Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

آپ (سنی) کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے خلیفاؤں کو قبول کرلیا تھا لیکن عمر کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام ہم کو جھوٹا، گنہگار اور دھوکے باز مانتے ہیں (صحیح مسلم ، کتاب جہاد و السیر ، باب الفی ء ایک لمبی حدیث کے دوران)_ اب آپ بتائیں کہ عمر سچے تھے یا آپ سچے ہیں ؟

  مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند

شیعہ سوال 9
آپ (سنی) کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے خلیفاؤں کو قبول کرلیا تھا لیکن عمر کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام ہم کو جھوٹا، گنہگار اور دھوکے باز مانتے ہیں (صحیح مسلم ، کتاب جہاد و السیر ، باب الفی ء ایک لمبی حدیث کے دوران)_
اب آپ بتائیں کہ عمر سچے تھے یا آپ سچے ہیں ؟

 جواب اہل سنت

بنیادی طور پر سوال غلط ہے۔
اگر ہم سیدنا علیؓ کے بارے میں کہتے ہیں کہ انہوں نے خلفائے ثلاثہ کی خلافت تسلیم کی تھی اور بیعت بھی کی تھی تو اس پر ہم محکم دلائل بھی رکھتے ہیں۔
معترض کو اگر ہماری بات سے اختلاف ہے تو وہ سیدنا علیؓ سے دلیل پیش کرتے کہ انہوں نے خلفائے ثلاثہ کی خلافت تسلیم کی تھی یا نہیں، بیعت کی تھی یا نہیں۔
دوسری بات صحیح مسلم کی مکمل حدیث اگر پیش کی جاتی تو اس اعتراض کی حقیقت بھی کھل جاتی۔
Sahih Muslim - 4577
کتاب: جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌  کے اختیار کردہ طریقے
باب:فے کا حکم


وحَدَّثَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ الضُّبَعِيُّ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَنَّ مَالِكَ بْنَ أَوْسٍ، حَدَّثَهُ، قَالَ: أَرْسَلَ إِلَيَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَجِئْتُهُ حِينَ تَعَالَى النَّهَارُ، قَالَ: فَوَجَدْتُهُ فِي بَيْتِهِ جَالِسًا عَلَى سَرِيرٍ مُفْضِيًا إِلَى رُمَالِهِ، مُتَّكِئًا عَلَى وِسَادَةٍ مِنْ أَدَمٍ، فَقَالَ لِي: يَا مَالُ، إِنَّهُ قَدْ دَفَّ أَهْلُ أَبْيَاتٍ مِنْ قَوْمِكَ، وَقَدْ أَمَرْتُ فِيهِمْ بِرَضْخٍ، فَخُذْهُ فَاقْسِمْهُ بَيْنَهُمْ، قَالَ: قُلْتُ: لَوْ أَمَرْتَ بِهَذَا غَيْرِي، قَالَ: خُذْهُ يَا مَالُ، قَالَ: فَجَاءَ يَرْفَا، فَقَالَ: هَلْ لَكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فِي عُثْمَانَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَالزُّبَيْرِ، وَسَعْدٍ؟ فَقَالَ عُمَرُ: نَعَمْ، فَأَذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا، ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: هَلْ لَكَ فِي عَبَّاسٍ، وَعَلِيٍّ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَأَذِنَ لَهُمَا، فَقَالَ عَبَّاسٌ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا الْكَاذِبِ الْآثِمِ الْغَادِرِ الْخَائِنِ، فَقَالَ الْقَوْمُ: أَجَلْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، فَاقْضِ بَيْنَهُمْ وَأَرِحْهُمْ [ص:1378]، فَقَالَ مَالِكُ بْنُ أَوْسٍ: يُخَيَّلُ إِلَيَّ أَنَّهُمْ قَدْ كَانُوا قَدَّمُوهُمْ لِذَلِكَ، فَقَالَ عُمَرُ: اتَّئِدَا، أَنْشُدُكُمْ بِاللهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ، أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ»، قَالُوا: نَعَمْ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى الْعَبَّاسِ، وَعَلِيٍّ، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا بِاللهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ، أَتَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَاهُ صَدَقَةٌ»، قَالَا: نَعَمْ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّ اللهَ جَلَّ وَعَزَّ كَانَ خَصَّ رَسُولَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخَاصَّةٍ، لَمْ يُخَصِّصْ بِهَا أَحَدًا غَيْرَهُ، قَالَ: {مَا أَفَاءَ اللهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ} [الحشر: 7]- مَا أَدْرِي هَلْ قَرَأَ الْآيَةَ الَّتِي قَبْلَهَا أَمْ لَا - قَالَ: فَقَسَمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَكُمْ أَمْوَالَ بَنِي النَّضِيرِ، فَوَاللهِ، مَا اسْتَأْثَرَ عَلَيْكُمْ، وَلَا أَخَذَهَا دُونَكُمْ، حَتَّى بَقِيَ هَذَا الْمَالُ، فَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْخُذُ مِنْهُ نَفَقَةَ سَنَةٍ، ثُمَّ يَجْعَلُ مَا بَقِيَ أُسْوَةَ الْمَالِ، ثُمَّ قَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ، أَتَعْلَمُونَ ذَلِكَ؟ قَالُوا: نَعَمْ، ثُمَّ نَشَدَ عَبَّاسًا، وَعَلِيًّا، بِمِثْلِ مَا نَشَدَ بِهِ الْقَوْمَ، أَتَعْلَمَانِ ذَلِكَ؟ قَالَا: نَعَمْ، قَالَ: فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجِئْتُمَا تَطْلُبُ مِيرَاثَكَ مِنِ ابْنِ أَخِيكَ، وَيَطْلُبُ هَذَا مِيرَاثَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَاهُ صَدَقَةٌ»، فَرَأَيْتُمَاهُ كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا، وَاللهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ، ثُمَّ تُوُفِّيَ أَبُو بَكْرٍ وَأَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَوَلِيُّ أَبِي بَكْرٍ، فَرَأَيْتُمَانِي كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا، وَاللهُ يَعْلَمُ إِنِّي لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ، فَوَلِيتُهَا ثُمَّ جِئْتَنِي أَنْتَ وَهَذَا وَأَنْتُمَا جَمِيعٌ وَأَمْرُكُمَا وَاحِدٌ، فَقُلْتُمَا: ادْفَعْهَا إِلَيْنَا، فَقُلْتُ: إِنْ شِئْتُمْ دَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا عَلَى أَنَّ عَلَيْكُمَا عَهْدَ اللهِ أَنْ تَعْمَلَا فِيهَا بِالَّذِي كَانَ يَعْمَلُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذْتُمَاهَا بِذَلِكَ، قَالَ: أَكَذَلِكَ؟ قَالَا: نَعَمْ، قَالَ: ثُمَّ جِئْتُمَانِي لِأَقْضِيَ بَيْنَكُمَا، وَلَا وَاللهِ لَا أَقْضِي بَيْنَكُمَا بِغَيْرِ ذَلِكَ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ، فَإِنْ عَجَزْتُمَا عَنْهَا فَرُدَّاهَا إِلَيَّ


