خطبہ غدیر خم
سمیع شہزادخطبہ غدیرِ خم:
من کنت مولاہ فعلیؓ مولاہ۔
حدیث پاک کو غدیرِ خم کے واقعہ کو بعض رافضیت نے بڑی اہمیت دی ہے اور اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بلا فصل ثابت کرنے کے لئے نا کام کوشش کی ہے یہ لوگ اس واقعہ کو مسئلہ خلافت کے لئے انتہائی درجہ کی قوی دلیل قرار دیتے ہیں یہاں پر چند اشیاء غور طلب ہیں ان پر توجہ فرمانے سے یہ واضح ہو جائے گا کہ یہ دلیل مسئلہ خلافت ہرگز ثابت نہیں کرتی۔
حضرت علیؓ سے متعلق شکایات کا ازالہ جن الفاظ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان میں یہ جملہ مزکور ہے کہ:
من کنت مولاہ فعلیؓ مولاہ۔
ترجمہ: یعنی جس شخص کے لئے میں محبوب اور دوست ہوں پس سیدنا علیؓ بن ابی طالب اس کے محبوب اور دوست ہیں۔
یہاں پر مسئلہ خلافت و نیابت کا ذکر تک نہیں ہے اور نہ کسی جماعت کی طرف سے آپﷺ کے سامنے خلافت کے مضمون کو زیرِ بحث لایا گیا اور نہ ہی کسی شخص نے اس کے متعلق کوئی سوال کیا جس کے جواب میں آپﷺ نے یہ کلام فرمایا ہو پھر اس روایت کے اگلے الفاظ بھی غور طلب ہیں ان میں موالات اور معادات کو ایک دوسرے کے بالمقابل ذکر کیا ہے
اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہاں مولیٰ کے لفظ میں ولایت بمقابلہ عداوت ہے بمعنیٰ خلافت نہیں روایت کے وہ الفاظ یہ ہیں:
اللھم وال من ولاہ وعاد من عاداہ۔
ترجمہ: اللہ اسے دوست رکھ جو سیدنا علیؓ سے دوستی رکھے اور اس سے عداوت رکھ جو سیدنا علیؓ سے عداوت رکھے۔
یاد رہے کہ یہ الفاظ بزبانِ نبویﷺ ایک اور صحابی کے لئے بھی استعمال ہوئے ہیں۔
اس لئے کہ جناب نبی کریمﷺ کے آزاد شدہ غلام صحابی رسول سیدنا زید بن حارثہؓ کے حق میں نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا تھا۔
قال لزید انت اخونا ومولانا۔
ترجمہ: آپؓ ہمارے بھائی ہیں اور ہمارے مولیٰ ہیں۔
(مشکوٰۃ شریف: صفحہ، 293 بحوالہ بخاری و مسلم باب بلوغ صغیر الفصل الاول)
مسلمانوں من کنت مولاہ فعلیؓ مولاہ۔ کا جملہ اکابر ہاشمی حضرات کے نزدیک بھی خلافت بلا فصل کے لئے نص صریح نہیں مندرجہ عنوان کے تحت جن چیزوں کو ذکر کیا گیا ہے ان تمام پر غور کر لینے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ غدیرِ خم کے موقعہ پر جو فرمان نبویﷺ صادر ہوا اس کا سیدنا علیؓ کی خلافت بلا فصل کے ساتھ کچھ تعلق نہیں ہے اور نہ ہی مسئلہ خلافت وہاں مطلوب و مقصود تھا بلکہ وقتی تقاضوں کے مطابق اس میں دیگر مقاصد پیشِ نظر تھے جن کو وہاں پورا کردیا۔
اب کتبِ شیعت سے 6 حوالے پیش خدمت ہیں جس سے مزید آگاہی حاصل ہو گی:
1: سیدنا علیؓ سے روایت ہے کہ محمدﷺ نے تین دفعہ فرمایا اے اللہ میرے خلفاء پر رحم کر تو عرض کی گئی آپﷺ کے خلفاء کون ہیں فرمایا وہ لوگ جو میری حدیث اور سنت کی تبلیغ کریں گے اور پھر میری امت کو سیکھائیں گے۔
(امالی الشیخ صدوق: صفحہ، 138)
2: سیدنا عرباض بن ساریہؓ نے کہا کہ محمدﷺ نے ہمیں آخری وعظ یوں سنایا کہ جس سے دل ڈر گئے اور آنکھیں پرنم ہوگئیں ہم نے عرض کی حضوﷺ آپ نے کسی الودع ہونے والے کی طرح وعظ فرمایا ہے لہٰذا اس وعظ کے زریعے آپﷺ ہم سے کس چیز کا عہد لینا چاہتے ہیں فرمایا میں تمہیں ایسی روشن دلیل پر چھوڑے جا رہا ہوں جس کی رات اس کے دن کی مثل ہے اس سے وہی شخص انحراف کرے گا جو ہلاک ہونے والا ہے جو تم میں زندہ رہا اس پر لازم ہے کے میری اور میرے خلفائے راشدین رضوان علیہم اجمعین کی سنت کو میرے بعد مضبوطی کے ساتھ تھام لے اور حق کی پیروی کرے اگرچہ صاحبِ حق حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو بے شک مومن مثل شتر مانوس کے ہے کہ جہاں باندھا جائے وہاں سے اٹھایا جاتا ہے۔
