شیعہ مناظر کے گمراہ کن الزامات، لمبی تحاریر رکھ کر شرط 1 کی خلاف ورزی کردی!(قسط 12)
جعفر صادقشیعہ مناظر کے گمراہ کن الزامات، لمبی تحاریر رکھ کر شرط 1 کی خلاف ورزی کردی!(قسط 12)
شیعہ مناظر سلام علیکم ۔ ظاہر آپ نے جو طریقہ کار اپنایا ہے اور بحث کے سارے مراحل کو ایک ساتھ چھیڑنے کی کوشش کی ہے لہٰذا مناسب یہی لگتا ہے کہ میں ایک ساتھ ساری بحثوں کا جواب دوں ۔ لہٰذا آپ جس وقت میرے مطالب کا جواب دینا چاہیں، دے سکتے ہیں ۔ آپ کو میرے مطالب میں غور کرنے اور ان کے جواب لکھنے میں آسانی بھی ہوگی اور جیساکہ رات کی گفتگو سے صاف ظاہر تھا کہ آپ میرے مطالب کے ایک حصے کو لے کر اسی کا جواب دیتے رہے مطالب کے باقی حصوں کی طرف آپ نے اشارہ تک نہیں کیا ۔
میں نے مکمل جواب تیار کیا ہے یہ سب پہلے اور دوسرے مرحلے سے متعلق ہے تیسرے مرحلے سے متعلق نہیں ہے ۔ صبر اور حوصلے سے مطالعہ کرنے اور پھر علمی جواب دینے کی توقع رکھتا ہوں۔
(سنی مناظر نے امام زہری پر کوئی اعتراض ہی نہیں کیا تھا!! بس جو پرسنل میں آیا، شیعہ مناظر دلشاد نے مناظرے میں کاپی پیسٹ کردیا)
امام زہری کے بارے میں آپ کے اعتراضات کا جواب دیکھیں ۔
پہلا حصہ امام زہری کا اھل سنت کے ہاں مقام
امام محمد بن مسلم المعروف ابن شہاب زہریؒ حدیث کے ثقہ امام تھے اور شام و حجاز کے کبار محدثین میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ امام ابن سعد فرماتے ہیں محدثین کا کہنا ہے کہ امام زہری ثقہ محدث تھے حدیث، علم اور روایت کثرت سے کرنے والے تھے۔ فقیہ اور جامع تھے۔ {تہذیب التہذیب}
بے شمار ائمہ محدثین نے ان کی توثیق کی ہے حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
" الفقيه الحافظ متفق على جلالته وحفظه واتقانه "
وہ فقیہ و حافظ تھے ان کی جلالت و اتفقان پر اتقان اور حفظ ہے۔ تقریب
اب یہاں دیکھیں آپ جیسے لوگ اس کو گمان کرنے والا سمجھتے ہیں جبکہ آپ کے مایہ ناز علماء اس کے اتقان، دقت نظری ، قوی حافظہ اور ان کی جلالت پر سب اتفاق نظر رکھتے ہیں ۔عجیب بات یہ ہے جس کے اتقان پر سب کا اتفاق ہو آپ اسے ایک غیر ذمہ دار آدمی کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔آپ اپنے معتبر علماء کے مقابلے میں کھڑے ہیں اور شیعوں کا بہانہ بنا کر اپنے علماء کی باتوں کو غیر معتبر کہنے کی کوشش میں ہے اور یہ اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارنا ہے ۔
²ـ یہ بھی عرض چکا ہوں اتنے مرتبہ والے راوی کو گمان کرنے والا کہہ کر آرام سے نکل جانا آسان نہیں یہ صحاح ستہ کے معتبر راوی اور خاص کر امام بخاری کے نزدیک اتنا معتبر راوی ہے کہ ہزار کے قریب احادیث اس سے نقل کی ہیں ۔ اب یہ اتنا غیر ذمہ دار آدمی ہو تو اس کی روایتوں کا اعتبار بھی خطرے میں پڑ جائے گا کیونکہ یہاں واضح سی بات ہے کہ امام زہری یا جھوٹی نسبت دے رہا ہے یا سچی نسبت۔ اگر نسبت جھوٹی ہو تو اس کے ثقہ ہونا ثابت نہیں ہوگا جبکہ اہلِ سنت اس کے بارے میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اگر اس کی یہ نسبت سچی ہو تو بات ختم ۔مرضی آپ کی جس شق کو اختیار کرنا ہے کر لینا۔
³ـ یہ بھی عرض کر چکا ہوں کہ جس چیز کو آپ اب زہری کا گمان کہہ رہے ہیں، اس کو آپ کے ہی بڑے بڑے علماء نے قبول کیا ہے اور جناب فاطمہ سلام اللہ کی ناراضگی اور رنجش کا اعتراف کیا ہے ۔چند نمونے ۔
الف یہ ابن حجر عسقلانی کا نظریہ دیکھنا کہ جو صحیح بخاری کے سب سے بڑے شارح ہیں ۔
فتح الباري- تعليق ابن باز (7/ 494):
لأنها لما غضبت من رد أبي بكر عليها فيما سألته من الميراث رأى علي أن يوافقها في الانقطاع عنه. قوله: "فلما توفيت استنكر علي وجوه الناس، فالتمس مصالحة أبي بكر ومبايعته، ولم يكن يبايع تلك الأشهر" أي في حياة فاطمة.
ب بدر الدين العينى نے عمدة القاري شرح صحيح البخاري (17/ 258):
(فَأبى أَبُو بكر) ، أَي: امْتنع. قَوْله: (فَوجدت) ، أَي: غضِبت، من الموجدة. وَهُوَ الْغَضَب۔
ج ابن بطال نے شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے:
أجاز أكثر العلماء الدفن بالليل... ودفن علىُّ بن أبى طالب زوجته فاطمة ليلاً، فَرَّ بِهَا من أبى بكر أن يصلى عليها، كان بينهما شىء.
