Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

شیعہ مناظر دلشاد کی طرف سےاہلسنت ممبرز کو دئے گئے جوابات(قسط 41)

  جعفر صادق

شیعہ مناظر دلشاد کی طرف سےاہلسنت ممبرز کو دئے گئے جوابات(قسط 41)

 محمد دلشاد شیعہ مناظر: سلام علیکم۔ اھل سنت کے بہت سے دوستوں نے کل مناظرے پر اپنا اپنا موقف پیش کیا۔مجموعی طور پر کچھ اہم سوالات کیے اور کچھ میرے طریقہ کار پر اعتراض  اور ممتاز صاحب کی حمایت میں کچھ مدح سرائی۔ بعض دوستوں کے سوالات اور اعتراضات سے یہی سمجھ میں آیا کہ بعض کو موضوع کی اصل ترتیب کا بھی علم نہیں تھا اور ہماری گفتگو بھی صحیح سے نہیں دیکھی تھی اور یک طرفہ رائے دینے کی کوشش لیکن کاش بعض دوست اس وقت سے فائدہ اٹھا کر بنیادی سوالات اٹھاتے ۔ ہم کھلے دل سے سنتے ہیں اور علمی جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیساکہ پہلے ہی دن میں نے اعلان کیا اس بحث کا مقصد کسی سے بغض یا کسی اندھی تقلید کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ ہمیں اپنے موقف کی صحت پر ایمان ہے اور ہم اس کے دفاع کو اپنا شرعی وظیفہ سمجھتے ہیں۔    ہمارا مقصد خلفاء کی شان میں گستاخی کرنا نہیں ہے بلکہ اہل سنت کے عوام سے مخفی ایک حقیقت کو روشن کرنا ہے۔ میں نے بحث کو مندرجہ ذیل تین مرحلوں میں ترتیب دی تھی ۔

(نوٹ:  شیعہ مناظر نے گذشتہ تحر یہاں یر کاپی پیسٹ کی، جسے اوپر مناظرے میں دیکھا جا سکتا ہے، یہاں حذف کی گئی ہے)

 لہٰذا ممتاز صاحب کے بہت سے سوالات اور اعتراضات کا تعلق اس تیسرے مرحلے سے تھا ۔مثلا شیعہ کتابوں میں بھی نحن لا نورث جیسی احادیث کا ہونا ، شیعہ عورت کے لئے زمین سے وراثت کے قائل نہیں۔ کیا ہورا فدک یا  (یہ الفاظ سمجھنے سے قاصر)  یہ سب تیسرے مدعا کے سوالات ہیں جبکہ ممتاز صاحب نے پہلے مدعا میں ایسے سوالات اٹھائے کہ جس کا نتیجہ بحث کی ترتیب کو خراب کرنا ہی تھا لہذا میں نے جان بوجھ کر بعض سوالات کا جواب نہیں دیا کیونکہ اس سے جو ترتیب میں نے  دی ہوئی تھی اس ترتیب سے بحث آگے نہیں بڑھتی تھی  لہٰذا ممتاز صاحب نے جان بوجھ کر یا انجانے میں ایسا طریقہ کار اپنا یا کہ جو شروع میں طئے شدہ  وعدے کی خلاف ورزی تھا۔

 ممتاز صاحب کی ایک خاص روش : جہاں مشکل سوال پیش آتا   ، وہاں یہ خطابت اور جذباتی باتوں اور بعض شبہات کے ذریعے  یا کسی ایک جزئی مسئلے کو اٹھا کر بحث کا  رخ موڑنے کی کوشش کرتا اور اسی روش پر بہت زیادہ عمل کیا ۔ اس کی واضح مثلا ممتاز صاحب کی طرف سے میرے آخری مسیچ میں اٹھائے سوالوں کے مقابلے میں غیر علمی رد عمل  اور میرے اعتراضات پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے اور یہ  سب کے سامنے ہے

  میرے  جواب کا خلاصہ : پہلی بات تو یہ ہے کہ جو شیعہ کہتے ہیں وہ سب اہل سنت کی صحیحین میں موجود ہیں  اور یہ سب حقیقت پر مبنی ہے ، یہ سب ہوا تھا ۔

