Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

کیا کسی آدی کو دینِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں کمی بیشی کرنے کا اختیار ہے ؟ اگر نہیں تو حضرت عمررضی اللہ عنہ کا اذان میں

  مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند

کیا کِسی آدی کو دینِ محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم میں کمی بیشی کرنے کا اختیار ہے ؟ اگر نہیں تو حضرت عُمَر رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کا اذان میں "الصلٰوۃ خیر من النوم، نمازِ تراویح باجماعت، چار تکبیروں پر نمازِ جنازہ کا اتفاق کرانا، متعہ کو حرام قرار دینا، تین طلاقوں کو جو ایک ساتھ دی جائیں طلاق بائن قرار دینا اور قیاس کو اصول قائم کرنا کہاں تک درست ہے ؟ اور کیا یہ صراحتًا مداخلت فی الدین نہیں جو ناجائز اور حرام ہے ؟؟

♦️ جواب اہل سُنَّت:- ♦️

اہلِ سُنَّت کے مذہب میں یہ حق کِسی کو حاصل نہیں۔ یہ صِرف شیعہ مذہب کا خاصہ ہے کہ جہاں انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سب عمر کی محنتِ شاقہ سے تیار کردہ مسلمان جماعت کے ایک ایک فرد کو خارج از ایمان اور مرتد قرار دے دیا۔ (اصول کافی) وہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت کے ایک ایک مسئلہ کو ختم کر کے متوازی اور حسبِ منشاء شریعت اپنے خود ساختہ مثلِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، معصوم اور صاحبانِ وحی و کتاب آئمہ سے تصنیف کرا دی۔ کیونکہ وہ تو

 یحللون ما یشاؤون و یحرمون ما یشاؤون

یعنی دینِ مُصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جِس مسئلہ کو چاہیں حلال کر دیتے ہیں اور جس (حلال) مسئلہ کو چاہیں حرام کر دیتے ہیں۔" (اصول کافی ص ٤٤١) كے منصب کے مالک ہیں۔ نیز وہ تمام انبیاء کے علوم کے وهبي من اللہ وارث ہیں (کافی ص ۲۲۲)۔ بلکہ وہ اللہ تعالٰی کی شریعت کے والی (یعنی بالفاظ دیگر پیغمبر) اور اس کے علم کا خزانہ ہیں (اصول کافی ص ۱۹۳)۔ بلکہ امام جعفر رحمۃ اللّٰہ علیہ نے تو صراحتًا فرما دیا ہے:

"ما جاء به على اخذ وما نهى عنه انتهی۔"

{یعنی جو شریعت علی لائے ہیں تو وہ لیتا ہوں اور جِس سے وہ روکیں رُکتا ہوں۔}

(اصول کافی)۔

"جريٰ له من الفضل ما جرى لمحمد كذالك يجرى الائمة الهدى واحدا بعد واحد"۔

{یعنی ان کی وہی شان ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی (معاذ اللہ) شان ہے۔ اسی طرح شان ہدایت کے باقی امام یکے بعد دیگرے بھی رکھتے ہیں۔"}

(اصول کافی ص ۱۲۷)

بلکہ العياذ باللہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جملہ تعلیمات باطل اور صِرف آئمہ کی تعلیمات برحق ہیں، ملاحظہ ہو:

"باب انه ليس شیء من الحق في يد الناس الا ما خرج من عند الائمة وان كل شيء لم يخرج من عندهم فهو باطل وفيه احاديث عن ابی جعفر رحمۃ اللّٰہ علیہ".

یعنی {کافی میں یہ باب باندھا گیا ہے کہ لوگوں کے پاس کُچھ بھی سچی تعلیم نہیں مگر جو آئمہ سے نکلے۔ اور جو ان سے نہ نکلے وہ سب باطل ہیں۔ اس میں امام جعفر کی کئی احادیث ہیں۔}

(اصول کافی ص ٣٩٢ ج ١)

چنانچہ اس منصب کی رو سے جو آئمہ کی نئی شریعت وجود میں آئی، اس میں...

♦️ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاک بیویوں، خسر اور دامادوں اور جانثاروں پر لعنت بھیجنا (تبرّا) اصولِ دین بن گیا۔

♦️ امام انبیاء سے بھی افضل ہو گئے۔

♦️ موت و حیات، زمین و آسمان کے بھی مالک ہو گئے۔

♦️ خُدا کو بھی صاحبِ بدا (جاہل) بتایا گیا۔

♦️ ٩-١٠ حصے دین اِسلام کو چھپانا اور جھوٹ بولنا واجب ہو گیا۔

♦️ زنا کو متعہ کے نام سے سب سے افضل نیکی بتایا گیا کہ:

"تین مرتبہ متعہ کرنے سے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا درجہ حاصل ہو جا تا ہے۔"

(تفسیر المنہج، پ ٥ ج ١)

♦️ غیر شیعہ اولادِ علی رضی اللہ تعالٰی عنہ اور سادات پر بھی لعنت بھیجنا جائز ہو گئی وغیرہ۔

