شیعہ مناظر کا کاپی پیسٹ کرنےکا اقرار اور امام بیہقی ، امام شعبی کی مرسل روایت پر تحقیق (قسط 23)
جعفر صادقشیعہ مناظر کا کاپی پیسٹ کرنےکا اقرار اور امام بیہقی ، امام شعبی کی مرسل روایت پر تحقیق (قسط 23)
شیعہ مناظر: سلام علیکم۔ بسم تعالی۔ ممتاز صاحب مسلسل میری مدد کرنے کا شکریہ۔ آپ نے اپنے مدعا اور اپنے بنائے اصولوں کی خلاف ورزی کر کے میرے کام کو آسان بنایا۔ممتاز صاحب۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ قاتل مقتول کے خون کا وارث بن کر قصاص کا مطالبہ کرتا ہے ۔ میری طرف سے بحث کی الف ب کی کم از کم دس مرتبہ وضاحت کے باوجود ابھی تک اپنی طرف سے میرے مدعا کے مراحل کی تفسیر کر کے مجھ سے میرے مدعا کی وضاحت کا حق چھین کر بار بار مجھے خلاف ورزی کے مرتکب دکھاکر میرے دلائل پر پردہ ڈالنے اور میرے اٹھائے بنیادی سوالات پر پردہ ڈالنے کی کوشش میں ہیں۔لیکن آپ کی تماتر کوششوں کے باوجود میں انشاء اللہ آپ کو اسی ترتبیب سے آگے ہی لے کر چلوں گا ۔
سنی مناظر بار بار شیعہ مناظر کی اس تحریر کے اسکرین شاٹ رکھتا رہا کہ الف اور ب یہ ہے اور اسی تحریر پر گفتگو طئے ہوئی تھی ، اسی ترتیب سے گفتگو ہوگی لیکن شیعہ دلشاد عام شیعوں کی طرح دوران مناظرہ اپنی ہی تحریر کی ترتیبب کو بدل کر گفتگو کرتے رہے! شاید سمجھ گئے کہ اس کا دجل آشکار ہو چکا ہے۔
دوسری بات صحیحین کی جن احادیث سے شیعہ عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں انہی احادیث میں اصل حقائق بھی موجود ہوتے ہیں۔ قارئین غور کریں!آخر شیعہ نامکمل باتیں کیوں بتاتے ہیں؟
میرا مدعا یہ تھا کہ جناب فاطمہ ع کی طرف سے اپنے حقوق کے مطالبے کو رد کرنے کی وجہ سے ناراض ہونا اور اسی وجہ سے بائیکاٹ کی حالت میں اور خلفاء کو اپنے حق سے محروم کرنے والے سمجھ کر دنیا سے جانا اور اسی طرح امیر المومنین ع کی طرف سے جناب فاطمہ ع کی حمایت اور خلفاء کی جانب سے حدیث لانورث سے استدلال کو قبول نہ کرنے کی باتیں یہ سب آپ کی صحیحین میں موجود ہیں ۔الحمد للہ اس کو میں نے ثابت کیا
ایک محاورہ ہے کہ کوڑھ مغز کو جتنا چاہے سمجھاؤ، وہ کبھی نہیں سمجھے گا۔شیعہ مناظر کو یہ سمجھ تو آگیا کہ سنی مناظر کے اسکینزجو اہلسنت و اہل تشیع کی معتبر کتب سے ہیں، ان سے سیدہ فاطمہ کی ناراضگی ثابت ہوگئی لیکن یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ جن اسکینز سے وہ ناراضگی ثابت کر رہا ہے، ان اسکین میں تو سیدہ فاطمہ شیخین سے راضی بھی ہو رہی ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ان اسکین میں بیان کی گئی رضایت کے منکر ہیں اور جو شدید ناراضگی بیان ہی نہیں ہے اسے شیعہ ثابت قرار دے رہا ہے۔ شیعہ مناظر کو اصل میں سنی مناظر کا استدلال رد کرنا تھا لیکن یہ مناظرے کا طریقہ انہیں معلوم ہی نہ تھا، کیونکہ وہ خود بھی بغیر استدلال احادیث رکھ کر گفتگو کرتے رہے اور من پسند مفہوم نکالتے رہے
اور عجیب بات یہ ہے آپ پہلے مرحلے میں غضبت والی بات کو ادراج کہتے رہے بعد میں آپ نے خود ہی ثابت کیا کہ بے شک ناراض ہوئی تھیں اور اس کے اسکین بھی آپ نے خود ہی پیش کئے ۔ یہ مرحلہ بلکل ختم ہوا ۔
شیعہ مناظرکا شکوہ!
مجھ سے سیدہ کی ناراضگی کے سوال کیوں کرتے ہو؟
سنی مناظر کے دلائل شیعیت پر حجت تمام کرنا تھا کہ اگرچہ سیدہ فاطمہ سے یہ امید نہیں کہ وہ دنیاوی مال ملکیت پر اتنی شدید ناراض ہوں اس کے باوجود دلی رنجش یا خلش عین ممکن ہے۔ اس خلش کا ختم ہونا بھی اہل سنت و اہل تشیع روایات میں مذکور ہے۔
آخر یہ حقائق شیعہ علماء عوام تک کیوں نہیں پہنچاتے؟
اب دیکھیں آپ نے میری مدد اور خود اپنے اٹھائے سوالوں کا کس طرح خود ہی جواب دیا ۔آپ نے دوسرے شواہد کا ادعا تو بہت کیا بعد میں ایسی سندیں پیش کی جن سے ناراض ہونے کی بات ثابت ہوتی تھی۔ ناراض ہونے کے بعد میں وفات سے پہلے راضی ہونے کا ادعا بھی ۔اب یہاں اصل ناراض ہونے کو آپ مان گئے لہٰذا اب مجھ سے ناراض کے الفاظ اور چہرے کی نشانی کا سوال کیوں کرتے ہو ؟عجیب ہے جس سوال کا جواب آپ خود دے گئے اس کا مجھ سے سوال بھی ۔اب جب نارض ہوگئی تھی اور وہ بھی بقول آپ کے رسول اللہ ﷺ کی حدیث سنانے کے بعد تو جناب آپ جو استغفار کر کر کے شیعوں پر اعتراض اور سوال اٹھا رہے تھے وہ کیا ہوا ؟ کیا پھر بھی مجھ سے جواب مانگے ہو ؟؟
کیا جناب فاطمہ ع حضور کی حدیث کی منکر ہوگئی تھی ؟ یہ پہلا مرحلہ تھا جو کو آپ نے ادراج کا رٹ لگا لگا کر خود ہی تسلیم کیا اور اس پر دلائل پیش کئے۔ اگلی بات یہ تھی کہ آپ اس کا مطالبہ کرتی رہیں، جیساکہ جناب عائشہ کا قول
{ قالت ، کانت فاطمہ تسال ابابکر }
اور پھر مولا علی کی طرف سے اس میراث کے مطالبے کا خلیفہ دوم کےدور تک جاری رہنا ۔یہ دنوں اس بات کی دلیل ہے کہ معاملہ اس حدیث کے نقل سے ختم نہیں ہوا اور خلیفہ دوم کے دور تک چلتا رہا یہ ایک تو زہری کے بقول آپ کے گمان کی حقیقت پر مبنی ہونے کی دلیل ہے اور دوسرا جناب زہرا کی ناراضگی اور اپنے حق سے محروم کے نظریے کی ۔اب عجیب بات یہ ہے ادراج ادراج کا رٹ لگانے کے باوجود ایک تو ادراج کے معنی نہیں جانتا تھا اور ساتھ ہی میرے ادراج کی نفی کے لئے پیش کردہ شاہد سے چشم پوشی ۔جناب کب اس کا جواب دو گے لہٰذا خود بخود یہ بھی ثابت ہوا کہ معاملہ جاری ہی رہا اور ابوبکر کے دور میں یہ ختم ہی نہیں ہوا ۔آپ کے سارے دلائل کو خود آپ ہی نے خراب کیا ۔آپ نے کہا یہ سب زہری کا گمان ہے ۔میں نے کہا گمان بھی ہو حقیقت پر مبنی ہے پھر آپ کا یہ اعتراض ہوا کہ وہ تو واقعے کے عینی شاہد نہیں ۔یہاں تک کہ آپ نے اس کی بات کو ایک مرسل خبر کے طور پر بھی قبول نہیں کیا
ڈوبتے کو تنکے کا سہارہ!
