Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

کلمہ طیبہ اور چند فروعی مسائل

  مولانا مہرمحمد میانوالی

سوال: عام ملاں شیعوں پر اعتراض کرتے ہیں کہ شیعہ علی ولی اللہ قرآن سے ثابت کریں۔ ارشاد فرمائیں کہ الصلاة خير من النوم، تراويح، التحیات، سبحانك اللھم، درودِ لکھی، درودِ تاج، نماز میں ہاتھ باندھنا، الٹا وضو، قوالی، قبروں پر حال کھیلنا، طبلے کی سرتال پر سر مارنا، گیارہویں شریف، عرس شریف، بہشتی دروازوں سے گزرنا وغیرہ کس پارے اور رکوع سے ثابت ہے۔ علی ولی اللہ کو آیتِ ولایت اور آیت اولی الامر میں قدرت نے واضح طور پر بیان فرمایا ہے۔ اور حدیثِ مصطفیٰ اس کی تصدیق کرتی ہے۔

عن جابر قال قال رسول اللهﷺ مكتوب على باب الجنة لا اله الا الله محمد رسول اللهﷺ علی ولی الله اخر رسول اللهﷺ قبل ان يخلق الله السموات والأرض بالفی عام۔ 

(مودة القربیٰ رياض النضرة ينابيع المودة: صفحہ، 25 تذكرة الخواص: صفحہ، 28) 

اگر اس پر بھی نہ سمجھو تو پھر تم سے خدا سمجھے۔ 

جواب: اسلام میں کلمہ طبیہ کی جو اہمیت ہے وہ کسی عقلمند سے مخفی نہیں ہے کلمہ شہادت ہی وہ دروازہ ہے جس سے گزر کر ایک کافر مسلمان ہوتا ہے مستحقِ دوزخ مستحقِ بہشت بنتا ہے دشمنِ خدا ولی خدا بن جاتا ہے بےگانہ اپنا ہو جاتا ہے مباح الدم محفوظ الدم ہو جاتا ہے بلکہ پوری زندگی میں انقلاب آ جاتا ہے فکر کا رخ اور احکام کی لائن ہی بدل جاتی ہے کلمہ پڑھنے سے وہ کفار کی برادری سے نکل کر مسلمان برادری کا فرد بن جاتا ہے سابقہ بیوی اس سے جدا بشرطِ انکار از کلمہ ہو جائے گی اور عزت مآب مسلمان خاتون کا اس سے نکاح درست ہو جائے گا اس کی نابالغ اولاد بھی مسلمان سمجھی جائے گی اس کی جان مال عزت وغیرہ ہر چیز کا محافظ کلمہ ہوگا مرنے پر اس کا جنازہ پڑھا جائے گا اور تاقیامت اس پر مؤمنین اور ملائکہ رحمت کی دعائیں بھیجتے رہیں گے

چونکہ کلمہ انتہائی انقلابی پیغام ہے اس لیے انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت کا مقصدِ وحید اور مشنِ اصلی اسی کی تبلیغ تھی باقی سارا دین اسی کے ضمن میں آ جاتا تھا کفار نے سب سے زیادہ ایذائیں انبیاء کرام علیہم السلام و مؤمنینِ صادقین کو اسی کلمہ کی بناء پر پہنچائیں اور تمام مسلمانوں کا بائیکاٹ کیا اس کلمہ کی بدولت مسلمانوں نے کفار سے جہاد کر کے انہیں تہ تیغ کیا خود عہدِ نبوی کے ابتدائی مکی دور میں صرف کلمہ طیبہ ہی کی تبلیغ و تلقین جاری رہی بجز اس کے کہ کلمہ کے ماننے اور انکار کرنے والوں کو "عقیدہِ آخرت" سنا کر انجام سے باخبر کیا جاتا تھا دس سال کے بعد لیلۃ معراج میں صرف نمازِ پنجگانہ کی فرضیت ہوئی پھر جہاد، زکوٰة، روزہ، حج، قربانی وغیرہ اسلام کے شعار تو مدینہ طیبہ ہی میں اترے۔

جیسے عقیدہ توحید میں کمی بیشی مسلم و کافر کی تفریق پیدا کرتی ہے عقیدہ رسالت میں حک و اضافہ کفر و اسلام کی جنگ برپا کر دیتا ہے ٹھیک اسی طرح کلمہ طیبہ میں ترمیم و اضافہ اور نقض کمال سے جو دو فرقے پیدا ہوں گے ان میں سے ایک مسلمان ہو گا ایک کافر ہوگا کیونکہ جب توحید و رسالت کی طرح کسی کا وحدتِ کلمہ پر ایمان و اتفاق نہیں وہ مسلم برادری کا فرد کیسے بنے کلمہ طیبہ میں اختلاف کو ماننا یا ایسے جملہ کا اضافہ کرنا جو قرآن و سنت اور سبیلِ مؤمنین سے ہرگز ثابت نہ ہو اپنے کفر کا کھلا اعتراف کرنا ہے یا پھر 95٪ سب دنیا کے 90 کروڑ مسلمانوں کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دینا ہے اس قدر اہم کفر و اسلام کے مابہ الامتیاز اور تعلیماتِ نبویہ کی روح کلمہ طبیہ کو ان مذکورہ فی السوال باتوں سے مشابہت کیسے دی جا سکتی ہے یا موازنہ درست ہے جو فی نفسها سنت یا مستحب ہیں اور ان کے ترک یا اظہار پر کفر و اسلام کے احکام متفرع نہیں ہوتے۔ 

؏ فرقِ مراتب گر نکنی زندیقی۔

کفر و اسلام میں فارق کلمہ طیبہ ہو اور قرآن اس کا ذکر نہ کرے یا سنتِ نبوی‎ اسے نہ بتائے یا اس میں اختلاف کی گنجائش ہو؟ یہ ناممکنات میں سے ہے مدارِ کفر و اسلام کلمہ طیبہ وہی ہے جس کا قرآنِ پاک نے بار بار اعلان کیا خاتم النبین‎ نے عمر بھر اس کی تبلیغ کی اور ہزارہوں کفار کو براہِ راست پڑھا کر حلقہ اسلام میں داخل کیا اور سب مسلمان تاہنوز اس پر اسی طرح متفق اور ایمان رکھتے ہیں جیسے توحید رسالت قیامت پر ایمان رکھتے ہیں اب آئیئے اور معلوم کیجیئے کہ خدا و رسولﷺ‎ اور تمام مسلمانوں کا مصدقہ کلمہ کون سا ہے جس سے فرقہ شیعہ کو اختلاف ہے اور اسے ناقص مانتے ہیں۔ 

کلمہ اہل سنت ہی قرآن نے سکھایا:

متفقہ کلمہ اسلام "لا اله الا الله محمد رسول الله" ہی قرآن نے سکھایا ہے اس کے دو جز ہیں توحید کا اقرار جسے لا الہ الا اللہ سے تعبیر کرتے ہیں اور رسالتِ محمدیہﷺ‎ کا اقرار جسے محمد رسول اللہ سے تعبیر کرتے ہیں متعدد الفاظ و تعبیرات میں قرآن پاک نے سینکڑوں آیات میں اس کلمہ کو بیان فرمایا ہے مثلاً توحید کے سلسلہ کی آیات کا نمونہ مع ترجمہ مقبول یہ ہے:

1: وَاِلٰهُكُمۡ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الرَّحۡمٰنُ الرَّحِيۡمُ ۞

(سورة البقرہ: آیت 163)

ترجمہ: اور تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں جو سب پر مہربان بہت مہربان ہے۔

اِنَّمَا اللّٰهُ اِلٰـهٌ وَّاحِدٌ‌ الخ۔

(سورة النساء: آیت 171)

ترجمہ: اللہ تو ایک ہی معبود ہے

3: لَا تَـتَّخِذُوۡۤا اِلٰهَيۡنِ اثۡنَيۡنِ‌ اِنَّمَا هُوَ اِلٰـهٌ وَّاحِدٌ‌ ۞

(سورة النحل: آیت 51)

ترجمہ: دو دو معبود نہ بنا بیٹھنا وہ تو بس ایک ہی معبود ہے۔

4: وَمَا مِنۡ اِلٰهٍ اِلَّا اللّٰهُ‌ الخ۔

(سورة آلِ عمران: 62)

ترجمہ: اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ 

5: تَعَالَوۡا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَآءٍۢ بَيۡنَـنَا وَبَيۡنَكُمۡ اَلَّا نَـعۡبُدَ اِلَّا اللّٰهَ وَلَا نُشۡرِكَ بِهٖ شَيۡــئًا۞

(سورة آلِ عمران: 63)

ترجمہ: ایک ایسی بات کی طرف آجاؤ جو ہم تم میں مشترک ہو اور وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اللہ کو چھوڑ کر ہم ایک دوسرے کو رب نہ بنائیں۔

6: قُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا مُنۡذِرٌ وَّمَا مِنۡ اِلٰهٍ اِلَّا اللّٰهُ الۡوَاحِدُ الۡقَهَّارُ‌ ۞

(سورة ص آیت 65)

ترجمہ: اے پیغمبر کہہ دو کہ میں تو ایک خبردار کرنے والا ہوں اور اس اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں جو ایک ہے جو سب پر غالب ہے۔ 

7: لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ فَاَنّٰى تُؤۡفَكُوۡنَ۞

(سورة فاطر: آیت 35)

ترجمہ: اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے پھر آخر تم کہاں اوندھے چلے جارہے ہو۔

8: اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِىۡۤ اٰمَنَتۡ بِهٖ بَنُوۡۤا اِسۡرَآءِيۡلَ الخ

(سورة یونس: آیت 90)

ترجمہ: جس خدا پر بنو اسرائیل ایمان لائے ہیں اس کے سوا کوئی معبود نہیں

9: لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ يُحۡىٖ وَيُمِيۡتُ‌ الخ۔

(سورة الأعراف: آیت 158)

ترجمہ: اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ وہی زندگی اور موت دیتا ہے۔ 

10: هُوَ اللّٰهُ الَّذِىۡ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ‌ الخ۔

(سورة حشر: آیت 23)

ترجمہ: وہ اللہ وہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ 

11: لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَكَ ‌الخ۔

(سورة الانبیاء: آیت 87)

ترجمہ: تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو ہر عیب سے پاک ہے۔

12: اِنَّنِىۡۤ اَنَا اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعۡبُدۡنِىۡ الخ۔

(سورة طٰہٰ: آیت 14)

ترجمہ: حقیقت یہ ہے کہ میں ہی اللہ ہوں۔ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اس لیے میری عبادت کرو۔ 

13: اِنَّهُمۡ كَانُوۡۤا اِذَا قِيۡلَ لَهُمۡ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ يَسۡتَكۡبِرُوۡنَ ۞

(سورة الصافات: آیت 35)

ترجمہ: ان کا حال یہ تھا کہ جب ان سے یہ کہا جاتا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو یہ اکڑ دکھاتے تھے۔

14: اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الۡحَـىُّ الۡقَيُّوۡمُ الخ۔