اکثر علماء نے جنازہ کو رات میں دفن کرنے کو جائز قرار دیا ہے اور علی بن ابی طالب نے اپنے زوجہ فاطمہ کا جنازہ رات کو دفن کیا تاکہ ابوبکر ان پر نماز نہ پڑھ سکے چونکہ ان دونوں ( فاطمہ اور ابوبکر) کے درمیان کوئی اختلاف تھا۔
إبن بطال البكري القرطبي (متوفاي449هـ)، شرح صحيح البخاري، جلد 3، صحفہ 325
د : المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم (5/ 261):
له : (( فأبى أبو بكر أن يدفع إلى فاطمة شيئًا ، فوجدت فاطمة على أبي بكر في ذلك ، فهجرته ، فلم تكلمه )) ؛ لا يظن بفاطمة رضي الله عنها أنها اتهمت أبا بكر فيما ذكره عن رسول الله ـ صلى الله عليه وسلم ـ ، لكنها عظم عليها ترك العمل بالقاعدة الكلية ، المقررة بالميراث ، المنصوصة في القرآن ، وجوّزت السهو والغلط على أبي بكر ۔
مندرجہ بالا کچھ نمونے ہیں جنہوں نے اس غضب ، خفاء اور رنجش کو واضح طور پر قول کیا ہے اور آپ کی طرح راوی کا گمان کہہ کر اس کو نہیں ٹھکرایا ہے لہٰذا آپ کو معلوم ہونا چاہئے جناب فاطمہ سلام علیہا کی ناراضگی کے معاملے میں یہ صرف امام زہری کا نظریہ نہیں ہے بلکہ آپ کے بڑے بڑے علماء کا نظریہ ہے اگر میں اس سلسلے میں آپ کو مزید حوالے دوں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ بعض بدگمانی کرنے والے لوگوں کے ساتھ اکیلےکھڑے ہیں اور اپنے ہی بزرگ علماء سے اظہار برائت کرنے میں مصروف ہیں ۔
لہٰذا جو سوالات آپ نے شیعوں کے بارے میں اس بہانے اٹھائے ہیں وہ سب آپ کے بزرگ علماء سے کریں اور جو اعتراض آپ اس بہانے شیعوں پر کرتے ہیں وہ سب آپ کے علماء پر بھی ۔
دوسرا حصہ یہ کہنا کہ امام زہری کے علاوہ کسی اور راوی نے اس کو نقل نہیں کیا ہے لہذا یہ ان کا اپنا گمان ہے
پہلا جواب جناب دو سروں کا ذکر نہ کرنا مصلحت اندیشی کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہے ۔ اگر کسی نے ذکر نہ کیا ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ذکر کرنے والے کو مجرم ٹہرائے۔یہ تو کوئی قانون نہیں ۔ جناب حقیقت چھپانے والا مجرم ہوتا ہے حقیقت کو بیان کرنے والا مجرم نہیں ہوتا ۔اب آپ دیکھیں ایک نمونہ جس روایت میں امیر المؤمنین کا خلفاء کے بارے نظریہ بیان ہوا ہے اور جناب خلیفہ دوم کے بقول حضرت علی ع اس معاملے میں خلیفہ اول اور دوم کو کاذب ، غادر سمجھتے تھے ۔{ اور آپ اس کے جواب دینے سے بار بار } دوسروں نے اس کو نقل کیا ہے لیکن امام بخاری نے کذا و کذا کہہ کر ان الفاظ کو ذکر نہیں کیا ہے اب کیا اسی بہانے دوسروں کو گمان کرنے والے اور گمان نقل کرنے والے کہا جاسکتا ہے ؟ کیا معلوم دوسرے راویوں نے بھی امام بخاری کی طرح حقیقت کو چھپانے کے لئے اس حصے کو نقل ہیں کیا ہو اور نقل نہ کرنے لئے بہانہ بھی بہت ہے ۔ اب امام زہری حقیقت پسندی سے لے کر حقیقت کو بیان کرے تو یہ مجرم ؟
دوسرا جواب جیساکہ بیان ہوا آپ کے ہی بڑے بڑے علماء نے اس پر اعتماد کر کے اس روایت کے مضمون کو بھی قبول کیا ہے ۔
تیسرا جواب صحاح میں کتنی ایسی روایتیں ہیں جس کے بعض حصے کو بعض نے نقل کیا ہے بعض نے نقل نہیں کیا ہے تو کیا اس وجہ سے ذکر کرنے والے کو گمان کرنے والا کہا جائے گا؟خود اسی روایت کے نقلوں کا ایک نمونہ :
المعجم الكبير (22/ 398):
994 - حدثنا الحسن بن علي المعمري ثنا محمد بن حميد الرازي ثنا سلمة بن الفضل عن محمد بن إسحاق عن يحيى بن عباد بن عبد الله بن الزبير عن أبي قال : قالت عائشة أن فاطمة عاشت بعد رسول الله صلى الله عليه و سلم ستة أشهر۔
اب یہاں دیکھیں ۔امام طبرانی ۔اس حدیث کے اسی حصے کو جناب عائشہ کی حدیث کہہ کر نقل کر رہا ہے جس کو آپ لوگوں کے بقول امام زہری کے اندراج کا حصہ ہے ۔حدیث کے باقی حصے کو نقل نہیں کر رہا ۔
سنن البيهقى (2/ 93):
