محمد حسن شیعہ مناظر کا تبصرہ (قسط 45)
جعفر صادقمحمد حسن شیعہ مناظر کا تبصرہ (قسط 45)
محمد حسن شیعہ مناظر: السلام علیکم یا علی مدد علیہ السلام ۔میں بہت بہت مبارک باد پیش کرتا ہوں۔قبلہ مولانا محمد دلشاد کو جس نے سید فاطمہ الزھراء جنت کے سردار کا حق واضع طور پر بیان کیا ہے۔باقی اہل سنت مناظر اصول سے بلکل واقف نہیں تھا اہل سنت کے اکثر محدثین کا یہ عقیدہ ہے۔۔
(جو شیعہ کی باتیں قبول کرے بس وہی ٹھیک باقی سب غلط، چلیں شکر ہے،آپ نے یہ تو تسلیم کیا کہ میرا عقیدہ اور سنی محدثین کا بھی یہی عقیدہ ہے! ۔ شیعہ دلشاد تو دعویٰ کرتے رہے اورمناظرے میں پورا زور اسی پر لگایا کہ کہ اہل سنت محدثین شیعہ کے ہم عقیدہ ہیں! )
صحیح کی روایت صحیح ہے کہ حضرت فاطمہ الزھراء ناراض ہو کر دنیا سے گذر گئی تھی۔ابوبکر سے کلام نہیں کیا تھا ۔یہ صحیح ہے۔
(اگر صحیح ہے تو سنی و شیعہ معتبر کتب میں آخری ملاقات دوران علالت کہاں سے بیان ہوگئی؟)
اہل سنت مذہب کے مطابق اس کا انکار کرنا مطلب علماء اہل سنت کا انکار کرنا
(ابھی تو آپ کہہ رہے تھے کہ محدثین کا نظریہ بھی وہی ہے جو سنی مناظر کا ہے۔)
اور ایک اصول حدیث ہے ہمیشہ صحیح روایت کا رد صحیح روایت سے کیا جاتا ہے۔
(صحیح روایت میں سیدہ سے ناراضگی بیان کہاں ہوئی ہے؟ )
اگر کوئی مرسل روایت سے رد کرے تو واضح ہو گا بندے کے پاس علم نہیں ہے،ناقص دلیل لیکر آیا ہے ۔
(صحیح روایت میں راوی کے تینوں گمان کا غلط ہونا ثابت کیا گیا ہے۔ پھر بھی اگر کوئی کم عقل اتنے واضح حقائق سنی و شیعہ معتبر کتب سے دیکھ کر انکار کرے تو وہ کیا کہلائے گا؟؟)
خلاصہ دو لفظوں میں مولانا محمد دلشاد نے سیدہ کا حق واضح کردیا ہے کہ سیدہ حق پر تھی لیکن افسوس مسلمانوں نے حق نہیں دیا تھا۔
(مسلمانوں کو نبیﷺ کے فیصلے پر عمل نہیں کرنا چاہئے تھا؟ سیدنا علی کو کیا مجبوری تھی؟ سیدنا امام حسن کو کیا مجبوری تھی؟ انہوں نے اپنے ہی دور میں اپنا حق حاصل کیوں نہیں کیا؟)
واضع ہوا ہمیشہ مسلمانوں نے سیدہ اور سادات کا حق غصب کیا ہےاور ظلم کیا ہے۔
(واضح ہوا کہ شیعہ عوام کو جذباتی مجلسیں سناکر واہ وا ہ تو بہت کرواتے ہیں لیکن درحقیقت ان کے پاس جھوٹ، مکر و فریب اور کمزور تاویلات کے سوا کچھ نہیں ہے)
باقی اھل سنت مناظر ممتاز قریشی کو مشورہ دو ں گا حق کو تسلیم کرو کیوں کہ حق واضح ہو گیا ہے۔
(کس حق کو تسلیم کیا جائے؟ وہ حق جس کا فیصلہ نبیﷺ خود کر کے گئے تھے؟ جو سیدنا علی و سیدنا امام حسن نے بھی نہیں لیا؟ وہ حق جو میراث کی آیات کے مطابق 9 ازواج مطہرات، سیدہ فاطمہ اور چچا حضرت عباس کا بھی ہونا چاہئے تھا؟ یا وہ حق جو دور نبویﷺ سے خلفائے راشدین تک عین قرآن و سنت نبویﷺ کے مطابق خرچ کیا جاتا رہا اور اہل بیت بھی وہ حق وصول کر کے خرچ کرتے رہے؟)
والسلام