Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

اگر سقیفہ میں خلیفہ کا انتخاب اور بیعت لینے کا طریقہ صحیح تھا تو عمر نے یہ کیوں کہا کہ وہ ایک فلتۃ ( یعنی اتفاقی اور بغیر سوچا سمجھا کام) تھا؟

  جعفر صادق

 شیعہ سوال۔4
اگر سقیفہ میں خلیفہ کا انتخاب اور بیعت لینے کا طریقہ صحیح تھا تو عمر نے یہ کیوں کہا کہ وہ ایک فلتۃ ( یعنی اتفاقی اور بغیر سوچا سمجھا کام) تھا؟
(صحیح بخاری کتاب المحاربین باب رجم الح بل ی من الزنا 8/585 ) ایک لمبی حدیث کے ضمن میں

 جواب اہل سنت 

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ثقیفہ بنی ساعدہ میں اس فتنہ کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا جس سے رحلت نبی کریمﷺ کے بعد امت مسلمہ کے اتحاد کو سخت نقصان پہنچ سکتا تھا۔
تاریخ کے مضبوط حقائق کے مطابق ثقیفہ بنی ساعدہ میں انصار صحابہ جمع ہوکر خلیفہ کے متعلق بحث کر رہے تھے، یہ اجلاس سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مرضی و منشاء سے ہرگز نہیں ہو رہا تھا اور نہ انہیں خلافت و حکومت کی کوئی لالچ تھی، جیسا کہ رافضی ان پر اعتراض کرتے ہیں۔
جب انہیں اس اجلاس کی خبر پہنچی تو وہ امت میں اختلاف ہو جانے کے ڈر سے فوراً وہاں پہنچے تاکہ فی الوقت یہ مسئلہ ختم کیا جاسکے، وہاں پہنچ کر اس فتنہ کو ختم کرنے کا حل یہی نکلا کہ تھوڑی دیر گفت و شنید اور مخالفت کے بعد حضرت ابوبکر کو خلیفہ بلافصل منتخب کر لیا گیا۔
الغرض ثقیفہ بنی ساعدہ میں اجماع ایک طرح سے فتنہ ہی تھا لیکن مہاجرین و انصار کے صحابہ کرام نے چند گھنٹوں میں اس فتنہ کو ختم کردیا اور دوبارہ حجرہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا میں آکر درود و سلام کی صورت میں جنازہ نبی کریمﷺ کے سلسلے کا جاری رکھا جو کہ پیر ، منگل اور بدھ تک جاری رہا اور رات کو تدفین کی گئی
جنازہ نبیﷺ میں دیر کی وجہ بھی یہی تھی، کیونکہ ہزاروں کی تعداد میں صحابہ تھے اور حجرہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا میں گیارہ گیارہ کی ٹولیاں کر کے تین دن تک درود و سلام پڑھتے رہے تھے۔