7146- وَالصَّحِيحُ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ الزُّهْرِىِّ عَنْ عُرْوَةُ عَنْ عَائِشَةَ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهَا فِى قِصَّةِ الْمِيرَاثِ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- عَاشَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- سِتَّةَ أَشْهُرٍ فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا عَلِىُّ بْنُ أَبِى طَالِبٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُمَا لَيْلاً وَلَمْ يُؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَكْرٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ وَصَلَّى عَلَيْهَا عَلِىٌّ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ. أَخْبَرْنَاهُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ الْفَقِيهُ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا ابْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنِى اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ فَذَكَرَهُ. رَوَاهُ الْبُخَارِىُّ فِى الصَّحِيحِ عَنِ ابْنِ بُكَيْرٍ
یہاں دقت کریں ۔ امام بیہقیؒ روایت کے اس حصے کو صحیح روایت کہہ کر نقل کر رہا ہے جس میں جناب فاطمہ ع کے جنازے میں جناب ابوبکرؓ کو شرکت کی اجازت اور اطلاع نہیں دی گئی جبکہ آپ لوگوں کا خیال یہ ہے یہ سب رای کا گمان ہے ۔
چوتھا جواب اگر اس سلسلے میں دوسرے شواہد کو سامنے رکھیں تو صاف ظاہر ہے کہ زہری نے جو نقل کیا ہے وہ حقیقت پر مبنی ہے ۔مثلاً نماز جنازے میں شرکت سے منع اور جناب خلیفہ کا آخری عمر میں جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے ساتھ اپنے رویے پر اظہار پشیمانی ۔اس سلسلے میں کچھ باتیں "رضایت حاصل ہونے یا نہ ہونے" والے جواب میں پیش کروں گا ۔
ایک نمونہ یہاں ۔الف عبد الرزاق صاحب كتاب «المصنف» نے ایک اور معتبر روایت نقل کی ہے جس کے مطابق اميرالمؤمنین علیہ السلام نے حضرت زہرا (سلام الله عليها) کو راتوں رات دفن کیا تاکہ ابو بكر آپ پر نماز نہ پڑھنے پائے ۔
6554 عبد الرزاق عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، وَعَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، أَنَّ حَسَنَ بْنَ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم دُفِنَتْ بِاللَّيْلِ، قَالَ: فَرَّ بِهَا عَلِيٌّ مِنْ أَبِي بَكْرٍ، أَنْ يُصَلِّيَ عَلَيْهَا، كَانَ بَيْنَهُمَا شَيْءٌ.
حسن بن محمد نے نقل کیا ہے كه فاطمہ بنت رسولﷺ کو راتوں رات دفن کیا : علي [علیہ السلام] نے اس کام کو انجام دیا تاکہ ابوبکر حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کا جنازہ نہ پڑھنے پائے ، کیونکہ ابو بكر اور فاطمہ کے درمیان کچھ ہوا تھا۔
الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، جلد 3، صحفہ521،…
تحقیق :
حبيب الرحمن الأعظمي، دار النشر: المكتب الإسلامي – بيروت، الطبعة : الثانية 1403
ب : امام ابن قتیبہ دینوری نے تاویل مختلف الحدیث میں لکھا ہے:
وقد طالبت فاطمة رضي الله عنها أبا بكر رضي الله عنه بميراث أبيها رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما لم يعطها إياه حلفت لا تكلمه أبدا وأوصت أن تدفن ليلا لئلا يحضرها فدفنت ليلا.
فاطمہ(س) نے ابوبکر سے اپنے باپ کی میراث کا مطالبہ کیا ابوبکر نے قبول نہیں کیا تو فاطمہ(س) نے قسم کھائی کہ ابوبکر کے ساتھ بات نہیں کریں گی اور وصیت کی کہ انہیں رات کو دفن کیا جائے اور وہ (ابوبکر) ان کے جنازہ میں شریک نہ ہو۔
الدينوري، أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة (متوفاي276هـ)، تأويل مختلف الحديث، ج 1، ص 300، تحقيق: محمد زهري النجار، ناشر: دار الجيل، بيروت، 1393هـ، 1972م.
فی الحال یہی دو نمونے ۔
تیسرا حصہ جہاں تک اندراج کی بات ہے ۔
پہلا جواب جیساکہ بیان ہوا یہ مدعا آپ کے ہی بڑے بڑے معتبر علماء کے نظریے کے خلاف ہے ۔ حتیٰ خود امام بخاریؒ کہ جو آپ کے علماء کے نزدیک دقت نظری میں سب سے ماہر ہے ۔کیا اتنی مہارت کے باوجود امام بخاریؒ اس نکتے کی طرف متوجہ نہیں ہوا ۔؟ کیا امام بخاری کو اس مسئلے کی اہمیت کا علم نہیں تھا ؟ اپنی کسی کتاب میں اس کا ذکر نہیں کیا ؟ کیا خیال ہے امام بخاریؒ نے جو روایتیں نقل کی ہے ان پر امام کا ایمان نہیں تھا ؟
دوسرا جواب اندراج کہنے والوں نے بھی کوئی واضح دلیل نہیں دی ہے جو کچھ کہا ہے وہ ان کے اپنے گمان ہے لیکن اپنے گمان کی توجیہ کے لئے اس کو راوی کا گمان کہا ہے ۔ لہٰذا گمان کہہ کر کسی کی بات کا گمان ہونا ثابت نہیں ہوگا اور جیساکہ میں نے بار بار اس اندراج کی وضاحت اور اس کی اسناد پیش کرنے کے لئے کہا لیکن آپ نے گمان کہنے پر ہی اکتفاء کیا ۔اس کی اسناد اور اسناد کی وضاحت پیش نہیں کی۔
