اگر کوئی شخص خلیفۂ وقت کو نہ مانے اور اس کی علی الاعلان مخالفت کرے تو ایسے شخص کی کیا سزا ہے ؟ مگر یادر ہے کہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا، معاویہ رضی اللہ عنہ، طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ نے خلیفۂ وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگیں کی ہیں۔ واقعات جنگ جمل، صفین اور نہروان کو پیشِ نظر رکھ کر فتویٰ صادر فرمائیں کہ خلیفۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنے والے کی کیا سزا ہے؟ انصاف مطلوب ہے۔
مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبنداگر کوئی شخص خلیفۂ وقت کو نہ مانے اور اس کی علی الاعلان مخالفت کرے تو ایسے شخص کی کیا سزا ہے ؟ مگر یادر ہے کہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا، معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ، طلحہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اور زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خلیفۂ وقت حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جنگیں کی ہیں۔ واقعاتِ جنگِ جمل، صفین اور نہروان کو پیشِ نظر رکھ کر فتویٰ صادر فرمائیں کہ خلیفۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کرنے والے کی کیا سزا ہے؟ انصاف مطلوب ہے۔
♦️ جواب اہل سُنَّت:- ♦️
پہلے مدلل بیان ہو چکا ہے کہ حضرت طلحہ رضی اللہ تعالٰی عنہ و زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا اور معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خلافتِ علوی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا انکار نہیں کیا اور نہ ہی اپنی خلافت کی وجہ سے مخالفت کی۔
"البتہ حکومتِ وقت سے حضرت عُثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بدلہ خون کا مطالبہ کیا جو آئینی حق تھا جبکہ قاتلانِ عُثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ، آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فوج میں شامل تھے۔
(مجالس المؤمنین ص ٢٨٤)۔
مگر حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بعض مصالح کے پیشِ نظر قصاص میں تاخیر کر رہے تھے۔ ان حضرات رضوان اللہ علیھم اجمعین نے دراصل آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اعانت در قصاص کے لیے فوج تیار کی تھی۔
"جمل کے موقع پر تبادلۂ خیال پر مسئلہ حل ہو گیا۔ مگر قاتلینِ عُثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس صلح میں اپنی موت دیکھ کر غداری سے رات کو جنگ بھڑکا دی۔"
(طبری ٤٨٩-٤٩٤ ج ٤)۔
تقریباً یہی سب کُچھ صفین میں ہوا۔
(تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو راقم کی کتاب عدالتِ صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیھم اجمعین، ص ٢٦٦-تا ٢٨٨)۔
لہٰذا ان حضرات رضوان اللہ علیھم اجمعین پر فتویٰ لگانا دراصل
"رضي اللہ عنھم ورضوا عنه"
اور
"وکلا وعد اللّٰه الحسنی"
(ہر ایک سے اللّٰه نے بھلائی (جنت) کا وعدہ فرمایا ہے) جیسی آیات پر قلم پھیرنا ہے۔
ایک مسلمان کی یہ جرات نہیں ہو سکتی ورنہ ہم بھی الزامًا یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان حضرات رضوان اللہ علیھم اجمعین نے دارالخلافہ مدینه و کوفہ پر تو حملہ نہیں کیا، قصاص کی طلب میں تیاری کرتے تھے تو کیوں کوفہ و مدینہ سے آ کر علوی لشکر نے ام المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنہا سے جنگ کی ؟ حالانکہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالٰی عنہ جیسے اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے منع بھی کیا اور فرمایا کہ:
"اگر مدینہ سے نکلو گے تو پھر کبھی مدینہ دارالخلافہ نہ رہ سکے گا۔"
(طبری ٤٥٦ ج ٤)۔
اور حواری پیغمبر اور پاسبانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کِس پاداش میں ذبح کیا گیا ؟ ساٹھ، ستر ہزار مسلمانوں کا خون استحکامِ خلافت کی خاطر بہانا جائز ہے ؟
(فما هو اجوابكم فهوا جوابنا)
اگر آپ خاطی کی نشاندہی پر خوش ہیں تو بعض اہلِ سُنَّت نے لِکھا ہے کہ حضرت علی رضی اللّہ تعالٰی عنہ سے اختلاف کرنے والے خطا پر تھے اور لیجیے اختلاف چھوڑ کر مسلمانوں سے مل جائیے۔