Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شیعہ راوی اور صحیح بخاری

  سید محب اللہ شاہ راشدی

شیعہ راوی اور صحیح بخاری

سوال:
کیا صحیح بخاری میں شیعہ راوی موجود ہیں اور یہ بھی وضاحت فرمائیں کہ کیا امام نسائی اور امام حاکم رحمہم اللہ بھی شیعہ تھے؟
الجواب بعون الوھاب:
ہاں واقعتاً صحیح بخاری میں کچھ شیعہ راوی ہیں لیکن متقدمین کے نزدیک شیعہ اور روافض میں بہت فرق ہے ان کا معاملہ آج کل کے شیعہ حضرات کی طرح نہ تھا کہ ان کے اور روافض کے مابین کچھ فرق و امتیاز نہیں بلکہ متقدمین کے نزدیک شیعہ سے مراد وہ لوگ تھے جو صرف تفضیل کے قائل تھے یعنی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے افضل جانتے تھے، اگرچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو برحق امام اور صحابی سمجھتے تھے مگر اس طرح کے کچھ لوگ اہلِ سنت میں بھی گزرے ہیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو سیدنا عثمانؓ سے افضل قرار دیتے تھے لہٰذا یہ ایسی بات نہیں جو بہت بڑی قابلِ اعتراض ہو ہاں کچھ شیعہ شیخین سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو افضل سمجھتے تھے اگرچہ وہ شیخین رضی اللہ عنہما کے متعلق اس عقیدہ کے حامل بھی تھے کہ وہ برحق امام اور صحابی تھے لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو افضل قرار دیتے تھے اور ان کی بات زیادہ سے زیادہ بدعت کے زمرہ میں آتی ہے اور اصولِ حدیث میں مبتدعین کی روایت کو درج ذیل شرائط سے قبول کیا گیا ہے:
1: وہ صدوق ہو متہم بالکذب نہ ہو، عادل ہو۔
2: وہ اپنی بدعت کی طرف داعی نہ ہو۔
3: اس کی روایت اس کی بدعت کی مؤید نہ ہو۔
باقی روافض وہ تو متقدمین کے نزدیک وہ تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور کچھ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے علاوہ دیگر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو معاذاللہ بے دین اور غاصب وغیرہ کہتے رہتے ہیں گویا ان لوگوں نے سیدنا علیؓ کے علاوہ دیگر کو ترک کر دیا ہے اس طرح کے شخص کی روایت قطعاً غیر مقبول ہے۔ 
شیعیت اور رافضیت کی یہ تحقیق علامہ امیر علی نے اپنی کتاب تقریب التہذیب کے حاشیہ کے متصل بعد یعنی تقریب کے ساتھ متصل شامل کر دیا ہے، اس میں اس کے متعلق دوسرے کئی اصول حدیث کے مسائل اور فنِ رجال وغیرہ کے متعلق کافی باتیں لکھی ہیں یہ رسالہ قابلِ دید و لائقِ مطالعہ ہے۔
الحمدللہ صحیح بخاری میں جو شیعہ راوی ہیں وہ اپنی بدعت کی طرف داعی نہیں اور ان کی روایات بدعت کی مؤید بھی نہیں اور وہ فی نفسہ ثقہ و صدوق ہیں بلکہ کچھ روایات ان سے ایسی بھی مروی ہیں جو ان کی بدعت کے خلاف ہیں لہٰذا ایسے راویوں کی روایت میں کچھ حرج نہیں لہٰذا امام بخاریؒ پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ تفصیل کے لیے اصولِ حدیث کی کتب کا مطالعہ کیا جائے۔
باقی رہا امام نسائیؒ کا معاملہ تو ان کے متعلق شیعہ ہونے کی بات کہنا بالکل غلط ہے اور امام موصوف پر اتہام ہے۔ باقی امام صاحب نے جو کتاب خصائصِ علی لکھی ہے وہ اس لیے کہ ان کا کچھ ایسے لوگوں سے واسطہ پڑا تھا جو سیدنا علیؓ سے بالکل منحرف تھے اور ان کے متعلق ناشائستہ لفاظ کہتے تھے، اس لیے اس جلیل القدر صحابی رضی اللہ عنہ کی مدافعت میں یہ کتاب لکھی اس کتاب میں کچھ احادیث صحیح تو کچھ ضعیف بھی ہیں مگر یہ تو محدثین کرتے آئے ہیں (کہ اپنی کتب صحیح و ضعیف سب طرح کی احادیث درج کرتے ہیں) دیکھیے ترمذی، ابنِ ماجہ، ابوداؤد ان سب کتب میں کچھ احادیث صحیح ہیں تو کچھ ضعیف۔
امام حاکمؒ واقعتاً شیعیت کی طرف مائل تھے جیسا کہ حافظ ذہبیؒ نے اپنی کتاب تذکرۃ الحفاظ میں صراحت فرمائی ہے لیکن غالی شیعہ یا رافضی نہ تھے بلکہ صرف تفضیل کے قائل تھے اور حضرات شیخین کریمینؓ کی بہت زیادہ تعظیم و تکریم کرنے والے تھے اور شیعیت اور رافضیت کا فرق مَیں اوپر درج کر آیا ہوں امام حاکمؒ کا مقام حدیث میں بہت بلند ہے، ان کے ترجمہ کو کتب تاریخ اور تذکرۃ الحفاظ میں دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ بڑے بڑے ائمہ اور حفاظِ حدیث نے ان کی بہت ثناء بیان کی ہے باقی رہی ان کی کتاب المستدرک تو معلوم ہوتا ہے کہ انھیں اس کی تبییض و نظرِ ثانی کا موقع نہیں مل سکا، اس لیے اس میں کچھ منکر اور موضوع احادیث ہیں اس کے باوجود بھی اس میں کافی احادیث صحیح اور حسن ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب
اسم الكتاب: 
فتاویٰ راشدیہ
وصف الكتاب: 
کتاب کا نام: فتاویٰ راشدیہ
مصنف: سید محب اللہ شاہ راشدی