Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سیدہ فاطمہ کی ناراضگی کی حقیقت، لفظ غضبت اور ادراج (شیعہ مناظر کا ٹرن)(قسط 22)

  جعفر صادق

سیدہ فاطمہ کی ناراضگی کی حقیقت، لفظ غضبت اور ادراج (شیعہ مناظر کا ٹرن)(قسط 22)

شیعہ مناظر: سلام علیکم۔ بسم تعالی۔ ممتاز صاحب مسلسل میری مدد کرنے کا شکریہ۔ آپ نے اپنے مدعا اور اپنے بنائے اصولوں کی خلاف ورزی کر کے میرے کام کو آسان بنایا۔ممتاز صاحب۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ قاتل مقتول کے خون کا وارث بن کر قصاص کا مطالبہ کرتا ہے ۔ میری طرف سے بحث کی الف  ب کی کم از کم دس مرتبہ وضاحت کے باوجود ابھی تک اپنی طرف سے میرے مدعا کے مراحل کی تفسیر کر کے مجھ سے میرے مدعا کی وضاحت کا حق چھین کر بار بار مجھے خلاف ورزی کے مرتکب دکھاکر میرے دلائل پر پردہ ڈالنے اور میرے اٹھائے بنیادی سوالات پر پردہ ڈالنے کی کوشش میں ہیں۔لیکن آپ کی تماتر کوششوں کے باوجود میں انشاء اللہ آپ کو اسی ترتبیب سے آگے ہی لے کر چلوں گا ۔


سنی مناظر بار بار شیعہ مناظر کی اس تحریر کے اسکرین شاٹ رکھتا رہا کہ الف اور ب یہ ہے اور اسی تحریر پر گفتگو طئے ہوئی تھی ، اسی ترتیب سے گفتگو ہوگی لیکن شیعہ  دلشاد عام شیعوں کی طرح دوران مناظرہ اپنی ہی تحریر کی ترتیبب کو بدل کر گفتگو کرتے رہے! شاید سمجھ گئے کہ اس کا دجل آشکار ہو چکا ہے۔

 دوسری بات صحیحین کی جن احادیث سے شیعہ عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں انہی احادیث میں اصل حقائق بھی موجود ہوتے ہیں۔ قارئین غور کریں!آخر شیعہ نامکمل باتیں کیوں بتاتے ہیں؟


 
   

 میرا مدعا یہ تھا کہ جناب فاطمہ ع کی طرف سے اپنے حقوق کے مطالبے کو رد کرنے کی وجہ سے  ناراض ہونا  اور اسی وجہ سے بائیکاٹ کی حالت میں  اور خلفاء کو اپنے حق سے محروم کرنے والے سمجھ کر دنیا سے جانا  اور اسی طرح امیر المومنین ع کی طرف سے جناب فاطمہ ع کی حمایت اور خلفاء کی جانب سے حدیث لانورث سے استدلال کو قبول نہ کرنے کی باتیں یہ سب آپ کی صحیحین میں موجود ہیں ۔الحمد للہ اس کو میں نے ثابت کیا


ایک محاورہ ہے کہ کوڑھ مغز کو جتنا چاہے سمجھاؤ، وہ کبھی نہیں سمجھے گا۔شیعہ مناظر کو یہ سمجھ تو آگیا کہ سنی مناظر کے اسکینزجو اہلسنت و اہل تشیع کی معتبر کتب سے ہیں، ان سے سیدہ فاطمہ کی ناراضگی ثابت ہوگئی لیکن یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ جن اسکینز سے وہ ناراضگی ثابت کر رہا  ہے، ان اسکین میں تو سیدہ فاطمہ شیخین سے راضی بھی ہو رہی ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ان اسکین میں بیان کی گئی رضایت کے منکر ہیں اور جو شدید ناراضگی بیان ہی نہیں ہے اسے شیعہ ثابت قرار دے رہا ہے۔ شیعہ مناظر کو اصل میں سنی مناظر کا استدلال رد کرنا تھا لیکن یہ مناظرے کا طریقہ انہیں معلوم ہی نہ تھا، کیونکہ وہ خود بھی بغیر استدلال احادیث رکھ کر گفتگو کرتے رہے اور من پسند مفہوم نکالتے رہے


 
   

اور عجیب بات یہ ہے آپ پہلے مرحلے میں غضبت والی بات کو ادراج کہتے رہے بعد میں آپ نے خود ہی ثابت کیا کہ بے شک ناراض ہوئی تھیں اور اس کے اسکین بھی آپ نے خود ہی پیش کئے ۔ یہ مرحلہ بلکل ختم ہوا ۔


شیعہ مناظرکا شکوہ!