 
امام مالک نے زہری سے روایت کی کہ انہیں مالک بن اوس نے حدیث بیان کی ،  انہوں نے کہا :  حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے میری طرف قاصد بھیجا ،  دن چڑھ چکا تھا کہ میں ان کے پاس پہنچا ۔  کہا :  میں نے ان کو ان کے گھر میں اپنی چارپائی پر بیٹھے ہوئے پایا ،  انہوں نے اپنا جسم کھجور سے بنے ہوئے بان کے ساتھ لگایا ہوا تھا اور چمڑے کے تکیے سے ٹیک لگائی ہوئی تھی ،  تو انہوں نے مجھ سے کہا :  اے مال  ( مالک ) ! تمہاری قوم میں سے کچھ خاندان لپکتے ہوئے آئے تھے تو میں نے ان کے لیے تھوڑا سا عطیہ دینے کا حکم دیا ہے ،  اسے لو اور ان میں تقسیم کر دو ۔  کہا :  میں نے کہا :  اگر آپ میرے سوا کسی اور کو اس کا حکم دے دیں  ( تو کیسا رہے؟ )  انہوں نے کہا :  اے مال! تم لے لو ۔  کہا :  ( اتنے میں ان کے مولیٰ )  یرفا ان کے پاس آئے اور کہنے لگے :  امیر المومنین! کیا آپ کو عثمان ،  عبدالرحمان بن عوف ،  زبیر اور سعد رضی اللہ عنہم  ( کے ساتھ ملنے )  میں دلچسپی ہے؟ انہوں نے کہا :  ہاں ۔  تو اس نے ان کو اجازت دی ۔  وہ اندر آ گئے ،  وہ پھر آیا اور کہنے لگا :  کیا آپ کو عباس اور علی رضی اللہ عنہما  ( کے ساتھ ملنے )  میں  دلچسپی ہے؟ انہوں نے کہا :  ہاں ۔  تو اس نے ان دونوں کو بھی اجازت دے دی ۔  تو عباس رضی اللہ عنہ نے کہا :  امیر المومنین! میرے اور اس جھوٹے ،  گناہ گار ،  عہد شکن اور خائن کے درمیان فیصلہ کر دیں ۔  کہا :  اس پر ان لوگوں نے کہا :  ہاں ،  امیر المومنین! ان کے درمیان فیصلہ کر کے ان کو  ( جھگڑے کے عذاب سے )  راحت دلا دیں  ۔  ۔  مالک بن اوس نے کہا :  میرا خیال ہے کہ انہوں نے ان لوگوں کو اسی غرض سے اپنے آگے بھیجا تھا  ۔  ۔  تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا :  تم دونوں رکو ،  میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں! کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا :    ہمارا کوئی وارث نہیں بنے گا ،  ہم جو چھوڑیں گے وہ صدقہ ہو گا  ؟ ان سب نے کہا :  ہاں ۔  پھر وہ حضرت عباس اور علی رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا :  میں تم دونوں کو اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں! کیا تم دونوں جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا :    تمہارا کوئی وارث نہیں ہو گا ،  ہم جو کچھ چھوڑیں گے ،  صدقہ ہو گا  ؟ ان دونوں نے کہا :  ہاں ۔  تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا :  بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خاص چیز عطا کی تھی جو اس نے آپ کے علاوہ کسی کے لیے مخصوص نہیں کی تھی ،  اس نے فرمایا ہے :    جو کچھ بھی اللہ نے ان بستیوں والوں کی طرف سے اپنے رسول پر لوٹایا وہ اللہ کا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے    ۔  ۔  مجھے پتہ نہیں کہ انہوں نے اس سے پہلے والی آیت بھی پڑھی یا نہیں  ۔  ۔  انہوں نے کہا :  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنونضیر کے اموال تم سب میں تقسیم کر دیے ،  اللہ کی قسم! آپ نے  ( اپنی ذات کو )  تم پر ترجیح نہیں دی اور نہ تمہیں چھوڑ کر وہ مال لیا ،  حتی کہ یہ مال باقی بچ گیا ہے ،  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے اپنے سال بھر کا خرچ لیتے ،  پھر جو باقی بچ جاتا اسے  ( بیت المال کے )  مال کے مطابق  ( عام لوگوں کے فائدے کے لیے )  استعمال کرتے ۔  