(سورۃ البقرہ: آیت 255)

ترجمہ: اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو سدا زندہ ہے جو پوری کائنات سنبھالے ہوئے ہے۔ 

15: فَاعۡلَمۡ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ الخ۔

(سورة محمد: آیت 19)

ترجمہ: لہٰذا اے پیغمبر یقین جانو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔

رسالتِ محمدیہ پر نمونہ ملاحظہ ہو:

1: وَاِنَّكَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِيۡنَ ۞

(سورة البقرہ: آیت 252)

ترجمہ: آپ بیشک ان پیغمبروں میں سے ہیں جو رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ 

2: وَالۡقُرۡاٰنِ الۡحَكِيۡمِ ۞ (سورة یٰسین آیت 2)

اِنَّكَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِيۡنَ ۞(سورة یٰسین آیت 3)

ترجمہ: حکمت بھرے قرآن کی قسم تم یقیناً پیغمبروں میں سے ہو۔ 

3: يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّىۡ رَسُوۡلُ اللّٰهِ اِلَيۡكُمۡ جَمِيۡعَا الخ۔

(سورة الأعراف: آیت 158)

ترجمہ: اے لوگو میں تم سب کی طرف اس اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔

4: وَاللّٰهُ يَعۡلَمُ اِنَّكَ لَرَسُوۡلُهٗ وَاللّٰهُ يَشۡهَدُ اِنَّ الۡمُنٰفِقِيۡنَ لَـكٰذِبُوۡنَ‌ ۞

(سورة المنافقون: آیت 1)

ترجمہ: آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ آپ واقعی اس کے رسول ہیں۔

5: ثُمَّ جَآءَكُمۡ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمۡ لَـتُؤۡمِنُنَّ بِهٖ وَلَـتَـنۡصُرُنَّهٗ الخ۔

(سورة آلِ عمران: آیت 81)

ترجمہ: پھر تمہارے پاس کوئی رسول آئے جو اس کتاب کی تصدیق کرے جو تمہارے پاس ہے تو تم اس پر ضرور ایمان لاؤ گے اور ضرور اس کی مدد کرو گے۔ 

کہا جاتا ہے کہ اسمِ محمد کی صراحت کے ساتھ یکجا تذکرہ دکھانا چاہیئے تو وضاحت یہ ہے کہ پارہ 26 میں محمدﷺ‎ نام کی مستقل سورت موجود ہے اس کی دوسری آیت میں رسالتِ محمدیہ کو یوں ذکر فرمایا ہے:

وَاٰمَنُوۡا بِمَا نُزِّلَ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّهُوَ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّهِمۡ‌۞

(سورۃ محمد: آیت 2)

ترجمہ: اور ہر اس بات کو دل سے مانا ہے جو محمدﷺ پر نازل کی گئی ہے اور وہی حق ہے جو ان کے پروردگار کی طرف سے آیا ہے۔ 

اور دوسرے رکوع میں توحید کا اعلان یوں کیا ہے:

فَاعۡلَمۡ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ الخ۔

(سورۃ محمد: آیت 19)

ترجمہ: لہٰذا اے پیغمبر یقین جانو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔

اور اس سے متصل سورۃ الفتح میں کلمہ رسالت یوں سکھلایا گیا ہے:

مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰهِ‌ وَالَّذِيۡنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الۡكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيۡنَهُمۡ الخ

(سورۃ الفتح: آیت 29)

ترجمہ: محمدﷺ‎ اللہ کے رسول ہیں۔ اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے مقابلے میں سخت ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحم دل ہیں۔ 

 اپنے اپنے موضوع میں یکجا ذکر اظہر من الشمس ہے

بلکہ کئی آیات میں یکجا ذکر فرمایا ہے مثلاً:

وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِكَ مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا نُوۡحِىۡۤ اِلَيۡهِ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعۡبُدُوۡنِ ۞

(سورۃ الانبیآء: آیت 25)

 ترجمہ: اور ہم نے تم سے پہلے ایک رسول بھی ایسا نہ بھیجا کہ اس کی طرف ہم یہ وحی نہ کرتے رہے ہوں کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے پس تم میری ہی عبادت کیا کرو۔

قُلۡ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّىۡ رَسُوۡلُ اللّٰهِ اِلَيۡكُمۡ جَمِيۡعَاْ الَّذِىۡ لَهٗ مُلۡكُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ‌ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الخ۔

(سورۃ الاعراف: سورۃ 158)

ترجمہ: اے رسول ان سے کہو کہ: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں جس کے قبضے میں تمام آسمانوں اور زمین کی سلطنت ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ 

العرض سینکڑوں آیات صرف کلمہ توحید و کلمہ رسالت کی ہی تعلیم دیتی ہیں ایک آیت بھی قرآنِ پاک میں ایسی نہیں بتلائی جاسکتی جس میں سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور آپ کی اولاد کی امامت کا ذکر ہو یا لفظِ علی کو مبتداء بنا کر ولی اللہ اس کی خبر بنائی گئی ہو یا وصی رسول اللہ و خلیفتہ بلافصل کے خود ساختہ الفاظ کا اشارہ بھی ملتا ہو جو شیعہ کا مخصوص کلمہ ہے اور اسی کے اقرار پر ایمان و کفر کی ان کے دارالافتاء سے سند ملتی ہے۔

اگر شیعہ عقیدہ امامت اصولِ دین میں سے ہوتا تو توحید و رسالت کے برابر سینکڑوں آیاتِ کریمہ میں اس کا ذکر ملتا فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ‌ الخ

(سورۃ آلِ عمران: آیت 179) کے ساتھ ساتھ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور آپ کی اولاد کے اسمائے گرامی بھی ملتے چلیے ایک ہی آیت میں علی ولی اللہ کی صراحت ہی مل جاتی اگر امامت اصولِ دین سے ہوتی تو ہر پیغمبر اس کے ساتھ مبعوث ہوتا ان کے کلموں کے ساتھ امام کا کلمہ بھی ہوتا مگر تاریخ کا ایک ایک ورق اس کے خلاف کہتا ہے مثلاً پہلے انبیاء علیہم السلام کے کلمے صرف اسی قدر تھے۔

 لا الہ الا اللہ آدم صفی اللہ، لا الہ الا الله نوح نجی اللہ، لا الہ الا اللہ ابراہیم خلیل الله، لا له الا الله اسماعیل ذبیح الله، لا اله لا الله موسیٰ کلیم اللہ، لا الہ الا اله عیسیٰ روح الله۔

گویا لا الہ الا اللہ سب انبیاء کرام علیہم السلام کا متفقہ کلمہ تھا جزوِ ثانی میں رسالت کے بجائے دوسرے اوصاف کا ذکر فرمایا اور آخری پیغمبر کا کلمہ لا له الا اللہ محمد رسول اللہ فرما کر قصرِ رسالت کی تکمیل اور متوازی عقیدہ امامت کی بینح کنی کر دی اگر امامت اصولِ دین میں سے ہوتی یا جزوِ کلمہ بننے کی صلاحیت رکھتی تو کبھی اس کے اخفاء اور تقیہ و کتمان کا حکم نہ ملتا حضرت جبریل علیہ السلام کے سوا سب فرشتے حضورﷺ کے سوا سب انبیاء کرام علیہم السلام سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے سوا سب اہلِ بیتؓ اس رازِ سربستہ سے بیخبر نہ رکھے جاتے اور ظاہر کرنے والوں کو اصحابِ غدر و مکر بے وقوف بلکہ بے دین ذلیل اور نورِ آخرت سے محروم نہ کہا جاتا جیسے کہ اصولِ کافی باب الکتمان: صفحہ، 221 سے ان سب امور کی صراحت سابقاً ذکر ہو چکی ہے بلکہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی طرح بچہ بچہ کی زبان سے اس کا اعلان کرایا جاتا۔

 شیعی شبہات کا ازالہ:

 شیعہ معترض کا یہ جملہ کہ علی ولی اللہ کو آیتِ ولایت اور آیتِ اُولِى الۡاَمۡرِ میں قدرت نے واضح طور پر بیان فرمایا ہے صریح جھوٹ ہے آیتِ ولایت مع شیعی ترجمہ یہ ہے:

اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّٰهُ وَرَسُوۡلُهٗ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوا الَّذِيۡنَ يُقِيۡمُوۡنَ الصَّلٰوةَ وَيُؤۡتُوۡنَ الزَّكٰوةَ وَهُمۡ رَاكِعُوۡنَ‏ ۞(سورۃ المائدہ: آیت 55)

وَمَنۡ يَّتَوَلَّ اللّٰهَ وَ رَسُوۡلَهٗ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا فَاِنَّ حِزۡبَ اللّٰهِ هُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ ۞(سورۃ المائدہ: آیت 56)

ترجمہ: مسلمانو تمہارے یار و مددگار تو اللہ اس کے رسول اور وہ ایمان والے ہیں جو اس طرح نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں کہ وہ دل سے اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہوتے ہیں اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اور ایمان والوں کو دوست بنائے تو وہ اللہ کی جماعت میں شامل ہوجاتا ہے اور اللہ کی جماعت ہی غلبہ پانے والی ہے۔

 اگرچہ مولوی مقبول مترجم نے ترجمہ میں دو غلطیاں کی ہیں ایک یہ کہ وَهُمۡ رَاكِعُوۡنَ‏ کا ترجمہ اور حالتِ رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں کیا حالانکہ رکوع و زکوٰۃ دو مختلف حکم ہیں ایک میں انہماک دوسرے کی طرف توجہ سے مانع ہے نماز و رکوع میں توجہ صرف الی اللہ چاہیئے سائل کے سوال کی طرف توجہ خشوع کے منافی اور ادائیگی عملِ کثیر کی بنا پر مفسدِ نماز ہے۔ یہاں وَهُمۡ رَاكِعُوۡنَ‏ کا جملہ مندرجہ ذیل آیات کی طرح ہے:

1: يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا ارۡكَعُوۡا وَاسۡجُدُوۡا وَ اعۡبُدُوۡا رَبَّكُمۡ الخ۔

(سورة الحج: آیت 77)

ترجمہ: اے ایمان والو! رکوع کرو اور سجدہ کرو اور اپنے پروردگار کی بندگی کرو۔

2: يٰمَرۡيَمُ اقۡنُتِىۡ لِرَبِّكِ وَاسۡجُدِىۡ وَارۡكَعِىۡ مَعَ الرّٰكِعِيۡنَ ۞

(سورة آلِ عمران: آیت 34)

ترجمہ: اے مریم! تم اپنے رب کی عبادت میں لگی رہو اور سجدہ کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع بھی کیا کرو۔ 

3: وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ ۞

(سورة البقرہ: آیت 43)

ترجمہ: اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔

دوم یہ کہ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوا کا ترجمہ ہی ہضم کر گئے جس سے سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی مراد لیتے ہیں تاہم الفاظِ قرآنی اور ترجمہ میں شیعہ کا کلمہ علی ولی اللہ الخ کا اشارہ بھی نہیں ہے۔