مجھ سے سیدہ کی ناراضگی کے سوال کیوں کرتے ہو؟

سنی مناظر کے دلائل شیعیت پر حجت تمام کرنا تھا کہ اگرچہ سیدہ فاطمہ سے یہ امید نہیں کہ وہ دنیاوی مال ملکیت پر اتنی شدید ناراض ہوں اس کے باوجود دلی رنجش یا خلش عین ممکن ہے۔ اس خلش کا ختم ہونا بھی اہل سنت و اہل تشیع روایات میں مذکور ہے۔

آخر یہ حقائق شیعہ علماء عوام تک کیوں نہیں پہنچاتے؟


 
   

 اب دیکھیں آپ نے میری مدد اور خود اپنے اٹھائے سوالوں کا کس طرح خود ہی جواب دیا ۔آپ نے دوسرے شواہد کا ادعا تو بہت کیا بعد میں ایسی سندیں پیش کی جن سے ناراض ہونے کی بات ثابت ہوتی تھی۔ ناراض ہونے کے بعد میں وفات سے پہلے راضی ہونے کا ادعا بھی ۔اب یہاں اصل ناراض ہونے کو آپ مان گئے  لہٰذا اب مجھ سے ناراض کے الفاظ اور چہرے کی نشانی کا سوال کیوں کرتے ہو ؟عجیب ہے جس سوال کا جواب آپ خود دے گئے اس کا مجھ سے سوال بھی ۔اب جب نارض ہوگئی تھی اور وہ بھی بقول آپ کے رسول اللہ  کی حدیث سنانے کے بعد  تو جناب آپ جو استغفار کر کر کے شیعوں پر اعتراض اور سوال اٹھا رہے تھے وہ کیا ہوا ؟ کیا پھر بھی مجھ سے جواب مانگے ہو ؟؟ 

 

کیا جناب فاطمہ ع حضور کی حدیث کی منکر ہوگئی تھی ؟  یہ پہلا مرحلہ تھا جو کو آپ نے ادراج کا رٹ لگا لگا کر خود ہی تسلیم کیا اور اس پر دلائل پیش کئے۔  اگلی بات یہ تھی کہ آپ اس کا مطالبہ کرتی  رہیں، جیساکہ جناب عائشہ  کا قول

{ قالت  ، کانت فاطمہ تسال ابابکر }

اور پھر مولا علی کی طرف سے اس میراث کے مطالبے کا خلیفہ دوم کےدور تک جاری رہنا ۔یہ دنوں اس بات کی دلیل ہے کہ معاملہ اس حدیث کے نقل سے ختم نہیں ہوا اور خلیفہ دوم کے دور تک چلتا رہا  یہ ایک تو زہری کے بقول آپ کے گمان کی حقیقت پر مبنی ہونے کی دلیل ہے اور دوسرا جناب زہرا کی ناراضگی اور اپنے حق سے محروم کے نظریے کی ۔اب عجیب بات یہ ہے ادراج ادراج کا رٹ لگانے کے باوجود ایک تو ادراج کے معنی نہیں  جانتا تھا اور ساتھ ہی میرے ادراج کی نفی کے لئے پیش کردہ شاہد سے چشم پوشی ۔جناب کب اس کا جواب دو گے  لہٰذا خود بخود یہ بھی ثابت ہوا کہ معاملہ جاری ہی رہا اور ابوبکر کے دور میں یہ ختم ہی نہیں ہوا ۔آپ کے سارے دلائل کو خود آپ ہی نے خراب کیا ۔آپ نے کہا یہ سب زہری کا گمان ہے ۔میں نے کہا گمان بھی ہو حقیقت پر مبنی ہے  پھر آپ کا یہ اعتراض ہوا کہ وہ تو واقعے کے عینی شاہد نہیں ۔یہاں تک کہ آپ نے اس کی بات کو ایک مرسل خبر کے طور پر بھی قبول نہیں کیا


ڈوبتے کو تنکے کا سہارہ!

