Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سیدہ فاطمہ ناراض ہوگئیں اور وہاں سے چلی گئیں اور آخر عمر تک خلیفہ سے بات تک نہیں کیں۔  یہاں تک کہ نماز(جنازہ) میں بھی شرکت کی اجازت نہیں دی۔(شیعہ مناظر)(قسط 9)

  جعفر صادق

سیدہ فاطمہ ناراض ہوگئیں اور وہاں سے چلی گئیں اور آخر عمر تک خلیفہ سے بات تک نہیں کیں۔  یہاں تک کہ نماز(جنازہ) میں بھی شرکت کی اجازت نہیں دی۔(شیعہ مناظر)(قسط 9)

 شیعہ مناظر بسمہ تعالی۔ محترم ممتاز صاحب آپ کی اور میری گفتگو پر ایک کلی تبصرہ۔ ہم نے طے یہ کیا تھا  بحث تین مرحلوں میں ہوگی۔میں مدعی اور آپ مدعی علیہ ہوں گے۔ پہلے مرحلے میں میرا مدعا یہ تھا کہ جناب فاطمہ کی طرف سے اپنے حقوق کا مطالبہ کرنا اور خلفاء کی طرف سے رد کرنے کی وجہ سے ان کا ناراض ہونا  اور امیر المؤمنین  کے مؤقف یعنی جناب فاطمہ کو حق بجانب سمجھا اور خلفاء کے استدلال کو جھٹلانا،  یہ ساری باتیں آپ کی ہی صحیحین میں ہے۔آپ نے جناب فاطمہ  سے متعلق یہ کہا یہ باتیں تو صحیحین میں ہیں لیکن وہ راوی کا گمان ہے روایت کا حصہ نہیں ہے لیکن اسی مدعا کے دوسرے حصے کے بارے(امیر المؤمنین کے مؤقف ) کے بارے آپ اب بھی خاموش ہیں۔میں نے اس مرحلے میں اپنے مدعا کی دلیل پیش کی ہے   اور آپ ان باتوں کا صحیحین میں موجود ہونے کو مان چکے ہیں۔آپ نے اس سلسلے میں جو گفتگو کی،

  آپ کی سابقہ گفتگو میں پہلے مرحلہ بحث  سے متعلق یہی ایک ہی جملہ تھا (یہ راوی کا گمان ہے)

باقی باتیں کیونکہ اس مرحلے سے متعلق نہیں  لہٰذا میں نے جواب نہیں دیا ۔اب آپ کا یہ کہنا کہ میں نے پہلے مرحلے میں آپ کے سوالوں کا جواب نہیں دیا یہ صحیح نہیں ہے۔ اگرچہ آپ نے بہت جذباتی باتیں لکھیں لیکن میری نظر میں ان میں سے کوئی بھی میرے سوال اور بحث کے پہلے مرحلے سے متعلق نہیں کیونکہ آپ نے کئی دفعہ اپنی تحریر  کو دوبارہ شیئر کیا ہے میں بھی مدعا کی اسناد کو دوبارہ خاص کر نئے دوستوں کے لیے شیئر کر رہا ہوں اور پھر آپ کی باتوں میں سے جو دوسرے مرحلے سے متعلق ہیں ان کا جواب دوں گا۔ان شاءاللہ

3093 - فَقَالَ لَهَا أَبُو بَكْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ « لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ » . فَغَضِبَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فَهَجَرَتْ أَبَا بَكْرٍ ، فَلَمْ تَزَلْ مُهَاجِرَتَهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ وَعَاشَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - سِتَّةَ أَشْهُرٍ . قَالَتْ وَكَانَتْ فَاطِمَةُ تَسْأَلُ أَبَا بَكْرٍ نَصِيبَهَا مِمَّا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - مِنْ خَيْبَرَ وَفَدَكٍ وَصَدَقَتِهِ بِالْمَدِينَةِ ، فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ عَلَيْهَا ذَلِكَ ، وَقَالَ لَسْتُ تَارِكًا شَيْئًا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَعْمَلُ بِهِ إِلاَّ عَمِلْتُ بِهِ ، فَإِنِّى أَخْشَى إِنْ تَرَكْتُ شَيْئًا مِنْ أَمْرِهِ أَنْ أَزِيغَ . فَأَمَّا صَدَقَتُهُ بِالْمَدِينَةِ فَدَفَعَهَا عُمَرُ إِلَى عَلِىٍّ وَعَبَّاسٍ ، فَأَمَّا خَيْبَرُ وَفَدَكٌ فَأَمْسَكَهَا عُمَرُ وَقَالَ هُمَا صَدَقَةُ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - كَانَتَا لِحُقُوقِهِ الَّتِى تَعْرُوهُ وَنَوَائِبِهِ ، وَأَمْرُهُمَا إِلَى مَنْ وَلِىَ الأَمْرَ . قَالَ فَهُمَا عَلَى ذَلِكَ إِلَى الْيَوْمِ . أطرافه 3712 ، 4036 ، 4241 ، 6726 - تحفة 10678
صحيح البخارى  57 - فرض الخمس ۔ باب ۱ باب فرض الخمس  3093
فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ فِي ذَلِكَ فَهَجَرَتْهُ فَلَمْ تُكَلِّمْهُ۔

