دوسرے خلیفہ نے اپنے انتقال سے پہلے چھ لوگوں کی ایک کمیٹی بنائی اورکہا کہ ان میں سے جس کوچاہناخلیفہ بنالینا یہ چھ کے چھ لوگ خلافت کی اہلیت رکھتے ہیں بعدمیں کہاکہ اگران میں سے کوئی کسی کی مخالفت کرے تواس کوقتل کر دینا۔ اب آپ بتائیں کہ خلافت کی لیاقت ر کھنے والے شخص کا قتل کس طرح جائزہے
مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبندشیعہ سوال 10
دوسرے خلیفہ نے اپنے انتقال سے پہلے چھ لوگوں کی ایک کمیٹی بنائی اورکہا کہ ان میں سے جس کوچاہناخلیفہ بنالینا یہ چھ کے چھ لوگ خلافت کی اہلیت رکھتے ہیں بعدمیں کہاکہ اگران میں سے کوئی کسی کی مخالفت کرے تواس کوقتل کر دینا۔ اب آپ بتائیں کہ خلافت کی لیاقت ر کھنے والے شخص کا قتل کس طرح جائزہے
جواب اہل سنت:
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے چھ جلیل القدر صحابہ کرام کی کمیٹی بنائی تھی۔
1- حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ
2- حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ
3- حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ
4- حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
5- حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ
6- حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ نہیں کہا تھا کہ ان میں سے جس کو چاہنا خلیفہ بنا لینا اور نہ بعد میں یہ کہا کہ ان میں کوئی کسی کی مخالفت کرے تو اس کو قتل کردینا۔
دونوں باتیں معترض کی جہالت کو عیاں کرتی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان تمام چھ صحابہ کو ایک گھر میں جمع ہونے کا حکم دیا اور وہیں آپس میں مشورہ کرنے کی ہدایت فرمائی۔خلیفہ کے انتخاب کے لئے تین دن کا وقت مقرر فرمایا۔
(الطبقات الکبری لابن سعد 364/3)
اس موقعہ پر دو قسم کی روایات تاریخ کی کتب میں مروی ہیں۔
1- اگر پانچ ارکان ایک آدمی پر متفق ہوجائیں اور چھٹا تنہا اس کی مخالفت کرے تو اس کی گردن اڑا دی جائے، اگر دو آدمی مخالفت کریں تو دونوں کی گردن اڑا دی جائے۔(تاریخ طبری 226/5)
یہ روایت جھوٹی ہے۔ ابومخنف اس کا راوی ہے۔
اسی قسم کی روایت الطبقات الکبری لابن سعد 341,342/3 میں موجود ہے اور منقطع روایت ہے، اس کی سند میں سماک بن حرب ضعیف راوی ہے۔
2- جس صحیح روایت سے رافضی دھوکہ دیتے ہیں وہ یہ ہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اے صہیب! لوگوں کی تین دن امامت کرانا، اس دوران یہ نامزد افراد ایک گھر میں مجلس جاری رکھیں گے جب تمام افراد ایک آدمی کی خلافت پر متفق ہوجائیں اور کوئی ایک آدمی اس فیصلے کی مخالفت کرے تو اس کی گردن اڑا دینا۔
(الطبقات الکبری لابن سعد 342/3)
اس حکم میں چھ صحابہ کرام ہرگز شامل نہیں ہیں بلکہ تین دن بعد متفقہ خلیفہ کے بعد بیعت عامہ کے وقت کسی ایک آدمی کی مخالفت پر قتل کا حکم دیا گیا۔
چھ صحابہ کرام کا تین دن آپسی مشورے کے دوران اختلافات کا ہونا تو عین ممکن تھا ، وہ اس حکم میں شامل کیسے ہوسکتے ہیں؟
یعنی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے حکم کے مطابق تین دن بعد جب ایک متفقہ خلیفہ منتخب ہوجائے تو اس کے بعد کوئی اور آدمی مخالفت کرے تو اسے قتل کردیا جائے۔