شیعہ مناظر دلشاد! فریق مخالف کے دلائل اور اشکالات پر علمی رد کرنے کے بجائے اپنی ذاتی تاویلات سے اپنا مؤقف ثابت کرنے کی مذموم کوششیں کر رہے ہیں! اگر شیخین کے دل میں بغض اہل بیت ہوتا تو سیدہ کی عیادت کیوں کرتے؟ حضرت ابوبکر کی بیوی حضرت اسماء کیا شوہر کی اجازت کے بغیر سیدہ کی خدمت کرتی رہی؟شیخین کو راضی کرنے کی فکر بھی کیوں؟؟شیعہ اتنے کم عقل ہیں کہ جن باتوں سے صحابہ اور اہل بیت کی محبت ثابت ہوتی ہے انہی سے الٹا مطلب نکال لیتے ہیں!


 
   

اور آج ماشاء اللہ جناب فاطمہ کی رضایت پر ایسی اسناد پیش کی کہ جو پہلے آپ کے غضبت کے ادراجی جملہ ہونے کو باطل کرتی ہیں اور واضح طور پر یہ بتاتی ہے کہ  راوی کے نقل میں "غضبت"  بلکل صحیح تھا ۔ اگر ناراض نہیں ہوئی تھی اور خلفاء کی باتوں کو رد نہیں کیا تھا تو ان کو راضی کرنے سفارش کے ساتھ ان کے دروازے پر کیوں گئے ؟ واہ جی واہ ۔

 

اب اگلی بات: غضبت اور وجدت جب حقیقت پر مبنی ہے اور پھر رضایت پر جو دلیل پیش کی وہ تو مرسل ہے اس کی سند ہی ٹھیک نہیں ہے ۔آپ فرض کریں حسن  ہے  تو مرسل ہونے کا انکار تو نہیں ۔ آپ نے آج اس سلسلے میں جتنی روایتیں پیش کی وہ سب کے سب مرسل ہیں  اور سند کے اعتبار سے ضعیف۔جناب اگر آپ کا یہ اعتراض تھا کہ زہری واقعے کے عینی شاہد نہیں تو شعبی {کہ بعض نے اس کی تضعیف بھی کی ہے} وہ کیسے رضایت کے شاہد ٹھہرے ؟اگر شعبی کی مرسل روایت حجت ہے تو زہری کی مرسل روایت کیوں حجت نہیں  زہری تو شعبی سے زیادہ قوی ہے ۔ اب ان سب سے یہ واضح ہوا میرے دلائل کا رد آپ کے پاس نہیں ہے ۔ لہذا میرا  دوسرا مدعا بھی خود بخود ثابت ہوا ۔

 یہ ہے میرے الف اور ب کی کہانی ۔اب آپ کے الف   ب کی بات دیکھیں۔ آپ نے الزامی سوالات کہہ کر کر اتنے سوالات کیے جو بحث کے تیسرے مرحلے سے متعلق ہے لہذا آپ نے جان بوجھ کر بحث کو خراب کرنے اور مجھ سے کیے وعدے کی خلاف ورزی کی کوشش کی ۔ ہمارے ایڈمن حضرات اس کے گواہ ہیں آپ نے فدک اور وراثت ، حدیث العلماء ورثۃ ۔ شیعوں کے ہاں عورت کی وراثت ۔ حضرت  علی کے دور میں  فدک واپس نہ لینے جیسے جتنے بھی سوالات اٹھا ئے یہ سب اصل بحث کو خراب کرنے کی کوشش تھی   اور میں نے شروع میں ہی آپ کی اس چالاکی کی طرف اشارہ کر کے کہا تھا آپ بحث سے جتنا دور جائیں آپ کو واپس لے کر آؤں گا ۔ مندجہ بالا آپ کے سوالات میں سے بعض کا میں نے جواب دیا آپ  1،2،3 کی چکر میں ان کو نظر انداز کرتے رہے۔ مسلسل سوال دھرا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی یہ میں آپ کے سوالات کا جواب نہیں  دے رہا ہوں اور پھر کئی دفعہ ڈیڈ لائن دی لیکن  ہوا کچھ نہیں ۔ ممتاز صاحب ۔کب تک ایسا کرتے رہو گے   جب پہلا اور دوسرا مرحلہ ختم ہو  اور آپ اصولی طور پر تیسرے مرحلے میں داخل ہو ں تو پھر آپ کو بتاؤں گا شیعوں کے ہاں وراثت کا کیا قانون ہے۔ شیعہ حدیث کا کیا معنی ہے مولا علی نے کیوں واپس نہیں لیا۔


