سے ثابت ہے۔(شیعہ مناظر کے مزید دلائل)
جعفر صادق
شیعہ مناظر: معاویہ صاحب یہ پہلی روایت جو ابن عباس سے ہے جو تواتر سے ثابت ہیں جب کہ شرائط میں طے شدہ ہے کہ تین سکین پیش کرنے ہیں تو بقایا میں کوشش کروں گا لکھ کر سینڈ کروں۔
أبو يعلى الموصلي - مسند أبي يعلى - ومن مسند أبي سعيد الخدري
((مسند أبي يعلى الموصلي (81 /3،
قرأت على الحسين بن يزيد الطحان هذا الحديث فقال : هو ما قرأت على سعيد بن - 1037 خثيم ، عن فضيل ، عن عطية ، عن أبي سعيد قال : « لما نزلت هذه الآية ( وآت ذا القربى « حقه (1) ) دعا النبي صلى الله عليه وسلم فاطمة وأعطاها فدك
معاویہ صاحب مسند ابویعلی موصلی کی روایت یہ لیں سکین اس لیے پیش نہیں کررہا شرائط نہ ٹوٹ جائیں
یہ روایت ابو سعید الخذری ⬆️
حدثني أبو الحسن الفارسي ، قال : حدثنا : الحسين بن محمد الماسرجسي ، قال - 473 : حدثنا : جعفر بن سهل ببغداد ، قال : حدثنا : المنذر بن محمد القابوسي ، قال : حدثنا : أبي ، قال : حدثنا : عمي ، عن أبيه ، عن أبان بن تغلب ، عن جعفر بن محمد ، عن أبيه ، عن علي بن الحسين ، عن أبيه ، عن علي ، قال : لما نزلت : وآت ذا القربى حقه ، دعا .رسول الله فاطمة (ع) فأعطاها فدكا
معاویہ صاحب یہ تیسری روایت لیں
یہ روایت امام علی علیہ السلام سے ہے
معاویہ صاحب یہ لیں
: حدثنا : عثمان بن محمد الالثلغ ، قال : حدثنا : جعفر بن مسلم ، قال : حدثنا : يحيى بن الحسن ، قال : حدثنا : أبان بن أبان بن تغلب ، عن أبي مريم الأنصاري ، عن أبان بن تغلب ، عن جعفر بن محمد ، قال : لما نزلت هذه الآية : وآت ذا القربى حقه ، دعا رسول الله (ص) فاطمة فأعطاها فدك ، قال أبان بن تغلب : قلت لجعفر بن محمد من رسول الله أعطاها ، قال : بل من الله أعطاها
معاویہ صاحب یہ چوتھی روایت لیں
معاویہ صاحب یہ روایت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ہیں
الطبري قال في تفسيره جامع البيان [۸: ۶۷]: بعد ما أورد أقوال أهل التأويل المختلفة في تفاسيرهم، قوله تعالي: (وآتِ ذَا القُرْبي حَقّهُ): وقال آخرون: بل عني به قرابة رسول اللّه (صلي الله عليه وآله وسلم) ذكر من قال ذلك: حدّثني محمّد بن عمارة الأسدي، قال: حدثنا إسماعيل بن أبان قال: حدثنا الصباح بن يحيي المزني، عن السدّي عن أبي الديلم، قال: قال عليّ بن الحسين (عليهما السلام) لرجل من أهل الشام: «أقرأ ت القرآن؟ » قال: نعم، قال: «أفما قرأت في بني
إسرائيل (وَآتِ ذا الْقُربي حَقَهُ) »؟ قال: وإنّكم للقرابة التي أمر اللّه جلّ ثناؤه أن يؤتي حقّه؟ قال: نعم.
