اگر مشورہ کے بغیر کسی کی بیعت کرنا جائز ہے تو عمر نے قتل کی دھمکی دے کر یہ کیوں کہا کہ ”اگر اس کے بعد کوئی یہ کام کرے گا تو بیعت کرنے والے اور بیعت لینے والے دونوں کو قتل کردیا جائے گا اور اگر مشورے کے بغیر کسی کی بیعت کرنا حرام ہے اور مہدور الدم کا سبب ہے تو اس کو سقیفہ میں کیوں جاری نہیں کیا گیا؟
مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند شیعہ سوال۔5
اگر مشورہ کے بغیر کسی کی بیعت کرنا جائز ہے تو عمر نے قتل کی دھمکی دے کر یہ کیوں کہا کہ ”اگر اس کے بعد کوئی یہ کام کرے گا تو بیعت کرنے والے اور بیعت لینے والے دونوں کو قتل کردیا جائے گا اور اگر مشورے کے بغیر کسی کی بیعت کرنا حرام ہے اور مہدور الدم کا سبب ہے تو اس کو سقیفہ میں کیوں جاری نہیں کیا گیا؟
(صحیح بخاری کتاب المحاربین رجم الحب ل ی من الزنا۸/۵۸۵ )
جواب اہل سنت
ثقیفہ بنی ساعدہ کا معاملہ بلکل الگ تھا۔ اس وقت خلیفہ کا انتخاب اور بیعت کا طریقہ واضح نہیں تھا۔
اس معاملے میں اللہ اور نبی کریمﷺ نے کوئی دو ٹوک حکم بھی نہیں دیا تھا۔ اسی لئے انصار اپنی اکثریت کی وجہ سے خلافت پر اپنا حق سمجھ رہے تھے، یہ انتہائی نازک مرحلہ تھا اور امت کا اتحاد سخت خطرے میں تھا۔ اس وقت مکمل اتفاق سے کسی ایک خلیفہ پر فیصلہ کرنا اور سب کا متفق ہوجانا بہت مشکل امر تھا۔ جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی گئی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کسی اور کی بیعت کرنے والے کو قتل کی دھمکی بھی اس فتنہ کی روک تھام کے لئے دی تاکہ مسئلہ خلافت پر امت تقسیم نہ ہوسکے۔
♦ دلیل: وقت اور حالات نے یہ فیصلہ درست قرار دیا اور دین اسلام خلفائے راشدین کے دور میں غالب ہوا اور دنیا کے تمام ممالک تک پہنچا۔
بعد میں آہستہ آہستہ اسلامی حکومت میں استحکام آتا گیا تو بتدریج خلیفہ کے چناؤ کا طریقہ کار متعین کیا گیا۔