سیدہ فاطمہؓ ناراض ہوگئیں اور وہاں سے چلی گئیں اور آخر عمر تک خلیفہ سے بات تک نہیں کیں۔  یہاں تک کہ نماز(جنازہ) میں بھی شرکت کی اجازت نہیں دی۔

 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام بِنْتَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ بِالْمَدِينَةِ وَفَدَكٍ وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَالِ وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أُغَيِّرُ شَيْئًا مِنْ صَدَقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ حَالِهَا الَّتِي كَانَ عَلَيْهَا فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَأَعْمَلَنَّ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ أَنْ يَدْفَعَ إِلَى فَاطِمَةَ مِنْهَا شَيْئًا فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ فِي ذَلِكَ فَهَجَرَتْهُ فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ وَعَاشَتْ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيٌّ لَيْلًا وَلَمْ يُؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَكْرٍ وَصَلَّى عَلَيْهَا وَكَانَ لِعَلِيٍّ مِنْ النَّاسِ وَجْهٌ حَيَاةَ فَاطِمَةَ فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ اسْتَنْكَرَ عَلِيٌّ وُجُوهَ النَّاسِ فَالْتَمَسَ مُصَالَحَةَ أَبِي بَكْرٍ وَمُبَايَعَتَهُ وَلَمْ يَكُنْ يُبَايِعُ تِلْكَ الْأَشْهُرَ فَأَرْسَلَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ أَنْ ائْتِنَا وَلَا يَأْتِنَا أَحَدٌ مَعَكَ كَرَاهِيَةً لِمَحْضَرِ عُمَرَ فَقَالَ عُمَرُ لَا ۔۔۔۔۔
صحيح البخاري (13/ 135):  کتاب المغازی ۔۔ بَاب غَزْوَةِ خَيْبَرَ۔۔۔۔۔۔
صحیح مسلم ۔۔  - كتاب الجهاد والسير  - باب قول النبي ص ( لا نورث ما تركنا فهو صدقة

 جناب امیر المومنین علیہ السلام کا سخت موقف ۔ امیر المومنین علی ابن ابی طالب ع خلیفہ اول اور دوم کی طرف سے حدیث نحن معاشرالانبیاء سے استدلال کرنے اور جناب فاطمہ علیہا السلام کو حق نہ دینے  کے مسئلے میں خلفاء کو  حق بجانب نہیں سمجھتے تھے ۔               