(ارشاد القلوب: جلد، الف صفحہ،87)
3: سیدنا فضیل بن یسارؒ سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا جعفر صادقؒ سے پوچھا کہ جب محمدﷺ انتقال فرما گئے تو آپﷺ کے بعد ولایت کس کا حق تھا کہنے لگے ہم اہلِ بیتؓ کا حق تھا میں نے پوچھا تو یہ حق تمہارے غیروں میں کیوں چلا گیا کہنے لگے تو سوال کر ہی بیٹھا ہے تو پھر اس کا جواب بھی سن لے اللہ نے جب جان لیا کہ زمین میں فساد ہوگا اور حرام شرمگاہوں میں وطی کی جائے گی اور اللہ کے نازل کردہ احکام کے خلاف فیصلے ہونے لگیں گے تو اللہ نے اسے یعنی امرِ ولایت کو ہمارے غیروں میں رکھنا چاہا۔
(ہاشم بحرانی حلیتہ الابرار: جلد، دوم صفحہ، 345)
4: قلم دوات لانے کے متعلق جب صحابی میں اختلاف ہوگیا تو حضرت محمدﷺ نے سب کو اٹھ جانے کا حکم دیا جب سب اٹھ کر چلے گئے وہاں باقی ماندہ اشخاص میں سیدنا عباسؓ، سیدنا فضل بن عباسؓ، سیدنا علیؓ بن ابی طالب اور صرف اہلِ بیتؓ تھے تو سیدنا عباسؓ نے عرض کی یا رسول اللہﷺ اگر امرِ خلافت ہم بنی ہاشم میں ہی مستقل طور پر رہے تو پھر اس کی بشارت دیجیئے اور اگر آپﷺ کے علم میں ہے کہ ہم مغلوب ہو جائیں گے تو ہمارے حق میں فیصلہ فرما دیجیئے اس پر محمدﷺ نے ارشاد فرمایا میرے بعد تمہیں بے بس کر دیا جائے گا بس اس قدر الفاظ فرما کر سکوت فرما لیا اور حالت یہ تھی کہ سیدنا عباسؓ، سیدنا علیؓ ابنِ طالب اور دیگر موجود اہلِ بیتؓ رو رہے تھے اور روتے روتے آپﷺ سے نا امید ہو کر اٹھ گئے۔
(اعلام الوریٰ ابی الحسن طبرسی: صفحہ، 142، الارشاد: جلد، الف، شیخ مفید: صفحہ، 184، 185)
5: سیدنا ابنِ طاوسؒ ابنِ شہر آشوب اور دیگر حضرات نے روایت کیا کہ عامر بن طفیل اور زید بن قیس جب حضرت محمدﷺ کو قتل کرنے کی نیت سے آئے اور مسجد میں داخل ہوئے تو عامر بن طفیل آپﷺ کے نزدیک گیا اور کہا یا محمدﷺ اگر میں مسلمان ہو جائوں تو میرے لیے کیا انعام ہوگا اور مجھے اس سے کیا فائدہ ملے گا آپﷺ نے فرمایا تمہیں بھی وہی ملے گا جو تمام مسلمانوں کو ملتا ہے اس نے کہا میری خواہش یہ ہے کہ آپﷺ اپنے بعد مجھے خلیفہ بنا دیں اس پر آپﷺ نے فرمایا یہ تو اللہ کے اختیار میں ہے مجھے اور تجھے اس میں کوئی دخل نہیں۔
(ملا باقر مجلسی حیات القلوب: جلد، تین صفحہ، 619، 620)
6: سیدنا بن صوحان سے روایت ہے جب ابنِ ملجم نے وار کیا سیدنا علیؓ پر آپؓ کی شہادت سے قبل ہم نے آپؓ سے پوچھا ہمارے لیے اپنی طرف سے خلیفہ مقرر فرما دیجیئے آپؓ نے فرمایا نہیں میں کوئی وصیت نہیں کروں گا کیونکہ محمدﷺ کی طبیعت ناساز ہوئی تو ہم آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم نے عرض کیا تھا یا رسولﷺ ہم میں آپ اپنے بعد کوئی خلیفہ منظور فرما دیں آپ نے فرمایا نہیں میں اگر کسی کو مقرر کر دوں تو مجھے خدشہ ہے کہ تم بنی اسرائیل کی طرح متفرق ہو جائو گے اگر اللہ نے تمہارے دلوں کو خیر پایا تو وہ خد ہی تمہارے لیے بہتر شخص مقرر کر لے گا
(حسن طوسی تلخیص شافی: جلد، دوم صفحہ، 236)
مسلمانوں ہمارا کام یہی تک تھا ہدایت کا سرچشمہ رب زات ہے
ہاں پکار آنے سے پہلے توبہ کر لی جائے۔