یہ لیں معاویہ صاحب امام زین العابدین سے روایت
اب یہ ثابت ہوا کہ یہ تواتر سے ثابت ہیں
اب علماء کے اختلاف کی کیا حیثیت تواتر کے سامنے
اب علماء کے اختلاف کی کیا حیثیت تواتر کے سامنے
معاویہ صاحب
اب آتا ہوں ابن حزم کے قول کی طرف
یہ جلد نمبر 7 کا صفحہ ہے اس پر بھی ابن حزم نے قول کو نقل کیا ہے۔
پس یہ چیز چار اصحاب سے منقول ہے اس وجہ سے اس سے مخالفت جائز نہیں ہے ۔
معاویہ صاحب ابن حزم کا قول بھی دیکھ لیں۔
جناب معاویہ صاحب آپ نے دو روز سے صرف ایک ہی رٹ لگا رکھی ھے کہ عطیہ شیعہ ہے اور فضیل شیعہ ہے.
جناب ایسے چالبازیوں سے کام نہیں چلے گا آپ کیا سمجھ رہے ہیں کہ صرف اتنی سے دو نمبری سے آپ دلائل میں وزن پیدا کر لیں گے. نہیں جناب آپ کا یہ چالبازیوں کا دور پرانا ہو گیا ہے.
دو دن سے میں سوال کر رہا ہوں کہ آپ کے محدثین کس بنیاد پر کسی راوی کو شیعہ قرار دیتے ہیں. جناب نے جواب میں کہا کہ انکے عقائد کی بناء پر تو حضور کن عقائد کی بناء پر اصل سوال ہی یہ ہے جس کا آپ جواب نہیں دے رھے کیونکہ اس کا جواب دینے سے آپکے غبارے کی ساری ہوا نکل جائے گی.
جی جناب وہ کونسے عقائد ہیں جن کی وجہ سے ابوحنیفہ کے استاد جیسے کبار تابعین کو شیعہ قرار دیا گیا. اس کا جواب آپکو میزان الاعتدال سے ابان بن تغلب کے ترجمہ میں ملے گا.
ذہبی لکھتے ہیں کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں ایک بدعت ہے کہ تشیع میں غلو اختیار کرنا یا ایسا تشیع جس میں غلو اور تحریف نا ہو اور یہ چیز بہت سے تابعین اور تبع تابعین میں پائی جاتی تھی حالانکہ وہ دین دار پرہیزگار اور سچے تھے لہذا اگر انکی روایت کو محض اس وجہ سے رد کر دیا جائے تو بہت سی احادیث رخصت ھوجائیں گی اور یہ بڑا نقصان ھے (یعنی انکی روایات مردود نہیں مقبول ہیں)
جناب نے بات کی کہ روایت کا صحیح ضعیف ہونا الگ جرح ہے اور مقبول و مردود ہونا الگ جرح ہے.
تو یہ لیں جناب ذہبی کے بقول صرف تشیع تو کیا تشیع میں غلو بھی اگر تابعین و تبع تابعین میں ھو تو انکی روایت مقبول ھے مردود نہیں۔
اب آتے ہیں اس بات پر کہ محدثین تابعین و تبع تابعین کو شیعہ,غالی شیعہ اور رافضی کیوں قرار دیتے تھے
ابان بن تغلب کے ہی ترجمہ میں ذہبی لکھتے ہیں اسلاف کے زمانہ میں عموما غالی شیعہ اس شخص کو کہتے تھے جو طلحہ زبیر عثمان معاویہ یا ان شخصیات کے بارے کلام کرتا تھا جو علی ع سے جنگ کر چکے تھے یا علی ع پر تنقید کرتے تھے۔
لیں جناب یہ وہ وجہ ھے جس کی بناء پر محدثین اکابر تابعین و تبع تابعین کو شیعہ اور غالی شیعہ کہتے تھے.
جناب نے چال چلی ھے کہ عطیہ شیعہ ھے جس کی وجہ سے روایت قابل قبول نہیں جبکہ ذہبی کہتے ھیں شیعوں اور غالی شیعوں کی روایات قابل قبول ھیں مسترد نہیں کی جا سکتیں.