شیعہ مناظر دلشاد! فریق مخالف کے دلائل اور اشکالات پر علمی رد کرنے کے بجائے اپنی ذاتی تاویلات سے اپنا مؤقف ثابت کرنے کی مذموم کوششیں کر رہے ہیں! اگر شیخین کے دل میں بغض اہل بیت ہوتا تو سیدہ کی عیادت کیوں کرتے؟ حضرت ابوبکر کی بیوی حضرت اسماء کیا شوہر کی اجازت کے بغیر سیدہ کی خدمت کرتی رہی؟شیخین کو راضی کرنے کی فکر بھی کیوں؟؟شیعہ اتنے کم عقل ہیں کہ جن باتوں سے صحابہ اور اہل بیت کی محبت ثابت ہوتی ہے انہی سے الٹا مطلب نکال لیتے ہیں!
اور آج ماشاء اللہ جناب فاطمہ کی رضایت پر ایسی اسناد پیش کی کہ جو پہلے آپ کے غضبت کے ادراجی جملہ ہونے کو باطل کرتی ہیں اور واضح طور پر یہ بتاتی ہے کہ راوی کے نقل میں "غضبت" بلکل صحیح تھا ۔ اگر ناراض نہیں ہوئی تھی اور خلفاء کی باتوں کو رد نہیں کیا تھا تو ان کو راضی کرنے سفارش کے ساتھ ان کے دروازے پر کیوں گئے ؟ واہ جی واہ ۔
اب اگلی بات: غضبت اور وجدت جب حقیقت پر مبنی ہے اور پھر رضایت پر جو دلیل پیش کی وہ تو مرسل ہے اس کی سند ہی ٹھیک نہیں ہے ۔آپ فرض کریں حسن ہے تو مرسل ہونے کا انکار تو نہیں ۔ آپ نے آج اس سلسلے میں جتنی روایتیں پیش کی وہ سب کے سب مرسل ہیں اور سند کے اعتبار سے ضعیف۔جناب اگر آپ کا یہ اعتراض تھا کہ زہری واقعے کے عینی شاہد نہیں تو شعبی {کہ بعض نے اس کی تضعیف بھی کی ہے} وہ کیسے رضایت کے شاہد ٹھہرے ؟اگر شعبی کی مرسل روایت حجت ہے تو زہری کی مرسل روایت کیوں حجت نہیں زہری تو شعبی سے زیادہ قوی ہے ۔ اب ان سب سے یہ واضح ہوا میرے دلائل کا رد آپ کے پاس نہیں ہے ۔ لہذا میرا دوسرا مدعا بھی خود بخود ثابت ہوا ۔
یہ ہے میرے الف اور ب کی کہانی ۔اب آپ کے الف ب کی بات دیکھیں۔ آپ نے الزامی سوالات کہہ کر کر اتنے سوالات کیے جو بحث کے تیسرے مرحلے سے متعلق ہے لہذا آپ نے جان بوجھ کر بحث کو خراب کرنے اور مجھ سے کیے وعدے کی خلاف ورزی کی کوشش کی ۔ ہمارے ایڈمن حضرات اس کے گواہ ہیں آپ نے فدک اور وراثت ، حدیث العلماء ورثۃ ۔ شیعوں کے ہاں عورت کی وراثت ۔ حضرت علی کے دور میں فدک واپس نہ لینے جیسے جتنے بھی سوالات اٹھا ئے یہ سب اصل بحث کو خراب کرنے کی کوشش تھی اور میں نے شروع میں ہی آپ کی اس چالاکی کی طرف اشارہ کر کے کہا تھا آپ بحث سے جتنا دور جائیں آپ کو واپس لے کر آؤں گا ۔ مندجہ بالا آپ کے سوالات میں سے بعض کا میں نے جواب دیا آپ 1،2،3 کی چکر میں ان کو نظر انداز کرتے رہے۔ مسلسل سوال دھرا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی یہ میں آپ کے سوالات کا جواب نہیں دے رہا ہوں اور پھر کئی دفعہ ڈیڈ لائن دی لیکن ہوا کچھ نہیں ۔ ممتاز صاحب ۔کب تک ایسا کرتے رہو گے جب پہلا اور دوسرا مرحلہ ختم ہو اور آپ اصولی طور پر تیسرے مرحلے میں داخل ہو ں تو پھر آپ کو بتاؤں گا شیعوں کے ہاں وراثت کا کیا قانون ہے۔ شیعہ حدیث کا کیا معنی ہے مولا علی نے کیوں واپس نہیں لیا۔
ایک دلچسپ حقیقت
مناظرے کے آخر میں سنی مناظر نے یہ بات بھی قبول کر لی کہ چلیں تیسرے مرحلے کو شروع کریں اور اپنی باتیں ثابت کر کے دکھائیں۔ اس کے بعد شیعہ مناظر کی دوڑیں بھی دیکھنے لائق ہیں
جناب ہماری بحث اس میں تھی کہ شیعہ جو کہتے ہیں وہ آپ کی کتابوں میں ہیں اور مجھے یہ ثابت کرنا تھا کہ حقوق کا مطالبہ کرنا اور ناراض ہونا اور معاملہ ختم نہ ہونا اور مولی علی اور جناب فاطمہ کی طرف سے اپنے حق نہ ملنے کا نظریہ ، یہ میں نے آپ کی ہی مدد سے ثابت کیا کہ یہ سب آپ کی کتابوں میں ہیں اور آپ کے علماء نے اس حقیقت کو قبول کیا ہے اور پھر بعض نے یہ بحث کی ہے ان میں سے کونسا فریق حق پر تھا کون نہیں تھا ۔ اب آپ کو اور دوستوں کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ آپ کے سوالات بحث کے مراحل سے متعلق نہیں اور بحث سے فرار کا ایک طریقہ کار ہے یہی وجہ ہے کہ میرے بنیادی سوال کا جواب دینے کے بجائے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ میں آپ کے سوالات کا جواب نہیں دے رہا ہوں ۔جناب کسی اچار بنانے کی کمپنی کا انچارچ تو نہیں ہو ؟ کچھ اسناد پیش کر رہا ہوں اگرچہ یہ اس مرحلے سے متعلق نہیں لیکن آپ کے الزامی جواب کا جواب دینے کے لئے ۔
کیوں ابن عباس اور اھل سنت کے بزرگ مفسرین نے اس حدیث کو اسی طرح نہیں مانا جس طرح آپ لوگ استدلال کرتے ہیں ؟ اہل سنت کے مفسرین نے
{ ویرث من آل یعقوب یَرِثُنِی الْمَالَ وَیَرِثُ مِنْ آلِ یعقوب النبوه }
کی تفسیر وراثت مالی ہونے کا اعتراف کیا ۔
سفیان فی قوله ویرث من آل یعقوب یَرِثُنِی الْمَالَ وَیَرِثُ مِنْ آلِ یعقوب النبوه :تفسیر سفیان الثوری.ص181.ط دارالکتب العلمیة
محقق لکھتا ہے : وهو قول ابن عباس وابی صالح والحسن والسدی وزید بن اسلم ومجاهد والشعبی والضحاک کما فی الطبری: تفسیر سفیان الثوری.ص181.ط دارالکتب العلمیة
تفسیر طبری : حَدَّثَنَا أَبُو کُرَیْبٍ، قَالَ: ثنا جَابِرُ بْنُ نُوحٍ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ، قَوْلُهُ {یَرِثُنِی وَیَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوبَ} [مریم:6] یَقُولُ: یَرِثُ مَالِی، وَیَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوبَ النُّبُوَّهَ
حَدَّثَنَا مُجَاهِدٌ، قَالَ: ثنا یَزِیدُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ فِی قَوْلِهِ {یَرِثُنِی وَیَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوبَ} [مریم: ۶]قال یَرِثُ مَالِی، وَیَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوبَ النُّبُوَّهَ
حَدَّثَنِی یَعْقُوبُ، قَالَ: ثنا هُشَیْمٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ، فِی قَوْلِهِ {یَرِثُنِی وَیَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوبَ} قَالَ: یَرِثُنِی مَالِی، وَیَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوبَ النُّبُوَّه[سوره مریم:6]
