شیعہ مناظر کا اقرار کہ سیدہ نے پورے فدک کا مطالبہ نہیں کیا تھا بلکہ صرف اپنے حصے کا مطالبہ کیا تھا!(قسط 18)
جعفر صادقشیعہ مناظر کا اقرار کہ سیدہ نے پورے فدک کا مطالبہ نہیں کیا تھا بلکہ صرف اپنے حصے کا مطالبہ کیا تھا!(قسط 18)
شیعہ مناظر: عجیب کٹ ہجتی کا آپ شکار ہیں جناب ممتاز صاحب، اللہ آپ کو اہلِ سنت کا مناظر کہنے والوں کی خیر ہو۔ مجھے نہیں لگتا کہ آپ حتٰی الامکان میرے مطالب کو دیکھنے کی بھی جرأت کرتے ہو۔ جناب یہ تو آپ کا کمال ہے۔ جس بحث کو تیسرے مرحلے میں چھیڑنا تھا ،اس کو آپ پہلے مرحلے میں چھیڑنے کے چکر میں تھے لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ اس قسم کی نفسیاتی جنگ چھیڑیں گے تو اس میں میری مہارت آپ سے کئی گنا زیادہ ہے۔ آپ نے میرے اصل مدعا کو دیکھ کر سمجھ لیا کہ آگے کیا ہونے والا ہے لہٰذا فوراً میرے مدعا کی اپنی طرف سے تفیسر کرنے کی کوشش کی لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔
گفتگو من و عن شیعہ مناظر کی تحریر کی روشنی میں کی گئی۔ اسکرین شاٹ رکھ کر الف اور ب کے نکات بھی دکھا دیئے گئے کہ اسی ترتیب سے گفتگو کی جائے گی، اس کے باوجود شیعہ مناظر دلشاد آخر تک یہی رونا روتے رہے کہ گفتگو ان کی مرضی کے مطابق نہیں ہو رہی! اب اقرار بھی کر رہے ہیں کہ سنی مناظر نے انہیں نفسیاتی جنگ میں اتار دیا تھا اور ہر طرف سے حملے بھی کردئیے تھے۔ جن دلائل کا شیعہ مناظر نے جواب دیا وہ بھی غلط اور ذاتی تاویلات کی مدد سے دیا۔
جناب والا۔جب آپ نے میرے مدعا کو خراب کرنے کے لیے تمام مراحل کو ایک کرنے کی ناکام کوشش کی اور میرے مدعا پر پردہ ڈالنے کے لیے ہر طرف سے حملے شروع کئے تو میں نے مجبور ہو کر آپ کے غیر مربوط سوالوں میں سے اکثر کا جواب دیا بعض کا جواب بعد کے مرحلے سے تھا اس کا جواب نہیں دیا۔
اب میں ان سب کا جواب دے دیتا تو آپ کیا کرتے پھر مجھ سے مناظرے کا جواز ہی ختم ہوتا ،لہٰذا میں نے آپ کو اچھلنے کودنے کے لیے بعض غیر ضروری سوالوں کا جواب نہیں دیا۔آپ نے میرے ضروری اور بنیادی سوالوں کا جواب نہیں دیا۔جناب والا۔حقیقت سب کے سامنے عیاں ہے۔آپ دھواں پھیلا کر کچھ بھی نہیں کرسکتے۔آپ کا گروپ ہوتا تو کب سے دوچار سنا کر مجھے ریموو کر دیتے، جس طرح معاویہ نے خلافت کے مسئلہ میں بات چیت والے گروپ میں میرے ساتھ کیا تھا۔
اب سنیں....