شیعہ بڑی چالاکی سے اس آیت کا شانِ نزول حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے حق میں مانتے ہیں اور حالتِ رکوع میں انگوٹھی زکوٰۃ میں دینے کا قصہ بیان کرتے ہیں مگر یہ بوجوہ باطل ہے۔

اولاً: یہ قصہ ضعیف قسم کی تفسیروں میں ثعلبی کی روایت سے بتایا جاتا ہے ثعلبی اور اس کا شاگرد واقدی اور اسی طرح فقیہ ابوالمغازلی حاطبِ لیل اور کمزور ہیں ان کی مؤلفات موضوعات و اکاذیب کا پلندہ ہیں (المنتقیٰ: صفحہ 612) ان کے علاوہ کسی سندِ صحیح سے سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے حق میں شانِ نزول مذکور نہیں بلکہ سیاق و سباق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حق میں شاہد ہے یا عام مؤمنین مراد ہیں جن میں حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ بھی داخل ہیں جیسے عبد الملک نے سیدنا باقرؒ سے اس کی تفسیر میں پوچھا تو فرمایا اس سے سب مؤمن مراد ہیں اس نے کہا بعض لوگ حضرت علی المرتضیٰؓ مراد لیتے ہیں یہ سن کر سیدنا باقرؒ نے فرمایا اہلِ ایمان میں سیدنا علی المرتضیٰؓ بھی شامل ہیں ضحاک سے بھی یہی مروی ہے علی بن طلحہٰ حضرت ابنِ عباسؓ سے ناقل ہیں کہ سب مؤمن و مسلم اللہ تعالیٰ کے ولی ہیں۔

(المنتقیٰ: صفحہ 612) 

ثانياً: وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوا وغیرہ جمع کے صیغوں سے حضرت علیؓ کو مراد لینا بداہتہً غلط ہے ورنہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ وغیرہ مؤمنین کاملین اس سے خارج ہوں گے اور ان سے دوستی شرعاً روا و مفید نہ ہوگی کیونکہ انما کا کلمہ حصر تخصیص چاہتا ہے۔ 

ثالثاً: عہدِ نبوی میں باتفاق مؤرخین سیدنا علی المرتضیٰؓ صاحبِ نصاب نہ تھے نہ آپ پر زکوٰۃ فرض تھی پھر وہ علی الخصوص يؤتون الزکوٰۃ کا مصداق کیسے بنے؟

 رابعاً: اگر صرف سیدنا علیؓ مراد ہوں اور ولایت و محبت صرف ان سے واجب ہو تو فَاِنَّ حِزۡبَ اللّٰهِ هُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ۞

بلاشہ اللہ کی جماعت غالب ہونے والی ہے کی پیشینگوئی باطل ہو گی کیونکہ تاہنوز ولایتِ حضرت علیؓ کے مدعی شیعہ حضرات غالب نہیں ہوئے بلکہ ان کے اعتراف کے مطابق قرونِ ماضیہ میں ان پر وہ عذاباتِ خداوندی ٹوٹے جن کا اثر آج تک محو نہیں ہوا۔

تو معلوم ہوا کہ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوا سے مراد تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں جن کی کامیابی غلبہ اور نجات کی اس آیت میں پیشینگوئی دی ہے اور انہیں حزب اللہ فرمایا ہے:

اُولٰٓئِكَ حِزۡبُ اللّٰهِ‌ اَلَاۤ اِنَّ حِزۡبَ اللّٰهِ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ۞

(سورۃ المجادلہ: آیت 22)

ترجمہ: یہی لوگ اللہ کا لشکر میں سنو اللہ کا لشکر ہی دنیا و آخرت میں کامیاب ہونے والا ہے۔

جو بالاتفاق عہدِ مرتضوی تک تمام دنیا پر غالب و حکمران بنے اور ان کے پیروکار آج تک غالب ہیں اور شیعہ کا دعویٰ ہے کہ شہادتِ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ تک سب امت نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا ساتھ چھوڑ دیا تھا حضرت عثمانِ غنیؓ کی شہادت کے بعد تو امت کا شیرازہ بکھر گیا ایک گروہ سیدنا علی المرتضیٰؓ کا معاون تھا دوسرا مخالف تیسرا غیر جانبدار تھا شیعہ کا یہ بھی اتفاق ہے کہ حضرت علیؓ المرتضیٰؓ کا معاون گروه شیعہ مغلوب و مقہور رہا اور مخالف و غیر جانبدار گروہ غالب رہے اگر آیتِ ہٰذا سے شیعہ کا استدلال اور تفسیر درست ہوتی تو ایسا ہرگز نہ ہوتا العرض اس آیتِ کریمہ کو کلمہ طیبہ سے کوئی تعلق نہیں اگر کوئی سینہ زوری سے کشید کرے تو یوں بنے گا لاولی لکم الا للہ ورسولہ و المومنون ظاہر ہے کہ یہ نہ شیعہ کا کلمہ ہے نہ اس سے کلمہ کی غرض و غایت شہادتین کا اعتراف حاصل ہوتا ہے۔

اسی طرح مندرجہ ذیل آیت اُولِى الۡاَمۡرِ سے بھی کلمہ ثابت نہیں ہے:

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِيۡـعُوا اللّٰهَ وَاَطِيۡـعُوا الرَّسُوۡلَ وَاُولِى الۡاَمۡرِ مِنۡكُمۡ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِىۡ شَىۡءٍ فَرُدُّوۡهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوۡلِ الخ۔

(سورۃ النساء: آیت 59)

 ترجمہ: اے ایمان والو فرمانبرداری کرو اللہ کی اور فرمانبرداری کرو اس کے رسول کی اور اپنے میں سے صاحبانِ اختیار کی اگر کسی چیز میں تمہارا اختلاف ہو جائے تو اسے خدا اور رسول کی طرف لوٹاؤ۔

اس آیتِ کریمہ کی تشریح و تفسیر پہلے گزر چکی ہے آخر اس میں علی ولی اللہ وصی رسول اللہ و خلیفتہ بلا فصل کا کون سا جملہ ہے یا کون سا لفظ اس پر دال ہے کیا یہ صراحتاً افتراء علی اللہ نہیں ہے جو صرف کفار کا شیوہ تھا جیسے ارشاد ہے: فَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَـرٰى عَلَى اللّٰهِ الخ۔

(سورۃ الانعام: آیت 144)

ترجمہ: اس سے بڑا ظالم کون ہے جو اللہ پر بھی جھوٹ بولے۔ اگر اپنی موضوع روایات کے پیشِ نظر اُولِى الۡاَمۡرِ میں سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو شامل مانا جائے تو قطعِ نظر اس سے کہ وہ روایات اور ایسا استدلال ہرگز اہلِ سنت کے لائقِ توجہ نہیں یہاں سے کلمہ یہ بنے گا لا طاعة الالله ولرسولہ ولاولی الامر منکم ظاہر ہے کہ اسے کلمہ طیبہ اور اس کے مفہوم سے ذرا تعلق نہیں نیز اولی اُولِى الۡاَمۡرِ کی اطاعت مشروط ہے ان سے اختلاف ممکن ہے تنازع کی صورت میں ان سے اعراض کر کے خدا و رسول کی طرف ٹوٹنا اور فریقین کی بات کو قرآن و سنت پر پرکھنا واجب ہے حالانکہ صاحبِ کلمہ وہ ہستی ہوتی ہے جس کی بات مطلقاً حجت ہو اور اس سے اعراض و انکار کی ذرا گنجائش نہ ہو اور یہ صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا خاصہ ہے لہٰذا انہی کے نام پر یہ کلمہ چلے گا۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول الله۔

کلمہ طیبہ پر کتب شیعہ سے 51 شہادتیں:

 کلمہ اہل سنت ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھلایا:

قرآن کے بعد اب سنتِ نبویﷺ کو دیکھو رسول اللہﷺ نے شہادتین پرمشتمل یہی کلمہ سب دنیا کو پڑھایا سکھایا تھا۔

1: حضرت ابوذر غفاریؓ کو اسلام لاتے وقت حضورﷺ و حضرت علیؓ نے یہ پڑھایا: تشهد ان لا اله الا الله وان محمد رسول الله فقلت اشهد ان لا اله الا الله وان محمدارسول الله۔ 

(روضہ کافی: صفحہ، 298)

تو لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دے میں نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے بغیر کوئی معبود نہیں اور حضرت محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔

 2: اللہ نے پھر وحی کی کہ اے محمدﷺ لوگوں کے پاس جاؤ اور کہو کہ وہ لا الہ الا الله محمد رسول اللہ کا اقرار کریں۔ 

(حیات القلوب: جلد، 1 صفحہ، 3) 

3: جب اللہ نے مکہ سے مدینہ کو ہجرت کی اجازت دی تو حضورﷺ سے یوں اعلان کروایا: بنى الإسلام على خمس شهادة ان لا اله الا الله وان محمدا عبده و رسوله واقام الصلوٰة وايتاء الزكوٰة و حج البيت و صيام شهر رمضان۔ 

(اصولِ کافی: جلد، 2 صفحہ، 46)

ترجمہ: اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر رکھی گئی ہے:

1: اس بات کی گواہی کہ اللہ کے بغیر کوئی معبود نہیں اور حضرت محمدﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔

2: نماز قائم کرنا

3: زکوٰۃ دینا

4: حج بیت اللہ کرنا

5: رمضان کے روزے رکھنا۔

یہاں نہ شیعی امامت کا ذکر ہے نہ خمس وغیرہ شیعہ سے مخصوص احکام کا جس سے معلوم ہوا کر اصلی اسلام وہی ہے جو اہلِسنت کا ہے اور حدیثِ جبرئیل کے عنوان سے اسی طرح ارکانِ اسلام کا ذکر بخاری و مسلم وغیرہ کتبِ اہلِ سنت میں متواتر ہے۔ 

4: جب آپﷺ خلعتِ نبوت سے سرفراز ہو کر غارِ حرا سے گھر پہنچے تو حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: بگو لا الہ الا للہ محمد رسول اللہ۔

ترجمہ: تو لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھ لے اور قریش کو بھی شہادتین کی دعوت دی۔ 

(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 263) 

5: اسعد نامی مدینہ کے ایک شخص سے حضورﷺ نے فرمایا۔ 

شمارا میخوانم بسوئے شہادت بوحدانیت خدا و پیغمبری من۔

(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 315) 

ترجمہ: میں تم کو خدا کے ایک ہونے کی گواہی اور پیغمبری کی گواہی کی دعوت دیتا ہوں۔  

6: فتحِ مکہ کے موقعہ پر آپ نے سیدنا ابوسفیانؓ والد سیدنا امیرِ معاویہؓ کو شہادتین کی تلقین کی تو وہ یہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوئے: فقال اشهد ان لا اله الا الله و اشهد ان محمدا رسول الله۔ 

(حیات القلوب: جلد، 5 صفحہ، 456)

ترجمہ: تو اس نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے بغیر کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ 

7: ایک سفر میں ایک لاغر اعرابی کو آپﷺ نے اسی کلمہ کی تلقین کی: بگو اشهد ان لا اله الا الله و اشهد ان محمد رسول الله۔