تفسیر الطبری.ج15 ص458.ط دار هجر
تفسیر ابن کثیر.ج5 ص213.ط دارالطیبة
سمرقندی وقال عکرمه: یرثنی مالی، ویرث من آل یعقوب النبوه، وهکذا قال الضحاک
تفسیر السمرقندی.ج2 ص318.ط دارالکتب العلمیة
تفسیر ماوردی: أحدها: یرثنی مالی ویرث من آل یعقوب النبوه، قاله أبو صالح:تفسیر الماوردی.ج3 ص355.ط دارالکتب العلمیة
بغوی: وَاخْتَلَفُوا فِی هَذَا الْإِرْثِ؛ قَالَ الْحَسَنُ: مَعْنَاهُ یَرِثُنِی مَالِی وَیَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوبَ النُّبُوَّهَ والْحُبُورَهَ
تفسیر البغوی.ج5 ص218.ط دارالطیبة
ابن الجوزی: وفی المراد بهذا المیراث أربعه أقوال : أحدها: یَرِثنی مالی، ویرث من آل یعقوب النبوَّه، رواه عکرمه عن ابن عباس، وبه قال أبو صالح
زاد المسیر فی علم التفسیر.ص877.ط المکتب الاسلامی
ابن عادل دمشقی : واختلفُوا ما المرادُ بالمیراثِ، فقال ابنُ عبَّاس، والحسنُ، والضحاک: وراثهُ المالِ فی الموضعین: اللباب فی علوم الکتاب.ج13 ص13.ط دارالطیبة
تفسیر النیسابوری: واختلفوا أیضا فی الوراثه فعن ابن عباس والحسن والضحاک: هی وراثه المال
تفسیر النسابوری.ج4 ص470.ط دارالکتب العلمیة
سیوطی ۔۔۔۔ عباس و عکرمه و ابوصالح کا قول : وَأخرج الْفرْیَابِیّ عَن ابْن عَبَّاس قَالَ: کَانَ زَکَرِیَّا لَا یُولد لَهُ فَسَأَلَ ربه فَقَالَ: {فَهَب لی من لَدُنْک ولیا یَرِثنِی وَیَرِث من آل یَعْقُوب} قَالَ: یَرِثنِی مَالِی وَیَرِث من آل یَعْقُوب النُّبُوَّه
وأخرج ابن أبی شیبه وابن المنذر عن مجاهد وعکرمه فی قوله : ( یرثنی ویرث منءال یعقوب ) . قال : یرثنی مالی ویرث من آل یعقوب النبوه
وأخرج عبد بن حمید عن أبی صالح فی قوله : ( إنی خفت الموالی من وراءی ) . قال : خاف موالی الکلاله وقوله : ( یرثنی ویرث من ءال یعقوب ) . قال : یرثنی مالی ویرث من آل یعقوب النبوه
الدر المنثور.ج10 ص12.ط دار هجر
تفسیر بحر المدید: وَیَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوبَ النبوه والمُلک والمال
البحر المدید فی تفسی القرآن المجید.ج3 ص320.ط دارالکتب العلمیة
معانی القرآن نحاس۔ وروى عن داود بن أبی هند عن الحسن یرثنی ای یرث مالی ویرث من آل یعقوب النبوه:معانی القرآن للنحاس.ج4 ص311.ط جامعة ام القری
بدر الدین عینی فی عمدة القاری مینویسد: قَوْله: (وَیَرِث من آل یَعْقُوب) ، قَالَ ابْن عَبَّاس: یَرِثنِی مَالِی وَیَرِث من آل یَعْقُوب النُّبُوَّه: عمدة القاری.ج16 ص20.ط دارالفکر
فخر رازی۔أَحَدُهَا: أَنَّ الْمُرَادَ بِالْمِیرَاثِ فِی الْمَوْضِعَیْنِ هُوَ وِرَاثَهُ الْمَالِ وَهَذَا قَوْلُ ابْنِ عَبَّاسٍ وَالْحَسَنِ وَالضَّحَّاکِ:تفسیر الرازی.ج۲۱،ص185.ط دار الفکر
فَقَوْلُهُ عَلَیْهِ السَّلَامُ: ” رَحِمَ اللَّهُ زَکَرِیَّا مَا کَانَ لَهُ مَنْ یَرِثُهُ ” وَظَاهِرُهُ یَدُلُّ عَلَى أَنَّ الْمُرَادَ إِرْثُ الْمَالِ وَأَمَّا الْمَعْقُولُ فَمِنْ وَجْهَیْنِ. الْأَوَّلُ: أَنَّ الْعِلْمَ وَالسِّیرَهَ وَالنُّبُوَّهَ لَا تُورَثُ بَلْ لَا تَحْصُلُ إِلَّا بِالِاکْتِسَابِ فَوَجَبَ حَمْلُهُ عَلَى الْمَالِ. الثَّانِی: أَنَّهُ قَالَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِیًّا وَلَوْ کَانَ الْمُرَادُ مِنَ الْإِرْثِ إِرْثَ النُّبُوَّهِ لَکَانَ قَدْ سَأَلَ جَعْلَ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَضِیًّا وَهُوَ غَیْرُ جَائِزٍ لِأَنَّ النَّبِیَّ لَا یَکُونُ إِلَّا رَضِیًّا مَعْصُومًا
تفسیر الرازی.ج۲۱،ص185.ط دار الفکر
قرطبی:وَیَرِثُ ِنْ آلِ یَعْقُوبَ” فَلِلْعُلَمَاءِ فِیهِ ثَلَاثَهُ أَجْوِبَهٍ، قیل: هی وراثه نبوه. وقیل: هی وِرَاثَهُ حِکْمَهٍ. وَقِیلَ: هِیَ وِرَاثَهُ مَالٍ:تفسیر القرطبی.ج۱۳ص۴۱۵.ط موسسة الرسالة
فَأَمَّا قَوْلُهُمْ وِرَاثَهُ نُبُوَّهٍ فَمُحَالٌ، لِأَنَّ النُّبُوَّهَ لَا تُورَثُ: تفسیر القرطبی.ج۱۳،ص۴۱۵.ط موسسة الرسالة
وَأَمَّا وِرَاثَهُ الْمَالِ فَلَا یَمْتَنِعُ، وَإِنْ کَانَ قَوْمٌ قَدْ أَنْکَرُوهُ لِقَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: (لَا نُورَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَهٌ) فَهَذَا لَا حُجَّهَ فِیهِ:تفسیر القرطبی.ج۱۳ص۴۱۵.ط موسسة الرسالة
ابن عطیه۔ فقال ابن عباس ومجاهد وقتاده وأبو صالح خاف أن یرثوا ماله: تفسیر ابن عطیه.ج۴،ص۴.ط دارالکتب العلمیة
والأکثر من المفسرین على أنه أراد وراثه المال: تفسیر ابن عطیه.ج۴ص۵.ط دار الکتب العلمیة
سرخسی نے کتاب المبسوط میں: (وَاسْتَدَلَّ) بَعْضُ مَشَایِخِنَا - رَحِمَهُمُ اللَّهُ - بِقَوْلِهِ - عَلَیْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - «إنَّا مَعَاشِرَ الْأَنْبِیَاءِ لَا نُورَثُ مَا تَرَکْنَاهُ صَدَقَةٌ» فَقَالُوا مَعْنَاهُ مَا تَرَکْنَاهُ صدقة لَا یُورَثُ ذَلِکَ عَنَّا، وَلَیْسَ الْمُرَادُ أَنَّ أَمْوَالَ الْأَنْبِیَاءِ - عَلَیْهِمْ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - لَا تُورَثُ، وَقَدْ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى {وَوَرِثَ سُلَیْمَانُ دَاوُد} [النمل: 16]. وَقَالَ تَعَالَى {فَهَبْ لِی مِنْ لَدُنْکَ وَلِیًّا} [مریم: 5] {یَرِثُنِی وَیَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوبَ} [مریم: 6]
فَحَاشَا أَنْ یَتَکَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ - بِخِلَافِ الْمُنَزَّلِ
المبسوط.ج12 ص29.ط دارالمعرفة
شیعہ دلشاد مناظر ہے یا کاپی پیسٹر
دوران مناظرہ ہمیشہ ایک یا دو دلائل دے کر گفتگو کی جاتی ہے۔ دوران مناظرہ کسی مناظر کی طرف سے اس طرح دلائل کے انبار رکھ دینے سے ایک بات خود بخود واضح ہوجاتی ہے کہ اس کا مؤقف اتنا کمزور ہے کہ اسے اتنے سارے دلائل رکھنے کی ضرورت پیش آگئی!!
