حدیث ثقلین
علامہ ڈاکٹر خالد محمود رحمہ اللہحدیث ثقلین
ایک حدیث زبان زدِعام و خاص چلی آ رہی ہے کہ حضورﷺ نے اپنے آخری دنوں میں فرمایا میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں اسے حدیث ثقلین کہتے ہیں اس مضمون میں اس روایت کے رواۃ اور مخارج پر طلبہ حدیث کو متوجہ کرنا پیش نظر ہے لیکن اس سے پہلے لفظ ثقل (بھاری ) کو کچھ سمجھ لیں ثقلین اسی کا تثنیہ ہے.
اللہ رب العزت نے حضورﷺ کو ابتداء وحی میں بتلا دیا تھا کہ آپ پر قرآن ایک وزن دار پیرائے میں اتارا جائے گا ارشاد ہوا
اِنَّا سَنُلۡقِیۡ عَلَیۡکَ قَوۡلًا ثَقِیۡلًا (پارہ 29 المزمل ، آیت 3 )
ترجمہ: ہم ڈالنے والے ہیں تجھ پر ایک بات وزن دار (شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ )
یہاں قرآن پاک کو ایک قول کے مطابق ثقیل کہا گیا ہے حدیث بھی وحی خداوندی سے ہے( گو یہ بصورتِ وحی غیر متلو ہو ) تو ظاہر ہے کہ وہ بھی ایک پیرایہ، ثقل ہی ہوگا سو ان دونوں کو (قرآن اور حضورﷺ کی حدیث کو) ثقلین کہیں گے، حدیث بھی کفار پر اسی طرح بھاری ہے جس طرح قرآن بھاری ہے۔
اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ حضورﷺ پر جب وحی حضرت جبرائیل ؑ آپ کے سامنے انسانی صورت میں متمثل ہوئے بغیر لاتے تو آپﷺ پر بہت گراں ہوتی تھی یہاں تک کہ آپ پسینہ پسینہ ہو جاتے تھے۔
شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ لکھتے ہیں *قرآن تم پر نازل کریں گے جو اپنی قدر و منزلت کے اعتبار سے بہت قیمتی اور وزن دار اور اپنی کیفیات و لوازم کے اعتبار سے بہت بھاری اور گرانبار ہے۔احادیث میں ہے کہ نزول قرآن کی یہ صورت آپﷺ پر بہت گراں اور سخت گزرتی تھی۔ جاڑے (سردی)کے موسم میں آپﷺ پسینہ پسینہ ہو جاتے تھے اگر اس وقت کسی سواری پر سوار ہوتے تو سواری تحمل نہ کر سکتی تھی ایک دفعہ آپﷺ کی ران مبارک زید بن ثابت کی ران پر تھی اس وقت وحی نازل ہوئی اس وقت زید بن ثابتؓ کو ایسا محسوس ہوا کہ انکی ران بوجھ سے پھٹ جائے گی۔ اس کے علاوہ اس ماحول میں قرآن کی دعوت تبلیغ اور اس کے حقوق کا پوری طرح ادا کرنا اور اس راہ میں تمام سختیوں کو کشادہ دلی سے برداشت کرنا بھی سخت مشکل اور بھاری کام تھا اور جس طرح ایک حیثیت سے یہ کلام آپﷺ پر بھاری تھا دوسری حیثیت سے کافروں اور منکروں پر شاق تھا۔ غرض ان تمام وجوہ کا لحاظ کرتے ہوئے آنحضرتﷺ کو حکم ہوا کہ جس قدر قرآن اتر چکا ہے اس کی تلاوت میں رات کو مشغول رہا کریں اور اس خاص عبادت(تہجد ) کے انوار سے اپنے تئیں مشرف کر کے اس فیض اعظم کی قبولیت کی استعداد اپنے اندر مستحکم فرمائیں۔ رات کو اٹھنا کچھ آسان کام نہیں بڑی بھاری ریاضت اور نفس کشی ہے جس سے نفس روندا جاتا ہے اور نیند آرام وغیرہ کی خواہشات پامال کی جاتی ہیں نیز اس وقت دعا اور ذکر سیدھا دل سے ادا ہوتا ہے اور زبان اور دل موافق ہوتے ہیں ۔(تفسیر عثمانی صفحہ 762 طبع سعودی عرب )
حضورﷺ نے اس صورت وحی کو اپنے لیے وهو اشده على فرمایا کہ وہ مجھ پر بہت سخت پیرائے میں آتی ہے۔