اب میں ایک نمونہ پیش کرتا ہوں ۔امام بدر الدین عینی کہتا ہے :
وَقَالَ الْبَيْهَقِيّ. قَوْله: (وَعَاشَتْ) إِلَى آخِره، مدرج، وَذَلِكَ أَنه وَقع عِنْد مُسلم من طَرِيق أُخْرَى عَن الزُّهْرِيّ،۔
عمدة القاري شرح صحيح البخاري (17/ 258):
اب یہاں دیکھیں امام بہیقی کا یہ کہنا ہے کہ یہ اندراج عاشت کے بعد ہے ۔
لہٰذا ان کی اس بات کو تسلیم کیا جائے تو بات بلکل واضح ہے کہ اس سے پہلے غضب یا وجدت کا جملہ ان کا اندراج نہیں ہے ۔
لہٰذا امام بیہقی کے نزدیک بھی غضباک اور رنجش والی بات اصل حدیث کا حصہ ہے ۔ {آپ کی مرضی اس کو امام بیہقی کا گمان کہیں}
تیسرا جواب جیساکہ بیان ہوا اندراج کہنے والے ایک تو اپنے بہت سے بڑے بڑے علماء کو گمان پر ایمان رکھنے والے کہہ رہے ہیں ۔مثلا ۔بخاری کی اسی حدیث کو دیکھیں۔
3093 - فَقَالَ لَهَا أَبُو بَكْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ « لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ » . فَغَضِبَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فَهَجَرَتْ أَبَا بَكْرٍ ، فَلَمْ تَزَلْ مُهَاجِرَتَهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ وَعَاشَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - سِتَّةَ أَشْهُرٍ . قَالَتْ وَكَانَتْ فَاطِمَةُ تَسْأَلُ أَبَا بَكْرٍ نَصِيبَهَا مِمَّا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - مِنْ خَيْبَرَ وَفَدَكٍ وَصَدَقَتِهِ بِالْمَدِينَةِ ، فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ عَلَيْهَا ذَلِكَ ، وَقَالَ لَسْتُ تَارِكًا شَيْئًا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَعْمَلُ بِهِ إِلاَّ عَمِلْتُ بِهِ ، فَإِنِّى أَخْشَى إِنْ تَرَكْتُ شَيْئًا مِنْ أَمْرِهِ أَنْ أَزِيغَ . فَأَمَّا صَدَقَتُهُ بِالْمَدِينَةِ فَدَفَعَهَا عُمَرُ إِلَى عَلِىٍّ وَعَبَّاسٍ ، فَأَمَّا خَيْبَرُ وَفَدَكٌ فَأَمْسَكَهَا عُمَرُ وَقَالَ هُمَا صَدَقَةُ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - كَانَتَا لِحُقُوقِهِ الَّتِى تَعْرُوهُ وَنَوَائِبِهِ ، وَأَمْرُهُمَا إِلَى مَنْ وَلِىَ الأَمْرَ . قَالَ فَهُمَا عَلَى ذَلِكَ إِلَى الْيَوْمِ . أطرافه 3712 ، 4036 ، 4241 ، 6726 - تحفة 10678
صحيح البخارى 57 - فرض الخمس ۔ باب ۱ باب فرض الخمس 3093
اب دقت کریں :
الف اگر اندراج کو اگر غضبت سے جانا جائے تو حدیث ناقص رہ جاتی ہے۔
فَقَالَ لَهَا أَبُو بَكْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ « لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ » قَالَتْ وَكَانَتْ فَاطِمَةُ تَسْأَلُ أَبَا بَكْرٍ نَصِيبَهَا مِمَّا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ۔
اب ایک تو یہاں پر اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد معاملہ کیا ہوا ذکر نہیں ہے ۔بات نامکمل ۔
ب : فَهَجَرَتْ أَبَا بَكْرٍ ، فَلَمْ تَزَلْ مُهَاجِرَتَهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ وَعَاشَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم
ج فَهَجَرَتْ أَبَا بَكْرٍ۔
عربی ادییات کے کسی طالب العم سے پوچھے کہ ھجرت کا " ف " جملے کے تسلسل کو بتانے کے لئے ہے یا تسلسل کو کاٹنے کے لئے ؟
د : فَهَجَرَتْ أَبَا بَكْرٍ وَعَاشَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم
یہاں بھی دقت کریں
{ وَعَاشَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ}
یہ حصہ اگر ان لوگوں کے بقول اندراج کا حصہ ہے جبکہ ایک تو یہ اسی حدیث کا مربوط جملہ ہے اور سیاق کے اعتبار سے بلکل فٹ آتا ہے اور جیساکہ پہلے نقل ہوا کہ امام طبرانی اور امام بہیقی وغیرہ نے اس کو یوں نقل کیا ہے: قالت عائشة أن فاطمة عاشت بعد رسول الله صلى الله عليه و سلم ستة أشهر۔ یعنی جناب عائشہ کے کلام کا تسلسل ہے یہ راوی کا۔
ھ اس حدیث کے اس حصے
{ قَالَتْ وَكَانَتْ فَاطِمَةُ تَسْأَلُ أَبَا بَكْرٍ نَصِيبَهَا مِمَّا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ}
میں دقت کریں تو یہ خود شاہد ہے کہ معاملہ ختم نہیں ہوا بلکہ
{ وَكَانَتْ فَاطِمَةُ تَسْأَلُ}