اس حکم کا مقصد مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کا شیرازہ بکھرنے سے روکنا تھا اور انتشار کی روک تھام تھا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ حکم عین فرمان نبی کریمﷺ کے مطابق تھا۔
Sahih Muslim - 4798
کتاب: امور حکومت کا بیان
باب:مسلمانوں کی جمیعت میں تفریق ڈالنے والے کےبارے میں شریعت کا فیصلہ
وحَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي يَعْفُورٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَرْفَجَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «مَنْ أَتَاكُمْ وَأَمْرُكُمْ جَمِيعٌ عَلَى رَجُلٍ وَاحِدٍ، يُرِيدُ أَنْ يَشُقَّ عَصَاكُمْ، أَوْ يُفَرِّقَ جَمَاعَتَكُمْ، فَاقْتُلُوهُ
ابو یعفور نے حضرت عرفجہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، کہا : میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : جب تمہارا نظام ( حکومت ) ایک شخص کے ذمے ہو ، پھر کوئی تمہارے اتحاد کی لاٹھی کو توڑنے یا تمہاری جماعت کو منتشر کرنے کے ارادے سے آگے بڑھے تو اسے قتل کر دو۔
معترض رافضی کے تمام دس سوالات کے جواب دینے کے بعد ہم ان کی خدمت میں جوابی طور پر صرف سات سوال پیش کرتے ہیں۔
امید ہے کہ ان کے جوابات علمی انداز سے دئے جائیں گے۔
اہلسنّت سوال۔1 خلیفہ کا تعین اگر نبی کریم کے ہاتھ میں ہے تو شیعہ خلافت کو منصوص من اللہ کیوں کہتے ہیں؟
اہلسنّت سوال۔2 اگر نبی کریمﷺ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ بلافصل معین کردیا تھا تو واقعہ قرطاس کیوں پیش آیا؟ اور خلیفہ بلافصل معین ہونے کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ حکم نبوی کے خلاف خلفاء ثلاثہ کی بیعت و خلافت تسلیم کر کے حکم عدولی کیسے کرتے رہے؟
اہلسنّت سوال۔3 واقعہ قرطاس میں نبی کریمﷺ کی تحریر کا مقصد خلیفہ کا تعین تھا تو یہ بات آپ رافضیوں کو کہاں سے معلوم ہوئی؟
اور کیا حجۃ الوداع اس اعلان کے لئے مناسب ترین موقعہ نہیں تھا؟
اہلسنّت سوال۔4 کیا ثقیفہ بنی ساعدہ کا اجلاس حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خواہش سے منعقد ہوا تھا؟
وضاحت درکار ہے۔
اہلسنّت سوال۔5 لشکر اسامہ میں حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو خود نبی کریمﷺ نے امیر مقرر کیا تھا، اس فیصلہ پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر طعن بنتا ہے تو شیعہ و سنی کتب کے مطابق سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو غزوہ تبوک کے موقعہ پر خود نبی کریمﷺ نے مدینہ میں عورتوں اور بچوں کی حفاظت کے لئے مقرر فرمایا تھا اور باقی صحابہ کرام لشکر میں بھیجے گئے تھے۔کیا رافضی اس حکم نبوی پر بھی اعتراض کریں گے؟
اہلسنّت سوال۔6 سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خلفائے ثلاثہ کی خلافت تسلیم کی تھی یا نہیں، بیعت کی تھی یا نہیں؟ اگر کی تو آپ کو کیا مسئلہ آج؟ اگر نہیں کی تو احتجاج کیوں نہ کیا؟ کیا شیر خدا نہ تھے یا آپ ان کو بزدل ثابت کرنا چاہتے ہو؟
اہلسنّت سوال۔7 اللہ تعالیٰ کا وعدہ خلافت کیسے پورا ہوا؟؟ کیونکہ شیعہ کے نزدیک تو سیدنا علی خلیفہ بلافصل ہونے چاہئے تھے لیکن نہ ہوسکے، سیدنا حسن رضی اللہ عنہ بھی ساڑھے چھ ماہ خلیفہ رہے۔۔ اس کے بعد کوئی امام خلیفہ نہ بن سکا۔
پھر قرآن کریم میں اللہ کا وعدہ کیسے پورا ہوا؟