1۔ میرا دعویٰ تھا کہ جنابِ سیدہ سلام اللہ علیھا میراث اپنا حق سمجھتی تھیں ۔ انھوں نے میراث طلب کی ۔ اور ابوبکرؓ پر غضبناک رہیں ۔
2۔ مولا علی بھی جناب سیدہ سلام اللہ علیھا کے مؤقف کے حامی تھے ۔
یہ میں نے اہلسنت کی صحیح ترین روایات سے ثابت کیا ۔ اور ان روایات کے شارحین کے کلام سے اپنا مؤقف ثابت کیا ۔ جبکہ مدِ مخالف ادراج کی رٹ لگاتے رہے اور کسی قاعدے سے اسے ثابت نہ کر سکے ۔
3۔ مدِ مخالف نے تشیع کی روایت الکافی کتاب العلم سے وراثت نہ ہونے کی روایت پیش کی ۔لیکن اس میں ماترکناہ صدقة کے الفاظ نہیں دکھا سکے ۔ جبکہ اسی الکافی میں ہے ۔ کہ جنابِ سیدہ سلام اللہ علیھا رسول ﷺ کے مال کی وارث تھی ۔ اور یہ روایت کتاب المیراث میں ہے ۔
4۔ مدِ مخالف نے عورت کے زمین میں وراثت نہ ہونے کی روایت پیش کی جبکہ میں نے گزارش کر دی کہ عورت لفظ عام ہے ۔ اور بیٹی لفظ خاص ہے ۔ لہٰذا خاص پر عام کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا ۔ جبکہ اسی باب میں روایات میں تصریح موجود ہے کہ عورت سے مراد بیوی ہے ۔ اور میں نے علماء کے اقوال بھی پیش کر دیئے کہ عورت سے مراد بیوی ہے بیٹی نہیں ہے ۔
5۔ الحمد لللہ مدِ مخالف باتیں دھراتے رہے اور ہماری ہی تائید میں حوالہ جات دیتے رہے کہ جنابِ سیدہ سلام اللہ علیھا ابوبکر پر غضبناک تھیں
لہذا ہمارا دعویٰ ثابت ہوا ۔
تیسرا جواب جیساکہ بیان ہوا اندراج کہنے والے ،ایک تو اپنے بہت سے بڑے بڑے علماء کو گمان پر ایمان رکھنے والا کہہ رہے ہیں۔ مثلا ۔بخاری کی اسی حدیث کو دیکھیں ۔
3093 - فَقَالَ لَهَا أَبُو بَكْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ « لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ » . فَغَضِبَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فَهَجَرَتْ أَبَا بَكْرٍ ، فَلَمْ تَزَلْ مُهَاجِرَتَهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ وَعَاشَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - سِتَّةَ أَشْهُرٍ . قَالَتْ وَكَانَتْ فَاطِمَةُ تَسْأَلُ أَبَا بَكْرٍ نَصِيبَهَا مِمَّا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - مِنْ خَيْبَرَ وَفَدَكٍ وَصَدَقَتِهِ بِالْمَدِينَةِ ، فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ عَلَيْهَا ذَلِكَ ، وَقَالَ لَسْتُ تَارِكًا شَيْئًا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَعْمَلُ بِهِ إِلاَّ عَمِلْتُ بِهِ ، فَإِنِّى أَخْشَى إِنْ تَرَكْتُ شَيْئًا مِنْ أَمْرِهِ أَنْ أَزِيغَ . فَأَمَّا صَدَقَتُهُ بِالْمَدِينَةِ فَدَفَعَهَا عُمَرُ إِلَى عَلِىٍّ وَعَبَّاسٍ ، فَأَمَّا خَيْبَرُ وَفَدَكٌ فَأَمْسَكَهَا عُمَرُ وَقَالَ هُمَا صَدَقَةُ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - كَانَتَا لِحُقُوقِهِ الَّتِى تَعْرُوهُ وَنَوَائِبِهِ ، وَأَمْرُهُمَا إِلَى مَنْ وَلِىَ الأَمْرَ . قَالَ فَهُمَا عَلَى ذَلِكَ إِلَى الْيَوْمِ . أطرافه 3712 ، 4036 ، 4241 ، 6726 - تحفة 10678
صحيح البخارى 57 - فرض الخمس ۔ باب ۱ باب فرض الخمس 3093
اب دقت کریں : الف : اگر اندراج کو غضبت سے جانا جائے تو حدیث ناقص رہ جاتی ہے۔
فَقَالَ لَهَا أَبُو بَكْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ « لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ » قَالَتْ وَكَانَتْ فَاطِمَةُ تَسْأَلُ أَبَا بَكْرٍ نَصِيبَهَا مِمَّا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ
اگر حدیث کے صرف یہ دو جملے لکھے جائیں گے تو واقعی بات نامکمل رہ جائے گی، لیکن حدیث میں صرف یہ دو جملے نہیں ہیں! شیعہ اکثر اسی طرح گمراہ کرتے ہیں۔غور سے دیکھیں اوپر موصوف نے پوری حدیث پیش بھی کی ہے جس میں تفصیل سے واقعہ مذکور ہے یعنی حدیث نامکمل نہیں ہے۔اس کے باوجود شیعہ دجل دیکھیں کہ نیچے دو جملے لکھ کر فرما رہے ہیں کہ حدیث نامکمل ہے۔
یہاں پر اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد معاملہ کیا ہوا ، اس کا ذکر نہیں ہے ۔بات نامکمل ۔
روایات میں راوی ادراج کرتے ہوئے تسلسل قائم رکھتے ہیں۔ راوی وقفہ ظاہر کر کے یہ بیان نہیں کرتا کہ اب میں ادراج بیان کر رہا ہوں!