یعنی مطالبہ جاری رہا ختم نہیں ہوا، یہ آپ کسی عربی ادبیات سے معمولی آشنائی رکھنے والے سے بھی پوچھیں تو وہ آپ کو سمجھائے گا کہ جب "کان " کانت " فعل مضارع کے ساتھ آئے تو یہ ماضی استمراری کا معنی دیتا ہے ۔ یعنی مطالبہ ختم نہیں ہوا بلکہ جاری رہا ۔
اور جیساکہ آپ کو امیر المومنین کے موقف کے سلسلے میں کئی اسناد پیش کر چکا ہوں کہ یہ آپ نے خلیفہ دوم کے دور تک جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے مطالبے کو جاری رکھا ۔ اب آپ کے بقول معاملہ اسی {نحن معاشر الانبیاء] سے ہی ختم ہوا تھا تو کیوں مطالبہ جاری رہا ۔؟؟ لہٰذا اندراج کی نفی پر اور اندراج کہنے والوں کے گمان کے بطلان پر شواہد اسی حدیث اور اس سے باہر بہت زیادہ ہیں ۔
ر اندراج کے بارے میں ایک قابلِ غور نکتہ
جہاں کہیں بھی روایت میں " قال "آیا ۔ اس کے بعد " غضبت " کے الفاظ صرف " معمر " کے طرق میں ہیں ۔
باقی ہر طرق میں "قال "سے پہلے غضبت کے الفاظ ہیں ۔ حتیٰ کہ مسلم میں بھی قال سے پہلے فوجدت فاطمة علی ابی بکر کے الفاظ ہیں ۔
اور مسند ابوبکر للمروزی میں یہی معمر کا طرق موجود ہے ۔ جسمیں " قالت " کے الفاظ ہیں ۔ لہٰذا معمر کے طرق میں اختلاف کے باعث اس طرق کو دوسروں طرق کی طرف رجوع کے لیے لے جانا ہو گا ۔ جس میں قال سے قبل ہی غضبت کے الفاظ ہیں ۔ لہٰذا غضبت بی بی عائشہ کا کلام ہے ۔ زہری کا نہیں ۔اس سلسلے میں یہ بھی قابل توجہ ہے ۔ یہ قال ممکن ہے کسی اور راوی نے اضافہ کیا ہو یا نسخہ لکھنے والے کسی نے اضافہ کیا ہو ۔ جیساکہ بخاری کے نقل میں وہ قال موجود نہیں ۔
چوتھا حصہ آپ یہ کہہ کر جان نہیں چھڑا سکتا کہ یہ غضباک والی بات امام زہری کا گمان ہے اور ہم گمان کو تسلیم نہیں کرتے ۔
پہلا جواب جناب ۔ مندرجہ بالا مطالب کی روشی میں یہ واضح ہوا کہ یہ ان کی رائے ہے اور آپ کا گمان اور ان کی رائے میں بہت سے اہلِ سنت کے بزرگ علماء ان کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ کچھ نمونے پیش کر چکا ہوں کچھ نمونے " غضبناک ہونے یا نہ ہونے " کی دوسری بحث میں پیش کروں گا ۔اب ہم یہ بھی کہہ دیں تو بھی کافی ہے ۔جناب فاطمہ کی طرف سے حقوق کا مطالبہ کرنا اور اس مطالبہ کو رد کرنے کی وجہ سے آپ کا رنجیدہ ہونا ،غضبناک ہوکر مکمل بائیکاٹ کی حالت میں دنیا سے جانے کے شیعہ مؤقف میں اہلِ سنت کی معتبر روایت کے راوی سارے علماء کے نزدیک ثقہ اور بڑے فقیہ ،حافظ ،دقت نظرے رکھنے والے امام زہری اور ان کی بات کی تائید کرنے والے اہل سنت کے بڑے بڑے علماء بھی شیعوں کے ساتھ شریک ہیں ۔ لہٰذا جو کچھ اسی بہانے شیعوں کے خلاف تبلیغ کرتے ہیں اور شیعوں پر اعتراض کرتے ہیں ،ان سب کا رخ آپ کے امام زہری اور دوسرے بزرگ علماء کے خلاف بھی ہے ۔فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ ادراج کہنے والے گمان کرنے والے بعض لوگوں کے ساتھ ہم عقیدہ ہونا ہے یا آپ کے بڑے بڑے علماء کے ساتھ ہم آپ کو مجبور نہیں کرسکتے لیکن آپ کو بھی اپنے آپ کو ایک اپنے گمان کی وجہ سے اہل سنت کے ترجمان ہونے اور اپنے نظریے کو سارے اہلِ سنت کا نطریہ کہنے کا حق نہیں ۔
شرط 1 کی واضح خلاف ورزی
مناظروں میں لمبی تحاریر اور ایک ساتھ کئی روایات رکھنا ممنوع ہوتا ہے۔ شرط نمبر 1 کے مطابق دونوں مناظرین نے قبول کیا تھا کہ دوران مناظرہ مختصر جوابات اور ٹو دی پواینٹ گفتگو کی جائے گی۔اس کے باوجود سنی مناظر نے شیعہ مناظر کو کہا کہ آپ ایک ایک اہل سنت عالم کی عبارت بمعہ اصل اسکینز کے ساتھ الگ الگ پیش کریں،ہم ان پر بات کرتے ہیں تاکہ حقیقت واضح ہو کہ انہوں نے شیعہ اعتراض کا رد کیا ہے یا شیعہ کی تائید کی ہے، کیونکہ اس طرح حقیقت کھل جانی تھی اس لئے شیعہ مناظر راضی نہ ہوا اور اس طرح واضح ہوگیا کہ شیعہ دلشاد اہلسنت علماء کے حوالے سے بھی جھوتی باتیں کہہ رہا ہے۔
دوسرا جواب : آپ اس کو جھوٹی نسبت تو نہیں کہہ سکتے کیونکہ جناب امام زہری خلفاء کے عقیدت مند تھے ۔ لہٰذا ان کو خراب کرنا ہے تو آپ کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ امام زہری شیعہ تھے اور خلفاء کے دشمن۔ اگر ایسا کریں گے تو آپ کی مشکلات میں اور اضافہ ہوگا۔ لہٰذا آپ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ یہ واقعے کا عینی شاہد نہیں ہے لہٰذا یہ مرسل بات ہے۔ اب آپ کے علماء نے تابعین تو چھوڑے تابعین کے تابعین کے مرسل کو بھی حجت مانا ہے ۔ لہٰذا آپ بے شک اپنے علماء کے قابل قبول اس قانون کو ٹھکرائے اور اپنے لئے حجت نہ ماننے لیکن یہ بھی نہ کہے میرا نظریہ سارے اہل سنت کا نظریہ ہے سب کو میری تقلید کرنی چاہئے ۔{انتہائی معذرت}