(تفصیل کے لیے علماء اصول کافی ہی ملاحظہ کریں)۔

حضرت عُمر رضی اللہ تعالٰی عنہ پر جِن مسائل کی ایجاد کا الزام ہے وہ مذہبِ اہلِ سُنَّت میں غلط ہے۔ کیونکہ یہ مسائل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہیں:

♦️... اذان میں الصلٰوة خیر من النوم مرفوع یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے۔

(طحاوی ص ۸۲ ج ١، بیہقی، نیل الاوطار ص ٤٠ ج ۲)۔

⬅️ موطا امام مالک کی ایک روایت سے بعض حضرات کو غلطی لگی ہے اور حضرت عُمَر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی طرف نسبت کر دی۔

♦️... نمازِ تراویح باجماعت تین دن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود پڑھائی۔ (بُخاری ص ١٠١ ج ١)۔

⬅️ (حضرت عُمَر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک جماعت کی سُنَّت کو زِندہ کر دیا۔)

♦️... چار تکبیریں نمازِ جنازہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے۔ (بُخاری ص ١٧٨ ج ١)۔

⬅️ حضرت عُمَر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسے قانونی شکل دی۔

♦️... متعہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود حرام فرمایا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خیبر کے موقع پر حرمتِ متعہ کا اعلان فرمایا تھا۔

(صحیح المسلم ابواب المتعہ ص ٤۵۱ ج ١)۔

⬅️ حضرت عُمَر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تو تقیہ باز کُچھ لوگوں کی شرارت کے پیشِ نظر سخت قانون بنایا۔

 ... سُبْحٰنَكَ اللّٰهُمَّ

اور التحیات بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات سے ہے۔

(مستدرک ص ۲۳۵۔ ج ١)۔

⬅️ نیز شیعہ کتاب (من لا یحضره الفقیہ ص ۱۰۵)۔

♦️... تین طلاقیں معاً بائن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہیں۔ (بُخاری ص ٧٩١ ج ۲)۔

⬅️ فلو كان ممنوعة لا (فتح الباری)۔

اگر ناجائز ہوتیں تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ انکار کرتے۔

(حاشیہ بخاری ص ٧٩١ ج ۲)۔

♦️... قیاس احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مستنبط اور تمام فقهاء کا معمول بہ ہے۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ کو جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بصرہ کا قاضی بنا کر بھیجا تو پوچھا کہ:

"کِس کِس چیز سے فیصلہ کرو گے تو انہوں نے قرآن و سنت کے بعد اجتہاد (قیاس) کا نام لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت خوش ہوئے۔"

(مشکٰوۃ كتاب القضايا ص ٣٢٤)-

♦️ خود شیعہ کے علماء مجتہدین آئمہ سے غیر مروی مسائل میں قیاس ہی سے کام چلاتے ہیں۔ مگر یہ بے جان اور اذا مات المفتی مات الفتویٰ۔

(مفتی کے مرنے پر فتوی بھی باطل ہو گیا۔) کا مصداق ہوتا ہے۔

♦️ آخر میں معرکۃ الارآء سوال یہ ہے کہ...

♦️ بقول ان بدعاتِ عمری کو کیوں حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے عہدِ حکومت میں ختم نہ کیا ؟

♦️ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کیسے امام ہیں جبکہ شریعت میں کمی بیشی پر تقیہ کرتے اور لوگوں کی مخالفت کے خوف سے اجراء شریعت نہیں کرتے۔

♦️ حالانکہ (اصول کافی ص ۱۷۵) میں امام کی تعریف اور غرضِ بعثت بھی یہ لِکھی ہے:

"مسلمان اگر دین میں کچھ اضافہ کریں تو وہ امام رد کرے اور اگر کمی کریں تو پورا کرے۔"

♦️ اگر امام یہ کام نہ کرے تو اس کے وجود کا کیا فائدہ اور اس کے انکار پر تکفیر المسلمین کیوں ؟

♦️ اگر آپ برا نہ مانیں تو عرض کروں کہ متعہ جیسے حیا سوز مسئلہ کی حرمتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حضرت عُمَر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو آپ لوگ آج تک کیوں کوستے ہیں ؟؟ اب نہ عُمَر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خلافت ہے اور نہ آپ کا اصولِ تقیہ باقی اور سچا رہا۔ پھر ڈر کیسا؟

♦️ جرأت سے کام لے کر اپنی ہر مسجد، امام باڑہ اور کربلا کے ساتھ دارالمتعی بھی بنائیں اور اس کارخیر کے ذریعے اپنے مذہب کو خوب ترویج دیں۔

(شیعہ تفسیر منهج الصادقین پ ٥) کے مطابق تین تین مرتبہ جب متعہ کرنے سے لاکھوں شیعہ (العياذ باللہ) حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مثل و ہم مرتبہ بن جائیں گے تو سب دُنیا فتح ہو جائے گی۔