ب : فَهَجَرَتْ أَبَا بَكْرٍ۔
عربی ادییات کے کسی طالب علم سے پوچھیں کہ ھجرت کا " ف " جملے کے تسلسل کو بتانے کے لئے ہے یا تسلسل کو کاٹنے کے لئے ؟
ج فَهَجَرَتْ أَبَا بَكْرٍ وَعَاشَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم
یہاں بھی دقت کریں
{ وَعَاشَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ}
یہ حصہ ان لوگوں کے بقول ادراج کا حصہ ہے جبکہ ایک تو یہ اسی حدیث کا مربوط جملہ ہے اور سیاق کے اعتبار سے بلکل فٹ آتا ہے اور جیساکہ پہلے نقل ہوا کہ امام طبرانی اور امام بیہقی وغیرہ نے اس کو یوں نقل کیا ہے:
قالت عائشة أن فاطمة عاشت بعد رسول الله صلى الله عليه و سلم ستة أشهر
یعنی جناب عائشہ کے کلام کا تسلسل ہے یہ راوی کا گمان نہیں جبکہ اس کو ادراج کہنے والوں نے راوی کی رائے کہا ہے {جیساکہ امام بیہقی }
راوی کی رائے کو ہی ادراج کہتے ہیں۔
ھ اس حدیث کے اس حصے
{ قَالَتْ وَكَانَتْ فَاطِمَةُ تَسْأَلُ أَبَا بَكْرٍ نَصِيبَهَا مِمَّا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ}
میں دقت کریں۔ آپ کسی عربی ادبیات سے معمولی آشنائی رکھنے والے سے بھی پوچھے تو وہ آپ کو سمجھائے گا کہ جب "کان " کانت " فعل مضارع سے پہلے آئے تو یہ ماضی استمراری کا معنی دیتا ہے یعنی مطالبہ ختم نہیں ہوا بلکہ جاری رہا اب یہ جاری رہا ،راوی کا گمان نہیں ہے بلکہ جناب عائشہ کے کلام کا حصہ ہے کیونکہ { قَالَتْ } یہ فعل ماضی کا چوتھا صیغہ ہے یعنی مفرد موئنث غائب از مثال واوی اس کا معنی جناب عائشہ نے کہی ۔جناب زہری خنثی تو نہیں تھا کہ کبھی قال اس کے لئے استعمال ہو کبھی قالت ۔اب کیا ادراج کا بہانہ بنانے والوں کے لئے کوئی بہانہ ہے ۔ اوپر جناب عائشہ خبر دے رہی ہے کہ حضرت فاطمہ اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے آئیں اور خلیفہ نے وہ حدیث سنائی {آپ کے بقول آپ راضی ہو کر چلیں گئیں تھی تو
{ وَكَانَتْ فَاطِمَةُ تَسْأَل}
کیوں ؟ مطالبہ اگر ختم ہوگیا ہو اور جناب فاطمہ ع راضی ہوگئی تھیں تو پھر جناب عائشہ کیوں کہہ رہی ہے کہ آپ مطالبہ کرتی رہیں ۔یہ ادراج کی نفی ہر اس حدیث کے داخلی شواہد ۔اب دیکھیں صحیحین میں موجود ایک اور شاہد ،جیساکہ امیر المؤمنین کے مؤقف کے سلسلے میں کئی اسناد پیش کر چکا ہوں کہ یہ آپ نے خلیفہ دوم کے دور تک جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے مطالبے کو جاری رکھا ۔ اب آپ کے بقول معاملہ اسی {نحن معاشر الانبیاء{ سے ہی ختم ہوا تھا تو کیوں مطالبہ جاری رہا ؟؟
مطالبہ اسی ایک ملاقات میں جاری رہنے سے شیعہ مؤقف کی تائید نہیں ہوتی کیونکہ آخر میں فیصلہ نبیﷺ کے فرمان کی وجہ سے کیا گیا ہے۔
ایک سند دوبارہ ملاحظہ کریں ۔
خلیفہ دوم کہتا ہے: علی میرے پاس اپنی بیوی کی ان کے باپ سے میراث کا مطالبہ کرنے آئے۔
جِئْتَنِى تَسْأَلُنِى نَصِيبَكَ مِنِ ابْنِ أَخِيكَ ، وَأَتَى هَذَا يَسْأَلُنِى نَصِيبَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا
صحيح البخارى کتاب النفقات ۔3 - باب حَبْسِ نَفَقَةِ الرَّجُلِ ۔۔ مسند أحمد (4/ 213): وَمِنْ مُسْنَدِ بَنِي هَاشِمٍ ۔۔ حَدِيثُ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