پہلی بات مرسل روایت ضعیف روایت کی قسم ہے، کچھ شرائط کے بعد ہی قبول کی جاتی ہے۔ اس پر کئی دلائل دیئے جاسکتے ہیں۔ دوسری بات امام زہری کی یہ روایت مرسل نہیں ہے ، اس روایت میں امام زہری نے جو اپنی طرف سے اضافہ کیا ہے وہ درست نہیں ہے۔ شیعہ مناظر کو یہ علمی نکتہ بھی سمجھ نہیں آسکا۔ تیسری بات امام زہری کے اس گمان کے خلاف کئی دوسری روایات سنی و شیعہ معتبر کتب میں بھی موجود ہیں، اس لئے شیعہ مؤقف مکڑی کے جالے کی طرح کمزور ہے۔
پانچواں حصہ غضبناک ہونا قابل انکار نہیں
پہلا حصہ آپ نے ایک فارمولہ بنایا ، غضب ناک ہونے کے لئے ۔ اسی کے الفاظ اس کا چہرہ ۔
پہلا جواب جیساکہ عرض ہوا کہ عمل سے بھی ناراض ہونے اور رنجیدہ ہونے کا اظہار کرسکتا ہے ۔
سنی مناظر نے پوچھا کہ سیدہ فاطمہ سے عملاً ناراضگی ثابت کریں۔ شیعہ مناظر کا جواب فی الحال اس کی ضرورت نہیں
الف اگر جس طرح آپ نے صحیحین سے ہٹ کر دوسری کتابوں کا حوالہ دیا اگر میں بھی ایسا کروں تو آپ کو سیدہ کے الفاظ بھی دکھا سکتا ہوں لیکن فی الحال اس کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اس حدیث اور دوسری حادیث سے صاف ظاہر ہے کہ آپ نے عملاً اس چیز کا اظہار کیا۔
جیساکہ بیان ہوا یہاں کوئی اندراج نہیں ہے بلکہ یہ جناب عائشہ کی نقل کردہ حدیث ہے لہٰذا ممکن ہے نامحرم کے لئے انہوں نے اپنا چہرہ چھایا لیکن امی عائشہ تو دیکھ سکتی ہے اور وہی اس کی راوی ہے ۔
دوسرا جواب جیساکہ اس سلسلے کے دوسرے شواہد اور آپ کے علماء کے بیایات سے یہ بات واضح ہے کہ آپ ناراض ہوئیں اور اسی حالت میں دنیا سے چلی گئیں اور خلیفہ کو نماز میں شرکت کی اجازت نہیں دی ۔ اس پر اگر آپ مجھ سے شاہد کا مطالبہ کریں تو میں گزشتہ شواہد کے علاوہ اور بھی آپ کے علماء کی تصریحات پیش کرسکتا ہوں ۔
سیدہ عائشہ صدیقہ نے یہ تینوں گمان بیان نہیں کئے۔ کیونکہ کسی روایت میں قالت کے بعد ناراضگی بیان نہیں ہوئی۔ کسی دوسرے طرق سے ناراضگی ثابت نہیں ہے۔ مزید یہ کہ سیدہ فاطمہ کی شیخین سے آخری ایام میں ملاقات ہونا سیدہ عائشہؓ سے مخفی نہیں ہوسکتا اور جنازے کی خبر سے شیخین کی لاعلم رہنے والی بات بھی سیدہ عائشہؓ سے ممکن نہیں ہے کیونکہ تمام واقعات کے وقت وہ موقعہ پر موجود تھیں۔ سنی و شیعہ کتب سے یہ حقائق بھی ثابت ہیں۔
تیسرا جواب جیساکہ بیان ہوا کہ یہ اس راوی کا گمان نہیں ہے بلکہ آپ کے بہت سے علماء کا نظریہ بھی ہے اس سلسلے میں آپ کے علماء کے دو گروہ ہیں ۔
الف اصل غضباک ہونے کو قبول کرنے والے علماء : ان لوگوں نے اس غضبناک ہونے کی توجیہ اور تاویل کرنے کے ذریعے اس کو ایک عام سا سادہ مسئلہ بنا کر پیش کیا ہے۔ اب اس میں سے سے بعض علماء کے اقوال میں نے گزشتہ بحث میں پیش کی ہیں ۔اس کے اور بھی بہت سے نمونے میرے پاس موجود ہیں ۔
غور فرمائیں! شیعہ دلشاد خود بھی اقرار کر رہا ہے کہ جن اہل سنت علماء نے غضبناک ہونا بیان کیا ہے وہ اس کے قائل ہی نہیں ہیں بلکہ اس کی توجیہ اور تاویل کی ہے۔ اس سے شیعہ کا مؤقف انہی کے جواب سے ہی باطل ہوا کہ اہلِ سنت علماء نے ناراضگی کو تسلیم کیا ہے! یعنی سنی مناظر درست کہتے رہے کہ اہلِ سنت علماء نے ناراضگی اور شیعہ اعتراض کا رد ہر جگہ بیان کیا ہے اور شیعہ مکر و فریب سے بیچ کے اقوال دکھا کر عوام کو گمراہ کرتے ہیں!
ب : وہ علماء جنہوں نے اس غضباک ہونے کو بہانہ بنا کر جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شان میں توہین کی ہے ۔ان میں سر فہرست ۔
الف ابن تیمیہ : وہ آپ کی طرح اندراج بندراج کا ذکر نہیں کرتا بلکہ شیعوں کو جواب دینے کے بہانے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی شان میں گستاخی کرتا ہے یہاں تک کہ ان کے اس کام کو دنیا پرستی اور نعوذ باللہ منافقانہ کام کہتا ہے ۔ آپ اس لنک پر مراجعہ کرکے اس کے اسناد دیکھ سکتے ہو ۔
اصل نکتہ اور موضوع پر گفتگو کرنے سے فرار اور اہلسنت علماءکے اقوال کا ذکر کر کے گفتگو کو الجھانے کی کوششیں!