اس پس منظر کے ساتھ قرآن کریم اور حضورﷺ کی سنت کو ثقلین ماننا اور سمجھنا کچھ مشکل تھا اس لیے آپﷺ نے اسے دوسرے لفظوں میں آسان کر کے بھی بیان کردیا اور لفظ امرین سے ذکر کیا ۔حدیث کی سب سے پہلی معروف کتاب موطا امام مالک میں اسے اس طرح روایت کیا گیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا :
اني تركت فيكم امرين لن تضلوا ما تمسكتم بهما كتاب الله وسنه نبيه صلی اللّه علیہ وسلم (موطا امام مالک صفحہ 363 )
ترجمہ: میں تم میں دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں (امرین) تم جب تک اپنا دین ان سے لیتے رہو گے تم کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ وہ دو چیزیں کیا ہیں؟؟
1_ اللہ کی کتاب
2_ میری سنت
حضورﷺ نے اپنی ان دونوں امانتوں کا کن حضرات کو امین بتایا ؟ انہیں ہی جو اس وقت ترکت فیکم میں ضمیر منکم کا مصداق تھے یعنی صحابہ کرامؓ۔ اس میں آپ نے متنبہ فرمایا کہ قرآن کی بھی وہی تشریحات معتبر ہونگی جو صحابہؓ نے سمجھیں اور سنت کی بھی وہی مرادات تمہارے لئے مشعل راہ ہوں گی جو صحابہؓ سے ملیں دین ہے ہی وہی جو صحابہؓ سے ملے ۔
حضرت امام مالک رحمۃ اللہ (179ھ) تقریباً سب بڑے بڑے محدثین کے استاد ہیں وہ خود بھی اسے حضورﷺ سے نقل کرتے تو ہمارے لئے ان کا بلغنی کہنا کافی تھا لیکن اسے مرسل مانا جائے تو وہ اسے کسی جلیل القدر تابعی سے روایت کر رہے ہیں اور اس تابعی نے حضورﷺ سے نہیں سنا محدثین کی اصطلاح میں اسے حدیث مرسل کہتے ہیں ۔خطیب تبریزی ؒ نے اسے مرسل کہا ہے اور حدیث مرسل کے بارے میں حنفیہ اور مالکیہ کا موقف یہ ہے کہ وہ معتبر ہے ۔سو یہ حدیث موطا امام مالک مرسل ہوئی اب اس مرسل کو موصول ثابت کرنا یہ اس پر زائد ایک دوسری محنت ہے جو علماء مالکیہ نے اس پر کی ہے ان میں ان کے سرخیل حضرت امام ابن عبد البر مالکی ؒ (462ھ) ہیں، آپ نے اسے موصولاً بھی کتاب التمہید اور الاستذکار میں روایت کیا ہے۔سو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حدیث ثقلین صرف مرسل ہے یہ مرسلاً اور موصولاً دونوں طرح مروی ہے۔
یہ عجیب بات ہے کہ حدیث کی مرکزی کتابوں میں یہ حدیث صرف موطا امام مالک میں ہے ایسا نہیں ایک پہلو سے اس کے کچھ نقوش صحیح مسلم میں بھی ملتے ہیں ۔
ایک دفعہ یزید بن حیان ؒ، حصین بن سبرہ ؒ اور عمر بن مسلم ؒ تین تابعی اکھٹے حضرت زید بن ارقمؓ (66ھ)کی خدمت میں گئے اور حصین ؒ نے آپ سے کہا :
لقَدْ لَقِيتَ يا زَيْدُ خَيْرًا كَثِيرًا، رَأَيْتَ رَسولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ، وَسَمِعْتَ حَدِيثَهُ، وَغَزَوْتَ معهُ، وَصَلَّيْتَ خَلْفَهُ لقَدْ لَقِيتَ يا زَيْدُ خَيْرًا كَثِيرًا، حَدِّثْنَا يا زَيْدُ ما سَمِعْتَ مِن رَسولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ، قالَ: يا ابْنَ أَخِي وَاللَّهِ لقَدْ كَبِرَتْ سِنِّي، وَقَدُمَ عَهْدِي، وَنَسِيتُ بَعْضَ الذي كُنْتُ أَعِي مِن رَسولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ، فَما حَدَّثْتُكُمْ فَاقْبَلُوا، وَما لَا، فلا تُكَلِّفُونِيهِ، ثُمَّ قالَ: قَامَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ يَوْمًا فِينَا خَطِيبًا، بمَاءٍ يُدْعَى خُمًّا بيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عليه، وَوَعَظَ وَذَكَّرَ، ثُمَّ قالَ: أَمَّا بَعْدُ، أَلَا أَيُّهَا النَّاسُ فإنَّما أَنَا بَشَرٌ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ رَسولُ رَبِّي فَأُجِيبَ، وَأَنَا تَارِكٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ: أَوَّلُهُما كِتَابُ اللهِ فيه الهُدَى وَالنُّورُ فَخُذُوا بكِتَابِ اللهِ، وَاسْتَمْسِكُوا به فَحَثَّ علَى كِتَابِ اللهِ وَرَغَّبَ فِيهِ، ثُمَّ قالَ: وَأَهْلُ بَيْتي أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ في أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ في أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ في أَهْلِ بَيْتي فَقالَ له حُصَيْنٌ: وَمَن أَهْلُ بَيْتِهِ؟ يا زَيْدُ أَليسَ نِسَاؤُهُ مِن أَهْلِ بَيْتِهِ؟ قالَ: نِسَاؤُهُ مِن أَهْلِ بَيْتِهِ، وَلَكِنْ أَهْلُ بَيْتِهِ مَن حُرِمَ الصَّدَقَةَ بَعْدَهُ، قالَ: وَمَن هُمْ؟ قالَ: هُمْ آلُ عَلِيٍّ وَآلُ عَقِيلٍ، وَآلُ جَعْفَرٍ، وَآلُ عَبَّاسٍ قالَ: كُلُّ هَؤُلَاءِ حُرِمَ الصَّدَقَةَ؟ قالَ: نَعَمْ (صحیح مسلم جلد 2 صفحہ279 طبع دہلی )
ترجمہ: خطبہ غدیر خم خبردار رہو اے لوگو! میں بھی بشر ہوں قریب ہے کہ خدا کا بھیجا فرشتہ (ملک الموت)میرے پاس آئے اور میں ہاں کہہ دوں اور میں تم میں دو بھاری چیزیں( ثقلین) چھوڑ کر جا رہا ہوں ان میں سے پہلی اللہ کی کتاب (قرآن )ہے جس میں ہدایت اور نور ہے تم سب اس اللہ کی کتاب کو لو اور اس سے تمسک کرو .(تمسک اس پر عمل اور اس سے استدلال دونوں کو شامل ہے).
(نوٹ ) اولها کے بعد حضرت زید بن ارقمؓ نے حضورﷺ سے ثانیھما کے لفظ سے کوئی بات روایت نہیں کی اور قرآن پاک پر عمل کرنے کی ہی تاکید فرماتے رہے اور اس کی ترغیب دیتے رہے مگر وہ سارے الفاظ اس روایت مسلم میں نہیں ہیں اس کے بعد حضرت زیدؓ نے حضورﷺ سے خطبہ کے الفاظ روایت کئے ہیں :
اور میرے اہل بیت میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تمہیں خدا کی یاد دلاتا ہوں (آپ نے تین دفعہ یہ بات کہی) اس پر حصین بن سبرہ ؒ نے حضرت زیدؓ سے پوچھا حضورﷺ کے اہل بیت کون ہیں کیا آپ کی ازواج آپﷺ کے اہل بیت میں نہیں؟ آپ نے فرمایا بے شک آپ کی ازواج آپ کے اہل بیت میں سے ہیں لیکن اس روایت میں اہل بیت سے مراد آپ کے خاندان کے وہ لوگ ہیں جن پر آپ کے بعد صدقہ لینا حرام ہے حضرت حصین ؒ نے پوچھا وہ کون کون ہیں؟ حضرت زیدؓ نے بتلایا
آل علي وال عقيل و ال جعفر وال عباس قال کل ھولاء ۔حرم الصدقہ قال نعم
حضرت حصین ؒ نے پھر پوچھا کیا ان سب پر صدقہ لینا حرام ہے ؟حضرت زیدؓ نے کہا ہاں!