وَيَطْلُبُ هَذَا مِيرَاثَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا، ۔۔۔۔۔ثُمَّ جِئْتَنِي أَنْتَ وَهَذَا وَأَنْتُمَا جَمِيعٌ وَأَمْرُكُمَا وَاحِدٌ،
صحیح مسلم ۔۔ - كتاب الجهاد والسير - باب 15 - بَابُ حُكْمِ الْفَيْءِ۔۔
السنن الكبرى للبيهقي کتاب قسم الفئ۔۔ ۔۔۔ ( 5 باب بيان مصرف أربعة أخماس الفيء ۔۔
وجاءني هذا ـ يعني عليا ـ يسألني ميراث امرأته ۔۔ صحيح ابن حبان (14/ 575):
هذا - يعني عليا - يسألني ميراث امرأته من أبيها ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مصنف عبد الرزاق (5/ 471):
ثُمَّ جِئْتُمَانِي، جَاءَنِي هَذَا , يَعْنِي الْعَبَّاسَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ , يَسْأَلُنِي مِيرَاثَهُ مِنِ ابْنِ أَخِيهِ، وَجَاءَنِي هَذَا , يُرِيدُ عَلِيًّا رَضِيَ اللهُ عَنْهُ , يَسْأَلُنِي مِيرَاثَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا،۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ السنن الكبرى للبيهقي (6/ 487
اب آگر آپ لوگ نہ مانیں تو نہ مانیں۔ جب مطالبہ منظور نہیں ہوا اور مسلسل مطالبہ کے باوجود انہیں کچھ بھی نہیں دیا ۔
کیسے خود بخود ثابت ہے؟ ایک بیٹی اپنے مرحوم والدﷺ کا فرمان سن کر شدید ناراض نہیں ہوسکتی۔ عارضی رنجش ہونا الگ بات ہے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن مرتے دم تک شدید ناراضگی ممکن نہیں، یہ راوی کا گمان ہے جو کہ درست نہیں ہے۔
فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ أَنْ يَدْفَعَ إِلَى فَاطِمَةَ مِنْهَا شَيْئًا ۔ صحيح البخاري (13/ 135): کتاب المغازی ۔۔ بَاب غَزْوَةِ خَيْبَرَ۔۔۔۔۔۔ صحیح مسلم ۔ كتاب الجهاد والسير - باب قول النبي ص ( لا نورث ما تركنا فهو صدقة )
شیعہ مناظر دلشاد کی مجبوری تھی کہ اپنی تحریر کے ب پر گفتگو موڑنے کی کوشش کرتا رہے کیونکہ اپنی تحریر کے الف پر سنی مناظر کے اشکالات و سوالات سے لاجواب ہوچکا تھا!
یعنی ایک طرف سے خلیفہ کہتا تھا کہ رسول اللہﷺ اس سے آپ لوگوں کا خرچہ پانی دیتے تھے اور ساتھ ہی قسم کھائے کہ رسول اللہﷺ کے طریقے پر عمل کروں گا اور پھر بعد میں کچھ بھی نہ دے تو کیا آپ راضی ہوکر انہیں دعا دیتی وہاں سے چلی گئی ہوں گی؟
کیا سیدہ فاطمہؓ کو غیب کی خبر تھی کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جب کہا کہ میں نبیﷺ کی طرح تمام اخراجات ادا کرتا رہوں گا تو سیدہ کو علم ہوگیا کہ مستقبل میں ایسا نہیں ہوگا؟ اس لئے وہاں سے ناراض ہو کر چلی گئیں؟ یاد رہے کہ فدک کی آمدنی ہر ماہ نہیں آتی تھی بلکہ سالانہ اس آمدنی کا حساب کیا جاتا تھا اور سیدہ فاطمہ بعد از نبی چھ ماہ زندہ رہیں۔
اب یہ اس سلسلے کے بعض شواہد ہیں ۔ اگر ان تمام شواہد پر نظر کریں تو جناب زہری کا گمان بھی ہو تو بھی یہ گمان حق پر مبنی ہے ۔یہاں تک یہ بات اظہر من الشمس ثابت ہے ناراضگی اور مطالبہ دونوں جاری رہے ۔اب اگلی بات اسی حق نہ ملنے کے نظریے کے ساتھ دنیا سے جانا بھی خود بخود ثابت ہے ۔ {دقت کریں }
اب اس کے بعد جنازے میں شرکت کی اجازت نہ دینا بھی اگر زہری کا گمان ہو تو بھی یہ بلکل درست گمان ہے ۔عقلی طور پر بھی کوئی ایسے کو اپنا یا اپنے ایسی عزیز کا جنازہ پڑھنے کی اجازت تو نہیں دیتے کہ جس نے اس کا حق نہیں دیا ہو ۔
