حق زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں اہل تشیع کا مدعا اور چیلنج(قسط 4)
جعفر صادقحق زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں اہلِ تشیع کا مدعا اور چیلنج(قسط 4)
شیعہ مناظر: حق زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں
ہمارا مدعا اور چیلنج حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے حق کے سلسلے میں بحث و گفتگو کا منطقی طریقہ اور ہمارے مدعا مندرجہ ذیل دو مرحلوں پر مشتمل ہے ۔
بحث کا پہلا مرحلہ
الف : حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا نے فدک کو اپنا حق سمجھ کر خلفاء سے اپنے حق کا مطالبہ کیا اور مطالبہ منظور نہ ہونے کی وجہ سے ناراض ہوئیں اور ان سے مکمل بائیکاٹ کی حالت میں دنیا سے چلی گئیں ۔
ب : یہی نظریہ حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کا بھی تھا آپ خلفاء کی طرف سے حدیث "نحن معاشر الانبیاء" سے استدلال کرتے ہوئے جناب فاطمہ کے حق سے محروم کرنے کی وجہ سے خلفاء کو جھٹلاتے اور ان کے کاموں کو دھوکہ بازی اور گناہ سمجھتے تھے ۔
ج : لہذا جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو ان کا حق نہ ملنے کا نظریہ خود حضرت فاطمہ اور مولا علی علیہما السلام کا نظریہ ہے اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا اسی نظریے کے مطابق خلفاء کو اپنے حق سے محروم کرنے والا سمجھتی تھیں اور اسی سوچ کے ساتھ دنیا سے چلی گئیں۔
د : یہ وہ حقیقت ہے جو اہل سنت کی صحاح ستہ میں خاص کر صحیحین میں موجود ہے اور اگر کوئی ان حقائق کا انکار کرتا ہے تو ہم ان سب باتوں کو صحاح ستہ بالخصوص صحیح بخاری اور مسلم سے ثابت کرتے ہیں ۔
شیعہ مناظر نے گفتگو کے پہلے دن ان نکات کی ترتیب بھی پیش کر دی کہ الف کے تحت کیا نکات زیر بحث لائیں جائیں گے اور ب کے تحت وہ کن نکات پر بحث کرنا چاہتے ہیں۔ سنی مناظر نے پورا مناظرہ اسی ترتیب کے مطابق جاری رکھا لیکن کیا شیعہ مناظر اپنی تحریر اور اپنی اس ترتیب کے مطابق گفتگو کرتے رہے؟ یہ فیصلہ اس مناظرے کے قارئین خود اپنے ضمیر کے مطابق کریں۔شیعہ مناظر کی اپنی بتائی ہوئی ترتیب کا اسکرین شاٹ اور تاریخ اگلے پیج پر ملاحظہ فرمائیں!
نوٹ : شیعہ اور اہل سنت کے درمیان گفتگو کا بنیادی محور یہی مرحلہ ہے ، کہ ان حضرات نے فدک کو اپنا حق سمجھ کر مطالبہ کیا اور یہ حضرات خلفاء کو اپنے اس حق سے محروم کرنے والے سمجھتے تھے ۔ یہ سب باتیں خاص کر اہل سنت کی سب سے معتبر صحیحین میں موجود ہیں ۔
دوسرا مرحلہ بحث
بحث کے دوسرا مرحلے میں مذکورہ مطالبے میں ان حضرات کے حق بجانب ہونے یا نہ ہونے کی بحث ہے۔ جب پہلے مرحلے کی بات کلئیر ہو جائے تو اب ہم مخالفین سے یہ بحث کریں گے کہ ان میں سے کون حق پر تھا ، کون حق پر نہیں تھا۔
خلط اور مغالطہ : بعض مخالفین مسئلے اور موضوع کی حساسیت سے واقف ہیں ، لہذا بحث کا رخ موڑنے اور حقیقت کو چھپانے کے لئے مذکورہ ترتیب سے بحث کرنے کے بجائے فورا کہتے ہیں کہ فدک فی تھا یا نہیں تھا ، فدک حضورﷺ کی ذاتی ملکیت تھی یا نہیں تھی ؟ فدک ھبہ تھا یا نہیں تھا ؟ جبکہ بحث کا منطقی انداز کے مطابق جب ان کی طرف سے فدک کا مطالبہ کرنا اور مطالبہ منظور نہ ہونا اور اس وجہ سے ان کا ناراض ہونے کی بحث کلئیر ہو تو پھر یہ دیکھنا ہوگا کہ اس مسئلے میں کون حق بجانب تھے ؟ لہٰذا مخالفین کی طرف سے پہلے مرحلے میں ہی فدک کی تاریخی حقیقت سے بحث کرنا ایک قسم کی انحرافی بحث اور اصل کو چھوڑ کر فرع کی طرف جانا اور بحث کو اس کے منطقی ترتیب سے ہٹانا ہے کیونکہ اگر بحث کا پہلا مرحلہ کلیر نہ ہو مثلا مطالبہ ہی نہ کیا ہو یا مطالبہ منظور نہ ہونے کی وجہ سے معاملہ ہی ختم ہوا ہو اور یہ حضرات خلیفہ کے فیصلے پر راضی ہوئے ہوں تو پھر بات ختم ہو جاتی ہے اور فدک وغیرہ کا حضورﷺ کی ملکیت ہونا یا اس کا ھبہ ہونا یا نہ ہونے کی بحث کی ضرورت ہی ختم ہو جاتی ہے ۔ جب بحث کا موضوع ہی ختم ہو تو ان چیزوں سے بحث ہی فضول ہے ۔ لہذا بحث کا پہلا مرحلہ بنیادی اور اصلی مرحلہ ہے جبکہ دوسرا مرحلہ بحث فرعی اور دوسرے درجے کی بحث ہے ۔ اصل کو چھوڑ کر فرع کی طرف جانا خلط مبحث ، مغالطہ اور غیر منطقی ہے۔ اور ہمارا اہل سنت کے ساتھ اصلی نزاع اور جھگڑا پہلے مرحلے سے مربوط بحث میں ہے۔
ہمارے بنیادی سوالات اور ان کی ترتیب
کیا جناب فاطمہ فدک کو اپنا حق سمجھتی تھیں یا نہیں ؟ اور فدک کو اپنا حق سمجھ کر مطالبہ کیا یا نہیں کیا ؟ مطالبہ منظور نہ ہونے کے بعد آپ اپنے کو، اپنے حق سے محروم کرنے کی سوچ کے ساتھ دنیا سے چلی گئیں یا نہیں ؟ جناب امیر المؤمنین علیہ السلام ، جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے مطالبے کو حق کا مطالبہ سمجھتے تھے یا نہیں ؟
کیا یہ ساری باتیں صحیحین میں ہیں یا نہیں ؟
جب یہ باتیں کلیئر ہوں تو ہم اس مرحلے میں یہی کہیں گے شیعہ جو کہتے ہیں وہ اہل سنت کی صحیحین کی صحیح سند احادیث سے ثابت ہے ۔لہٰذا ان باتوں کو شیعوں کا نظریہ اور ان کی من گھڑت باتیں کہہ کر شیعوں کے خلاف زہریلی تبلیغ کا سلسلہ روک کر اپنے لوگوں کو واضح طور پر یہ بات کہہ دو کہ شیعوں کی باتیں ہماری کتابوں میں ہیں اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کا خلفاء کو اپنے حق کا غاصب سمجھنے والی بات ہماری کتابوں سے ہی ثابت ہے ۔
ایک چھوٹ : اب ممکن ہے اہل سنت کے علماء عوام سے یہ بات کریں اور انہیں یہ سمجھا دیں کہ ہماری کتابوں میں یہ باتیں تو ہیں لیکن یہ باتیں غلط ہیں اور غلطی سے یہ باتیں ہماری کتابوں میں نقل ہوئی ہیں ۔ حقیقت کچھ اور ہے ۔ لیکن کبھی یہ نہ کہیں کہ یہ باتیں شیعوں کی بنائی ہوئی داستانیں ہیں ۔ کیونکہ یہ واضح جھوٹ اور دھوکہ بازی ہے ۔ ان باتوں کا خاص کر صحیحین میں ہونا قابل انکار ہی نہیں ہے۔
اب اگر بحث کی منطقی ترتیب کو چھوڑ کر فورا فدک کی تاریخی حقیقت سے سوال کرے تو یا اصلی ترتیب اور اصل اور فرع میں خلط کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے اور حقیقت کو چھپانے کی کوشش کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے ۔ اسی لئے ہم شیعہ مناظرین سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ اس سلسلے میں ہوشیاری سے کام لیں اور دوسروں کی چالوں سے ہوشیار رہیں ۔
حرف آخر : اگر ہم سے بحث کے دوسرے مرحلے میں یہ بحث کرنا چاہئے کہ اس مطالبے میں کون حق بجانب تھا کون حق بجانب نہیں تھا ؟ تو ہم اس مرحلے میں اپنے مخالفین سے بحث کرنے کے لئے تیار ہیں اور ہم واضح انداز میں یہ کہتے ہیں کہ اس معاملے میں جناب فاطمہ اور امیر المؤمنین علیہ السلام ، حق بجانب تھے اور ہم ان کے ساتھ ہم عقیدہ ہیں ۔ اب اسی جرم میں ہمیں گمراہ اور اصحاب کی شان میں گستاخی کرنے والے کہیں تو ہمیں یہ منظور ہے ۔ہم فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ اس معاملے میں حق مولا علی اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے ساتھ ہے اور نبی پاکﷺ کے سب سے ممتاز شاگرد اور سب سے زیادہ دین شناس اور دین کے پابند یہ ہستیاں حق کا ہی مطالبہ کررہی تھیں اور نعوذ باللہ جہالت اور لاعلمی وغیرہ کی وجہ سے کسی اور کے حق کو اپنا حق سمجھ کر ان چیزوں کا مطالبہ نہیں کر رہی تھیں۔