انہوں نے پھر کہا :  میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں! کیا تم یہ بات جانتے ہو؟ انہوں نے کہا :  ہاں ۔  پھر انہوں نے عباس اور علی رضی اللہ عنہما کو وہی قسم دی جو باقی لوگوں کو دی تھی  ( اور کہا )  : کیا تم دونوں یہ بات جانتے ہو؟ انہوں نے کہا :  جی ہاں ۔ پھر کہا : جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشیں ہوں تو آپ دونوں آئے،آپ اپنے بھتیجے کی وراثت مانگ رہے تھے اور یہ اپنی بیوی کی ان کے والد کی طرف سے وراثت مانگ رہے تھے،تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا :  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:ہمارا کوئی وارث نہیں ہو گا ، ہم جو چھوڑیں گے ،  صدقہ ہے ۔تو تم نے انہیں جھوٹا، گناہ گار ،عہد شکن اور خائن خیال کیا تھا اور اللہ جانتا ہے وہ سچے، نیکوکار ، راست رَو اور حق کے پیروکار تھے ۔  پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ فوت ہوئے اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا جانشیں بنا تو تم نے مجھے جھوٹا ،  گناہ گار ،  عہد شکن اور خائن خیال کیا اور اللہ جانتا ہے کہ میں سچا،نیکوکار  راست رَو اور حق کی پیروی کرنے والا ہوں ، میں اس کا منتظم بنا، پھر تم اور یہ میرے پاس آئے، تم دونوں اکٹھے ہو اور تمہارا معاملہ بھی ایک ہے ۔  تم نے کہا ل: یہ (اموال ) ہمارے سپر د کر دو ۔  میں نے کہا :  اگر تم چاہو تو میں اس شرط پر یہ تم دونوں کے حوالے کر دیتا ہوں کہ تم دونوں پر اللہ کے عہد کی پاسداری لازمی ہو گی ،  تم بھی اس میں وہی کرو گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے تو تم نے اس شرط پر اسے لے لیا ۔  انہوں نے پوچھا :  کیا ایسا ہی ہے؟ ان دونوں نے جواب دیا ۔  ہاں ۔  انہوں نے کہا :  پھر تم  ( اب )  دونوں میرے پاس آئے ہو کہ میں تم دونوں کے درمیان فیصلہ کروں ۔  نہیں ،  اللہ کی قسم! میں قیامت کے قائم ہونے تک تمہارے درمیان اس کے سوا اور فیصلہ نہیں کروں گا ۔  اگر تم اس کے انتظام سے عاجز ہو تو وہ مال مجھے واپس کر دو۔
اس حدیث میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جو جملے بولے ہیں وہ سمجھانے کی غرض سے فرمائے ہیں اور مخاطب حضرت عباس اور سیدنا علی دونوں ہیں لیکن اس سے مراد صرف حضرت عباس کو سمجھانا تھا کہ تم نے عباس!حضرت علی کو اس تقسیم نہ کرنے کی بنا پر ان الفاظ سے یاد کیا تو شائد اسی وجہ سے میں اور ابوبکر صدیق بھی انہی الفاظ کے مستحق ہوئے، کیونکہ ہم نے بھی اس مال کو تقسیم نہیں کیا اور نہ کرنے دیا۔ حالانکہ خدا جانتا ہے کہ ابوبکر اور میں اس معاملے میں صادق، راشد اور حق کی اتباع کرنے والے ہیں اور حضرت علی نے جو تمہاری خلافت کی اس میں وہ حق بجانب ہیں، لہاذا اس معاملے میں ان کے ساتھ اتفاق ہے جس کو تم جانتے ہو۔
اب معترض سے سوال ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ اس حدیث سے سچے ثابت ہوتے ہیں کہ نہیں؟ اس کے علاوہ یہ وقتی اختلاف تو اس وقت ختم بھی ہوگیا تھا پھر اس دلیل سے کیسے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا علیؓ نے خلفائے ثلاثہ کی بیعت نہیں کی تھی یا ان کی خلافت تسلیم نہیں کی تھی؟