ایک سوال اور اس کا جواب
حضرت زیدؓ نے ان آنے والے تینوں حضرات کے سامنے پہلے کہہ دیا تھا
قال يا ابن اخي والله لقد كبرت سني وقدم اھدی و نسيت بعض الذي كنت اعی
ترجمہ: اے میرے بھتیجے بخدا میری عمر بڑی ہو گئی اور میرا وقت آ لگا ہے اور میں کئی باتیں جنہیں میں یاد رکھتا تھا بھول چکا ہوں ۔
اس پر آپ نے انہیں کہا تھا کہ میں جو کچھ تمہارے پاس بیان کروں اسے لے لو اور جو نہ بیان کر پاؤں تم اس کی مجھے تکلیف نہ دو ۔
سو یہ تینوں تابعی بزرگ آپ کی اس بات پر قائم رہے اور آپؓ نے یہ نہ کہا کہ ان دو بھاری باتوں میں (ثقلین ) میں ایک تو کتاب اللہ ہوئی اور دوسری کونسی ہے اسے آپ اپنے تسلسل کلام میں چھوڑ گئے ہیں ؟
ظاہر ہے کہ وہ سنت ہی ہوگی ثقلین میں کتاب اللہ کے بعد دوسرا درجہ سنت کا ہے اس پر قرآن پاک نے اطیعواللہ و اطیعوالرسول کہہ کر پوری مہر تصدیق ثبت کردی ہے ۔سو دوسرے درجے میں سنت کے لفظ سے کسی صورت میں انکار نہیں کیا جاسکتا یہ مضمون قرآن کریم میں دو سو دفعہ سے زیادہ ملے گا اور اس پر سینکڑوں حدیثیں شاہد ہیں حضرت علی المرتضیؓ بھی آخری دم تک ایمان والوں کو یہی نصیحت کرتے رہے کہ ان دو سنتوں کو ہمیشہ قائم رکھنا اور یہ دو چراغ ہمیشہ جلائے رکھنا ۔
شیعہ عالم شریف رضی(400ھ) نہج البلاغہ میں حضرت علیؓ کے نصائح وصایا میں آپ سے نقل کرتا ہے جب آپ پر ابن ملجم ملعون نے ضرب لگائی تو آپؓ نے وصیت کی :
اما وصيتي فالله لا تشركوا به شيئا و محمد صلى الله عليه واله وسلم فلا تضيعوا سنته اقيموا هذين العمودين واوقدوا هذين المصباحين (نہج البلاغہ وصیت 23 صفحہ 668 مترجم طبع مغل حویلی موچی دروازہ لاہور)
ترجمہ: سنت کے ذکر کے بعد امور دین( دو ستون) اورمصباحین( دو چراغ ) کے الفاظ بتارہے ہیں کہ پہلے اس وصیت میں کتاب اللہ کا ذکر ہو چکا ہے جسے شریف رضی پہلے کسی جگہ ذکر کرآ یا ہے اور اب حضورﷺ کی سنت کو ضائع نہ کرنے کا درس روایت کر رہا ہے ظاہر کلام سے بھی یہی مفہوم ہوتا ہے کہ حضرت علی المرتضیؓ کی وصیت میں یہاں کتاب اللہ کے بعد حدیث کا لفظ ضرور ہوگا جسے شریف رضی اس تسلسل میں محفوظ نہیں رکھ سکا