(حیات القلوب: صفحہ، 565) 

8: ایک یہودی لڑکے نے حضورﷺ سے گفتگو کی اور پھر شہادتین کا کلمہ پڑھنے لگا۔ (ایضاً)

 9: قال رسول اللهﷺ اربع من كن فيه كان فی نور اللہ عزوجل من كان عصمة امره شهادة ان لا الله الا الله وانی رسول اللہ۔ 

(من لا يحضره الفقيه: جلد، 1 صفحہ، 56) 

ترجمہ: حضورﷺ نے فرمایا ہے جس میں چار باتیں ہوں گی وہ اللہ عزوجل کے نور میں ہو گا جس کے عقیدہ کی ڈھال خدا کی توحید اور حضورﷺ کی رسالت کی گواہی ہو۔ 

10: سید الشہدا حضرت امیرِ حمزہ رضی اللہ عنہ کو حضورﷺ نے اسی کلمہ کی ترغیب دی تو وہ بول اٹھے: 

اشهد ان لا اله الا الله وان محمد رسول الله۔

(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 657) 

سنتِ نبوی کی دس شہادتوں کے بعد صحابہ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کی شہادتیں ملاحظہ ہوں:

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اہل بیت رضی اللہ عنہم نے بھی یہی سنی کلمہ پڑھا پڑھایا:

 وفات کے وقت حضرت سلمان فارسیؓ نے یہ کلمہ پڑھا:

11: اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له واشهد ان محمد اعبده ورسوله۔ 

(حیات القلوب: صفحہ، 655)

ترجمہ: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ وحدہ لا شریک لہٗ کے بغیر کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمدﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔

12: حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے خندق کے موقعہ پر عمرو بن ود کو اسی کلمہ کی دعوت دی تھی۔ 

(کشف الغمہ: صفحہ، 272) 

نیز اپنے اور اہلِ شام کے درمیان اسی کلمہ کی وحدت کا ذکر فرمایا تھا: والظاهر ان ربنا واحد و نبينا واحد و دعوتنا فی الاسلام واحدة ولا نستزيدهم فی الايمان بالله والتصديق برسوله و لا يستزيدوننا الأمر واحد۔ (نہج البلاغہ: جلد، 3 صفحہ، 125)

ترجمہ: حالانکہ ظاہر ہے ہمارا رب ایک ہے اور ہمارا نبی ایک ہے ہماری اسلام میں دعوت ایک ہے ہم ان سے خدا و رسولﷺ پر ایمان لانے میں زیادتی کا مطالبہ نہیں کرتے نہ وہ ہم سے یہ مطالبہ کرتے ہیں بجز دمِ عثمانؓ کے اختلاف کے ہر بات میں ہم متفق ہیں۔

آپ نے یہاں امامت کا ذکر نہیں کیا معلوم ہوا یہ خود ساختہ عقیدہ ہے۔

13: جب سیدنا ابوسفیانؓ شفاعت کرانے کے لیے اہلِ بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہاں پہنچا تو سیدنا حسنؓ 14 ماہ کے بچے نے کہا: بگو لا اله الا الله محمد رسول الله تامن شفاعت کنم نزد جد خود۔

(حیات القلوب: صفحہ، 245)

ترجمہ: تو یہ کلمہ پڑھ لے تاکہ میں تیری اپنے نانا کے ہاں سفارش کروں۔ 

14: ایک شخص نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے پوچھا اسلام کیا ہے تاکہ میں مسلمان ہو جاؤں۔ حضرت فرمود بگو اشهد ان لا اله الا اللہ وان محمدا عبده ورسولہ۔ 

(ایضاً: صفحہ، 248)

 تو حضرت حسنؓ نے فرمایا تو کہہ دے کہ میں اللہ کی توحید اور حضرت محمدﷺ کی عبدیت و رسالت کی گواہی دیتا ہوں۔

سیدنا باقر رحمہ اللہ و سیدنا جعفر رحمۃ اللہ نے بھی یہی کام سکھلایا:

 15: لان اصل الایمان انما هو شهادتان فجعل شهادتين كما جعله فی سائر الحقوق شاهدان فاذا اقر العبد لله عزوجل بالواحدانية واقر لرسولﷺ‎ بالرسالة فقد اقر بجملة الإيمان۔  

(من لا يحضره الفقيہ: صفحہ، 130 بحوالہ منہاج التبلیغ)

ترجمہ: کیونکہ ایمان کی جڑ خدا اور رسولﷺ‎ کے وجود کی شہادت ہے جیسے سب حقوق میں دو گواہ معتبر ہیں اس طرح ایمان میں یہ دو گواہیاں معتبر ہیں جب بندہ خدا کی توحید اور رسول اللهﷺ‎ کی رسالت کا اقرار کر لیتا ہے تو وہ تمام ایمان کا اقرار کر لیتا ہے۔

16: قال الصادق عليه السلام لقنوا موتاكم شهادة ان لا اله الا اللہ وان محمد الرسول الله۔

(من لا يحضره الفقيہ: جلد، 1 صفحہ، 40)

ترجمہ: سیدنا صادقؒ فرماتے ہیں اپنے مردوں کو یہ کلمہ یاد دلایا کرو لا الہ الا الله محمد رسول الله۔

 17: عن ابی عبد الله قال كان ذلك الكنز لوحا من ذهب فيه مكتوب بسم الله لا اله الا الله محمد رسول الله۔ (تفسیر قمی: جلد، 2) 

سیدنا جعفرؒ فرماتے ہیں ان یتیموں کے خزانے میں ایک سونے کی تختی تھی جس میں بسم اللہ کے ساتھ یہ کلمہ لکھا تھا۔ 

ائمہ ولادت و وفات کے وقت اہل سنت کا کلمہ پڑھتے تھے:

18: حضرت ابوطالب کا بیان ہے کہ سیدنا علیؓ نے پیدا ہوتے ہی سجدہ کیا اور یہ کہا: اشہد ان لا اله الا الله وان محمد رسول الله۔

(تحفتہ الابرار: صفحہ، 28)

 19: حضرت علیؓ نے وفات کے وقت یہی کلمہ پڑھا لا الہ الا الله محمد رسول اللہ اور ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کر لیں۔ 

(کاروانِ اسلام: صفحہ، 199 از رئیس احمد جعفری)

 20: بروایتِ جلاء العیون: صفحہ، 515 سیدنا صادقؒ نے ولادت کے وقت کلمہ شہادتین زبان پر جاری فرمایا آپ ناف بریدہ اور ختنہ شدہ پیدا ہوئے تھے۔

(چودہ ستارے: صفحہ، 253)

 21: سیدنا موسیٰ کاظمؒ نے بھی ولادت کے وقت یہی کلمہ پڑھا جسے حضورﷺ‎ نے پڑھا تھا۔

(جلاء العیون: صفحہ، 270) 

 22: سیدنا نقی نے بھی یہی کلمہ تیسرے دن آنکھیں کھول کر پڑھا۔ 

(جلاء العیون: صفحہ، 374) 

23: امام العصر سیدنا مہدی نے بھی ولادت کے وقت یہی کلمہ پڑھا۔

حضرت صاحب العصر ہمچوں دیگر ائمہ شهادتین فرمود۔

(جلاء العیون: صفحہ، 587)

 سیدنا امام مہدی نے دیگر ائمہ کی طرح خدا و رسول کی گواہی والا کلمہ پڑھا۔

 24: سیدنا مہدی کی ماں پہلے مشرکہ تھی پھر اہلِ سنت کا کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوئی چنانچہ جلاء العیون کی روایت ہے کہ وہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو خواب میں ملیں اور شکایت کی کہ امام حسن عسکری مجھ پر ظلم کرتا ہے اور مجھے دیکھنا نہیں چاہتا پس حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا وہ تجھے کیسے دیکھے حالانکہ بخدا شرک بیاوری و بر مذهب ترسائی پس بگو اشهد ان لا اله الا اللہ وان ابی رسول اللہ۔ حالانکہ تو خدا کے ساتھ شرک کرتی ہے اور عیسائی مذہب پر ہے تو گواہی دے کہ اللہ کے بغیر کوئی معبود نہیں اور میرے باپ محمدﷺ‎ اللہ کے رسول ہیں۔ 

 یہی خاتون حضرت حسن عسکری کی بیوی اور صاحب الامر امام زمان کی ماں ہیں۔ 

(جلاء العیون: صفحہ، 582)

یہاں تک 24 دلائل قاہرہ سے ثابت ہو چکا کہ مکلفین کا یہ مقدس ترین گروہ جو عند الشیعہ حجتہ اللہ ہیں سب اہلِ سنت کا مذہب رکھتے تھے یہی کلمہ شہادتین پڑھتے اور پڑھاتے تھے اسی پر جیتے اور مرتے تھے یہی ان کی زندگی کا مشن تھا اگر یہ کلمہ ناقص یا ادھورا ہوتا تو کبھی یہ کلمہ نہ پڑھتے پڑھاتے بلکہ شیعہ کا مکمل کلمہ پڑھتے پڑھاتے کلمہ اہلِ سنت پر اعتراض اور اس سے اعراض دراصل خدا و رسولﷺ‎ سے انکار اور مذہبِ اہلِ بیتؓ سے دشمنی ہے اللہ تعالیٰ شیعہ کو کفر کے اندھیرے سے نکال کر ہدایت کی روشنی نصیب کرے۔ 

سب کائنات یہی کلمہ پڑھتی ہے:

اب کائنات کی دیگر اشیاء کی شہادات بھی ملاحظہ ہوں:

25: ایک فرشتہ غیب نے آواز دی کہ اے گرجوں اور صوامع والو یہود و نصاریٰ۔ایمان آورید خدا و رسول او محمد که نزدیک شد بیرون آمدن او۔

(حیات القلوب: صفحہ، 58)

ترجمہ: ایمان لاؤ خدا پر اور اس کے رسولِ محمدﷺ پر جس کے دنیا میں آنے کا وقت قریب آگیا ہے۔ 

26: حضورﷺ کی بشارت دینے والے دس ہزار فرشتوں کی قندیلوں پر لکھا ہوا تھا لا الہ الا الله محمد رسول الله۔ 

(حیات القلوب: صفحہ، 58)

 27: حضرت جبرئیل علیہ السلام چار جھنڈے زمین پر لائے سبز عٙلم زمین پر گاڑا اس پر سفیدی سے دو سطروں میں لکھا تھا لا الہ الا اللہ محمد رسول الله۔ (حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 59 بحوالہ منہاج التبليغ) 

28: زمانہ طفولیت میں پہاڑوں اور جنگلوں نے آپ پر یوں سلام کیا: السلام عليك يا صاحب القول العدل لا اله الا الله محمد رسول الله۔

(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 72) 

29: تخلیقِ آدم کے وقت حضرت اسرافیل علیہ السلام نے ایک مہر نکالی جس کی دو سطروں میں یہی کلمہ لکھا تھا اور وہ مہر حضور حضرت آدمؑ کے کندھوں پر نقش فرمادی۔ 