ایک دلچسپ حقیقت

مناظرے کے آخر میں سنی مناظر نے یہ بات بھی قبول کر لی کہ چلیں تیسرے مرحلے کو شروع کریں اور اپنی باتیں ثابت کر کے دکھائیں۔ اس کے بعد شیعہ مناظر کی دوڑیں بھی دیکھنے لائق ہیں


 

جناب ہماری بحث اس میں تھی کہ شیعہ جو کہتے ہیں وہ آپ کی کتابوں میں ہیں اور مجھے یہ ثابت کرنا تھا کہ حقوق کا مطالبہ کرنا اور ناراض ہونا اور معاملہ ختم نہ ہونا اور مولی علی اور جناب فاطمہ کی طرف سے اپنے حق نہ ملنے کا نظریہ ،  یہ میں نے آپ کی ہی مدد سے ثابت کیا کہ یہ سب آپ کی کتابوں میں ہیں اور آپ کے علماء نے اس حقیقت کو قبول کیا ہے اور پھر بعض نے یہ بحث کی ہے ان میں سے کونسا فریق حق پر تھا کون نہیں تھا ۔ اب آپ کو اور دوستوں کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ آپ کے سوالات بحث کے مراحل سے متعلق نہیں اور بحث سے فرار کا ایک طریقہ کار ہے  یہی وجہ ہے کہ میرے بنیادی سوال کا جواب دینے کے بجائے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ میں آپ کے سوالات کا جواب نہیں دے رہا ہوں ۔جناب کسی اچار بنانے کی کمپنی کا انچارچ تو نہیں ہو ؟ کچھ اسناد پیش کر رہا ہوں اگرچہ یہ اس مرحلے سے متعلق نہیں لیکن آپ کے الزامی جواب کا جواب دینے کے لئے ۔

 کیوں  ابن عباس اور اھل سنت کے بزرگ مفسرین نے اس حدیث کو اسی طرح نہیں مانا جس طرح  آپ لوگ استدلال کرتے ہیں ؟  اہل سنت کے  مفسرین نے

{ ویرث من آل یعقوب یَرِثُنِی الْمَالَ وَیَرِثُ مِنْ آلِ یعقوب النبوه }  

 کی تفسیر وراثت مالی ہونے کا اعتراف کیا ۔

سفیان فی قوله ویرث من آل یعقوب یَرِثُنِی الْمَالَ وَیَرِثُ مِنْ آلِ یعقوب النبوه :تفسیر سفیان الثوری.ص181.ط دارالکتب العلمیة

 محقق لکھتا ہے :  

وهو قول ابن عباس وابی صالح والحسن والسدی وزید بن اسلم ومجاهد والشعبی والضحاک کما فی الطبری:   تفسیر سفیان الثوری.ص181.ط دارالکتب العلمیة

 تفسیر طبری  : حَدَّثَنَا أَبُو کُرَیْبٍ، قَالَ: ثنا جَابِرُ بْنُ نُوحٍ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ، قَوْلُهُ {یَرِثُنِی وَیَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوبَ} [مریم:6] یَقُولُ: یَرِثُ مَالِی، وَیَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوبَ النُّبُوَّهَ

 حَدَّثَنَا مُجَاهِدٌ، قَالَ: ثنا یَزِیدُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ فِی قَوْلِهِ {یَرِثُنِی وَیَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوبَ} [مریم: ۶]قال یَرِثُ مَالِی، وَیَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوبَ النُّبُوَّهَ

حَدَّثَنِی یَعْقُوبُ، قَالَ: ثنا هُشَیْمٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ، فِی قَوْلِهِ {یَرِثُنِی وَیَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوبَ} قَالَ: یَرِثُنِی مَالِی، وَیَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوبَ النُّبُوَّه[سوره مریم:6]

تفسیر الطبری.ج15 ص458.ط دار هجر

تفسیر ابن کثیر.ج5 ص213.ط دارالطیبة

سمرقندی وقال عکرمه: یرثنی مالی، ویرث من آل یعقوب النبوه، وهکذا قال الضحاک

 تفسیر السمرقندی.ج2 ص318.ط دارالکتب العلمیة

  تفسیر ماوردی: أحدها: یرثنی مالی ویرث من آل یعقوب النبوه، قاله أبو صالح:تفسیر الماوردی.ج3 ص355.ط دارالکتب العلمیة