کیا عقل اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ جس شخص سے سیدہ فاطمہؓ اتنی شدید ناراضگی ہو اسی کی بیوی حضرت اسماء بنت عمیسؓ سیدہ فاطمہؓ کی آخری ایام میں خدمت کرتی رہے اور غسل وغیرہ میں بھی مدد فرمائے۔؟کیا یہ اس بات کی قوی دلیل نہیں کہ حضرت ابوبکرؓ اور سیدہ فاطمہؓ کی رضایت اس سے ثابت ہوتی ہے!؟ بیشک بغض کا کوئی علاج نہیں ہے۔
جیساکہ اس سلسلے میں صحیح سند دوسری روایات بھی یہی کہتی ہیں اور اہل سنت کے مایہ ناز علماء نے بھی اسی کا اعتراف کیا ہے کہ جناب فاطمہ ع کے جنازے میں شرکت اور ان پر نماز کی خلفاء کو خبر تک نہ دی گئی ۔اور واضح طور پر نقل ہوا ہے کہ یہ مخفی رات میں دفن ہونا جناب سیدہ کی وصیت کے مطابق تھا اور یہ سب خلفاء کو جنازے میں شرکت سے دور رکھنے کے لئے تھا ۔اگر سند کی ضرورت ہے تو پیش کر سکتا ہوں اور اس سلسلے میں آپ لوگوں کی طرف سے جو سند پیش کی جاتی ہے سب کے ضعیف ہونے کو آپ کے علماء کے قلم سے ثابت کر سکتا ہوں ۔جناب حتیٰ کہ ان کی قبر بھی مخفی رکھی گئی۔ کیا یہ خود ان کی صدائے احتجاج سننے کے لئے کافی نہیں ؟ جنت کی عورتوں کی سردار رسول اللہﷺ کی سب سے پیاری بیٹی کا جنازہ اس حد تک مخفیانہ رات کو دفن ہونے پر غور کریں تو آپ کے لئے تاریخ کے بہت سے حقائق شاید کھل جائیں۔ لہٰذا ادراج کی نفی پر اور ادراج کہنے والوں کے گمان کے بطلان پر شواہد اسی حدیث اور اس سے باہر بہت زیادہ ہیں ۔ آپ کا سارا زور ادراج کو ثابت کرنے پر لگا رہا لیکن اس کو ثابت کرنے میں آپ بری طرح ناکام رہے ہیں اور آخر میں ادراج کا عجیب و غریب معنی کر کے اس کا جنازہ بھی نکالا ۔جناب یقین مانیں اس کو ادراج کہنا خود ایک گمان ہے ۔ گمان کا علاج یقینی دلائل کو تسلیم کرنا اور شبہات سے ہاتھ اٹھانا ہے
اوپر شیعہ مناظر تسلیم بھی کر چکا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کو سیدہ کی وفات کا پہلے سے علم تھا، جسے پہلے سے علم ہو اس تک خبر نہیں پہنچائی جاتی۔ رات میں تدفین سیدہ کی وصیت کے مطابق ہوئی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عثمان غنیؓ کی تدفین بھی رات کو ہی ہوئی تھی یہ کسی سے ناراضگی کی دلیل تھوڑی ہے۔شیعہ مناظر کے نزدیک اس کی ذاتی تاویلات یقینی دلائل کا درجہ رکھتی ہیں
لہٰذا یہ بات ثابت ہوئی کہ اگر راوی نے اس کو حدیث کا حصہ بنایا ہو تو بھی یہ حقیقت کے مطابق ہے اور جناب فاطمہ کا ناراض ہونا اور مطالبہ جاری رکھنا اور اپنے حق سے محروم کرنے والا سمجھ کر دنیا سے جانا اور نماز میں شرکت کی اجازت نہ دینا اور جناب امیر المومنین ع کا اسی وجہ سے خلفاء کو جھٹلانا ایک تاریخی حقیقت ہے جسے کوئی چھپا نہیں سکتا ۔جیساکہ آپ کے سلف نے اسی حقیقت کو تسلیم کیا ہے ۔ اب آپ کی مرضی اپنے اسلاف سے بغاوت کریں اور ان پر وہی سوالات کریں جو آپ شیعوں سے کرتے ہیں ان پر وہی اعتراضات کریں جو آپ شیعوں پر اسی بہانے کرتے ہیں ۔اب آپ کو یقین ہونا چاہئے کہ آپ کا تعلق نہ حنفی بزرگوں سے ہے نہ شافعی اور نہ مالکی اور جنبلی کی مشترکہ نسل ابنِ تیمیہ وغیرہ سے ، لیکن ان سب کے باجود اپنے آپ کو اھل سنت کا نمائندہ اور ترجمان کہہ کر شیعوں کو للکارنا تاریخ کا عجیب عجوبہ ہے ۔