جناب خلیفہ دوم نے کیوں اس حدیث کا وہ معنی نہیں لیا جو آپ لوگ لیتے ہیں ؟بخاری نے ابن عمر سے نقل کیا ہے :
حديث ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم عَامَلَ خَيْبَرَ بِشَطْرِ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا مِنْ ثَمَرٍ أَوْ زَرْعٍ، فَكَانَ يُعْطِي أَزْوَاجَهُ مِائَةَ وَسْقٍ: ثَمَانُونَ وَ سْقَ تَمْرٍ، وَعِشْرُونَ وَ سْقَ شَعِيرٍ؛ فَقَسَمَ عُمَرُ خَيْبَرَ فَخَيَّرَ أَزْوَاجَ النَبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنْ يُقْطِعَ لَهُنَّ مِنَ الْمَاءِ وَالأَرْضِ أَوْ يُمْضِيَ لَهُنَّ، فَمِنْهُنَّ مَنِ اخْتَارَ الأَرْضَ وَمِنْهُنَّ مَنِ اخْتَارَ الْوَسْقَ، وَكَانَتْ عَائِشَةُ اخْتَارَتِ الأَرْضَ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے (خیبر کے یہودیوں سے) وہاں (کی زمین میں) پھل کھیتی اور جو بھی پیداوار ہو اس کے آدھے حصے پر معاملہ کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے اپنی بیویوں کو سو وسق دیتے تھے۔ جس میں اسی وسق کھجور ہوتی اور بیس وسق جو۔ عمر (اپنے عہد خلافت میں) جب خیبر کی زمین تقسیم کی تو ازواج مطہرات کو یہ اختیار دیا کہ (اگر وہ چاہیں تو) انہیں بھی وہاں کا پانی اور قطعہ زمین دے دیا جائے۔ یا وہی پہلی صورت باقی رکھی جائے۔ چنانچہ بعض نے زمین لینا پسند کیا۔ اور بعض نے( پیداوار سے) وسق لینا پسند کیا۔ عائشہ نے زمین ہی لینا پسند کیا تھا۔
البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 2، ص 820، ح2203، كِتَاب الْمُزَارَعَةِ، بَاب الْمُزَارَعَةِ بِالشَّطْرِ وَنَحْوِهِ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987 .
شیعہ مناظر کا دجل
اگر باب کا نام ہی شیعہ دلشاد پڑھ لیتا تو کبھی یہ حدیث پیش نہ کرتا۔ اسے پرسنل میں دلائل دینے والا ہی شیعیت کا جنازہ نکالنے والا اور اس کا دوست نما دشمن تھا!یہ باب درحقیقت زمین مزارعے یعنی کرائے پر دینے کے متعلق ہے۔ کیا مزارعے پر لینے والا زمین کا مالک بن جاتا ہے؟حدیث پر ہی غور کر لیں کیا مالک سے پوچھا جاتا ہے کہ پہلی صورت برقرار رکھی جائے یا اس کا پانی اور قطعہ زمین دیا جائے؟ یعنی خود ہی کاشت کر کے اپنا حصہ لینا چاہیں تو لے سکتی ہیں جبکہ زمین وقف ہی رہے گی۔
یہ جو خیبر کے اموال سے بیویوں کو دیتے تھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رسول اللہ ﷺکے ذاتی اموال میں سے تھا اگر رسول اللہ ﷺ کے تمام اموال آپ کے بعد صدقہ اور عمومی اموال شمار ہوتے تھے تو عمر نے کیوں اس کو ازواج میں تقسیم کیا ؟ اگر ارث تھا تو کیوں رسول اللہ ﷺ کی بیٹی کو ارث سے محروم کیا ؟
جناب خلیفہ دوم کی طرف سے ایک اور مخالفت۔
... فَقَالَ عُمَرُ... هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ « لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ». يُرِيدُ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - نَفْسَهُ.
عمر (نے اپنے پاس موجود افراد کے ایک گروہ سے کہا ): کیا جانتے ہو رسول اللہ صلى الله عليه و سلّم کے اس فرمان : « ہم انبیاء سے کوئی ارث نہیں لے سکتا» کا مطلب خود رسول اللہ صلى الله عليه و سلّم ہی ہیں .
البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 3، ص 1126، ح2927، أبواب الخمس، باب فَرْضِ الْخُمُسِ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.
جناب عائشہ بھی حدیث کا وہ معنی نہیں لیتی جو آپ لوگ لیتے ہیں ۔
یہ حدیث بھی اہل سنت مؤقف کی تائید میں ہے۔ شیعہ مؤقف کیسے ثابت ہوگیا؟ ہم یہی تو کہتے ہیں کہ انبیائے کرام کی میراث نہیں ہوتی اور اس میں نبیﷺ بھی شامل ہیں۔ شیعہ مناظر دلشاد آسان باتیں بھی سمجھنے سے قاصر تھے! بس جو پرسنل میں دلیل بھیج دیتا وہ مناظرے میں کاپی پیسٹ کرتا رہا !!
... أَنَا سَمِعْتُ عَائِشَةَ - رضى الله عنها – زَوْجَة النَّبِىِّ - صلى الله عليه وسلم - تَقُولُ أَرْسَلَ أَزْوَاجُ النَّبِىِّ - صلى الله عليه وسلم - عُثْمَانَ إِلَى أَبِى بَكْرٍ يَسْأَلْنَهُ ثُمُنَهُنَّ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ - صلى الله عليه وسلم -، فَكُنْتُ أَنَا أَرُدُّهُنَّ، فَقُلْتُ لَهُنَّ أَلاَ تَتَّقِينَ اللَّهَ، أَلَمْ تَعْلَمْنَ أَنَّ النَّبِىَّ - صلى الله عليه وسلم - كَانَ يَقُولُ « لاَ نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ـ يُرِيدُ بِذَلِكَ نَفْسَهُ ـ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زوجہ عائشہ سے نقل ہوا ہے: آنحضرت صلى الله عليه و آلہ و سلّم کے ازواج نے عثمان کو ابوبكر کے پاس بھیجا اور رسول اللہ کے اموال سے ازواج کے حصے کا مطالبہ کیا ،میں نے ان کو اس کام سے منع کیا اور کہا :اللہ سے نہیں ڈرتی ہو ؟ کیا تم لوگوں کو یہ حکم معلوم نہیں ہے؟ رسول للہ صلی للہ علیہ و آلہ نے فرمایا : ہم انبیاء سے کوئی ارث نہیں لے سکتے جو ہم چھوڑے جاتے ہیں وہ صدقہ ہوگا اور آپ نے انبیاء سے مراد خود کو ہی قرار دیا ہے .
البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 3، ص 1126، ح2927، أبواب الخمس، باب فَرْضِ الْخُمُسِ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 – 1987
یہ حدیث بھی اہل سنت مؤقف کی تائید میں ہے۔ شیعہ مؤقف کیسے ثابت ہوگیا؟ ہم یہی تو کہتے ہیں کہ انبیائے کرام کی میراث نہیں ہوتی اور اس میں نبیﷺ بھی شامل ہیں۔ شیعہ مناظر دلشاد آسان باتیں بھی سمجھنے سے قاصر! بس جو پرسنل میں دلیل بھیج دیتا وہ مناظرے میں کاپی پیسٹ کرتا رہا !!
ابن حجرعسقلاني: لَا نُورَث مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ " فَيَكُون ذَلِكَ مِنْ خَصَائِصه الَّتِي أُكْرِمَ بِهَا، بَلْ قَوْل عُمَر"يُرِيد نَفْسَهُ" يُؤَيِّد اِخْتِصَاصَهُ بِذَلِكَ.
یہ«لَا نُورَث مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ " »
پيامبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے،جیسا کہ عمر کا یہ قول : « «ہم انبیاء سے مراد خود آنحضرت ہی ہیں »، یہ قول اسی اختصاص کی تائید کرتا ہے.
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852 هـ)، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج 12، ص 9، تحقيق: محب الدين الخطيب، ناشر: دار المعرفة - بيروت.
آپ میرے آج صبح کے پہلے سوال کا جواب دینے کے بجائے اس کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کوشش میں کیوں ہے۔جبکہ میرے اس سوال کا تعلق میرے مدعا کے پہلے اور دوسرے مرحلے سے متعلق ہے اس کا جواب دینے کے بجاے غیر متعقہ سوال پوچھ کر بحث کو خراب کرنے کی کوشش، آفرین ہو آپ پر پھر اپنے کو خراب کر دیا... مجھے دوسروں سے مدد لینے کا طعنہ دے کر خود ہی اعتراف کر دیا کہ اپ بھی ۔
شیعہ مناظر اپنے کاپی پیسٹ کرنےکا اقرار کر رہا ہے۔
جی ہاں میرے بعض دوست مجھے مشورہ دیتے ہیں اور مشورہ مناسب ہونے کی صورت میں اس پر عمل کرتے ہیں آپ نے اسکرین شاٹ نکال کر مجھے نقال بتانے کی کوشش تو کی لیکن اس کے علمی جواب دینے سے دوری میں تو اعتراف کرتا ہوں مجھے میرے بعض دوست مشورہ دیتے ہیں.آپ کو کیا کوئی مشورہ نہیں دیتے؟ جناب مناظرہ شخصی نوعیت کا نہیں دو پہلوان مکہ بازی تو نہیں کر رہے۔یہا ں دو موقف اور نظریے کی جنگ ہے تو مشورہ لینے اور دینے میں کیا عیب؟
اسکرین شاٹ اگلے پیج پر دیکھیں!