ممتاز صاحب کے دلائل کا مختصر رد :  ان باتوں کا پہلے تو روایت میں ادراج ہے ہی نہیں ہے ۔ اس کو راوی کا گمان کہنا بھی صحیح نہیں ہے ۔ اگر گمان بھی کہیں تو یہ حقیقت کے مطابق ہے اور پر بہت سے شواہد موجود ہیں  خود  بخاری کی روایت کے اندر کے شواہد  قالت عائشہ  کانت فاطمہ تسال ۔

اس سے باہر کے شواہد   مثلا حضرت علی ع کا موقف جو صحیحین میں  ہے ، اہل سنت کے علماء بڑے بڑے علماء نے ادراج اور روای کا گمان کہے بغیر اس روایت کو اسی مضمون کے ساتھ قبول کیا ہے   اور یہاں تک کہ ابن تیمیہ ، ابن عثیمین  ، ابن عربی ، ابن کثیر  وغیرہ  نے  حضرت فاطمہ ع کو  خطاء کار کہنے کی کوشش کی ہے ۔ابن حجر ، ذھبی  ، جیسے بہت سے اہل سنت کے مایہ ناز علماء نے ادراج کے  بجائے اس کو اصلی روایت کا حصہ  سمجھ کر اس کی شرح کی ہے ۔ عجیب بات یہ ہے ممتاز صاحب کو ادراج کے معنی کا بھی علم نہیں تھا اور سب کے سامنے یہ ادعا کیا کہ ادراج کا معنی گمان ہے   اور شروع میں غضبناک ہونے کی بات کو لیکر استغفار کرتا رہا   اور بار بار سوال کرتا رہا کہ ناراضگی یا الفاظ سے یا چہرے سے  ، یہ سب کہنے کے بعد خود ہی اپنی سب سے ٹھوس دلیل یعنی مدلس کی مرسل روایت کو لے کر یہ اعتراف کر گیا کہ سیدہ زندگی کے آخری ایام میں یعنی اس واقعے کے چھ ماہ بعد راضی ہوگئیں۔ ابھی وہی سوالات جب میں نے الٹا ممتاز صاحب سے کیا ۔ناراضگی کیسے ثابت ہوئی۔استغفر اللہ سیدہ بابا کے فیصلے پر ناراض ہوگئی   تو آگے سے نہ صرف جواب نہیں دیا بلکہ تعجب کی بات یہ ہے آخر تک وہ اسی سوال کا تکرار بھی کرتا رہا جبکہ خود اس نے اس کا جواب دیا تھا   اور رات بھی ممتاز صاحب کے بعض مداح نے بھی وہی سوالات دھرائے ۔ یا للعجب ۔

  ممتاز صاحب سے میں نے پوچھا آپ کیوں قالت کو حدیث کی تفسیر کے لئے بنیاد بنا کر ادراج کے نظرِے کو رد نہیں کرتے کیوں قال کو ہی بنیاد بنا کر اپنے ائمہ اور بڑے بڑے محدثین اور شارحین کو خطاء اور ان پر حقیقت سے دوری کا الزام لگاتے ہیں  ؟  ممتاز صاحب نے خلیفہ اور جناب فاطمہ ع کے معاملے کو نقل کرنے والی احادیث کا ایک جدول اور فہرست پیش کر کے سچ اور جھوٹ کو ملا کر پیش کرنے کی کوشش کی لیکن الحمد لللہ میں نے اھل سنت کی سب سے معتبر کتاب بخاری سے اس ملاوٹ کا جواب دیا کہ اس میں چار احادیث موجود ہیں اور یہ سب کے سب شیعہ موقف کی تاکید کرتی ہے اب امام بخاری نے باقی طرق اور اسناد کو چھوڑ کر انہیں کا انتخاب کیا ہے تو قصور ہمارا نہیں ۔  ساری دلائل جو میں نے پیش کی ہے وہ یہاں نقل نہیں کرسکتا ۔ صرف دو تفصیلی جواب ملاحظہ کریں ۔

(نوٹ: گذشتہ کاپی جوابات۔ حذف کئے گئے ہیں۔) 