غور فرمائیں! شیعہ مناظر یہ ظاہر کر رہا ہے کہ جو مؤقف وہ ثابت کرتا آ رہا ہے وہ مؤقف حنفی،شافعی، مالکی اور حنبلی بلکہ پوری اہل سنت کا بھی ہے! لاحول ولاقوت۔ شیعوں کو اللہ ہی سمجھے۔ ایسی ایسی لفاظی کرتے ہیں کہ اللہ کی پناہ
اب آپ کا یہ دعویٰ ہے کہ آپ کے دلائل کا میں نے جواب نہیں دیا ہے تو باقی باتیں چھوڑ کر انہی چند مطالب کا علمی جواب دو اور اپنی فتح کا اعلان کرو۔
سنی مناظر جواب کس سوال کا دے رہے ہیں؟ نمبر ڈال کر الگ الگ جواب دیتے جائیں۔ اس میں کیا مشکل ہے۔
شیعہ مناظر میں رات کو جواب دوں گا، پہلے مطالعہ کریں، پھر تسلی سے جواب لکھنا۔ ادھر ادھر جانے کی ضرورت نہیں۔
سنی مناظر: گفتگو ٹو دی پوائنٹ کیا کریں۔ میرے پاس تیس سے اوپر فدک پر تحقیقی کتب موجود ہیں۔ مطالعے کی ضرورت آپ کو ہے۔ سادہ سے سوال تین دن سے پوچھ رہا ہوں۔ جواب ککھ نہیں دے رہے۔
میں کبھی ذاتی تاویلات کا سہارہ نہیں لیتا۔ آپ تو اپنی صحیح روایات کا بھی دفاع نہیں کر پا رہے۔ ہماری روایات پر کیا تحقیق کی ہوگی! گھوم پھر کر علمائے اہلسنت کے اقوال پر ہی آئیں گے۔ چلیں۔ ایک اور موقعہ دیتا ہوں۔ میرا چیلینج قبول کریں۔
صرف اہلِ تشیع کی صحیح روایات سے فدک پر شیعہ مؤقف کو درست ثابت کر کے دکھائیں۔
1۔ کیا سیدہ کو قرآن کی آیات میراث کا علم نہ تھا جن کے مطابق ازواج اور چچا بھی نبی کے ورثاء میں شامل ہوتے ہیں؟ یہ تو آپ نے سیدہ فاطمہ کی شان میں گستاخی کر دی ہے۔
2۔ اگر مولا علی فدک کو سیدہ کا حق سمجھتے تھے تو اس حق کو حقداروں تک پہنچایا کیوں نہیں؟ شیعہ کتب کے مطابق خلیفہ کا فرض ہے کہ حقداروں کے حقوق دلوائے۔ آپ نے سیدنا علیؓ پر بھی بہتان لگادیا!
لن تنالوالبر سورہ النسآء : آیت 11
یُوۡصِیۡکُمُ اللّٰہُ فِیۡۤ اَوۡلَادِکُمۡ ٭ لِلذَّکَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ ۚ فَاِنۡ کُنَّ نِسَآءً فَوۡقَ اثۡنَتَیۡنِ فَلَہُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ ۚ وَ اِنۡ کَانَتۡ وَاحِدَۃً فَلَہَا النِّصۡفُ ؕ وَ لِاَبَوَیۡہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنۡہُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنۡ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ یَکُنۡ لَّہٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَہٗۤ اَبَوٰہُ فَلِاُمِّہِ الثُّلُثُ ۚ فَاِنۡ کَانَ لَہٗۤ اِخۡوَۃٌ فَلِاُمِّہِ السُّدُسُ مِنۡۢ بَعۡدِ وَصِیَّۃٍ یُّوۡصِیۡ بِہَاۤ اَوۡ دَیۡنٍ ؕ اٰبَآؤُکُمۡ وَ اَبۡنَآؤُکُمۡ لَا تَدۡرُوۡنَ اَیُّہُمۡ اَقۡرَبُ لَکُمۡ نَفۡعًا ؕ فَرِیۡضَۃً مِّنَ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا
ترجمہ : اللہ تعالیٰ تمہیں اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے (1) اور اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں اور دو سے زیادہ ہوں تو انہیں مال متروکہ کا دو تہائی ملے گا (2) اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کے لیے آدھا ہے اور میت کے ماں باپ میں سے ہر ایک لیے اس کے چھوڑے ہوئے مال کا چھٹا حصہ ہے اگر اس میت کی اولاد ہو (3) اگر اولاد نہ ہو اور ماں باپ وارث ہوتے ہوں تو اس کی ماں کے لیے تیسرا حصہ ہے (4) ہاں اگر میت کے کئی بھائی ہوں تو پھر اس کی ماں کا چھٹا حصہ ہے (5) یہ حصے اس کی وصیت (کی تکمیل) کے بعد ہیں جو مرنے والا کر گیا ہو یا ادائے قرض کے بعد تمہارے باپ ہوں یا تمہارے بیٹے تمہیں نہیں معلوم کہ ان میں سے کون تمہیں نفع پہنچانے میں زیادہ قریب ہے (6) یہ حصے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ ہیں بیشک اللہ تعالیٰ پورے علم اور کامل حکمتوں والا ہے۔