جناب کس نے کہا ایک حدیث دو باب میں ذکر نہیں ہوتی ہے لیکن محدث اس کے موضوع کو دیکھ کر اس کا انتخاب کرتا ہے اور دو کیا تین باب میں اس کو ذکر کرتا ہے لیکن غیر مربوط باب میں ذکر نہیں کرتے۔
لہذا اپکی لمبی تحریر کا نتیجہ 0. اب آپ کو کچھ نمونے اپ کی کتابوں سے پیش کرتا ہوں۔
علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں
رسول خدا ﷺنے علماء کو انبیاء کے وارث کہا ہے اور علماء کو اپنا وارث قرار دیا ہے ۔ جیساکہ رسول خدا ﷺ کے کلام سے ہی واضح ہے کہ ، یہاں وراثت سے مراد علم کی وراثت ہے ،مالی اور مادی وراثت مراد نہیں ہے۔بخارى میں ہے :
أَنَّ الْعُلَمَاءَ هُمْ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ - وَرَّثُوا الْعِلْمَ - مَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ.
علماء انبیاء کے وارث ہیں ، علماء کو ان سے علم کی وراثت ملتی ہے، جس کو یہ وراثت نصیب ہو اس نے بہت زیادہ فائدہ اٹھایا ہے ۔
البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 1، ص 37، كتاب العلم، بَاب الْعِلْمُ قبل الْقَوْلِ وَالْعَمَلِ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.
اسی حدیث کو احمد حنبل نے معمولی اختلاف کے ساتھ ذکر کیا ہے:
إِنَّ الْعُلَمَاءَ هُمْ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ لَمْ يَرِثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا وَإِنَّمَا وَرِثُوا الْعِلْمَ ۔۔
علماء، انبیاء کے وارث ہیں،علماء کو انبیاء سے درہم اور دینا ارث میں نہیں ملتا ۔ علماء انبیاء کے علم کے وارث ہیں ۔
الشيباني، أحمد بن حنبل أبو عبدالله (متوفاي241هـ)، مسند أحمد بن حنبل، ج 5، ص 196، ح21763، ناشر: مؤسسة قرطبة – مصر.
انبیائے کرام کی میراث علمی ہوتی ہے اس کا انکار کس نے کیا؟
یہ حدیث بھی اہل سنت مؤقف کی تائید میں ہے۔اب اس کوڑھ مغز کو کون سمجھائے کہ اہل سنت و اہل تشیع کے مابین اصل اختلاف انبیائے کرام کی مالی وراثت کے نہ ہونے کے متعلق ہے۔
کیا اس حدیث اور حدیث "نحن الانبیاء لا نورث" کے درمیان کوئی ربط ہے؟
اب آپ خود ہی دقت کریں آپ کے علماء نے ان احادیث کو کس باب میں ذکر کیا ہے اس اس کی کیا تشریح کی ہے۔مکمل حدیث دیکھنا۔
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِي اَلْبَخْتَرِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ قَالَ: إِنَّ اَلْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ اَلْأَنْبِيَاءِ وَ ذَاكَ أَنَّ اَلْأَنْبِيَاءَ لَمْ يُورِثُوا دِرْهَماً وَ لاَ دِينَاراً وَ إِنَّمَا أَوْرَثُوا أَحَادِيثَ مِنْ أَحَادِيثِهِمْ فَمَنْ أَخَذَ بِشَيْءٍ مِنْهَا فَقَدْ أَخَذَ حَظّاً وَافِراً فَانْظُرُوا عِلْمَكُمْ هَذَا عَمَّنْ تَأْخُذُونَهُ فَإِنَّ فِينَا أَهْلَ اَلْبَيْتِ فِي كُلِّ خَلَفٍ عُدُولاً يَنْفُونَ عَنْهُ تَحْرِيفَ اَلْغَالِينَ وَ اِنْتِحَالَ اَلْمُبْطِلِينَ وَ تَأْوِيلَ اَلْجَاهِلِينَ .
الجزء الأول كِتَابُ فَضْلِ اَلْعِلْمِ بَابُ صِفَةِ اَلْعِلْمِ وَ فَضْلِهِ وَ فَضْلِ اَلْعُلَمَاءِ..
اب روایت میں ایک قرینہ نہیں کئی قرائن ایسے ہیں جن سے واضح ہوجاتی ہے کہ اس حدیث کا معنی وہی ہے جو اوپر اسی جیسی احادیث (نوٹ:شیعہ کی صحیح روایت)کا ہے لہذا اس کا نحن معاشر سے کوئی تعلق نہیں۔
غور فرمائیں۔ مناظرہ ابھی چل رہا ہے اور سنی مناظر کے چیلینج کو قبول کرنے کے بجائے شیعہ مناظر فرما رہا ہے کہ وہ دن گذر گیا اب اس پر بحث نہیں ہوگی۔ اسے یہ یاد ہے کہ موصوف نے توفیق الباری کے ترجمے کو غلط قرار دیا تھا لیکن یہ یاد نہیں کہ سنی مناظر نے اس پر بھی ان سے صحیح ترجمہ اور غلطی کی نشاندہی کرنے کا مطالبہ کیا تھا! وہ نہ اسے یاد ہے اور نہ کبھی پیش کرے گا! کاپی پیسٹر کے پاس ذاتی تاویلات کے سوا کچھ نہیں تھا! اس کے نزدیک صرف یہ کہنا کافی ہے کہ ترجمہ غلط ہے! اسکین میں عورت کا زمین کی وارث ہونا موجود ہے!یہ میری دلیل ہے ، استدلال خود کریں! ترجمہ کسی سے پوچھ لیں! فلاں پیجز کے آگے چند پیجز پڑھ لیں حقیقت روشن ہوجائے گی!! وغیرہ وغیرہ
سنی مناظر کا چیلینج: کسی ایک عالم کا قول اور اسکین رکھ کر ثابت کریں کہ وہ عالم سیدہ فاطمہ کی شدید ناراضگی تسلیم کرتا تھا اور اس کا رد بیان نہیں کیا ہے: ا س پر اسکین دے چکا ہوں اسی دن آپ مجھ سے بحث کا مطالبہ کرتے۔آپ نے تو اس کے رد میں اسکین بھیجے وہ بھی خود آپ کے خلاف نکلا۔ غلط ترجمے کے ساتھ۔یاد ہے؟
جناب یہی آپ کا مغالطہ اور اصل بحث کو خراب کرنے کی ناکام کوشش کا نتیجہ تو ہے۔ آپ نے خود ہی اسکین ہماری کتاب سے پیش کر کے یہ ثابت کیا کہ بیٹی کو ماترک جو بھی ہو اس کی وراثت مل جاتی ہے۔آگے بیوی کوزمین کی وراثت ملنا یا نہ ملنا اس کا موضوع سے کیا تعلق ہے۔میں کیا جناب عائشہ کی وکالت کر رہا ہوں۔ جناب ان کی وکالت کی ضرورت نہیں انہیں تو سب مل گیا حتیٰ کہ خلیفہ دوم نے خیبر کی زمین بھی انہیں دے دی۔مسئلہ نبی کی بیٹی کا ہے، کیا آپ موضوع بھی بھول گئے ہو۔
اب شیعہ روایت میں زمین کا حصہ بیوی کو نہ ملنے کا حکم ہو اور آپ کے بقول یہ نص قرانی کے خلاف ہو تو بھی اس کا ہمارے موضوع سے کیا تعلق جناب ۔ قرآن میں باپ سے بیٹی کو وراثت ملنے کا حکم ہے۔کیا رسول اللہ ﷺ جناب فاطمہ ع کے والد نہیں؟ کیا رسول اللہ ﷺ قرآنی حکم کی مخالفت کرسکتے ہیں؟ قرآن میں انبیاء کی اولاد کو وراثت ملنے کا حکم ہے لیکن آپ کے علماء میں سے بعض ابن عباس کے نظریے کے خلاف اس کا معنی اسی حدیث کے مطابق کرنے کی کوشش(تفسیر بالرائے ) کریں تو مجرم کون ہے؟؟فاین تذھبون۔
دس دفعہ پہلے دھرا چکا ہوں آج پھر دہرایا ہوں۔جب تک جواب نہ دو گے دہراتا رہوں گا۔
وہی ڈھاک کے تین پات
دنیا ادھر کی ادھر ہوجائے مجال ہے جو شیعہ کی کھوپڑی میں کوئی ھدایت کا نکتہ بیٹھ جائے! بیشک جسے اللہ عزوجل چاہے اسے ہی ہدایت مل سکتی ہے!