(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 74) 

30: بعثتِ محمدیﷺ سے قبل تمام پرندوں، فرشتوں اور درختوں نے کہا لا الہ الا اللہ محمد رسول الله۔ (حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 100)

31: حضورﷺ کی چاندی کی انگوٹھی پر یہی کلمہ لکھا تھا اور ایک دوسری پر صدق اللہ لکھا تھا۔ 

(ایضاً: صفحہ، 109)

32: عرشِ الہٰی پر یہی کلمہ لکھا ہوا تھا جو حضرت آدم علیہ السلام نے دیکھا۔ 

(حیات القلوب: صفحہ، 141)

 33: شبِ معراج میں اسی کلمہ شہادتین کی آپ نے ملاءِ اعلیٰ میں گواہی دی۔ 

(حیات القلوب: صفحہ، 281) 

34: مہرِ نبوت پر یہی کلمہ تھا جو آپ کے کندھوں کے مابین تھی ایک سطر میں لا الہ الا اللہ دوسری میں محمد رسول اللہ لکھا تھا۔ (حیات القلوب)

 35: بہشت سے کچھ لالٹینیں لائی گئیں اور ہر قندیل پر نوشتہ تھا لا الہ الا الله محمد رسول الله۔ 

(ایضاً: جلد، 2 صفحہ، 59)

36: گرگوں نے آپ کو گزرتے دیکھا تو یہی کلمہ شہادتین پڑھا۔ 

(حیات القلوب: صفحہ، 215)

37: تقدیر کی قلم نے بھی بحکمِ وحی یہی کلمہ رقم فرمایا: و بسوئے قلم می نمود کہ بنویس توحید مرا پس قلم ہزار سال مدہوش گردید از شیذن کلامِ الہٰی وچوں بہوش باز آمد و گفت پروردگارا چہ چیز بنویسم فرود کہ بنویس لا اله الا اللہ محمد رسول الله۔

(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 7)

ترجمہ: اللہ نے قلم کو وحی کی کہ میری توحید لکھ پس قلم یہ کلامِ الہٰی سننے سے ہزار سال بیہوش رہا جب ہوش میں آیا تو پوچھا اے پروردگار کیا چیز لکھوں اللہ نےفرمایا لکھ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔

 38: براق کی پیشانی پر یہی کلمہ لکھا تھا:

مكتوب بين عينيه لا اله الا الله وحده لا شريك له محمد رسول الله۔

(احتجاجِ طبرسی: صفحہ، 28)

 39: جب آپ کسی سنگریزے کو ہاتھ لگاتے تو وہ گواہی دیتا:

لا اله الا الله محمد رسول الله- 

(تاريخ الآئمہ: صفحہ، 14 بحوالہ منہاج التبليغ: صفحہ، 260) 

40: سیدنا زید بن ثابتؓ کہتے ہیں بخدا میں نے جنگلوں میں ہرن دیکھے کہ تسبیح و ذکر لا اله الا الله محمد رسول اللہ مے گفتند۔ 

(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 226)

اذان و اقامت وغیرہ میں کلمہ طیبہ:

رسالت محمدیہ کا ذکر ہر اس چیز میں ہے جہاں خدا کا نام لیا جاتا ہے حیات القلوب میں کیا خوب لکھا ہے: اور اللہ کا ارشاد ہے وَرَفَعۡنَا لَكَ ذِكۡرَكَ ۞ (سورة الانشراح: آیت، 4) 

ترجمہ: اور ہم نے تیرا ذکر تیرے لیے بلند کر دیا پس کوئی آدمی اخلاص کے ساتھ کلمہ شہادت لا الہ الا اللہ کی آواز بلند نہیں کرتا مگر وہ محمد رسول اللہ کی شہادت کی بھی اذان میں اقامت میں نماز میں عیدوں میں جمعہ میں اوقاتِ حج میں اور خطبہ نکاح میں ضرور آواز بلند کرتا ہے۔ 

(حیات القلوب: جلد، 1 صفحہ، 135)

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وَرَفَعۡنَا لَكَ ذِكۡرَكَ ۞ کے تحت اذان اقامت خطبہ کلمہ تشہد وغیرہ میں صرف توحید و رسالت کی شہادت ہوگی امامت وغیرہ کا ذکر خالص بدعت اور حرام ہوگا چنانچہ تیسری چوتھی صدی میں جن غالی دین دشمنوں نے اذان میں شہادت رسالت کے بعد اشہدان علیاؓ امیر المؤمنین الخ سے اضافہ کیا تو معتبر شیعہ علماء نے ان پر لعنت و پھٹکار برسائی چنانچہ شیعہ کی معتبر اور اصح كتاب من لا یحضره الفقيه باب الآذان میں اہلِ سنت کی طرح اذان ذکر کر کے یہ لکھا ہے: والمفوضة لعنهم الله زاد وافی الاذان اشهدان علیاؓ امیر المؤمنین و خلیفتہ بلا فصل الخ مفوضہ پر اللہ کی لعنت ہو انہوں نے یہ الفاظ اذان میں بڑھا دیے اور فروعِ کافی باب بدء الاذان والاقامتہ میں ہے کہ جو شخص مؤذن کو اشهدان لا الہ الا اللہ و اشہدان محمد رسول اللہ کہتے سنا اور پھر یہی کلمہ دہرائے اور ان پر ہی اکتفاء کرے یعنی تیسری شہادت امامت کا ذکر نہ کرے تو اس کو بڑ اثواب ملے گا اس باب میں شیعہ کی امامت کا ذکر نہیں ہے بلکہ ضمناً نفی کی گئی ہے۔

 شہادتین کا کلمہ ہی کامل ایمان ہے:

 42: جمیل بن دراج نے ایمان کے متعلق سیدنا صادقؒ سے فقال شهادة ان لا اله الا الله وان محمدا رسول الله قال اليس هذا عمل قال بلى قلت فالعمل من الایمان قال لا يثبت له الايمان الا بالعمل العمل الامنہ۔ 

(کافی: جلد، 1 صفحہ، 55)

ترجمہ: تو آپ نے فرمایا لا الہ الا اللہ اور محمد رسول الله کی گواہی راوی نے پوچھا کیا یہ عمل نہیں ہے؟ فریایا کیوں نہیں میں نے کہا کیا عمل بھی بیان سے ہے تو فرمایا ایمان ثابت نہیں ہوتا بغیر عمل کے اور عمل ثابت نہیں ہوتا بغیر ایمان کے۔

43: ایک دن حضرت جبرئیل علیہ السلام بصورتِ اعرابی خدمتِ رسولﷺ‎ میں آئے حضرتﷺ‎ نے ان کو پہچانا انہوں نے پوچھا اے محمدﷺ‎! ایمان کیا ہے فرمایا الله یوم الآخرت ملائکہ کتب انبیاء بعث بعد الموت پر ایمان لانا کا سچ کہتے ہو اور اسلام کیا ہے؟ فرمایا کی شہادت لا الہ الا له اور محمد عبدہ و رسولہ زبان پر جاری کرنا نماز قائم کرنا زکوٰۃ ادا کرنا ماہِ رمضان کے روزے رکھنا بیتُ اللہ کا حج کرنا حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا آپ ٹھیک کہتے ہیں۔

(تحفتہ الابرار ترجمہ جامع الاخبار از ابنِ بابویه قمی: صفحہ، 58)

اس حدیثِ جبرئیل علیہ السلام میں جو باتیں مذکور ہیں وہی اہلِ سنت کا مذہب ہیں شیعہ کی مخصوص باتیں اس میں ہرگز نہیں معلوم ہوا مذہبِ اہلِ سنت اور ان کا کلمہ خدا کی تعلیم پر قائم ہے۔ 

44: حضرت جبریل علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس اس وقت آئے جب وہ آگ میں پھینکنے کے لیے منجیق میں رکھے ہوئے تھے تو کہا کیا آپ کو مجھ سے کوئی حاجت ہے فرمایا خاص تم سے کوئی حاجت نہیں پروردگار عالم سے ضرور حاجت ہے اس وقت جبرئیل امین نے ایک انگشتری ان کے حوالے کی جس میں یہ لکھا تھا لا الہ الا اللہ محمد رسول الله الجأت ظهری الى الله وفوضت اموی الی اللہ میں نے اپنی پشت اللہ کی پناہ میں دی اور معاملہ اسی کے سپرد کر دیا پس خدا نے آگ کو حکم دیا: يٰنَارُ كُوۡنِىۡ بَرۡدًا وَّسَلٰمًا الخ۔ 

(سورۃ الانبیآء: آیت 69)

(حاشیہ ترجمہ مقبول: صفحہ، 392)

معلوم ہوا اسی کلمہ اہلِ سنت کی برکت سے اللہ نے مہربانی فرمائی غیر اللہ سے مدد مانگنا اور یا علی مدد کے نعرے لگانا ملتِ ابراہیمی میں شرک ہوا۔

45: تفسیر عیاشی اور الخصال میں جناب رسولِ خداﷺ‎ سے یہ حدیث مروی ہے کہ جس شخص میں یہ چار خصلتیں ہوں گی اس کو خدا کے سب سے بڑے نور میں جگہ ملے گی اس کے ایمان کی سپر یہ کلمہ ہو لا اله الا الله محمد رسول الله۔ 

(ترجمہ مقبول: صفحہ، 45) 

46: سیدنا علیؓ قیامت میں یہی کلمہ پڑھیں گے یقول لا الہ الا الله محمد رسول الله۔ (وكشف الغمہ: صفحہ، 119)

 47: قیامت کے دن حضورﷺ‎ کے ہاتھ میں جولواء الحمد ہوگا اس کی تین سطروں میں بسم اللہ الحمد للہ رب العلمین اور لا الہ الا الله محمد رسول اللہ لکھا ہوگا۔

(کشف الغمہ: صفحہ، 404)

شیعہ علماء کا اعترافِ حقیقت:

48: قاضی نور اللہ شوستری ایک نکتہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

اول آنکه اسلام مبنی است بر اصل شہادتین شہادت واحدانیت و شہادت رسالت و یا اینکه ہریک از کلمات لا له الا الله محمد رسول الله دوازده حرف است۔ (مجالس المؤمنین: جلد، 1 صفحہ، 20)

ترجمہ: پہلا یہ کہ اسلام مبنی ہے دو گواہوں کی جڑ پر توحید کی گواہی اور رسالت کی گواہی اور یا یہ کہ لا الہ الا الہ محمد رسول اللہ میں سے ہر ایک کے بارہ بارہ حروف ہیں۔ 

49: خواجہ نصیرالدین محقق طوسی نے اپنے رسالہ عقائد کے آغاز میں لکھا ہے:

اعلم ايها الاخ الصالح العزيزان أقل ما يجب اعتقاده على المكلف هو ما ترجمة لا اله الا الله محمد رسول الله۔ 

(مجالس المؤمنین: جلد، 2 صفحہ، 208)

ترجمہ: اے نیک بھائی جان لے کہ کم از کم جس چیز کا اعتقاد رکھنا مکلف پر فرض ہے وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا معنیٰ ہے۔ 