اگر ہم مان بھی لیں کہ فدک نبی کریمﷺ کی ذاتی ملکیت تھا تو بنص قرآن نبی کے بعد تین ورثاء مدعی تھے۔
1۔ ایک سیدہ فاطمہ جن کا آیت میراث کی رو سے ٢/١ حصہ بنتا تھا۔
2۔ دوسرے آپ کی بیویاں، جن کا ٨/١ حصہ بنتا تھا۔
3۔ تیسرے آپ کے چچا سیدنا عباسؓ جن کا بطور عصبہ باقی یعنی ٨/٣ حصہ بنتا تھا۔
کیا ہم تصور کر سکتے ہیں کہ سیدہ فاطمہؓ باقی ورثاء کو حصے دینے کے بجائے فدک صرف اپنے لئے حاصل کرنا چاہتی تھیں؟ کیا یہ قرآن کی خلاف ورزی نہیں ہے؟
3۔ اصول کافی کی اس صحیح روایت کی نشاندہی کردیں جس کے مطابق سیدہ نبیﷺ کے مال کی اکیلی وارث تھیں، میں چیک کرتا ہوں۔ اگر ایسی کوئی روایت اگر ہو بھی تو یہ روایت قرآن کے خلاف ہونے کے باعث اسے آپ قبول کریں گے تو منکر قرآن ہو جائیں گے، آگے آپ جانیں اور آپ کا ایمان۔
4۔ عورت عام ہے تو اس سے آپ نے صرف زوجہ کس دلیل سے لیا ہے؟ کسی شیعہ عالم کا قول ہی دکھا دیں کہ یہ باب صرف زوجہ کے لئے ہے۔ جب تک نمبر ڈال کر جواب نہیں دیں گے میں قبول نہیں کروں گا۔ آپ میرے جواب ٹیگ بھی نہیں کرتے ہو، جو اعتراض میں نے کئے ہی نہیں ان کے جواب بھی دینا شروع کر دیتے ہو۔ مجھے پتہ ہی نہیں چلتا کہ میری کس بات کا جواب آپ نے کہاں پر دیا ہے۔ میں صرف اپنے وضاحت طلب نکات دہراتا رہا ہوں اور یہ میرا حق ہے کہ آپ سے جواب طلب کروں جب تک آپ جواب نہیں دیں گے گفتگو اگلے مرحلے تک نہیں پہنچ سکے گی۔ باقی جوابات پر کچھ نہیں کہوں گا سیدھا سیدھا نمبر ڈال کر ترتیب سے جواب لکھیں۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔
شیعہ مناظر: سلام علیکم ۔ انتہائی معذرت کے ساتھ۔ ممتاز کی حالت اس کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی کی طرح لگ رہا ہے جو صرف بولینگ ہی کرتا ہے لیکن بدقستی سے کم رن ریٹ پر ساری وکٹیں گرنے کے بعد رن بنانے سے ناامید ہوکر وکٹ بچانے کے لیے کبھی گھٹنوں کا سہارا لیتا ہے کبھی پہلو، کبھی۔۔
جناب آپ نفسیاتی جنگ لڑنے کی کوشش نہ کریں اور سب کے سامنے یہ نہ کہیں کہ میری طرف سے جواب نہ ملنے کی وجہ سے دوست نکل رہے ہیں۔ جناب ذرا نگاہ کریں میرے جوابات کے بعد آپ کے جواب دیکھ کر آپ کے ہم مسلک دوست نکل گئے ہیں۔ ہمارے بعض دوست شروع میں کہہ رہے تھے یہ چالاک آدمی ہے احتیاط کرنا، بعض یہ سمجھ رہے تھے کہ میں شاید آپ کو جواب نہ دے سکوں لیکن جب میرے علمی جواب دیکھے اور آپ کی طرف سے تکراری سوال تو ہر روز مجھے داد دیتے ہیں اور میرے لیے دعا کرتے ہیں۔
آپ کا طریقہ انتہائی عجیب ہے نہ اپنی پوسٹوں اور اسکینز پر دقت کرتے ہیں نہ میرے جوابات کی طرف آپ کی توجہ ہے۔آنکھیں بند کر کے سوالات اور شبہات شیئر کرتے رہتے ہو۔جناب یہ کونسا علمی طریقہ ہے ۔کم از کم میرے آج کے مطالب کے ایک فیصد کا مجھے جواب دیتے،نا انصافی کی بھی حد ہوتی ہے آپ للکار کر اور شبہات پر شبہات پیش کر کے اپنے بے بسی کا اعلان فرما رہے ہیں۔جناب ممتاز صاحب آپ بار بار یہ کہہ رہے ہو کہ میرے سوالات کے جواب ۔ مجھے بتائیے کونسا سوال؟ پھر میں آپ کو سابقہ گفتگو میں دکھا دوں گا میں نے کیا جواب دیا ہے۔ آپ نے ادراج ادراج کا اتنا رٹ لگایا بعد میں ادراج کی نفی پر میرے دلائل کا جواب ہی نہ دیا۔ یہاں تک کہ پتہ چلا آپ کو ادراج کے معنی کا بھی علم نہیں۔ اب میں اپنے گزشتہ کے کچھ جوابات آپ کو دکھاتا ہوں آپ خود ہی دیکھنا جواب دیا تھا یا نہیں۔