و السلام علی من اتبع الھدی۔
محمد دلشاد۔
میرے مدعا کی روشنی میں ہماری بحث تین مرحلوں پر مشتمل ہوگی۔
پہلا مرحلہ: جو شیعہ کہتے ہیں وہ صحیح سند آپ کی معتبر ترین کتابوں میں (خاص کر صحیحین میں) موجود ہیں۔
دوسرا مرحلہ: جناب زہرا نے واقعی معنوں میں مطالبہ کیا اور آپ ناراض ہوگئیں اور مولی علی بھی ان کے ساتھ ہم عقیدہ تھا اور جناب فاطمہ اسی نظریے کے ساتھ دنیا سے گئیں ۔(یہ باتیں خاص کر آپ کی صحیحین میں ہیں)
تیسرے مرحلے میں یہ ثابت کرنا ہے کہ حق جناب فاطمہ کے ساتھ تھا اور جناب خلیفہ نے آپ کا حق آپ کو نہیں دیا۔
ان تین مراحل کے مطابق مرحلہ وار گفتگو ہوگی۔ جب میں بات ختم کروں تو ایک مخصوص نشان لگا دوں گا اس کے بعد آپ شروع کریں اور پھر یہی مخصوص نشان ۔
پہلا مرحلہ: شیعہ کہتے ہیں جناب فاطمہ نے فدک اور اپنے دوسرے حقوق کا مطالبہ کیا جب خلیفہ نے دینے سے انکار کیا تو اپ ناراض ہوئی اور بائیکاٹ کی حالت میں دنیا سے چلی گئیں۔ امیر المؤمنین کا بھی یہی نظریہ تھا کہ جناب فاطمہ کو ان کا حق نہیں ملا اور اپ خلیفۂ اول اور دوم کے استدلال کو رد کرتے انہیں جھٹلاتے تھے۔کیا یہ باتیں صحیح سند اہل سنت کی کتابوں میں ہیں یا نہیں۔
سنی مناظر: پہلے آپ میرے بھیجے گئے شرائط و اصول کو منظور کردیں۔ اگر ترمیم و اضافہ مقصود ہو تو ابھی سے بتادیں بعد میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہوگی۔
شیعہ مناظر: جی پہلے والے شق کے آخری حصے پر مجھے اعتراض ہے کیونکہ میرے پاس لائیبریری تو نہیں مکتب الشاملہ اور جوامع الکلم اور معتبر سائیٹ سے میں استفادہ کرتا ہوں تو کم از کم احادیث اور سند کی عربی میں انہیں چیزوں سے لیتا ہوں لہٰذا وہاں سے لے کر کاپی تو کرنی ہے البتہ مکمل ایڈرس کے ساتھ سند پیش کرنے کا میں پابند ضرور ہوں۔باقی شقیں ٹھیک ہیں۔
سنی مناظر کاپی پیسٹ دلائل اور روایات کے متعلق نہیں کہا گیا بلکہ ذاتی تحریروں کے متعلق کہا گیا ہے۔
بحرحال میں اصل مدعا پر جواب دیتا ہوں۔
شیعہ مناظر جی ٹھیک ہے۔
سنی مناظر جو باتیں صحیحین میں موجود ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں۔
سیدہ فاطمہ نے بعد از نبی مال فئے کے اموال یہ سمجھ کر طلب فرمائے کہ جس طرح عام مسلمانوں کی میراث ہوتی ہے اسی طرح نبی کی میراث ہوتی ہے لیکن جب حضرت ابوبکر صدیقؓ نے نبیﷺ کا فرمان بتایا کہ اس مسئلہ کا فیصلہ تو خود نبی کریمﷺ پہلے سے کر چکے ہیں کہ انبیائے کرام کی میراث نہیں ہوتی تو سیدہ فاطمہ خاموش ہوگئیں اور پھر اس مسئلے کے متعلق دوبارہ کوئی بات نہیں کی۔ ناراضگی کے الفاظ صحیحین میں ایک راوی کا اپنا ظن ہے جو دوسرے حقائق سے غلط ثابت ہوتے ہیں۔
سیدنا علیؓ اور باقی آئمہ اہلِ بیت کا نظریہ بھی عین صدیقی فیصلے کے مطابق ہی تھا، ورنہ سیدنا علی اپنے دور خلافت میں پہلا کام ہی یہ کرتے کہ فدک اصل حقداروں یعنی حسنین کریمین تک پہنچا دیتے۔
جو باتیں صحیحن میں موجود ہیں، ان کی حقیقت یہی ہے۔