50: مشہور شیعہ لیڈر حسن بن صباح نے کہا تھا لوگ کہتے ہیں کہ میں نے دین و مذہب نیا نکالا ہے نعوذ باللہ اس سے کہ میں نیا مذہب نکالوں اور جو دین میں رکھتا ہوں رسول اللہﷺ کے زمانے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا یہی دین و مذہب تھا اور تاقیامت سچا مذہب یہی ہے اور رہے گا۔

و اکنون دین من دین مسلمانی است اشہد ان لا اله الا الله و اشهد ان محمد رسول اللہ۔

(مجالس المؤمنین: جلد، 2 صفحہ، 312)

ترجمہ: اور اب میرا دین مسلمانوں والا دین ہے میں خدا کی توحید اور حضرت محمدﷺ کی رسالت کی گواہی دیتا ہوں۔ 

گو اسے مبنی بر تقیہ ہی مانا جائے دینِ مسلمانی کی بنیاد صرف شہادتین کو تسلیم کیا۔

51: شیعہ کے موجودہ شریعتمدار محمد کاظم ایرانی لکھتے ہیں:

واگر کافرشہادتین بگوید یعنی بگوید اشہد ان لا اله الا الله و اشهد ان محمدا عبدہ و رسولہ مسلمان میشود۔

(توضیح المسائل)

ترجمہ: اگر کافر کلمہ شہادتین پڑھے یعنی کہہ دے کہ میں اللہ کی توحید کی اور حضرت محمدﷺ کی عبدیت اور رسالت کی گواہی دیتا ہوں تو مسلمان ہوجاتا ہے۔

قصہ لذیذ بود حکایت دراز ترگفتم کے تحت کلمہ طیبہ کا کتبِ معتبرہ شیعہ سے ہم نے اثبات کیا ہے شیعہ کے ائمہ ہو یا علماء و مجتہدین سب کلمہ اہلِ سنت ہی کے قائل ہیں اس میں اختلاف صرف متاخرین دور حاضر کے ذاکروں نیم ملاؤں اور مفاد پرست لیڈروں کو ہی سوجا ہے ان تمام دلائل کا تقاضا یہ ہے کہ آج کے شیعہ ان کے آگے سرتسلیم خم کر لیں اور خدا اور رسولﷺ کی خلاف ورزی کر کے نئی راہ کفر و ضلالت نہ نکالیں اسی میں ان کی بھلائی ہے ورنہ وہ دن دور نہیں جب عام مسلمان اور حکومت مجبور ہوکر کلمہ طیبہ کی حفاظت و دفاع میں ان سے وہی سلوک کرے جو ختمِ نبوت کے دفاع میں قادیانیوں سے کیا گیا کیونکہ جیسے مشرک خدا کے انکار سے نہیں بلکہ ایک اور الہٰ و حاجت روا کے اضافے سے خارج از اسلام ہے قادیانی حضرت محمد رسول اللہﷺ کے انکار سے نہیں بلکہ ایک نئے پیغمبر کے اضافے سے خارج از اسلام اور کافر ہے اسی طرح امامی لاله الا اللہ محمد رسول اللہ کے انکار سے نہیں بلکہ اس پر ایک نئے کلمے کے اضافے سے خارج از اسلام قرار پائے گا۔ 

شیعی شبہات کا ازالہ:

شیعہ کا غیر معتبر اور رطب و یابس لٹریچر سامنے رکھنے سے دعویٰ تو نہیں کیا جاسکتا کہ عقیدہ امامت کا رسالت کے ساتھ تذکرہ نہیں ملتا تاہم یہ کہا جاسکتا ہے کہ امامت و ولایت کو جزوِ کلمہ بنانے کی تعلیم ائمہ نے نہیں دی اور نہ ہی اسلام کی صحت و صداقت کو اقرارِ امامت سے مشروط قرار دیا ہے زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ تقیہ امامتِ ایمان کا جزو ہے اسے مانے بغیر کوئی شخص عند الشیعہ کامل الایمان نہیں ہو سکتا جیسے اصول کافی "باب ان الاسلام تحقین به الدم" میں یہ حدیث ہے کہ ایک شخص نے حضرت جعفرؒ سے اسلام و ایمان میں فرق کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا اسلام وہ ظاہر مذہب ہے جس پر سب لوگ ہیں کہ لا الہ الا اللہ کی گواہی اور حضرت محمدﷺ‎ کی عبدیت اور رسالت کی گواہی نماز پڑھنا زکوٰۃ دینا حج بیت اللہ کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا ہیں یہی اسلام ہے اور ایمان اس کے ساتھ امرِ امامت کی معرفت کا نام ہے اور اگر اسلام کا اقرار کرے اور امامت کو نہ پہچانے وہ مسلمان گمراہ ہوگا۔ 

(اصوٹل کافی: جلد، 2 صفحہ، 25)

ہم اہلِ سنت پر بہمہ وجوہ یہ روایت حجت نہیں شیعہ پر بایں معنیٰ حجت ہے کہ وہ صرف معرفتِ امام کے مکلف میں جو فعلِ قلبی ہے اسے اسلام کے برابر اقرار میں لانا یا کلمہ کا جزو بنانا ہرگز روا نہیں ہے لہٰذا اس ارشادِ امام کی رو سے ہر ایسی روایت مردود ہوگی جس سے امامت کا رسالت کے ساتھ اقرار میں تلازم مترشح ہوتا ہو خواہ مناقب کی ہو یا عقائد کی۔ 

2: جب قرآن و سنت صرف شہادتین کے اقرار پر ہی متفق ہیں تو ایسی روایت مردود ہوگی جو اس کے خلاف تیسری شہادت کا ضمیمہ لگائے کیونکہ امام صادق کا فرمان ہے:

1: لا تقبلوا علينا خلاف القران فانا ان تحدثنا حدثنا بموافقة القران و السنة۔ (كتاب الحدائق)

ترجمہ: قرآن کے برخلاف حدیتیں ہمارے ذمے نہ لگاؤ کیونکہ اگر ہم حدیث بیان کریں تو قرآن و سنت کے موافق بیان کرتے ہیں۔ 

2: کل شی و مردود الی الکتاب و كل حديث لا يوافق كتاب الله فهو زحرف۔

ترجمہ: ہر چیز کتاب اور سنت نبویﷺ کی طرف لوٹائی جائے گی اور جو حدیث کتاب اللہ کے موافق نہ ہو وہ بناوٹی ہے۔ 

3: مالم يوافق من الحديث القران فهو زخرف۔ 

(اصول کافی: صفحہ، 29)

ترجمہ: جو حدیث قرآن کے موافق نہ ہو وہ ملمع سازی ہے۔

اس سے ہر قسم کی رطب ویابس روایات کا جواب ہوچکا جن سے دھوکہ کھا کر شیعہ کلمہ بدل دیتے ہیں اب مشتہر کی حدیثِ مصطفیٰﷺ بروایت از سیدنا جابرؓ کی حقیقت داخلہ ہو اس پر ایک حوالہ ریاض النضرہ کا ہے جو اہلِ سنت کے محب طبری کی تالیف ہے مناقبِ عشرہ مبشرہ میں عمدہ کتاب ہے مگر عام کتبِ مناقب کی طرح ضعیف روایات سے خالی نہیں ہے کلمہ طیبہ کے لیے نصوصِ قرآنیہ اور احادیثِ معتبرہ متواتره درکار ہوتی ہیں کتبِ مناقب سے استدلال تو استہزاء کے مترادف ہوتا ہے ہم بھی اس کتاب سے چاروں خلفاء کے نام سے کلمے دکھا سکتے ہیں مثلاً الریاض النضرہ: جلد، 1 صفحہ، 46 پر ہے لا الہ الا اللہ محمد رسول الله الصديق عمر الفاروق عثمان الشهید علی رضا الہٰی پر یہ کلمہ لکھا ہے چونکہ عرشِ الہٰی جنت سے افضل ہے تو یہ کلمہ بہ نسبت شیعی کلمہ کے بہت افضل اور واجب الایمان ہوگا شیعہ جب اسے نہ مانیں تو ان کا کلمہ ہم کیسے مان لیں۔

علاوہ ازیں ریاض النضره من کا یہ حوالہ صریح خیانت ہے کیونکہ وہاں انور سول اللہ کے لفظ ہیں۔

علی ولی اللہ کے نہیں سیدنا علیؓ کے چچا زاد برادرِ نبوی ہونے کا کوئی بھی منکر نہیں۔ 

رہی ینابیع المودة تذكرة الخواص اور مؤدة القربیٰ کے حوالے تو یہ کتابیں نہایت مجروح و غیر متبر ہیں نایاب ہونے کی وجہ سے ہم انہیں دیکھ نہ سکے تاکہ معلوم ہو جاتا کہ ریاض النضرہ کی طرح ان کا حوالہ بھی غلط اور محض مرعوب کرنے کے لیے مشتہر نے تو نہیں دیا۔ 

سبط ابن جوزی کی کتابیں وہی ہیں:

واضح رہے کہ تزکرة الخواص جسے اعلام للخواص بھی کہتے ہیں اور ینابیع المودة مودة القربیٰ سيرت حلبیہ وغیرہ جن سے شیعہ اہلِ سنت کے خلاف استدلال کرتے ہیں اور ایسا مواد ان کو اپنی کتب میں ملتا ہے یہ سبط ابنِ جوزی کی تالیفات ہیں جو مشہور علامہ ابو الفرج ابنِ جوزئی کا نواسہ تھا مگر برائے نام سنی تھا باطن شیعہ تھا اور اپنی تالیفات سے شیعہ ہی کو فائدہ پہنچایا اس کا نام یوسف بن قزغلی المتوفىٰ 654ھ ہے سے میزان الاعتدال: جلد، 4 صفحہ، 471 میں ہے یوسف بن قز على المتوفیٰ 654ھ واعظ مؤرخ تھے کتاب مرأۃ الزمان لکھی اس میں منکر کہانیاں لکھتا ہے میں اسے نقل کردہ مواد میں ثقہ نہیں جانتا بلکہ جانبداری اور زٹلیات سے کام چلاتا ہے پھر وہ رافضی ہوگیا اس پر ایک کتاب بھی شیخ محی الدین سوسی نے کہا میرے دادا کو جب سبط ابنِ جوزی کی وفات کا علم ہوا تو فرمایا اللہ اس پر رحم نہ کرے وہ رافضی تھا۔ 

اس کی کتاب تذکره خواص الامتہ: صفحہ، 38 طبع نجفِ اشرف باہتمام شیعہ میں اس نے یہ عقیدہ لکھا ہے: قلت فی شرط الامام ان يكون معصوما الئلا يقع فی الخطاء۔

 ترجمہ: میں کہتا ہوں امام کا معصوم ہونا شرط ہے تاکہ وہ غلطی میں نہ پڑے۔

 اسی طرح لسان المیزان: جلد، 6 صفحہ، 328 اور جواہر المضيئه فی طبقات الخلفينہ: صفحہ، 231 پر اس پر جرح موجود ہے علامہ ابنِ تیمیہؒ منہاج السنتہ: جلد، 2 صفحہ، 133 پر اس طرح جرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

