مذہبِ اہلِ سنت کی بنیاد چار اصولوں پر ہے۔ قرآن، حدیث، اجماع اور قیاس۔ سقیفہ بنی ساعده کی کاروائی کو پیش نظر رکھ کر ارشاد فرمائیں کہ کیا خلافت ثلاثہ قرآن یا حدیث سے ثابت ہے یا اجماع کی مرہونِ منت ؟
مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبندمذہبِ اہلِ سُنَّت کی بنیاد چار اصولوں پر ہے۔ قرآن، حدیث، اجماع اور قیاس۔ سقیفہ بنی ساعده کی کاروائی کو پیشِ نظر رکھ کر ارشاد فرمائیں کہ کیا خلافتِ ثلاثہ قُرآن یا حدیث سے ثابت ہے یا اجماع کی مرہونِ منت ؟ ہاں اگر اجماعی خلافت ہے تو قرآن مجید کی آیت
"لا رطب ولا با بس الا فی کتب مبین" (پ ٧، ع ٧)
پر غور فرما کر ارشاد فرمائیں...
♦️ جواب اہل سُنَّت:- ♦️
الحمد لللہ حسب اعتراف شیعہ، اہلِ سنت کے مذہب کی بنیاد چار چیزیں ہیں۔
(۱) قُرآن مجید...
(۲) حدیثِ مُصطفٰی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم...
(۳) اجماعِ امت...
(٤) قیاس...
شیعہ حضرات چونکہ ان مذکورہ چار بنیادوں کو نہیں مانتے لہٰذا وہ اہلِ سُنَّت کو کوستے رہتے ہیں۔
قُرآن کریم کی صحت و صداقت پر ان کو اعتبار ہی نہیں۔ دو ہزار اپنی متواتر احادیث کی رو سے اِسے محرف جانتے ہیں۔ (احتجاج طبرسی ۱۲۸)۔
اصول کافی میں قُرآن پاک کی تحریف و کمی پر مشتمل باب، ص ٤١١ تا ٤٢٦ پر موجود ہے۔
ترجمہ مقبول میں بھی بیسیوں آیات کو محرف بتلایا گیا ہے۔ لہٰذا قُرآن ان کے مذہب کی بنیاد ہو ہی نہیں سکتا۔
حدیثِ مُصطفٰی صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کے مقابلے میں انہوں نے ۹۰-۹۵ فیصد احادیث جعفر و صادق بنائی ہیں۔ رافضی حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بھی وهبي من اللّٰه مسلمان اور عالم لدنی مانتے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شاگردی میں آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی توہین جانتے ہیں لہٰذا بواسطہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی وہ حدیثِ مُصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں مان سکتے۔ بقیہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو تو وہ خارج از ایمان و عصمت قرار دیتے ہیں ان سے حدیثِ مُصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیسے لیں ؟
رہا اجماعِ امت، تو وہ اس کے کھلے منکر ہیں۔ تقریباً ہر مسئلہ میں امتِ محمدیہ سے الگ ہیں۔ اور اجماعِ امت ان کا دشمن ہے اور وہ اس کے ہاں متعہ، بدا، تقیہ و تکفیرِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین جیسے خود ساختہ مسائل میں وہ
اجمعیت الأمامية اتفق على اهل الامة-
اجماعِ اہل التشیع فرما کر اجماعِ شیعہ کے قائل ہو جاتے ہیں (ملاحظہ ہو کتب فقہ و اصول شیعہ)۔
اہلِ سُنَّت کے سامنے تو قیاس کی مذمت کرتے ہیں مگر قُرآن حدیث کے برخلاف اپنے ہر مسئلہ کو ڈھکوسلوں سے ثابت کرتے ہیں۔
فالى اللّٰه المشتکیٰ۔
آمد برسر مطلب خلفاء ثلاثہ کی خلافت قُرآن سے بھی ثابت ہے۔ جیسے:
✰... آیت استخلاف پ ١٨ ع ١٣ جِس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کا اٹل وعدہ ہے کہ بعد از پیغمبر صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم حسبِ سابق مؤمنین صالحین کو اللہ تعالٰی خلافت و حکومت ارضی نصیب کرے گا۔ ان کے دین کو مضبوط اور غالب اور خوف کو امن سے بدلے گا۔ سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ہی اسے حضرت عُمَر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خلافت پر چسپاں کیا جیسے کہ آگے آ رہا ہے۔
شیعہ مفسر طبری کہتے ہیں:
"یعنی اللہ تعالٰی ان خلفاء کو عرب و عجم کے کفار کی زمین کا وارث بنائے گا۔"
تاریخ شاہد ہے کہ یہ فتوحات، تمکین دین اور خوف کا خاتمہ، خلفاء ثلاثہ ہی کو نصیب ہوا۔
✰... قُلۡ لِّلۡمُخَلَّفِیۡنَ مِنَ الۡاَعۡرَابِ۔
(سورۃ الفتح، آیت نمبر ١٦، پ ٢٦)
✰... أَلَّذِیۡنَ إِنۡ مَّکَّنّٰہُمۡ۔
(سورۃ الحج، آیت نمبر ٤١، پ ١٧)
✰... وَ الَّذِیۡنَ ہَاجَرُوۡا۔
(سورۃ النحل، آیت نمبر ٤١، پ ١٤)
✰... مَنۡ یَّرۡتَدَّ مِنۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِهٖ۔
(سورۃ المائدۃ، آیت نمبر ٥٤، پ ٦)
✰... الٓـمّٓ۔ غُلِبَتِ الرُّومُ۔
(سورۃ الروم، آیت نمبر ١ ، ٢۔ پ ٢١)
اور احادیثِ مُصطفٰی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہیں...