 بغوی: وَاخْتَلَفُوا فِی هَذَا الْإِرْثِ؛ قَالَ الْحَسَنُ: مَعْنَاهُ یَرِثُنِی مَالِی وَیَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوبَ النُّبُوَّهَ والْحُبُورَهَ

  تفسیر البغوی.ج5 ص218.ط دارالطیبة

ابن الجوزی: وفی المراد بهذا المیراث أربعه أقوال : أحدها: یَرِثنی مالی، ویرث من آل یعقوب النبوَّه، رواه عکرمه عن ابن عباس، وبه قال أبو صالح

 زاد المسیر فی علم التفسیر.ص877.ط المکتب الاسلامی

ابن عادل دمشقی : واختلفُوا ما المرادُ بالمیراثِ، فقال ابنُ عبَّاس، والحسنُ، والضحاک: وراثهُ المالِ فی الموضعین: اللباب فی علوم الکتاب.ج13 ص13.ط دارالطیبة

تفسیر النیسابوری:  واختلفوا أیضا فی الوراثه فعن ابن عباس والحسن والضحاک: هی وراثه المال

 تفسیر النسابوری.ج4 ص470.ط دارالکتب العلمیة

سیوطی ۔۔۔۔ عباس و عکرمه و ابوصالح کا قول : وَأخرج الْفرْیَابِیّ عَن ابْن عَبَّاس قَالَ: کَانَ زَکَرِیَّا لَا یُولد لَهُ فَسَأَلَ ربه فَقَالَ: {فَهَب لی من لَدُنْک ولیا یَرِثنِی وَیَرِث من آل یَعْقُوب} قَالَ: یَرِثنِی مَالِی وَیَرِث من آل یَعْقُوب النُّبُوَّه

 وأخرج ابن أبی شیبه وابن المنذر عن مجاهد وعکرمه فی قوله : ( یرثنی ویرث منءال یعقوب ) . قال : یرثنی مالی ویرث من آل یعقوب النبوه

وأخرج عبد بن حمید عن أبی صالح فی قوله : ( إنی خفت الموالی من وراءی ) . قال : خاف موالی الکلاله وقوله : ( یرثنی ویرث من ءال یعقوب ) . قال : یرثنی مالی ویرث من آل یعقوب النبوه

 الدر المنثور.ج10 ص12.ط دار هجر

  تفسیر بحر المدید: وَیَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوبَ النبوه والمُلک والمال

 البحر المدید فی تفسی القرآن المجید.ج3 ص320.ط دارالکتب العلمیة

   معانی القرآن نحاس۔ وروى عن داود بن أبی هند عن الحسن یرثنی ای یرث مالی ویرث من آل یعقوب النبوه:معانی القرآن للنحاس.ج4 ص311.ط جامعة ام القری

 بدر الدین عینی  فی عمدة القاری مینویسد: قَوْله: (وَیَرِث من آل یَعْقُوب) ، قَالَ ابْن عَبَّاس: یَرِثنِی مَالِی وَیَرِث من آل یَعْقُوب النُّبُوَّه: عمدة القاری.ج16 ص20.ط دارالفکر

 فخر رازی۔أَحَدُهَا: أَنَّ الْمُرَادَ بِالْمِیرَاثِ فِی الْمَوْضِعَیْنِ هُوَ وِرَاثَهُ الْمَالِ وَهَذَا قَوْلُ ابْنِ عَبَّاسٍ وَالْحَسَنِ وَالضَّحَّاکِ:تفسیر الرازی.ج۲۱،ص185.ط دار الفکر