یہ شخص اپنی تالیفات میں قسم قسم کی محتاجی اور قحط سالی کا ذکر کرتا ہے اپنی اغراض کے لیے کمزور بلکہ موضوع احادیث سے استدلال کرتا ہے لوگوں کے حسبِ منشا و مرضی کتابیں لکھتا تھا تاکہ ان کی مرضی درست ہو اور وہ اس کو اس کا دنیوی فائدہ دیں اور یہ امام ابوحنیفہؒ کے مذہب پر بھی کتابیں لکھتا تھا تاکہ بادشاہوں سے اپنے مقاصد حاصل کر سکے اس کی عادت صرف وعظ گوئی تھی اس سے پوچھ گیا تمہارا مذہب کیا ہے؟ اس نے کہا کون سے شہر میں؟ یہی وجہ ہے کہ اس کی بعض کتابوں میں خلفائے راشدینؓ وغیرہم کبارِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بدگوئی پائی جاتی ہے اور بطورِ تقیہ ان کے مذہب میں تلبیس کرتا ہے اور بعض میں خلفائے راشدینؓ کی تعظیم بھی پائی جاتی ہے یہ ہے شیعہ حوالہ جات کی حقیقت جن کی وجہ سے قرآن وحدیث کے متفقہ کلمہ طیبہ کو بدلا گیا اور اہلِ سنت کو الزام دیا گیا۔

التحیات و ثنا بھی ثابت ہے:

شیعہ کا یہ کہنا که الصلوة خير من النوم تراويح التحیات سبحانک اللھم درود لکھی تاج نماز میں ہاتھ باندھنا الٹا وضو کس پائے اور رکوع سے ثابت ہے ایک لغو بات ہے کیونکہ یہ امور کلمہ طیبہ کی طرح اہم اور مدار کفر و اسلام نہیں ہیں کہ لفظاً قرآن ہی میں مذکور ہوں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ رسول کی اطاعت کرو جو وہ تمہیں دیں لے لو اور جس سے وہ روکیں رک جاؤ تو جوحکم ارشادِ نبوی سے ہو گا وہ بھی قرآن سمجھا جائے گا الصلوٰة خیر من النوم کا ثبوت از پیغمبرﷺ ہم ذکر کر چکے ہیں تراویح پر بھی مفصل روشنی ڈالی جا چکی ہے کتبِ شیعہ سے مزید سنت نبوی ملاحظہ ہو: 

1: عن ابی عبد الله قال كان رسول اللهﷺ اذا دخل شهر رمضان زاد فی الصلوٰة فانا ازید فازید وا۔ (استبصار: جلد، 1 صفحہ، 464)

ترجمہ: سیدنا جعفر صادقؒ فرماتے ہیں جب ماہِ رمضان شروع ہوتا تو رسول اللہﷺ‎ نماز میں اضافہ فرماتے میں بھی زیادہ پڑھتا ہوں تم بھی زیادہ پڑھا کرو۔ 

2: سیدنا جعفر صادقؒ یہ بھی فرماتے ہیں کہ حضورﷺ‎ رمضان میں ہر رات کو نفل اس سے زیادہ پڑھتے جو پہلے پڑھا کرتے تھے اول رات سے بیسویں رات تک 20 20 رکعات روزانہ پڑھتے تھے۔ 

(استبصار: صفحہ، 422)

3: عن ابى جعفرؒ صلى فی اول شهر رمضان فی عشرين ليلة عشرون ركعة۔

(استبصار صفحہ 462)۔

امام باقرؒ کہتےہیں کہ حضورﷺ یکم رمضان سے بیسویں تک 20، 20 رکعات تراویح پڑھتے تھے۔ 

20 رکعت کی اس نماز کو نفل سے تعبیر کرنا صرف لفظی اختلاف ہے۔

اب تشہد و الحیات کے متعلق بھی سنیے:

زرارہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جعفر صادقؒ سے تشہد کے متعلق سوال کیا تو آپؒ نے فرمایا: التحيات لله والصلوات والطبيبات الخ دوسرے تیسرے دن بھی پہلے دن والا جواب دیا کہ التحیات لله والصلوات الخ زرار کہتا ہے جب میں نکلنے لگا تو امام کی داڑھی پر ہاتھ مارا اور کہا کہ یہ امام کبھی کامیاب نہ ہوگا۔ 

(رجال کشی ما از افادات تونسوی)

ایسے معلوم ہوتا ہے کہ شیعہ کو روزِ اول اس تشہدِ نبوی سے جو خدا کی ثناء صلواۃ و سلام برپیغمبر و اصحاب و شہادتین پر مشتمل ہے ضد ہے نواسہ رسولﷺ‎ سے اس کے خلاف کہلوانا چاہتے ہیں وہ جب سنتِ نبوی چھوڑ کر ان کی بات نہیں مانتے تو یہ شیعہ ناراض ہوکر امام کی داڑھی نوچتے گستاخی کرتے اور بد دعا دے کر مجلس سے نکلتے ہیں واقعی ان محبانِ اہلِ بیتؓ کی دشمنی اور ایذاء رسانی کا جواب نہیں

 میرے سامنے دینیات کی دوسری کتاب برائے جماعت سوم ایک رسالہ ہے جسے سر رشتہ تعلیم نے 1953ء سے تمام پنجاب کے لیے منظور فرمایا تھا اس میں شیعہ کی نماز میں قعدے اور سلام کا طریقہ کے عنوان سے تشہد کا یوں ذکر ہے:

 اشهد ان لا اله الا الله وحدہ وأشهد ان محمدا عبده ورسوله۔

ترجمہ: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے بغیر کوئی معبود نہیں جو اکیلا اور لاشریک ہے اور گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمدﷺ‎ اس کے بندے اور رسول ہیں۔

پھر درود کے بعد یہ بھی ہے السلام عليك أيها النبی ورحمة الله وبرکاتہ السلام علینا وعلى عباد الله الصالحین۔ 

 ترجمہ: سلام ہو آپ پر اے نبی اور اللہ کی رحمتیں اور اس کی برکتیں ہوں سلام ہو ہم پر اوراللہ کے تمام نیک بندوں پر۔

ترتیب کے اختلاف کے ساتھ بھی اہلِ سنت کا تشہد و التحیات ہے ایک جلد میں بھی کمی بیشی نہیں اور تشہد کا ہر کلمہ بطورِ مفہومِ قرآن ہی سے ثابت ہے۔ التحیات کی ثناء سورۃ فاتحہ سے ثابت ہے شہادتین پر دلائل کا انبار مذکور ہو چکا ہے حضورﷺ‎ پر درود و سلام صَلُّوۡا عَلَيۡهِ وَسَلِّمُوۡا تَسۡلِيۡمًا‏۞ سے ثابت ہے 

عبادالله الصالحین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر درود وسلام کے متعلق یہ آیت کریمہ ملاحظه ہو: 

هُوَ الَّذِىۡ يُصَلِّىۡ عَلَيۡكُمۡ وَمَلٰٓئِكَتُهٗ لِيُخۡرِجَكُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوۡرِ وَكَانَ بِالۡمُؤۡمِنِيۡنَ رَحِيۡمًا ۞

(سورۃ الاحزاب: آیت 43)

ترجمہ: اے نبیﷺ کے صحابہ کرام وہ خدا تم پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی دعا کرتے ہیں تاکہ تم کو اندھیروں سے نور کی طرف نکالے اور اللہ مؤمنوں پر خوب مہربان ہے۔ 

کیا تشہد سے اس قدر شیعہ کو ضد ہے کہ اب بھی اسے ثابت عن القرآن نہ مانیں گے نماز کے اول میں ثناء کے متعلق ثبوت یہ ہے ابوداؤد ترمذی ابنِ ماجہ نے یہ روایت کی ہے کہ آنحضرتﷺ جب نماز شروع کرتے تو سبحنك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالىٰ جدك ولا الله غيرك پڑھتے تھے۔ 

(عینی حاشیہ بخاری: صفحہ، 103)  

نیز مجمع الزواید: جل،د 2 صفحہ، 107 مستدرک حاکم: جلد، 1 صفحہ، 235 زاد المعاد: جلد، 1 صفحہ، 52 پر بھی یہ ثناء ثابت ہے:

اب بالترتیب ان جملوں کا ثبوت قرآنِ پاک سے ملاحظہ ہو:

وَّ سَبِّحُوۡهُ بُكۡرَةً وَّاَصِيۡلًا ۞

(سورۃ الاحزاب: آیت 42)

ترجمہ: صبح اور شام اللہ کی پاکی بیان کرو۔

وَاِنۡ مِّنۡ شَىۡءٍ اِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمۡدِهٖ الخ۔

(سورۃ بنی اسرائیل: آیت 44) 

 ترجمہ: ہر چیز سبحانک اللهم و بحمدک پڑھتی ہے مگر تم نہیں سمجھتے۔ 

تَبٰـرَكَ اسۡمُ رَبِّكَ الخ(سورۃ الرحمٰن: آیت 78)

ترجمہ: تیرے رب کا نام بڑی برکت والا ہے۔ 

تَعٰلٰى جَدُّ رَبِّنَا الخ۔ (سورۃ الجن: آیت 3) 

ترجمہ: بلا شبہ ہمارے رب کی شان بلند ہے۔

لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنۡتَ الخ۔

(سورۃ الانبیآء: آیت 87)

ترجمہ: تیرے بغیر اور کوئی معبود نہیں۔ 

رہے درود لکھی اور تاج تو واضح رہے کہ یہ ماثورہ از پیغمبر و صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نہیں ہیں بلکہ بعد کے بزرگوں نے عشقِ نبویﷺ سے سرشار ہو کر عربی میں جو آپﷺ کو خراجِ عقیدت پیش کیا اور رحمت کی دعا کی ہے ان کا نام درود پڑگیا محققینِ اہلِ سنت کے نزدیک درودِ تاج کے بعض الفاظ موھم شرک ہیں ان سے احتراز بہتر ہے ان کی اسناد اور فضائل بھی کچھ معتبر نہیں ہیں تاہم عشقِ بنویﷺ سے ان کو پڑھا جائے اور کوئی لفظ خلافِ شرع نہ ہو تو یہ ایسا ہی ہے جیسے حضورﷺ کی مدح و توصیف میں نعت پڑھی جائے جو ہر زبان میں جائز ہوتی ہے اگر حضرت علیؓ و حضرت حسینؓ کی مدح میں قصائد جائز ہیں تو آپﷺ کی مدح میں آپﷺ کے لیے دعاءِ ترحم کے اضافہ کے ساتھ ایسے کلمات بدرجہ اولیٰ جائزہ ہیں اگر شیعہ میں محبتِ نبویﷺ کا جذبہ ہوتا تو ایسا اعتراض نہ کرتے۔

نماز میں ہاتھ باندھنا قرآن سے ثابت ہے:

سورۃ الکوثر میں رب تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ 

فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَٱنۡحَرۡ ۞

(سورة الکوثر: آیت 2) 