✰... بعض ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالٰی عنھن کو خفیہ بتایا گیا کہ میرے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ و عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ خلفاء ہوں گے۔
(حیات القلوب، ص ٦١٠، ج ۲۔ تفسیر قمی ٣٥٤۔ مجمع البیان ص ٣١٤۔ سورۃ تحریم وغیرہ)۔
✰... ایک سائلہ عورت کے پوچھنے پر فرمایا میرے بعد ابوبکر رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ سے پوچھنا۔
(بُخاری ٥١٦)
✰... خندق کے موقع پر کسریٰ و قیصر کی فتح کی بشارت دی جو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور میں پوری ہوئی۔
(روضہ کافی ۱۲۰۔ حیات القلوب ٤٤٨ ج ٢)۔
اور عمل مرتضوی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بھی کہ آپ نے فرمایا:
میں ان دو شخصوں سے ضرور لڑوں گا۔ جو ناحق دعوی کرے اور جو حق کو دوسرے سے روکے۔
(نہج البلاغہ)۔
تاریخ شاہد ہے کہ خلفاء ثلاثہ رضوان اللہ علیھم اجمعین سے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جنگ نہیں کی۔ معلوم ہوا ان کی خلافت برحق تھی۔
اجمالی خلافت بایں معنی یہ ہے کہ سب مسلمانوں نے بالاتفاق ان حضرات کے ہاتھ پر بیعت کی۔ عہدِ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی طرح کثیر تعداد الگ نہیں رہی۔ بالفرض اگر قرآن و حدیث سے کوئی دلیل نہ ہوتی تب بھی اجماعِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے خلافت حقہ ثابت ہو جاتی کیونکہ اجتماعی معاملات کے متعلق اللہ تعالٰی نے یہ تعلیم دی ہے:
وَ اَمۡرُہُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَہُمۡ۔
کہ رب تعالٰی کے مطیع بندے آپس میں مشورے سے اپنے معاملات طے کرتے ہیں۔
(سورۃ الشوریٰ، آیت نمبر ٣٨)
شوریٰ اور اجماع پر اس سے بڑی حجیت اور کیا چاہیے یا جیسے نہج البلاغہ نے حضرت امیر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا:
"میری بھی ان لوگوں نے بیعت کہ جنہوں نے ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ، عُمَر رضی اللہ تعالٰی عنہ و عُثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بیعت کی۔"
اگر مہاجرین و انصار ایک شخص پر اتفاق کر کے اسے امام بنا لیں تو وہ اللہ تعالٰی کا منتخب امام ہوتا ہے۔ خود حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کو آئمہ شیعہ کی طرح خودستائی کے رنگ میں آیت بالا سے خلافت ثابت کرنے کی کیا حاجت تھی؟؟ مزہ اس میں ہے کہ دوسرے حضرات آیات اور عملِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت کریں جیسے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آپ کے حق میں آیتِ استخلاف پڑھ کر چسپاں کر دی تھی۔
(نہج البلاغہ مع شرح فیض الاسلام، ص ٤٣٤، ج ١)
زیر خطبہ
"نحن على موعود من اللّٰه واللّٰه الفضل۔"
کسی وعدے کے ایفا اور پیشنگوئی کے پورا ہو چُکنے کے بعد ہی اس کی حکایت ہوتی ہے۔ قبل از تکمیل کچھ کہنا موزوں نہیں لگتا۔ جیسے غزوۂ خیبر کے موقع پر آپ کے محبّ خُدا اور محبّ خُدا وغیرہ کے اوصاف فرمودہ کی تعیین اسی وقت ہوئی جب حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو علم ملا۔ اس سے پہلے ہر شخص امیدوار تھا۔