فَقَوْلُهُ عَلَیْهِ السَّلَامُ: ” رَحِمَ اللَّهُ زَکَرِیَّا مَا کَانَ لَهُ مَنْ یَرِثُهُ ” وَظَاهِرُهُ یَدُلُّ عَلَى أَنَّ الْمُرَادَ إِرْثُ الْمَالِ وَأَمَّا الْمَعْقُولُ فَمِنْ وَجْهَیْنِ. الْأَوَّلُ: أَنَّ الْعِلْمَ وَالسِّیرَهَ وَالنُّبُوَّهَ لَا تُورَثُ بَلْ لَا تَحْصُلُ إِلَّا بِالِاکْتِسَابِ فَوَجَبَ حَمْلُهُ عَلَى الْمَالِ. الثَّانِی: أَنَّهُ قَالَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِیًّا وَلَوْ کَانَ الْمُرَادُ مِنَ الْإِرْثِ إِرْثَ النُّبُوَّهِ لَکَانَ قَدْ سَأَلَ جَعْلَ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَضِیًّا وَهُوَ غَیْرُ جَائِزٍ لِأَنَّ النَّبِیَّ لَا یَکُونُ إِلَّا رَضِیًّا مَعْصُومًا

 تفسیر الرازی.ج۲۱،ص185.ط دار الفکر

 قرطبی:وَیَرِثُ ِنْ آلِ یَعْقُوبَ” فَلِلْعُلَمَاءِ فِیهِ ثَلَاثَهُ أَجْوِبَهٍ، قیل: هی وراثه نبوه. وقیل: هی وِرَاثَهُ حِکْمَهٍ. وَقِیلَ: هِیَ وِرَاثَهُ مَالٍ:تفسیر القرطبی.ج۱۳ص۴۱۵.ط موسسة الرسالة

 فَأَمَّا قَوْلُهُمْ وِرَاثَهُ نُبُوَّهٍ فَمُحَالٌ، لِأَنَّ النُّبُوَّهَ لَا تُورَثُ: تفسیر القرطبی.ج۱۳،ص۴۱۵.ط موسسة الرسالة

 وَأَمَّا وِرَاثَهُ الْمَالِ فَلَا یَمْتَنِعُ، وَإِنْ کَانَ قَوْمٌ قَدْ أَنْکَرُوهُ لِقَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: (لَا نُورَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَهٌ) فَهَذَا لَا حُجَّهَ فِیهِ:تفسیر القرطبی.ج۱۳ص۴۱۵.ط موسسة الرسالة

ابن عطیه۔ فقال ابن عباس ومجاهد وقتاده وأبو صالح خاف أن یرثوا ماله: تفسیر ابن عطیه.ج۴،ص۴.ط دارالکتب العلمیة

 والأکثر من المفسرین على أنه أراد وراثه المال: تفسیر ابن عطیه.ج۴ص۵.ط دار الکتب العلمیة

سرخسی نے  کتاب المبسوط میں: (وَاسْتَدَلَّ) بَعْضُ مَشَایِخِنَا - رَحِمَهُمُ اللَّهُ - بِقَوْلِهِ - عَلَیْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - «إنَّا مَعَاشِرَ الْأَنْبِیَاءِ لَا نُورَثُ مَا تَرَکْنَاهُ صَدَقَةٌ» فَقَالُوا مَعْنَاهُ مَا تَرَکْنَاهُ صدقة لَا یُورَثُ ذَلِکَ عَنَّا، وَلَیْسَ الْمُرَادُ أَنَّ أَمْوَالَ الْأَنْبِیَاءِ - عَلَیْهِمْ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - لَا تُورَثُ، وَقَدْ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى {وَوَرِثَ سُلَیْمَانُ دَاوُد} [النمل: 16]. وَقَالَ تَعَالَى {فَهَبْ لِی مِنْ لَدُنْکَ وَلِیًّا} [مریم: 5] {یَرِثُنِی وَیَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوبَ} [مریم: 6] فَحَاشَا أَنْ یَتَکَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ - بِخِلَافِ الْمُنَزَّلِ

المبسوط.ج12 ص29.ط دارالمعرفة


شیعہ دلشاد مناظر ہے یا کاپی پیسٹر

دوران مناظرہ ہمیشہ ایک یا دو دلائل دے کر گفتگو کی جاتی ہے۔ دوران مناظرہ کسی مناظر کی طرف سے اس طرح دلائل کے انبار رکھ دینے  سے ایک بات خود بخود واضح ہوجاتی ہے کہ اس کا مؤقف اتنا کمزور ہے کہ اسے اتنے سارے دلائل رکھنے کی ضرورت پیش آگئی!!