ترجمہ: پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور نحر کریں۔ نحر کے معنیٰ جس طرح قربانی کرنے کے لغت میں آئے ہیں اور مفسرین اس سے تفسیر کرتے ہیں اسی طرح لغت میں "دستِ راست رابر چپ گزار دان" (قاموس) بھی آیا ہے نماز کے ساتھ ذکر اس پر قرینہ ہے۔ 

نیز وَقُوۡمُوۡا لِلّٰهِ قٰنِتِيۡنَ ۞ 

(سورۃ البقرہ: آیت 238) اللہ کے آگے عاجز ہو کر کھڑے ہو۔

هُمۡ فِىۡ صَلَاتِهِمۡ خَاشِعُوۡنَ ۞

(سورۃ المؤمنون آیت 2)

ترجمہ: وہ مؤمن کامیاب ہیں جو نماز میں عاجزی کرتے ہیں سے قنوت اور خشوع پیدا کرنے کا حکم واضح ہے قنوت و خشوع ظاہر و باطن میں لازمی ہے ظاہری خشوع نماز میں آداب سے ہاتھ اندھنے سے ہوگا کوئی عقلمند اس کا انکار نہیں کرتا عرفِ عام میں اب اور عاجزی کو دستِ بستہ سے تعبیر کرتے ہیں مثلاً محاورہ ہے "میرے والدین کی خدمت میں دستِ بستہ سلام و آداب عرض کریں" علاوہ ازیں قنوت سکون کے ساتھ لازم ہے وضع یدین کی حالت عین سکون یا اس سے قریب تر ہے اور ارسال یدین سکون سے بعید ہے فطری بات ہے کہ بندش سے سے سکون ہوگا اور ارسال و کھلے رکھنے سے حرکت ہوگی بالفعل حرکت بھی کی جائے مگر کیفیت قریب الحرکت ہے جو منافی سکون ہے فتدبر۔

 شیعہ مذہب میں عوتوں کو تو ہاتھ باندھنے کاحکم ہے حالانکہ مردوں کی نسبت وہ زیادہ ساکن و خاشع ہوتی ہیں تو مردوں کو بدرجہ اولیٰ ہاتھ باندھنے چاہئیں تا کہ اس کیفیت سے وہ سکون کا کامل درجہ حاصل کریں جو مادہ ان کی متحرک اور فعال زندگی کی ضد ہو اور وَقُوۡمُوۡا لِلّٰهِ قٰنِتِيۡنَ ۞ کا آئینہ دار ہو۔ 

تحفتہ العوام: صفحہ، 30 میں ہے کہ اگر زن باشد دست برسینہ بگزارد اگر عورت نماز پڑھے تو ہاتھ سینے پر رکھے فروع کافی: جلد، 1 صفحہ، 198 پر بھی عورتوں کو سینہ پر ہاتھ باندھنے کا حکم ہے۔

من لا يحضره الفقیہ: صفحہ، 77 باب آداب المرأة فی الصلوٰۃ میں ہے:

فاذا قامت المرأة فی صلاتھا جمعت بين قدميها ولم تفرج بينها و وضعت يدها على صدرها مکان ثدییھا۔

ترجمہ: جب عورت نماز پڑھنے لگے تو پاؤں اکٹھے رکھے کشادہ نہ کرے اور ہاتھ سینے پر پستانوں کی جگہ رکھے۔   

اگر عورت کے لیے سینہ پر ہاتھ باندھنا ادب ہے تو مرد کے لیے ناف پر باندھنا کیوں ادب نہیں۔ (الفرق بينهما)

اہلِ سنت و الجماعت کی وضع یدین پر اپنی دلیل یہ ہے۔ 

1: عن قبيصة بن وهب عن ابيه قال كان رسول اللهﷺ يؤمنا فيأخذ شماله بيمينه۔

(رواه الترمذی و ابنِ ماجه مشكوة صفحہ76)

ترجمہ: قبیصہ بن وہب اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ہمیں امامت کراتے تو اپنا بایاں ہاتھ دائیں سے پکڑتے۔

2: مؤطا امام مالکؒ پر باب وضع الیدین علی الاخریٰ فی الصلوٰۃ موجود ہے جس کی ایک روایت یہ ہے: من السنة وضع اليدين احدهما على الأخرى فى الصلوٰة وتعجيل الفطر والاستيناء بالسحور۔

ترجمہ: نماز میں ایک ہاتھ کو دوسرے پر رکھنا سنت ہے افطار میں جلدی اور سحری کھانے میں تاخیر بھی سنت ہے۔ 

ان روایات کے راوی خود امام مالکؒ ہیں معلوم ہوا کہ آپ کا عمل بھی یہی تھا آپ کی طرف جو متاخرین فقہاء مالکیہ نے ارسالِ یدین کی نسبت کی ہے وہ مرجوع ہے۔ 

ترتیب وضو بھی قرآن سے ثابت ہے:

افسوس کہ یہ حضرات اہلِ سنت سے بعض کی وجہ سے قرآن پاک میں مذکور ترتیب کو بھی الٹا وضو سے تعبیر کرتے ہیں حالانکہ وہ خود قرآنی مخالفت کرتے ہیں 

 برعکس زنگی نام نہند کافور آیت وضو مندرجہ ذیل ہے۔ 

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا قُمۡتُمۡ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغۡسِلُوۡا وُجُوۡهَكُمۡ وَاَيۡدِيَكُمۡ اِلَى الۡمَرَافِقِ وَامۡسَحُوۡا بِرُءُوۡسِكُمۡ وَاَرۡجُلَكُمۡ اِلَى الۡـكَعۡبَيۡنِ‌ الخ

(سورۃ المائدہ آیت 6)

ترجمہ: اے مومنو! جب نماز کے لیے اٹھو تو اپنے منہ کو پھر ہاتھوں کو کہنیوں تک دھوؤ اور سر کامسح کرو اور پاؤں کو ٹخنوں تک دھوؤ۔

اس ترتیبِ قرآنی میں منہ دھونا بازو دھونا سر کا مسح کرنا اور پاؤں دھونا ہے اہلِ سنت اسی مذہب پر ہیں اور یہ ترتیب سنت بھی ہے امام احمدؒ کے نزدیک فرض ہے مگر شیعہ نے تو مخالفتِ قرآن کی حد کر دی کہ پہلے پاؤں دھوتے ہیں اور پھر اس پر مسح بھی کر جاتے ہیں ان سے کوئی پوچھے کہ دھونے میں کیا نقص رہ گیا تھا کہ پھر مسح سے اس کی تکمیل کی بازو بھی الٹے دھوتے ہیں کہ کہنیوں سے شروع کرتے اور انگلیوں سے پانی بہاتے ہیں حالانکہ اگر قرآن کا منشاء یہ ہوتا تو ایدیکم من المرافق کہا جاتا کہ کہنیوں سے ہاتھوں تک دھوؤ مگر قرآن پاک نے اَيۡدِيَكُمۡ اِلَى الۡمَرَافِقِ کہا کہ ہاتھوں سے شروع کر کے کہنیوں تک دہوؤ۔

اعتقاداً شیعہ پاؤں دھونے کے قائل ہی نہیں مسح واجب کہتے ہیں حالانکہ قرأتِ ستہ میں تو اَرۡجُلَكُمۡ بفتح لام پڑھا جاتا ہے کیونکہ فَاغۡسِلُوۡا پر معطوف ہے اور ایک قرأت میں کسرہ جر جوار کے طور پر ہے عقلاً بھی پاؤں کا دھونا واجب ہے کیونکہ سب سے زیادہ یہی عضو گرد و غبار سے بلکہ گندگی سے ملوث ہوتا رہتا ہے جس کا ازالہ دھوئے بغیر نہیں ہو سکتا برخلاف سر کے کہ بالاتفاق اس پر مسح وَامۡسَحُوۡا کے تحت فرض ہے کیونکہ سب سے کم تر وہ گرد و غبار سے متاثر ہوتا ہے بالوں کی وجہ سے عادةً پانچ دفعہ دھونا اور خشک کرنا دشوار تھا شریعت نے آسانی کی بناء پر دھونے کے قائم مقام مسح رکھ دیا

اِنَّ رَبَّكَ حَكِيۡمٌ عَلِيۡمٌ ۞

(سورۃ الانعام: آیت 83) 

سنی بدعات کی وجہ:

رہیں نام نہاد سنیوں کی بدعات قوالی قبروں پر حال کھیلنا طبلے کی سرتال پر سر مارنا گیارہویں شریف عرس شریف بہشتی دروازوں سے گزرنا وغیرہ توان کا حکم علمائے اہلِ سنت کے نزدیک وہی ہے جو شیعہ کی بدعات عزاداری ماتم سینہ کوبی زنجیر زنی دوہڑے خوانی سوز خوانی ضریح تعزیہ تکیہ پرستی ماتمی جلوس ماتمی مجالس سیاہ پوشی وغیرہ کا ہے۔ 

کوئی سنی مستند عالم خواه بریلوی ہو یا دیوبندی ہو یا اہلِ حدیث ان بدعات کو سنت یا کارِ ثواب نہیں جتلا سکتا یہ صرف عوام یا نیم ملاں خطرۀ ایمان کے افعال ہیں جو مذہبِ اہلِ سنت سے ہرگز نہیں دراصل یہ اس بات کا ردِ عمل ہے کہ سنیوں کا یہ جہلاء طبقہ شیعہ کے ماتمی جلوسوں اور رسومات میں شرکت کرتا ہے تو بدعت کے اثرات اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔

 صحبتِ صالح ترا صالح کند صحبتِ طالح تر اطالح کند۔

ورنہ تجربہ شاہد ہے کہ عوام اہلِ سنت اہلِ تشیع کے ماحول اور پروپیگینڈے سے دور رہتے ہیں وہ بہت کم ان بدعات کے مرتکب ہوتے ہیں اور جو ان بدعات سے پاکدامن ہیں وہ شیعہ کی رسوم و بدعات سے بھی دامن کشاں رہتے ہیں میرے سادہ سنی بھائی اگر اس نکتہ پر غور کر لیں اپنے مذہب و اعمال پر پختہ ہو جائیں شیعہ کو غیر سمجھ کر ان کی کسی محفل و رسم میں شرکت نہ کریں تو وہ نہ صرف شیعہ کا تر لقمہ بننے سے بچ جائیں گے بلکہ رفض و تشیع کا زور ٹوٹ جائے گا اور ان کا وہ عددی گھمنڈ خاکستر ہو جائے گا جس کی وجہ سے وہ نصابِ تعلیم الگ کر کے تمام احکام و شعائرِ اسلامیہ کو مسخ کرنا چاہتے ہیں۔ 

وأخر دعوانا ان الحمد لله رب العلمين والصلواة والسلام على رسوله محمد واله واصحابه و ازواجه اجمعين۔

 10 مئی 1974ء بروز پیر۔

كاتب: محمد یونس حنیف بمقام و ڈاکخانہ خاص کالی صوبہ خاں ضلع گوجرانوالہ

حق چار یار رضی اللہ تعالیٰ اجمعین۔