شیعہ سوال۔2
جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخر ی وقت میں بیماری کی حالت میں فرمایا کہ قلم اور کاغذ لاؤ تاکہ میں تمہارے لئے ایک ایسی بات لکھ دوں تا کہ تم میرے بعد گمراہ نہ ہو سکو، تو عمر نے کہا کہ پیغمبر بخار کی شدت کی وجہ سے ایسا کہہ رہے ہیں، ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے۔
(صحیح بخاری کتاب العلم)
لیکن جب ابوبکر نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں وصیت لکھنی چاہی تو عمر نے کیوں نہیں کہا کہ یہ درد کی شدت کی وجہ سے ایسا کہہ رہے ہیں ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے؟
اہلسنت کا جواب
اس سوال سے رافضیوں کے دو نظریات رد ہو جاتے ہیں۔
خلیفہ منصوص من اللہ ہوتا تو نبی کریم وصیت کر کے خلیفہ کا تعین کیسے کر سکتے ہیں؟
یہ اختیار تو اللہ کے پاس ہے۔ بالفرض نبی کریم کو وحی الہی سے خلیفہ کا بتا دیا گیا تھا اور اعلان مقصود تھا تو اس قسم کا اعلان چند لوگوں کے سامنے کمرے میں کرنا بہتر تھا یا آخری خطبہ حجۃ الوداع اس اعلان کا بہترین موقعہ تھا؟
اللہ اور نبی کریمﷺ کو خلیفہ بلافصل کا اعلان کرنا ہوتا تو قرآن کریم میں واضح اعلان یا فرمانِ نبویﷺ سے امت مسلمہ کو بتا دیا جاتا۔
ان دلائل سے یہ واضح ہوتا ہے کہ واقعہ قرطاس میں خلیفہ کے تعین کرنے پر تحریر لکھنا ایک افسانہ ہے، یہ بات بھی غور طلب ہے کہ واقعہ قرطاس کے بعد چار دن نبی کریمﷺ دنیا میں موجود رہے، بالفرض جمعرات کے دن واقعہ قرطاس لکھنے نہ دیا گیا تو بعد میں پیر کے دن تک وہی تحریر لکھنے کے کئی مواقع میسر تھے، حضرت علی لکھوا لیتے۔
اس پر مزید دلائل بھی دئے جاسکتے ہیں۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یا کسی کو بھی وصیت سے نہیں روکا جا سکتا، شریعت میں سب کو وصیت لکھنے کا حق حاصل ہے۔
قرطاس لکھ کر مزید تحاریر تلاش کریں۔