ب : ابن کثیر دمشقی ۔
و ھی امراۃ من بنات آدم تاسف کما یسافون ۔البدایۃ و النھایۃ جلد 5 صحفہ 289۔
اگر فاطمہ زہرا ناراض ہوگئیں تو کیا ہوا وہ ایک عورت ہی تو ہے اولاد آدم سے اس کی ناراضگی عام اولاد آدم کی طرح ہے ۔
شیعہ کتاب اصول کافی میں موجود ایک صحیح روایت میں امام معصوم کے قول سے براہ راست حضرت آدم علیہ السلام کا نام لکھ کر کفر کا اصول منسوب کیا گیا ہے! دوسری طرف شیعہ اہل سنت علماء کے اقوالات سے چند الفاظ دکھا کر عوام کو گمراہ کرتے ہیں کہ دیکھیں سنی علماء نے اہلِ بیت کی توہین کی ہے! الحمدلللہ اہلِ سنت عقائد و نظریات قرآن و احادیث نبویﷺ کے مطابق ہیں۔
ابن عثیمین ۔ابن تیمیہ کی پیروی میں اس کے ہم فکر ابن عثیمین مشہور سلفی مولوی کہتا ہے کہ نعوذ باللہ جناب زہرا اس معاملے کے وقت اپنی عقل کھو چکی تھیں۔
نسأل الله أن يعفو عنها. وإلا فأبوبكر ما استند إلي رأي، وإنما استند إلي نص، وكان عليها رضي الله عنها أن تقبل قول النبي صلي الله عليه وسلم «لا نورث ما تركنا صدقه» ولكن كما قلت لكم قبل قليل: عند المخاصمه لا يبقي للإنسان عقل يدرك به ما يقول أو ما يفعل، او ما هو الصواب فيه؛ فنسأ الله أن يعفو عنها، وعن هجره خليفه رسول الله.
لتعليق علىٰ صحيح مسلم، جلد ٩، صفحه ٧۸، شرح صحيح مسلم، جلد 6، صفحه 74
ایک طرف علمائے اہل سنت کی عبارات سے غلط مطالب اور دوسری طرف اہل تشیع معتبر کتب میں موجود واضح روایات جن میں انبیائے کرام سمیت سیدنا علی، سیدہ فاطمہ سمیت کئی اہل بیت افراد کی شان میں گستاخی ثابت ہوتی ہے!
یہ چند ایک نمونے ہیں۔
شیعہ اور اہلِ سنت کی تاریخ کا مطالعہ کریں اور اہل سنت کے علماء میں سے جن لوگوں نے اصل ناراضگی اور اختلاف کو قبول کرنے کے بعد خلیفہ اول کے موقف کو صحیح ثابت کرنے اور اس معاملے میں جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے موقف کو غلط اور انہیں قصوروار ثابت کرنے کے لئے کتابیں لکھیں اور مناظرِے کیے ہیں اگر اسی فہرست میں ان علماء کو بھی شامل کریں تو ایک لمبی قطار بن جاتی ہے جس ابتدا اورا نتہا کا تعین سخت ہے
شیعہ مناظر دلشاد کے دلائل کا لیول اور مضبوطی دیکھیں۔ گیارہ ھجری کے واقعے پر صحیح روایات رکھنے کے بجائے اہلِ سنت علماء کے اقوالات سے اپنا مؤقف ثابت کر رہا ہے!اہل علم جانتے ہیں کہ علمائے کرام کی ذاتی آراء دوسرے قرائن کے بغیر قبول نہیں کی جاتیں!
ان سب نے اصل غضباک ہونے کو قبول کیا ہے۔ اب ان میں سے بعض نے جناب فاطمہ علیہا السلام کی شان میں کوئی گستاخی نہیں کی ہے بعض نے ان کو خطا کار کہہ کر ان کی شان میں گستاخی کی ہے لیکن غضباک ہونے کو تسلیم کیا ہے ،بر خلاف آپ کے اور اس طرح گمان کرنے والے بعض افراد کے لہذا ممتاز قریشی صاحب حقیقت یہ ہے کہ اس غضباک والے نظریے میں آپ جیسے بعض لوگ ہی تنہا رہ جاتے ہیں ۔اہل سنت کے بڑے بڑے محدثین اور شارحین اور مایہ ناز علماء کہ جن کے دسترخوان پر آپ بیٹھ کر نوالہ چن رہے ہیں وہ سب اس نظریے میں شیعوں کے ساتھ ہم عقیدہ ہے ۔ آپ کو اپنی تنہائی مبارک ہو ۔ اب آپ کو اندازہ ہوچکا ہوگا کہ آپ اہل سنت کے نظریے کے ترجمان نہیں ہیں ۔
شیعہ مناظر کا دجل: جمہور اہل سنت علماء نے شیعہ اعتراض بیان کر کے اس کا رد بیان کیا ہے۔
آپ کا یہ مدعا کہ معاملہ ختم ہوا تو اور آپ خاموش ہوگئی تھیں :
جواب :
ھوشیار ! خبردار!
قارئین! اس وقت تک بس ایک راوی کے گمان اور علمائے اہلِ سنت کے کئی اقوالات کو توڑ مروڑ کر رکھ دینے کے بعد شیعہ مناظر دلشاد یہ ظاہر کرنے کی کوششوں میں ہیں کہ سیدہ فاطمہ کا ناراض ہون ثابت ہوگیا ہے!! شیعہ اسی طرح عوام کو بیوقوف بناتے ہیں!