کیا شیعہ عورت کے لئے زمین سے وراثت کے قائل ہیں ؟ پہلی بات ہماری بحث آپ سے اس میں ہے کہ جناب فاطمہ نے حقوق کا مطالبہ کیا اب اس میں زمین بھی ہے اور دوسرے امول بھی   لہٰذا یہ ایک انحرافی سوال ہے ۔ دوسری ہماری آپ لوگوں سے بحث بیٹی کی وراثت میں ہے ۔ شیعہ مسلمات میں سے ہے کہ بیٹی کو باب کے ماترک اور میراث سے سب کچھ ارث میں ملتی ہے چاہئے زمین ہو یا ۔ (دلیل؟؟) اگر کوئی اس حقیقت سے جاہل ہے تو وہ پھر اپنی جہالت کا علاج کرائے ۔ اصول کافی میں میراث نساء کے باب میں بعض احادیث کا جواب ۔ یہ صرف زوجہ کی میراث کی بحث ہے جیساکہ اسی باب میں زوجہ کئی جگہوں پر استعمال ہوا ہے لیکن کہیں ام ، اخت ، بنت کے الفاظ نہیں ہیں۔ (شیعہ علماء کی تصریح؟؟) شیعوں کے ہاں اس سلسلے میں قرآن اطلاق کے خلاف بعض روایات موجود ہیں کہ جو زوجہ کو زمین وراثت سے منع کرتی ہیں اور شیعہ فقہاء کے درمیان بھی یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے ۔ (دلیل؟؟ کسی ایک فقیہ کا قول؟؟) لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ بیٹی کو بھی زمین کی وراثت نہ ملنے کا شیعوں کا کوئی نظریہ ہو   ہر گز ایسا نہیں ہے ۔(دلیل؟؟)   لہذا اولا اس کا ہماری بحث سے کوئی تعلق نہیں اور اگر اس قسم کی احادیث کا شیعہ کتب میں ہونے سے شیعوں پر اعتراض ہوتا ہے تو شیعہ بھی تو یہی نحن لا نورث والی حدیث کو قرآن کے خلاف مانتے ہیں قرآن نے بیٹی کو وراثت کا حکم دیا ہے یہ روایت اس قرآنی حکم کے خلاف ہے۔ قرآن نے انبیاء کی وراثت کا واضح حکم دیا ہے اورابن عباس اور  اہل سنت     کے بڑے بڑے مفسرین نے قرآن میں انبیاء کی مالی وراثت کے حکم کا اعتراف کیا ہے {جس کی سند میں پیش کرچکا ہوں }   اب یہ حدیث اس واضح قرآنی حکم کے خلاف ہے ۔(شیعہ مجتہدین نے خلاف قرآن حدیث کی توثیق کیسے کردی؟) اسی طرح اہل سنت کے ہاں بہت سی ایسی روایتیں ہیں کہ جو واضح قرآنی حکم کے خلاف ہیں  تو کیا اس سے ہم وہی سوال اور اعتراض اہل سنت سے کرنے کا حق رکھتے ہیں ؟  انصاف پسندی سے کام لیا کرو  اپنی جہالت کو علم کا درجہ مت دو ۔  (کوئی ایک مثال۔ روایت قرآن کے خلاف اور صحیح روایت بھی ہو؟)

اب فدک کے سلسلے میں سوالات کا جواب:پہلی بات تو یہ ہے کہ ہماری بحث اس میں ہے کہ جناب فاطمہ نے فدک سمیت اپنے حقوق کا مطالبہ کیا اور پھر۔۔۔لہٰذا  فدک کے بارے میں خصوصی روایات ہو ں یا نہ ہوں اس سے ہماری اصلی بحث کی صحت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا ۔ اصل یہ دکھانا ہے کہ خلفاء اور اہل بیت کا موقف کیا تھا اور شیعہ کس موقف کی حمایت کرتے ہیں اور اھل سنت والے کس موقف کی حمایت کرتے ہیں   لیکن پھر بھی وضاحت کی خاطر ۔ ہمارا یہ ایمان ہے کہ فدک کو رسول اللہ ص نے اپنی زندگی میں جناب فاطمہ س کو دیا تھا ۔ شیعہ کتب میں تو یہ مسئلہ کلیئر ہے ۔(ہبہ فدک اہل تشیع روایات: مناظرے کا چیلینج ہے)  اب ہم جب اہل سنت کی کتابوں سے اس پر دلیل پیش کرتے ہیں تو ہمارے پاس دو قسم کے دلائل ہیں  الف ۔اصحاب سے منقول احادیث : اب ان کی سند میں اگر بعض بحث کرتے ہیں تو بہر حال ان کی سند شعبی والی روایت سے قوی ہے اور اہل سنت کے علماء کے بنائے ہوئے قواعد کی روشنی میں ہم اس کو اہل سنت کے حجت کے طور پر پیش کرسکتے ہیں ۔