فَرَأَيْتُمَاهُ كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا،
تم دونوں نے ابوبکر کو اور پھر مجھے جھوٹا، گنہگار، دھوکہ باز، خائن  سمجھنا
 قَالَ: فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجِئْتُمَا تَطْلُبُ مِيرَاثَكَ مِنِ ابْنِ أَخِيكَ، وَيَطْلُبُ هَذَا مِيرَاثَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَاهُ صَدَقَةٌ» ، فَرَأَيْتُمَاهُ كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا، وَاللهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ، ثُمَّ تُوُفِّيَ أَبُو بَكْرٍ وَأَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَوَلِيُّ أَبِي بَكْرٍ، فَرَأَيْتُمَانِي كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا، وَاللهُ يَعْلَمُ إِنِّي لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ، فَوَلِيتُهَا ۔
_ صحیح مسلم ۔۔  - كتاب الجهاد والسير  - باب 15 - بَابُ حُكْمِ الْفَيْءِ
السنن الكبرى للبيهقي  کتاب قسم الفئ۔۔  ۔۔۔ ( 5 باب بيان مصرف أربعة أخماس الفيء ۔
مسند أبي عوانة (4/ 244):  کتاب الایمان ۔۔۔18 باب الأخبار الدالة على الإباحة أ
 2 - تَزْعُمَانِ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ كَذَا وَكَذَا ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 5358 - ح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔- فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ أَنَا وَلِىُّ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فَقَبَضَهَا أَبُو بَكْرٍ يَعْمَلُ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - وَأَنْتُمَا حِينَئِذٍ - وَأَقْبَلَ عَلَى عَلِىٍّ وَعَبَّاسٍ - تَزْعُمَانِ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ كَذَا وَكَذَا ، وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّهُ فِيهَا صَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ ، ثُمَّ تَوَفَّى اللَّهُ أَبَا بَكْرٍ فَقُلْتُ أَنَا وَلِىُّ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - وَأَبِى بَكْرٍ ، فَقَبَضْتُهَا سَنَتَيْنِ أَعْمَلُ فِيهَا بِمَا عَمِلَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - وَأَبُو بَكْرٍ ، ثُمَّ جِئْتُمَانِى وَكَلِمَتُكُمَا وَاحِدَةٌ وَأَمْرُكُمَا جَمِيعٌ ، ۔۔۔۔۔۔۔ . أطرافه 2904 ، 3094 ، 4033 ، 4885 ، 5357 ، 6728 ، 7305 تحفة 5135 ،
 صحيح البخارى  : کتاب النفقات ۔3 - باب حَبْسِ نَفَقَةِ الرَّجُلِ قُوتَ سَنَةٍ عَلَى أَهْلِهِ ، وَكَيْفَ نَفَقَاتُ الْعِيَالِ . ( 3 ) 5358  ۔۔كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ ۔۔۔ بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ التَّعَمُّقِ وَالتَّنَازُعِ فِي العِلْمِ، وَالغُلُوِّ فِي الدِّينِ وَالبِدَعِ7305
مسند أحمد (4/ 213):  وَمِنْ مُسْنَدِ بَنِي هَاشِمٍ  ۔۔  حَدِيثُ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔

بخاری  کی روایت میں قابل توجہ نکتہ:  

 امام بخاری نے فَرَأَيْتُمَاهُ كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا،

کی تعبیر کو مناسب نہیں سمجھ کر اس کی جگہ پر کذا کذا لایا ہے۔ ایک تو یہ امام بخاری یا راوی کی خیانت علمی ہے  لیکن پھر بھی بعد  کے جملے سے واضح ہے کہ یہاں بھی وہی مسلم والے الفاظ ہی مراد ہیں کیونکہ کذا کذا کے بعد خلیفہ دوم، خلیفہ اول کی صداقت کی گواہی دیتا ہے  لہٰذا کاذبا  مقابلے میں صداقت کی گواہی دینا اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں بھی وہی الفاظ مراد ہیں۔ مطالبہ جاری رہنا اور رضایت والی کی  بطلان پر دلیل ہے ۔

الف : خود حضرت فاطمہ علیہا السلام بھی مطالبہ کرتی رہیں۔

وَكَانَتْ فَاطِمَةُ تَسْأَلُ أَبَا بَكْرٍ

 آپ ابوبکر سے بار بار مطالبہ کرتی رہیں۔ کانت جب فعل مضارع سے پہلے آئے تو یہ ماضی استمراری پر دلالت کرتا ہے۔

وَكَانَتْ فَاطِمَةُ تَسْأَلُ أَبَا بَكْرٍ نَصِيبَهَا مِمَّا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خَيْبَرَ وَفَدَكٍ وَصَدَقَتِهِ بِالْمَدِينَةِ فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ عَلَيْهَا ذَلِكَ۔
صحیح مسلم ۔ كتاب الجهاد والسير  - باب قول النبي صلى الله عليه و سلم ( لا نورث
قَالَتْ وَكَانَتْ فَاطِمَةُ تَسْأَلُ أَبَا بَكْرٍ۔۔ صحيح البخاري ۔۔ کتاب خمس ۔۔۔ 1 - باب فرض الخمس 2926                   

اب  یہاں دقت کریں  کانت تسال  یعنی وہ مطالبہ کرتی رہیں۔ امیر المؤمنین علیہ السلام نے بھی خلیفہ اول اور دوم کے دور میں یہی مطالبہ جاری رکھا اور جناب فاطمہ علیہا السلام کے موقف کی حمایت کی۔