قرآن میں نبی ﷺکی مالی ملکیت کا حکم ہوتا تو حضرت ابوبکر فوراَ دے دیتے : یہ اعتراض شیعوں پر کر رہے ہو یا نبی کی بیٹی اور مولی علی پر؟ جناب کب تک ان باتوں کے ذریعے نقاب ڈال کر لوگوں کو گمراہ کرتے رہو گے۔مطالبہ بھی کیااور مطالبہ منظور نہ ہونے کی وجہ سے بائیکاٹ اور نماز میں شرکت کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔
اس کے کچھ اسناد کل کی لنک میں ملاحظہ کرنا۔جناب۔ لالچی والی بات کر کے مجھے مزید اسناد پیش کرنے پر مجبور نہ کرنا۔ آپ کئی دفعہ ڈیڈ لائن دے چکے ہیں اور میں بھی کئی دفعہ جواب دے چکا ہوں۔ لہذا ان باتوں کے ذریعے اصل بحث سے نکلنے کی زحمت نہ کرنا۔
اہل سنت مؤقف عین قرآن و احادیث نبوی کے مطابق بلکہ شیعہ معتبر کتب کے مطابق اور شان اہل بیت کے مطابق ہے۔ شیعہ مؤقف قرآن و احادیث کے خلاف تو ہے ہی لیکن شیعہ معتبر کتب سے بھی ثابت نہیں ہوتا، بلکہ اس مؤقف سےشان اہل بیت بھی بری طرح مجروح ہوتی ہے!
اصول کافی میں امام کےصحیح قول سے نبی کی مالی وراثت کی نفی کہاں سے آگئی: جناب آپ لوگوں سے یہ بعید نہیں ۔جنگ صفین میں ہزاروں لوگوں کے قتل اور عمار یاسر اور ذولشھادتین جیسے بہت سے اصحاب کی شہادت کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان کرکٹ میچ ،کبڈی، بھینسوں کے دوڑ کے مقابلے میں بگھدڑ مچنے کی وجہ سے مرنے والوں سے بھی کم اہمیت دیتے ہیں اور حقیقت کو چھپاتے ہیں تو جناب زہرا ع کی ناراضگی کو عام عورت کی ناراضگی یا نعوذ با اللہ ابن تیمیہ کی طرح دنیا پرستی اور منافقانہ کام سے تشبیہ دینا یا ابن عثیمین کی طرح ان کو اس وقت عقل سے عاری سمجھنا یہ تو!!!
سیدہ فاطمہ کا شیخین سے راضی ہونا: اس کا جواب اوپر دے چکا ہوں ۔ ساری مرسل روایات ہیں اور مرسل کا مقابلہ مرسل سے کرنے کے لیے ملاحظہ فرمانا۔
روايت اول: نقل ابن قتيبہ از عبد الله ابن عبد الرحمن انصاری: ابن قتيبہ نے كتاب الامامة و السياسة میں سقيفہ کے ماجرا کو مستقل عنوان «ذكر السقيفة و ما جرى فيها من القول» کے ساتھ ذکر کیا ہے اور پھر اس طولانی روایت کو اس سند کے ساتھ نقل کیا ہے:و حدثنا قال و حدثنا ابن عفير عن أبي عون عن عبد الله بن عبد الرحمن الأنصاري رضي الله عنه أن النبي عليه الصلاة والسلام لما قبض اجتمعت الأنصار رضي الله عنهم إلى سعد بن عبادة۔
عبد الرحمن انصاری کہتا ہے: جب رسول خدا دنیا سے گئے تو انصار سعد ابن عبادہ کے پاس اکٹھے ہو گئے۔
ابتدائے روایت سے لے کر یہاں تک، انصار کے آپس میں اختلاف کرنے، اور انکے سعد ابن عبادہ کے پاس اکٹھے ہونے، بعض مہاجرین کے ابوبکر کی بیعت کرنے، امیر المؤمنین اور بنی ہاشم کے بیعت نہ کرنے، بیت وحی پر حملہ کرنے، حضرت زہرا کی حرمت پامال کرنے اور امیر المؤمنین کو زبردستی مسجد نبوی میں لے جانے والے تمام حوادث کو تفصیل سے نقل کیا ہے، جب یہاں پہنچتا ہے کہ عمر نے ابوبکر سے کہا:
انطلق بنا إلى فاطمة فأنا قد أغضبناها فانطلقا جميعا فاستأذنا على فاطمة فلم تأذن لهما فأتيا عليا فكلماه فأدخلهما عليها فلما قعد عندها حولت وجهها إلى الحائط فسلما عليها فلم ترد عليهما السلام فتكلم أبو بكر فقال يا حبيبة رسول الله و الله إن قرابة رسول الله أحب إلي من قرابتي و إنك لأحب إلى من عائشة ابنتي و لوددت يوم مات أبوك أني مت و لا أبقى بعده أفتراني أعرفك و أعرف فضلك و شرفك و أمنعك حقك و ميراثك من رسول الله إلا أني سمعت أباك رسول الله يقول (لا نورث ما تركنا فهو صدقة) فقالت أرأيتكما إن حدثتكما حديثا عن رسول الله تعرفانه و تفعلان به قالا نعم. فقالت نشدتكما الله ألم تسمعا رسول الله يقول (رضا فاطمة من رضاي وسخط فاطمة من سخطي فمن أحب فاطمة ابنتي فقد أحبني و من أرضى فاطمة فقد أرضاني ومن أسخط فاطمة فقد أسخطني) قالا نعم سمعناه من رسول الله قالت فإني أشهد الله و ملائكته أنكما أسخطتماني وما أرضيتماني و لئن لقيت النبي لأشكونكما إليه فقال أبو بكر أنا عائذ بالله تعالى من سخطه و سخطك يا فاطمة ثم انتحب أبو بكر يبكي حتى كادت نفسه أن تزهق و هي تقول و الله لأدعون الله عليك في كل صلاة أصليها ثم خرج باكيا فاجتمع إليه الناس فقال لهم يبيت كل رجل منكم معانقا حليلته مسرورا بأهله و تركتموني و ما أنا فيه لا حاجة لي في بيعتكم أقيلوني بيعتي.