 ب ۔ جناب فاطمہ س کی طرف سے فدک کو عطاء رسول اللہ ص کے عنوان سے مطالبہ : جیساکہ اس سلسلے میں بھی بہت سے اسناد طرفین کی کتابوں میں موجود ہیں   لہٰذا صرف ان کی طرف سے اس عنوان سے مطالبہ ہی اس کی دلیل ہے  کیونکہ صداقت کے پیکر سے صداقت کی دلیل کا مطالبہ ہی  صحیح نہیں ہے ۔ کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اسلامی دنیا کی خاتون اول اور سب سے بافضیلت خاتون ،جنت کی عورتوں کی سردار ، کسی ایسی چیز کا مطالبہ کرے جو ان کا نہیں ہے اور ایسی چیز کا ادعا کرئے جس کی کوئی حقیقت ہی نہ ہو ؟؟؟(اہلسنت بھی یہ نہیں کہتے۔ سیدہ کا مطالبہ حق بجانب تھا، لیکن اس کے سامنے فیصلہ خود نبیﷺ کا تھا)

 فیصلہ ضمیر کا  ہم تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتے ۔(نبیﷺ کے فیصلے کے آگے شیعہ کے ضمیر کی کوئی اہمیت نہیں)

  باقی ناراضگی الفاظ،چہرے  والا سوال،کیا جناب فاطمہ اپنے والد کے کے فیصلے پر...استغفار۔راوی کا گمان حجت ہے یا نہیں؟ اس قسم کے سوالات کا جواب دے چکا ہوں۔باقی یہ کہنا کہ شیعہ نعوذباللہ جناب فاطمہ ع کو لالچی دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔نہیں جناب حق کا مطالبہ کرنے کو لالچ نہیں کہا جاتا یہ جناب فاطمہ ع کی تاریخ ساز ذمہ داری تھی جو آپ ادا کررہی تھیں (اہلسنت بھی یہی سمجھتے ہیں ،لیکن شیعہ مؤقف کے مطابق فدک نہ ملنے پر سیدہ شدید ناراض ہوگئیں یہ کیسے ممکن ہے جبکہ بیٹی کی خدمت میں فیصلہ والد نبیﷺ کا پیش کیا گیا تھا)

آپ لوگ ممتاز کی طرح جناب فاطمہ ع کا ایک عام خاتون کی سطح سے نیچے لاکر یہ نہ کہیں  تو اچھا ہے کہ حق واضح ہونے اور بابا کا فیصلہ سن کر بھی آپ ناراض ہوگئیں  اور بعد میں جناب خلیفہ نے پھر بھی انہیں راضی کیا۔ (سنی مناظر  اگر شیعوں کی طرح سیدہ کا شدید ناراض ہونا  تسلیم کرتے تو یہ الزام درست ہوتا، یہ الزام تو شیعوں پر عائد ہوتا ہے کہ معاذاللہ سیدہ کو عام عورت کی طرح سمجھ کر شدید ناراض ہونا مانتے ہیں! اہل سنت تو دوٹوک اس کا انکا کرتے ہیں)

  باقی شیعہ حضرات میں سے دس بندوں کو صرف موقف پیش کرنے کی اجازت دیں گے....گروپ کل کی طرح کھول کر نہیں رکھیں گے۔ انشاء اللہ

  دس اھل تشیع والوں کو اظہار نظر کرنے کے لیے ایڈمن بنا رہا ہوں۔اھل تشیع کے کوئی دوست اگر اظہار نظر کرنا چاہے تو رابطہ کرنا۔لیکن دورانیہ اج ایک گھنٹے کا ہوگا۔انشاء اللہ بعد میں مناسب وقت پر گروپ کھول دیں گے۔