تاہم اس سے انکار کی کوئی راہ نہیں مل سکتی کہ شریعت محمدی میں علم کا دوسرا ماخذ سنت ہی ہے تیسرے نمبر پر امت اس کی مکلف ہے کہ وہ ان دونوں ستونوں کو کہیں گرنے نہ دے اور ان دو چراغوں کو کبھی بجھنے نہ دے ۔پھر یہ بات بھی کسی مؤمن کے دماغ سے نہ نکلے کے لفظ امت میں صحابہؓ و اہلبیتؓ دونوں مل کر شامل ہیں اگر حدیث ثقلین کتاب اللہ اور اہل بیتؓ کو بیان کرے تو اس میں یہ سقم باقی رہے گا کہ حضور کی پھر سنت کہاں گئی؟اسے تو کسی حیلہ سے بھی اسلام کے ماخذ علم سے نکالا نہیں جا سکتا خطبہ غدیر خم کے حوالے سے ایک روایت عام سنی جاتی ہے کہ آپﷺ نے ایک موقع پر فرمایا :من کنت مولاہ فعلی مولاہ اس میں اکثر ذاکرین کتاب اللہ کے بعد حضرت علیؓ کا نام لیتے ہیں ۔
اس روایت میں ثقلین میں سے کسی کا ذکر نہیں نہ قرآن کا نہ سنت کا اور صحیح مسلم کی زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی روایت میں غدیر خم کے خطبہ میں ثقلین کا لفظ بھی موجود ہے اور اولهما کتاب اللہ کے الفاظ بھی موجود ہیں اور اس حدیث میں من کنت مولاہ کا کہیں ذکر نہیں ۔معلوم ہوتا ہے کہ روایت میں کنت مولاہ بظاہر غدیر خم کی بات نہیں خطبہ غدیر خم کی صحیح روایت وہی رہی ہے جو صحیح مسلم میں ہے اور اس میں وثانيهما کے الفاظ بھی کہیں نہیں ملتے آپ اس خطبہ میں وہ ذکر نہ کر پائے۔
امام مسلم ؒ سے پہلے حضرت امام احمد بن حنبل ؒ نے بھی حضرت زید بن ارقمؓ کی اس روایت کو روایت کیا ہے اس میں بھی وثانيهما کے الفاظ نہیں ملے اب سوائے اس کے کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ یہاں سنت کا لفظ کرنا حضرت زیدؓ کو یاد نہ رہا اور آخر میں وہ اہل بیت کو یاد رکھنے کی بات پر نکل آئے اور ظاہر ہے کہ اہل بیت کے حقوق کا کوئی مسلمان انکار نہیں کر سکتا اور اس سب تفصیل کا حاصل یہی نکلتا ہے کہ حدیث ثقلین میں اہل بیت یا سنت کا لفظ بغیر ثقل ثانی کسی صحیح سند سے نہیں ملتا ۔
اہل سنت کی کتب حدیث میں جن کتابوں میں اہل بیت کے ثقل ثانی ہونے کی روایت ملتی ہے اس میں کوئی نہ کوئی شیعہ راوی ضرور ملتا ہے ظاہر ہے کہ اس کی کوئی روایت اہل سنت پر حجت نہیں ہو سکتی ان روایات کی تحقیق مطلوب ہو تو اس کے لیے حضرت مولانا محمد نافع ؒ کی کتاب لاجواب حدیث ثقلین کا مطالعہ کریں۔ اس کتاب کا مقدمہ لکھنے کی سعادت اس عاجز کو حاصل ہوئی ہے اس میں احقر نے حافظ جمال الدین الزیلعی رحمتہ اللہ (762ھ) کی یہ عبارت بھی ہدیہ قارئین کی ہے
و كم من حديث كثرت رواته، وتعددت طرقه، وهو حديث ضعيف كحديث الطير، وحديث الحاجم والمحجوم، وحديث من كنت مولاه فعلي مولاه. بل قد لا يزيد كثرة الطرق إلا ضعفا
(نصب الرایہ جلد 1 صفحہ 360 )
یہاں ہم حدیث ثقلین کی بات کر رہے تھے اس میں یہ روایت من کنت مولاہ فعلی مولاہ ضمناً آگئی ہے اسے حدیث ولایت بھی کہا جاتا ہے اب آگے ہم اس کا آغاز کرتے ہیں .