اکٹھے (حضرت) فاطمہ کے پاس چلتے ہیں کیونکہ ہم نے اسے غصہ دلایا ہے۔ وہ دونوں (ابوبکر و عمر) (حضرت) فاطمہ کے پاس آئے اور گھر میں داخل ہونے کی اجازت مانگی، لیکن بی بی نے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی۔ وہ دونوں (حضرت) علی (ع) کے پاس آئے اور انکو ساری بات بتائی۔ [حضرت علی] ان دونوں کو لے کر [حضرت فاطمہ] کے پاس آئے۔ جب وہ دونوں بی بی کے پاس بیٹھے تو بی بی نے اپنا منہ دیوار کی طرف کر لیا، ان دونوں نے بی بی کو سلام کیا لیکن بی بی نے سلام کا جواب نہ دیا۔ ابوبکر نے بات شروع کرتے ہوئے کہا: اے رسول خدا کی پیاری بیٹی ! خدا کی قسم رسول خدا کی قرابت میری نظر میں، میری قرابت سے محبوب تر ہے اور آپ میرے لیے میری بیٹی عائشہ سے بھی زیادہ محبوب ہیں، میں چاہتا تھا کہ آپکے والد کی وفات کے بعد میں بھی دنیا میں نہ رہتا اور میں بھی مر جاتا۔آپکا خیال ہے کہ میں نے آپکو اور آپکی فضیلت کو جاننے کے باوجود بھی آپکو آپکے حق اور والد کی میراث سے منع کیا ہے، نہیں بلکہ میں آپکے والد سے ایک روایت کو سنا تھا کہ: ہم انبیاء کوئی میراث نہیں چھوڑتے بلکہ جو چھوڑتے ہیں، وہ سب صدقہ ہوتا ہے۔حضرت زہرا (س) نے فرمایا: تم دونوں کا کیا خیال ہے کہ اگر میں تمہارے لیے رسول خدا کی ایک روایت کو نقل کروں تو کیا تم اسے قبول کر لو گے اور اس پر عمل کرو گے ؟ دونوں نے کہا: ہاں،بی بی نے فرمایا: میں تم کو خدا کی قسم دیتی ہوں کہ کیا تم نے نہیں سنا کہ رسول خدا نے فرمایا تھا: فاطمہ کا راضی ہونا، میرا راضی ہونا ہے اور فاطمہ کا غصہ کرنا، میرا غصہ کرنا ہے، پس جو بھی میری بیٹی فاطمہ سے محبت کرے گا تو اس نے مجھ سے محبت کی ہے اور جو بھی اسے خوش کرے گا تو اس نے مجھے خوش کیا ہے اور جس نے بھی اسے غصہ دلایا تو اس نے مجھے غصہ دلایا ہے۔یہ سن کر دونوں نے کہا: ہاں، ہم نے اس روایت کو رسول خدا سے سنا ہے، پھر بی بی نے فرمایا: میں خداوند اور اسکے ملائکہ کو گواہ بنا کر کہتی ہوں کہ تم دونوں نے مجھے غصہ دلایا ہے اور مجھے راضی نہیں کیا۔ میں جب بھی رسول خدا سے ملاقات کروں گی تو تم دونوں کی شکایت کروں گی۔ ابوبکر نے کہا: اے فاطمہ ! میں رسول خدا اور تیرے غصے سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں، پھر اس نے رونا شروع کر دیا، ایسے رویا کہ نزدیک تھا کہ اسکے بدن سے جان ہی نکل جاتی۔پھر فاطمہ زہرا (س) نے فرمایا: خدا کی قسم میں اپنی ہر نماز میں تمہارے لئے بد دعا کروں گی، پھر ابوبکر روتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔ لوگ اسکے گرد جمع ہو گئے اور اس نے لوگوں سے کہا: آج رات تم لوگ اپنی اپنی بیویوں کے ساتھ جا کر سکون کی نیند سو جاؤ اور خوش رہو اور مجھے میرے حال پر چھوڑ دو کہ مجھے تمہاری بیعت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة الدينوري الوفاة: 276هـ. الإمامة و السياسة ج 1 ص 17، دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1418هـ - 1997م، تحقيق: خليل المنصور.
شیعہ مناظر دلشاد نے مناظرے میں ایک مشہور زمانہ متنازعہ کتاب الامامت والسیاست سے من گھڑت واقعہ پیش کردیا۔ اسے یہ تک علم نہیں کہ مناظروں میں مسالک کی معتبر کتب سے دلائل دئے جاتے ہیں۔!
روايت دوم نقل بلاذری (م279هـ) از موسی ابن عقبہ:
اہل سنت کے مشہور و معروف عالم بلاذری نے بھی حضرت زہرا (س) کے ابوبکر پر نفرین کرنے کی روایت کو ایک دوسری سند کے ساتھ نقل کیا ہے:
الْمَدَائِنِيُّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ خَالِدٍ مَوْلَى خُزَاعَةَ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، قَالَ : دَخَلَتْ فَاطِمَةُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ حِينَ بُويِعَ. فَقَالَتْ: إِنَّ أُمَّ أَيْمَنَ وَ رَبَاحًا يَشْهَدَانِ لِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ أَعْطَانِي فَدَكَ . فَقَالَ : وَ اللَّهِ مَا خَلَقَ اللَّهُ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ أَبِيكِ ، لَوَدِدْتُ أَنَّ الْقِيَامَةَ قَامَتْ يَوْمَ مَاتَ، وَ لَأَنْ تَفْتَقِرَ عَائِشَةُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ تَفْتَقِرِي، أَفَتَرَيْنِي أُعْطِي الأَسْوَدَ وَ الأَحْمَرَ حُقُوقَهُمْ وَ أَظْلِمُكِ وَ أَنْتِ ابْنَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ، إِنَّ هَذَا الْمَالَ إِنَّمَا كَانَ لِلْمُسْلِمِينَ ، فَحَمَّلَ مِنْهُ أَبُوكِ الرَّاجِلَ وَيُنْفِقُهُ فِي السَّبِيلِ، فَأَنَا إِلَيْهِ بِمَا وَلِيَهُ أَبُوكِ، قَالَتْ: وَ اللَّهِ لا أُكَلِّمُكَ قَالَ: وَ اللَّهِ لا أَهْجُرُكِ. قَالَتْ: وَ اللَّهِ لأَدْعُوَنَّ اللَّهَ عَلَيْكَ. قَالَ: لأَدْعُوَنَّ اللَّهَ لَكِ.
موسی ابن عقبہ کہتا ہے: حضرت فاطمہ (س) بیعت کے وقت ابوبکر کے پاس گئیں اور اس سے فرمایا: ام ایمن اور رباح میرے لیے گواہی دیتے ہیں کہ رسول خدا نے فدک مجھے بخشا ہے۔ ابوبکر نے کہا: خدا کی قسم خداوند نے تیرے باپ کے علاوہ میرے نزدیک کسی کو محبوب تر خلق نہیں کیا، میں چاہتا تھا کہ اسکی رحلت کے دن، قیامت برپا ہو جاتی۔ اگر عائشہ محتاج اور فقیر ہو جائے تو یہ میرے لیے زیادہ پسندیدہ ہے کہ تم محتاج اور فقیر ہو جاؤ۔کیا آپکا یہ گمان ہے کہ میں سیاہ فام اور سرخ فام لوگوں کو تو دیتا ہوں اور آپکے حق میں ظلم کرتا ہوں ؟ حالانکہ تم رسول خدا کی بیٹی ہو۔ یہ مال، مسلمین کا ہے، (یعنی بیت المال اور سب کا ہے)، تمہارے والد اس مال کو جنگ کے لیے شتر سواروں پر راہ خدا میں خرچ کرتے تھے، میں بھی وہی کام انجام دوں گا کہ جسے تمہارے والد انجام دیتے تھے، (یعنی تمہیں کچھ نہیں دوں گا، حالانکہ تمہارا ہی یہ حق و مال ہے)، انھوں (حضرت زہرا) نے فرمایا: خدا کی قسم آج کے بعد میں تم سے کبھی بات نہیں کروں گی۔ ابوبکر نے کہا: خدا کی قسم میں تو تم سے ناراض نہیں ہوں گا۔ حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: خدا کی قسم میں تمہارے لیے بد دعا کروں گی۔ ابوبکر نے کہا: خدا کی قسم میں تمہارے لیے دعا کروں گا۔
البلاذري، أحمد بن يحيي بن جابر (متوفى279هـ)، أنساب الأشراف، ج1، ص 79، تحقيق: سهيل زكار ورياض الزركلي. الناشر: دار الفكر – بيروت. الطبعة: الأولى، 1417 هـ - 1996 م.
اس روایت میں فدک کا ہبہ ہونا مذکور ہےاگرچہ روایت بھی ضعیف ہے لیکن قطعہ نظر اس کے، یہ مناظرہ سیدہ فاطمہ کے مطالبہ میراث پر ہو رہا تھا۔ شیعہ مناظر کو جو پرسنل میں ملتا ، کاپی پیسٹ کر کے چھاپ دیتا۔ چاہے وہ زیر بحث ہو نہ ہو! کاپی پیسٹ مناظر!
روايت سوم: نقل جوہری (م323هـ) از ہشام ابن محمد عن ابيہ:جوہری نے نقل کیا ہے کہ حضرت زہرا (س) ابوبکر کے پاس آئیں لیکن اس نے فدک واپس کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ اس پر حضرت زہرا (س) نے شدید غصے کی حالت میں فرمایا: خدا کی قسم میں تم پر نفرین کرتی ہوں.
و روى هشام بن محمد، عن أبيه قال: قالت فاطمة، لأبي بكر: إن أم أيمن تشهد لي أن رسول الله صلى الله عليه و آله، أعطاني فدك، فقال لها: يا ابنة رسول الله، و الله ما خلق الله خلقا أحب إلي من رسول الله صلى الله عليه و آله أبيك، و لوددت أن السماء وقعت على الأرض يوم مات أبوك، و الله لأن تفتقر عائشة أحب إلي من أن تفتقري، أتراني أعطي الأحمر و الأبيض حقه و أظلمك حقك، و أنت بنت رسول الله صلى الله عليه و آله و سلم، إن هذا المال لم يكن للنبي صلى الله عليه و آله و سلم، و إنما كان مالا من أموال المسلمين يحمل النبي به الرجال، و ينفقه في سبيل الله، فلما توفي رسول الله صلى الله عليه و آله و سلم وليته كما كان يليه.
