عقل کہتی ہے کہ فوج کاسپہ سالارایک بہادر اور طاقتور انسان کو ہونا چاہئے ۔ اب سوال یہ ہے کہ پیغمبر(ص) نے فوج کی سپہ سالاری کاعہدہ اسامہ کوکیوں سونپا؟ اور ابوبکر اورعمر کو اس عہدے کے قابل کیوں نہیں سمجھا ؟ بس جوشخص فوج کی سپہ سالاری کی اہلیت نہ رکھتا ہو وہ خلافت کے عہدے پرکیسے فائز ہوسکتاہے جب کہ خلافت سپہ سالاری سے بھی بڑا عہدہ ہے؟
مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبندشیعہ سوال۔8
عقل کہتی ہے کہ فوج کاسپہ سالارایک بہادر اور طاقتور انسان کو ہونا چاہئے ۔ اب سوال یہ ہے کہ پیغمبر(ص) نے فوج کی سپہ سالاری کاعہدہ اسامہ کوکیوں سونپا؟ اور ابوبکر اورعمر کو اس عہدے کے قابل کیوں نہیں سمجھا ؟ بس جوشخص فوج کی سپہ سالاری کی اہلیت نہ رکھتا ہو وہ خلافت کے عہدے پرکیسے فائز ہوسکتاہے جب کہ خلافت سپہ سالاری سے بھی بڑا عہدہ ہے؟
جواب اہل سنت
عقل تو یہ بھی کہتی ہے کہ نبی کریمﷺ کی یہ حکمت تھی کہ حضرت اسامہ ہی لشکر کی قیادت کریں تاکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بحیثیت خلیفہ مدینہ میں اپنے فرائض انجام دے سکیں۔ بالفرض حضرت ابوبکر صدیقؓ کو امیر مقرر کردیا جاتا اور وہ نہ جاتے تو پھر بھی آج رافضی یہ اعتراض کرتے کہ دیکھو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حکم نبوی کی مخالفت کی اور امیر لشکر کسی اور کو بنادیا۔
اعتراض کرنے والے کو اعتراض کرنے کا بس بہانہ چاہئے، لیکن اس اعتراض سے سیدنا علیؓ کی بھی توہین ہو رہی ہے کہ نبی کریمﷺ نے اگر شیخین کو اس قابل نہ سمجھا تو سیدنا علیؓ کو امیر لشکر کیوں نہ بنایا؟ کیا وہ بھی معاذاللہ سپہ سالاری کے قابل نہیں تھے؟ جسے نبی کریمﷺ نے سپہ سالاری کے قابل نہ سمجھا اسے رافضی خلیفہ بلافصل کس دلیل سے سمجھتے ہیں؟
بحرحال سادہ سا جواب یہ ہے کہ کس وقت کسے لشکر کا امیر بنایا جائے، کسے کونسا فریضہ سونپا جائے یہ نبی کریم اور وقت کے خلیفہ کی اپنی مرضی ہے۔ اس پر کسی کو چوں چرا کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔
♦ دلیل: شیعہ و سنی کتب کے مطابق سیدنا علیؓ کو غزوہ تبوک کے موقعہ پر خود نبی کریم ﷺ نے مدینہ میں عورتوں اور بچوں کی حفاظت کے لئے مقرر فرمایا تھا اور باقی صحابہ کرام لشکر میں بھیجے گئے تھے۔کیا رافضی اس حکم نبوی پر بھی اعتراض کریں گے؟