خلیفہ دوم کہتا ہے: علی میرے  پاس اپنی بیوی کی ان کے باپ سے میراث کا مطالبہ کرنے آئے۔

، جِئْتَنِى تَسْأَلُنِى نَصِيبَكَ مِنِ ابْنِ أَخِيكَ ، وَأَتَى هَذَا يَسْأَلُنِى نَصِيبَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا
صحيح البخارى  کتاب النفقات ۔3 - باب حَبْسِ نَفَقَةِ الرَّجُلِ ۔۔ مسند أحمد (4/ 213):  وَمِنْ مُسْنَدِ بَنِي هَاشِمٍ   حَدِيثُ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
وَيَطْلُبُ هَذَا مِيرَاثَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا، ۔۔۔۔۔ثُمَّ جِئْتَنِي أَنْتَ وَهَذَا وَأَنْتُمَا جَمِيعٌ وَأَمْرُكُمَا وَاحِدٌ، ۔۔۔
صحیح مسلم ۔۔  - كتاب الجهاد والسير  - باب 15 - بَابُ حُكْمِ الْفَيْءِ۔۔
السنن الكبرى للبيهقي  کتاب قسم الفئ۔۔  ۔۔۔ ( 5 باب بيان مصرف أربعة أخماس الفيء ۔۔
  وجاءني هذا ـ يعني عليا ـ يسألني ميراث امرأته  ۔۔ صحيح ابن حبان (14/ 575):
هذا - يعني عليا - يسألني ميراث امرأته من أبيها  ۔ مصنف عبد الرزاق (5/ 471):
ثُمَّ جِئْتُمَانِي، جَاءَنِي هَذَا , يَعْنِي الْعَبَّاسَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ , يَسْأَلُنِي مِيرَاثَهُ مِنِ ابْنِ أَخِيهِ، وَجَاءَنِي هَذَا , يُرِيدُ عَلِيًّا رَضِيَ اللهُ عَنْهُ , يَسْأَلُنِي مِيرَاثَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا،۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔۔ السنن الكبرى للبيهقي (6/ 487):

 لہٰذا مندرجہ بالا اسناد سے صاف ظاہر ہے کہ جو شیعہ کہتے ہیں وہ آپ کی صحیحین میں موجود ہیں۔


سنی مناظر کا اشکال پڑھیں اور پھر شیعہ مناظر کا جواب پڑھیں۔دونوں میں کوئی ربط ہی نہیں ہے۔ راوی ابن شہاب کی توثیق پر کوئی اشکال ہوتا تو یہ جواب ٹھیک ہوتا! لیکن سوال تو سیدہ کی ناراضگی کو کسی اور طرق/راوی سے ثابت کرنے پر تھا!


اب آپ کا بنیادی اعتراض :سیدہ فاطمہ کی ناراضگی راوی کا گمان ہے۔کسی اور راوی نے اس کو بیان نہیں کیا ہے۔

   پہلا جواب:راوی اہل سنت کے امام اور سب کے نزدیک ثقہ ،خاص کر صحاح ستہ کے مصنفین کے نزدیک قابل اعتماد  اور صحیحین کے کثیر الروایات راوی ہے۔  ہزار کے نزدیک اس سے روایات بخاری میں ہیں۔

اب ہم یہ کہیں گے کہ کم از کم یہ تو کلیئر ہے کہ جو شیعہ کہتے ہیں وہ اہل سنت کے ہی امام اور ایک اہم راوی کا نظریہ ہے اور صحیحین میں بغیر کسی اعتراض کے اس کی روایت نقل ہے۔

خاص کر جو اوپر اسکین والی روایت ہے اس میں صاف ظاہر ہے کہ یہ راوی کی بات نہیں ہے بلکہ جناب عائشہ کا قول ہے   جیساکہ اہل سنت کے بہت سے شارحین نے اس کو روایت کا حصہ قرار دے کر ناراضگی کی بات کو  مانا ہے ،جیسے  ابن حجر،  ابن بطال وغیرہ اور اہلِ سنت کے ہی کافی علماء نے اس معاملے میں جناب فاطمہ ع کو خطا کار کہا ہے جیسے ابنِ تیمیہ،  ابنِ عثیمین۔اس کے علاوہ جس نے اندراج کا دعویٰ کیا ہے وہ  اس کا اپنا گمان ہے۔کچھ اور لکھنا تھا ، فی الحال یہی کافی۔