 
   

 جناب خلیفہ دوم نے کیوں اس حدیث کا وہ معنی نہیں لیا جو آپ لوگ لیتے ہیں ؟بخاری نے ابن عمر سے نقل کیا ہے :

حديث ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم عَامَلَ خَيْبَرَ بِشَطْرِ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا مِنْ ثَمَرٍ أَوْ زَرْعٍ، فَكَانَ يُعْطِي أَزْوَاجَهُ مِائَةَ وَسْقٍ: ثَمَانُونَ وَ سْقَ تَمْرٍ، وَعِشْرُونَ وَ سْقَ شَعِيرٍ؛ فَقَسَمَ عُمَرُ خَيْبَرَ فَخَيَّرَ أَزْوَاجَ النَبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنْ يُقْطِعَ لَهُنَّ مِنَ الْمَاءِ وَالأَرْضِ أَوْ يُمْضِيَ لَهُنَّ، فَمِنْهُنَّ مَنِ اخْتَارَ الأَرْضَ وَمِنْهُنَّ مَنِ اخْتَارَ الْوَسْقَ، وَكَانَتْ عَائِشَةُ اخْتَارَتِ الأَرْضَ.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے (خیبر کے یہودیوں سے)  وہاں (کی زمین میں) پھل کھیتی اور جو بھی پیداوار ہو اس کے آدھے حصے پر معاملہ کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے اپنی بیویوں کو سو وسق دیتے تھے۔ جس میں اسی وسق کھجور ہوتی اور بیس وسق جو۔ عمر (اپنے عہد خلافت میں) جب خیبر کی زمین تقسیم کی تو ازواج مطہرات کو  یہ اختیار دیا کہ (اگر وہ چاہیں تو) انہیں بھی وہاں کا پانی اور قطعہ زمین دے دیا جائے۔ یا وہی پہلی صورت باقی رکھی جائے۔ چنانچہ بعض نے زمین لینا پسند کیا۔ اور بعض نے(  پیداوار سے) وسق لینا پسند کیا۔ عائشہ  نے زمین ہی لینا پسند کیا تھا۔

البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 2، ص 820، ح2203، كِتَاب الْمُزَارَعَةِ، بَاب الْمُزَارَعَةِ بِالشَّطْرِ وَنَحْوِهِ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987 .


شیعہ مناظر کا دجل

اگر باب کا نام ہی شیعہ دلشاد پڑھ لیتا تو کبھی یہ حدیث پیش نہ کرتا۔ اسے پرسنل میں دلائل دینے والا ہی شیعیت کا جنازہ نکالنے والا اور اس کا دوست نما دشمن تھا!یہ باب درحقیقت زمین مزارعے یعنی کرائے پر دینے کے متعلق ہے۔ کیا مزارعے پر لینے والا زمین کا مالک بن جاتا ہے؟حدیث پر ہی غور کر لیں کیا مالک سے پوچھا جاتا ہے کہ پہلی صورت برقرار رکھی جائے یا اس کا پانی اور قطعہ زمین دیا جائے؟ یعنی خود ہی کاشت کر کے اپنا حصہ لینا چاہیں تو لے سکتی ہیں جبکہ زمین وقف ہی رہے گی۔


 
   

یہ جو خیبر کے اموال سے بیویوں کو دیتے تھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رسول اللہ کے ذاتی اموال میں سے تھا اگر رسول اللہ  کے تمام اموال آپ کے بعد صدقہ اور عمومی اموال شمار ہوتے  تھے تو عمر نے کیوں اس کو ازواج میں تقسیم کیا ؟ اگر ارث تھا تو کیوں رسول اللہ  کی بیٹی کو ارث سے محروم کیا ؟

 

 جناب خلیفہ دوم کی طرف سے ایک اور مخالفت۔

... فَقَالَ عُمَرُ... هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ « لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ». يُرِيدُ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - نَفْسَهُ.

عمر (نے اپنے پاس موجود افراد کے ایک گروہ سے کہا ): کیا جانتے ہو  رسول اللہ صلى الله عليه و سلّم کے اس فرمان : « ہم انبیاء سے کوئی ارث نہیں لے سکتا» کا مطلب خود رسول اللہ  صلى الله عليه و سلّم  ہی ہیں .

البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 3، ص 1126، ح2927، أبواب الخمس، باب فَرْضِ الْخُمُسِ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.