قالت: و الله لا كلمتك أبدا، قال: و الله لا هجرتك أبدا، قالت: و الله لأدعون الله عليك، قال: و الله لأدعون الله لك، فلما حضرتها الوفاة أوصت ألا يصلي عليها، فدفنت ليلا، و صلى عليها عباس بن عبد المطلب، و كان بين وفاتها و وفاة أبيها اثنتان و سبعون ليلة.
[حضرت] فاطمہ [سلام الله علیہا] نے ابوبكر سے کہا: ام ایمن میرے لیے گواہی دیتی ہے کہ خود رسول خدا نے فدک مجھے بخشا ہے۔ ابوبکر نے کہا: ابوبکر نے کہا: خدا کی قسم خداوند نے تیرے باپ کے علاوہ میرے نزدیک کسی کو محبوب تر خلق نہیں کیا، میں چاہتا تھا کہ اسکی رحلت کے دن، آسمان زمین پر آ گرتا، اگر عائشہ محتاج اور فقیر ہو جائے تو یہ میرے لیے زیادہ پسندیدہ ہے کہ تم محتاج اور فقیر ہو جاؤ۔کیا آپکا یہ گمان ہے کہ میں گورے اور کالے کو تو دیتا ہوں اور آپکے حق میں ظلم کرتا ہوں ؟ حالانکہ آپ تو رسول خدا کی بیٹی ہیں ؟ یہ مال (فدک) تو رسول خدا کا نہیں تھا بلکہ مسلمین کا مال ہے کہ جو وہ لے کر اس (رسول خدا ) کے لیے لاتے تھے اور رسول خدا اس مال کو راہ خدا میں خرچ کرتے تھے۔ اب جبکہ وہ وفات پا گئے ہیں، اس مال کا میں ذمہ دار ہوں، جیسے کہ وہ ذمہ دار تھے۔حضرت زہرا نے فرمایا: خدا کی قسم آج کے بعد میں تم سے کبھی بات نہیں کروں گی۔ ابوبکر نے کہا: خدا کی قسم میں تو تم سے ناراض نہیں ہوں گا۔ حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: خدا کی قسم میں تمہارے لیے بد دعا کروں گی۔ ابوبکر نے کہا: خدا کی قسم میں تمہارے لیے دعا کروں گا۔ جب بی بی کی وفات کا وقت آن پہنچا تو انھوں نے وصیت کی کہ ابوبکر میری نماز جنازہ میں شریک نہ ہو، پس وہ رات کے اندھیرے میں دفن ہوئی اور عباس ابن عبد المطلب نے اس پر نماز پڑھی۔ رسول خدا اور اسکی وفات کے درمیان 72 راتوں کا فاصلہ تھا۔
الجوهري، أبي بكر أحمد بن عبد العزيز (متوفي323هـ)، السقيفة وفدك، ص 104، تحقيق: تقديم وجمع وتحقيق: الدكتور الشيخ محمد هادي الأميني، ناشر : شركة الكتبي للطباعة والنشر - بيروت – لبنان۔
اس روایت میں بھی فدک کا ہبہ ہونا مذکور ہےاگرچہ روایت بھی ضعیف ہے لیکن قطعہ نظر اس کے، یہ مناظرہ سیدہ فاطمہ کے مطالبہ میراث پر ہو رہا تھا۔ شیعہ مناظر کو جو پرسنل میں ملتا ، کاپی پیسٹ کر کے چھاپ دیتا۔ چاہے وہ زیر بحث ہو نہ ہو! کاپی پیسٹ مناظر!
نوٹ:اس اشکال کا جواب اگرچہ دوران مناظرہ نہیں دیا گیا لیکن عوام الناس کی آگاہی کے لئے ایک کتاب کے چند پیجز پیش کئے جاتے ہیں جن میں اس روایت کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا گیا ہے۔
یہ فریق مخالف کا ذمہ ہے کہ دلیل کا علمی رد کرے اگر یہ روایت ضعیف ہے تو ثابت کرے اور اس کی بھی وضاحت کرے کہ شیعہ ابن میثم بحرانی نے یہ روایت تردید کرتے ہوئے بیان کی ہے یا اسے تسلیم کرتے ہوئے شرح نہج البلاغہ میں شامل کیا ہے۔ کیا ابن میثم بحرانی ناراضگی سیدہ فاطمہ کو تسلیم کرتا تھا؟
مشہور شیعہ فاضل ابن میثم بحرانی اور نہج البلاغہ کی شرح میں سیدہ فاطمہ کا راضی ہونا مذکور: پوری سند کے ساتھ پیش کرتے تو اپ کی علمی امانتداری کا ثبوت ہوتا۔
اعتراض: شیعہ مناظر کے اسکین میں کہاں لکھا ہے کہ عورت غیر منقولہ جائیداد کی وارث ہے۔امام معصوم کے قول کا رد کریں۔
غور فرمائیں!شیعہ مناظر اس اسکین سے عورت کا غیر منقولہ جائیداد کا وارث ہونا ثابت کر رہا ہے! دلیل دیکھیں۔ استدلال دیکھیں اور اشکال کا جواب نیچے دیکھیں۔
غور فرمائیں! دلشاد صاحب کے نزدیک وراثت پر سوالات بحث خراب کرنے کے لئے ہیں کیونکہ ان سوالات کے جوابات دینے سے حقیقت ظاہر ہوجاتی ہے اور شیعہ ڈرامہ فلاپ ہوجائے گا!
سنی مناظر کے سوالات عین موضوع کے مطابق تھے، شیعہ مناظر کو کسی نے پرسنل میں مدد کی ہوتی تو فوراّ کاپی پیسٹ کرچکا ہوتا!
شیعہ مناظر: جواب دے چکا ہوں.بحث نبی کی بیٹی کی وراثت کا ہے ان کی زوجہ کی وراثت کا نہیں۔باقی وراثت کے سلسلے کے سارے سوالات بحث کو خراب کرنے کے لیے ہیں لہٰذا !
عورت/بیوی زمین کی وارث نہیں ہوتی(چار صحیح روایات بمعہ توثیق) : وضاحت دے چکا۔عجیب منطق۔کسی روایت کا صحیح سند ہونا اس کی حجیت کے لیے کافی نہیں۔ روایت کا مضمون بھی دیکھا جاتا ہے۔ راوی ثقہ ہونے کا معنی راوی کا معصوم ہونا نہیں جیساکہ اپ نے زہری کے بارے لمبی لمبی تحریروں میں قرآنی آیات کا سہارا لیا لیکن مسئلہ سادہ تھا۔ثقہ ہونے کا یہ معنی نہیں ہے اس کی روایت کا مضمون بھی عین حقیقت ہو۔ راوی ثقہ ہے ممکن ہے کسی وجہ سے غلط مضمون نقل کیا ہو لہٰذا ممکن ہے راوی ثقہ ہونے کی وجہ سے روایت کی سند صحیح کہلائے لیکن قرآنی حکم سے ٹکراؤ کی وجہ سے اس کے مضمون کو قبول نہ کیا جائے لہٰذا سند صحیح کہنے سے مجلسی ہو یا بخاری گناہ گار تو نہیں ہوگا۔
سبحان اللہ! ایک طرف صحیح روایت میں راوی کا گمان قبول کیونکہ اس سے شیعہ باطل نظریہ کی تائید ہوتی ہے چاہے سیدہ فاطمہ سے براہ راست ناراضگی بیان نہ ہوئی ہو لیکن روایت سند و متن سب درست ہے، دوسری طرف قول امام معصوم سے واضح الفاظ جو قرآن کے خلاف ہیں، اسے جید شیعہ علماء نے تسلیم بھی کیا ہے کہ یہ صحیح قول ہے۔ مطلب سند بھی قبول اور متن بھی قبول، کیونکہ خود شیعہ دلشاد بھی اوپر بیوی کو زمین کی وراثت نہیں ملتی تسلیم کرچکا ہے۔ اب موصوف اس واضح قول معصوم کا انکار کرنے پر مجبور ہوگیا ہے! جبکہ اس کے پاس کسی جید عالم کا قول یا کوئی علمی دلیل بھی نہیں ہے جبکہ سنی مناظر ابن شہاب زہری کے تینوں گمان کا رد منطقی اور سنی و شیعہ معتبر کتب کی روایات سے بھی دکھاچکا ہے، لیکن وہ شیعہ مناظر کو قبول نہیں!اللہ عزوجل ہمیں اس طرح کی ہٹ دھرمی اور بے دلیل، بے وجہ غیر منطقی ضد سے محفوظ رکھے۔ آمین۔