شیعہ میراث کے مطالبے پر یقین رکھتے ہیں اور آپ کے صحیحین سے بھی اس کے ٹھوس ثبوت پیش کرتے ہیں۔ اگر آپ شیعہ مخالفت میں جناب عائشہ اور خلیفہ دوم کی بات کو ان کا گمان کہہ کر رد کرنا چاہیں اور اپنے ہی محدثین اور بزرگ علماء کی ٹانگیں کھینچنا چاہیں تو ہم آپ کو نہیں روکتے۔ہم صرف اتنا کہتے ہیں کہ سلف سے بغاوت کرنے والا اہل سنت کا ترجمان نہیں ہوسکتا۔ فدک پر فیصلہ قرآن کی آیات کے خلاف ہے اسی وجہ سے جناب فاطمہ ع اور مولا علی ع نے قبول نہیں فرمایا۔اگر بحث تیسرے مرحلے میں داخل ہو تو پھر میں آپ کو بتادوں گا۔ ہماری کتاب کی حدیث اور آپ کی کتابوں میں نقل کردہ حدیث میں آسمان اور زمین کا فاصلہ ہے۔ درہم و دینار علماء کو انبیاء سے وراثت میں نہ ملنا ۔ بیٹی کو باپ کی زمین اور باقی حقوق سے محروم کرنے کی دلیل نہیں۔ الا صدقہ کا بھی ذکر نہ ہونا اسی بات کی دلیل ہے لہٰذا متفقہ حدیث کہنا حقیقت سے کھیلنا ہے۔آپ کی حدیث کے مضمون کو تو خود خلیفہ دوم اور آپ کے بڑے بڑے مفسرین نے قبول نہیں کیا ہے لہٰذا متفقہ فیصلہ چہ معنی دارد(تیسرے مرحلے میں آؤ مجھ سے بحث کرنے) ناراضگی کو ثابت کیا ہے۔انصاف پسندی سے کام لیا کرو ایک ثابت شدہ بات کو چھپانے کے لیے سوالوں کا تکرار نہ کرو۔ راوی کا گمان اگر حقیقت پر مبنی ہو تو سب مانتے ہیں۔ لیکن ثقہ راوی کی رائے کو گمان کہنا اور ا س واقعہ کے مطابق ہونے کے سارے شواہد سے چشم پوشی کرنا تعصب اورکٹ ہجتی کے سوا کچھ نہیں۔جی قرآن سے بڑھ کر انبیاء کی وراثت ان کی اولاد تک منتقل ہونے پر کوئی ٹھوس دلیل؟؟ شیعہ کسی ایسی روایت کو مانتے ہی نہیںِ جو قرآن کے واضح حکم کے خلاف ہو۔ یہ بھی ذہن میں رکھنا سیدہ کا مطالبہ صرف میراث کا نہ تھا لہٰذا مغالطہ سے پرہیز کریں۔ بیٹی ،ماں کو اگر آپ عورت مانتے ہیں تو شیعہ مسلک میں ان کو بھائی اور باپ کی طرف زمین اور غیر زمین سے وراثت ملتی ہے۔ ہماری ماں اور ہماری بیٹیاں تو ہم سے زمین اور وراثت میں لیتی ہے۔دوستوں کی تسلی کے لیے ایک دو اسکین بھی دیتا ہوں۔آپ کا یہ دعویٰ ہے کہ شیعوں کے ہاں عورت کو وراثت میں زمین نہیں ملتی یہ بلکل ایسا ہی ہے جیسا آپ لوگ کہتے ہیں کہ شیعہ قرآن پر ایمان نہیں رکھتے.معاف کرنا ہماری گلی کی بلیاں بھی اس الزام کو سن کر ہنستی ہیں.
قارئین! شیعہ مناظر کے اس جواب پر غور و فکر کریں۔
بعد میں کئی بار اس کی وضاحت پوچھی جاتی رہی لیکن شیعہ مناظر ڈھیٹ بنے رہے اور کھل کر دو ٹوک وضاحت نہ دے سکے۔
واضح جواب... اپنے حصے کا مطالبہ کیا ہے....نہ پورے فدک کا۔
شیعہ مناظر کا اقرار کہ سیدہ نے پورے فدک کا مطالبہ نہیں کیا تھا بلکہ صرف اپنے حصے کا مطالبہ کیا تھا!
شیعہ مناظر:
(نوٹ: غیر متعلق لنکس اور شیعہ مناظر کی طرف سے گذشتہ جوابات کاپی پیسٹ کئے گئے جو کہ حذف کئے گئے ہیں)
ایک اہم تحقیقی مقالہ ۔اہل سنت کے اس سلسلے میں دلائل کا علمی رد ۔یہ بھی میرا ترجمہ ہے ۔ آج مکمل کیا ہے۔