 جناب عائشہ بھی حدیث کا وہ معنی نہیں لیتی جو آپ لوگ لیتے ہیں ۔ 


یہ حدیث بھی اہل سنت مؤقف کی تائید میں ہے۔ شیعہ مؤقف کیسے ثابت ہوگیا؟ ہم یہی تو کہتے ہیں کہ انبیائے کرام کی میراث نہیں ہوتی اور اس میں نبیﷺ بھی شامل ہیں۔ شیعہ مناظر دلشاد آسان باتیں بھی سمجھنے سے قاصر تھے! بس جو پرسنل میں دلیل بھیج دیتا وہ مناظرے میں کاپی پیسٹ کرتا رہا !!


 
   

... أَنَا سَمِعْتُ عَائِشَةَ - رضى الله عنها – زَوْجَة النَّبِىِّ - صلى الله عليه وسلم - تَقُولُ أَرْسَلَ أَزْوَاجُ النَّبِىِّ - صلى الله عليه وسلم - عُثْمَانَ إِلَى أَبِى بَكْرٍ يَسْأَلْنَهُ ثُمُنَهُنَّ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ - صلى الله عليه وسلم -، فَكُنْتُ أَنَا أَرُدُّهُنَّ، فَقُلْتُ لَهُنَّ أَلاَ تَتَّقِينَ اللَّهَ، أَلَمْ تَعْلَمْنَ أَنَّ النَّبِىَّ - صلى الله عليه وسلم - كَانَ يَقُولُ « لاَ نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ـ يُرِيدُ بِذَلِكَ نَفْسَهُ ـ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زوجہ عائشہ سے نقل ہوا ہے: آنحضرت صلى الله عليه و آلہ و سلّم کے ازواج نے عثمان کو ابوبكر کے پاس بھیجا اور  رسول اللہ کے اموال سے ازواج کے حصے کا مطالبہ کیا ،میں نے ان کو اس کام سے منع کیا اور کہا :اللہ سے نہیں ڈرتی ہو ؟ کیا تم لوگوں کو یہ حکم معلوم نہیں ہے؟ رسول للہ صلی للہ علیہ و آلہ نے فرمایا : ہم انبیاء سے کوئی ارث نہیں لے سکتے جو ہم چھوڑے جاتے ہیں وہ صدقہ ہوگا اور آپ نے انبیاء سے مراد خود کو ہی قرار دیا ہے .

البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 3، ص 1126، ح2927، أبواب الخمس، باب فَرْضِ الْخُمُسِ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 – 1987


یہ حدیث بھی اہل سنت مؤقف کی تائید میں ہے۔ شیعہ مؤقف کیسے ثابت ہوگیا؟ ہم یہی تو کہتے ہیں کہ انبیائے کرام کی میراث نہیں ہوتی اور اس میں نبیﷺ بھی شامل ہیں۔ شیعہ مناظر دلشاد آسان باتیں بھی سمجھنے سے قاصر! بس جو پرسنل میں دلیل بھیج دیتا وہ مناظرے میں کاپی پیسٹ کرتا رہا !!


 
   

  ابن حجرعسقلاني:    لَا نُورَث مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ " فَيَكُون ذَلِكَ مِنْ خَصَائِصه الَّتِي أُكْرِمَ بِهَا، بَلْ قَوْل عُمَر"يُرِيد نَفْسَهُ" يُؤَيِّد اِخْتِصَاصَهُ بِذَلِكَ.

یہ

«لَا نُورَث مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ " » 

پيامبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے،جیسا کہ عمر کا یہ قول : « «ہم انبیاء سے مراد خود آنحضرت ہی ہیں »، یہ قول اسی اختصاص کی تائید کرتا ہے.

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852 هـ)، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج 12، ص 9، تحقيق: محب الدين الخطيب، ناشر: دار المعرفة - بيروت.

 آپ میرے آج صبح کے پہلے سوال کا جواب دینے کے بجائے اس کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کوشش میں کیوں ہے۔جبکہ میرے اس سوال کا تعلق میرے مدعا کے پہلے اور دوسرے مرحلے سے متعلق ہے اس کا جواب دینے کے بجاے غیر متعقہ سوال پوچھ کر بحث کو خراب کرنے کی کوشش، آفرین ہو آپ پر پھر اپنے کو خراب کر دیا... مجھے دوسروں سے مدد لینے کا طعنہ دے کر خود ہی اعتراف کر دیا کہ اپ بھی ۔