الف :جناب ایک تو پہلے بیان ہوچکا کہ اس سلسلے میں زہری کی روایت اور اس سلسلے کی دوسری روایتیں اور آپ کے علماء کی تصریحات کو سامنے رکھیں تو جو کچھ میں نے بیان کیا ہے وہ عین حقیقت ہے { ناراض بھی ہوئی بائیکاٹ کی حالت میں خلفاء کو اپنے حق سے محروم کرنے والے سمجھ کر دنیا سے چلی گئیں ۔}
اس سلسلے میں کچھ دوسرے شواہد کی طرف پھر اشارہ کرتا ہوں ۔جیساکہ پہلے آپ سے عرض کیا تھا کہ ہماری گفتگو کا بنیادی محور صحیحین کی روایتیں ہیں اور اگر اس سے باہر نکلیں تو آپ کے کم از کم تیس کے برابر شواہد اپنے مدعا کی صحت پر پیش کرسکتا ہوں ۔اس سلسلے کی ایک اہم بات وہی جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کا مطالبہ جاری رہنا ہے { کانت تسال } اگر آپ کو جناب عائشہ کی یہ خبر پسند نہیں اور اس کو جناب عائشہ کا گمان کہہ کر اس کو رد کرنا چاہیں تو ہم آپ کو نہیں روکتے ۔اسی سلسلے کی دوسری اہم بات،جناب امیر المومنین علیہ السلام نے خلیفہ کی طرف سے مذکورہ حدیث سے استدالال کے باوجود ان کے نظریے کو قبول نہیں کیا اور خلیفہ دوم کے دور میں بھی جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کا وہی مطالبہ جاری رکھا ۔
اس کی اسناد بھی آپ کو پہلے پیش کر چکا ہوں ۔اب اگر معاملہ ختم ہوا تھا تو تقریبا چار سال تک جناب امیر کا اسی مطالبے کو دہرانے کا کیا معنی ہے ؟ آپ اگر جناب خلیفہ اول کے کہنے پر سب کچھ ختم ہوا تھا تو پھر کیوں خلیفہ دوم کے دور میں بھی کیوں یہ معاملہ ختم نہیں ہوا ؟؟ کیوں خلیفہ دوم کے بقول ، مولا علی نے اس معاملے میں خلفاء کو سخت انداز میں جھٹلائے ؟ انہیں کاذب ،غادر ،آثم ظالم ،فاجر ۔سمجھے ؟؟
شیعہ مناظر نے یہ واقعہ اپنی تحریر کے ب میں بیان کیا تھا اور سنی مناظر الف پر گفتگو کر رہے تھے۔ شیعہ دلشاد نکتہ بہ نکتہ گفتگو کرنے کے بجائے اورفریق مخالف کے اشکالات کا علمی رد کرنے کے بجائے خود اپنی تحریر کے ترتیب پر گفتگو کرنے سے عاجز تھے!! اس لئے بار بار ب کی طرف بھاگ رہے تھے!
لہٰذا جناب ممتاز صاحب حقیقت بینی سے کام لیں تو نہ جناب فاطمہ ع کا غضبناک ہونا قابل انکار ہے نہ اس معاملے میں انہیں اپنے حق سے محروم رکھنے والا سمجھنا اور مولا علی کی طرف سے انہیں جھٹلانا اور اب اس بحث کا جو لازمی نتیجہ ہے وہ یہ ہے کہ اہل سنت والے اس معاملے میں شیعہ موقف کو رد نہیں کرتے بلکہ اپنی کتابوں میں موجود جناب فاطمہ زہرا ع اور مولا علی کے موقف کے مقابلے میں کھڑے ہیں اور خلفاء کو حق بجانب سمجھ کر ان دو عظیم ہستیوں کو جھٹلانے کی چکر میں ہے لیکن کیونکہ اصحاب اور اہل بیت کے غلامی کا مدعا اور چرچا زیادہ کرتے ہیں ۔ لہٰذا یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ ہم ان ہستیوں کو خطا کار کہتے اور سمجھتے ہیں ۔لیکن اس حقیقت کو چھپانے کے لئے شیعوں کی طرف منفی تبلیغات کا رخ کرتے ہیں اور شیعوں کو برا بھلا کہہ کر حقیقت میں جناب فاطمہ ع اور مولا علی کے مؤقف کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اب یہ کام آپ کے بعض علماء نے کھل کر کیا اور بعض آپ جیسے لوگوں نے شیعوں کو خراب کرنے کے ذریعے ۔
سوائے ڈرامہ بازی کے شیعہ دلشاد کے پاس کوئی علمی رد نہیں تھا!
یہ سب آج صبح تیار کیا ہے کسی کی تحریر کاپی نہیں کی ۔ ایک ساتھ نظم دیکر جمع کر کے دوستوں کی خدمت میں پیش کیا ہے اور آپ کے لئے ایک خصوصہ تحفہ، کیونکہ اگر pdf بنانا چاہیں تو آپ کی زحمت کو میں نے کم کیا ہے اور میں خود بھی ایسا کرنا چاہوں تو میرے لئے بھی آسانی ہے ۔باقی آپ کے الزامی جواب کے جواب ویسے تو دینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ایک تو بیٹی کو میراث ملنے کا مسئلہ شیعوں کے ہاں قابل انکار نہیں ۔ ہمارے کوئی مرتے ہیں تو اس کے ماترک ان کے بیٹے اور بیٹیوں میں تقسیم ہوتی ہے زمین ہو یا جو بھی۔ لہذا ہمارے کسی بھی فقیہ نے ایسا فتوا نہیں دیا ہے جو آپ نے سمجھا ہے یا آپ کو سمجھایا گیاہے کتاب میراث کا مطالعہ کرنے والا ایک انصاف پسند انسا ن ہرگز شیعوں کی طرف ایسی نسبت نہیں دے سکتا ، ظاہرا آپ کو عربی نہیں آتی اسی لئے آپ نے اس باب کی احادیث کا مطالعہ نہیں فرمایا ۔ اسی طرح اس سے پہلے کے ابواب کی احادیث ۔ اتنا کہنا کافی ہے۔ باقی حدیث نحن معاشر کے لئے ایک تصویر دیکھیں۔
کچھ املائی غلیطیاں رہ گئیں ہیں درگذر فرمانا۔کے ٹو کے دامن میں بسنے والوں سے ایسی غلطیاں ہو جاتی ہیں۔
نوٹ:شیعہ مناظر کے جوابات میں موجود بیشمار املائی غلطیوں کو درست کردیا گیا ہے اور حتی الامکان ان کے جوابات میں ان کے مؤقف کے مطابق ہی ترمیم و اضافہ کیا گیا ہے۔
بہت سی جگہوں پر تحریر میں نہیں کی جگہ ہیں کا لفظ ٹائیپنگ کی غلطی۔سوری
اگلا دن(اگلی پوسٹ دیکھیں)