Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

ارشاد فرمائیں کہ مومن کو عمداً قتل کرنے والا لعنتی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا تو جمل، صفین اور نہروان کے کُل مقتول ٥٧٨٠٧ کے قاتل کہاں جائیں گے؟ کیا کلامِ مجید کے قوانین سے صحابہ کرام (رضوان اللہ علیھم اجمعین) مستثنٰی ہیں؟؟

  مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند

قُرآن پاک میں قدرت کا اشارہ ہے:

وَ مَنۡ یَّقۡتُلۡ مُؤۡمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیۡہَا وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَ لَعَنَہٗ وَ اَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیۡمًا ﴿۹۳﴾

(سورۃ النساء ،پ ٥، آيت نمبر ٩٣)۔

جو کوئی مار ڈالے مسلمان کو جان کر پس سزا اس کی دوزخ ہے ہمیشہ رہنے والا بیچ اس کے اور غصہ ہو اللّٰهﷻ اوپر اس کے اور لعنت کی اس کو اور تیار رکھا ہے واسطے اس کے عذاب بڑا (ترجمہ شاہ رفیع الدین)۔

ارشاد فرمائیں کہ مومن کو عمداً قتل کرنے والا لعنتی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا تو جمل، صفین اور نہروان کے کُل مقتول ٥٧٨٠٧ کے قاتل کہاں جائیں گے؟ کیا کلامِ مجید کے قوانین سے صحابہ کرام (رضوان اللہ علیھم اجمعین) مستثنٰی ہیں؟؟

♦️  جواب اہل سُنَّت:- ♦️

اصل تحقیقی جواب یہ ہے کہ آیت مذکورہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ان جنگوں پر صادق نہیں آتی کیونکہ نہروان والے خوارج میں ایمان کی شرط نہ تھی۔ حدیث مرفوع میں ان کے قاتل کی مدح مذکور ہے کہ وہ حق کے قریب ترین گروہ ہو گا۔ جمل کا معرکہ دھوکہ اور لاعلمی سے ہوا۔ عمداً کی شرط نہ پائی گئی۔ صفین میں گو طرفین سے ایمان اور فی الجملہ عمد تھا مگر طرفین اپنے اجتہاد کی رو سے آیت

فقاتلو التي تبغي حتى تفي ء الى امر اللّٰه

(اس گروہ سے لڑو جو فتنہ چاہتا ہے، یہاں تک کہ اللہﷻ کے حکم کی طرف آجائیں)

پر ہی عمل پیرا ہوئے۔ لشکر علوی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اہلِ شام کو باغی جانا اور اہلِ شام نے قاتلانِ حُسین رضی اللہ تعالٰی عنہ اور سبائیوں کو جو لشکرِ علوی رضی اللہ تعالٰی عنہ میں بکثرت تھے جانا اور ان سے جنگ کی، اپنے علم و اجتهاد میں ہر فریق صاحبِ دلیل اور معذور تھا۔

ارشاد نبوی کے مطابق مجتہد خاطی پر کوئی گرفت نہیں ہوتی اور التزامی یہ ہے کہ بُغضِ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم میں مست شیعہ معترض، اس سوال میں حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ پر ہی (العياذ باللہ) فتوی لگا رہا ہے۔ کیونکہ "جنگِ نہروان میں حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ہی آپ کی امامت کو منصوص من اللہ (ان الحكم الا للّٰه) کہنے والے شیعانِ علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو خروج کی بنا پر تہہ تیغ کر کے خوشی منائی۔"

(طبری ص ۸۹ ج ٥)

کوفہ اور کُچھ اہلِ مدینہ سے لشکر جرار لا کر بصرہ کے مقام پر حضرت طلحہ رضی اللہ تعالٰی عنہ، حضرت زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا طالبان قصاصِ عُثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کو لشکرِ علوی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ہی صلح کر چُکنے کے بعد غدر کر کے تہہ تیغ کیا اور اس پر اب شیعہ کو فخر بھی ہے۔"

(طبری ص ٤٨٩ تا ٤٩٤ ج ٤)

"اور کوفہ سے لشکر جرار لا کر حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے شام پر چڑھائی کی۔"

(طبری ٥٦٣ ج ٤)

"اور صفین کے مقام پر از خود خونریز معرکہ برپا کیا۔"

(طبری ص ٥٧٤ ج ٤)

"فریق مخالف تو محض قصاصِ حضرت عُثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ مظلوم کے طالب تھے۔ انہیں تو دفاع کرنا پڑا، بعد از قصاص بیعتِ حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ چاہتے تھے۔"

(طبری ص ٦ ج ٥)

♦️ اب فرمائیے ! بلوایانِ عُثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سازش سے ان جنگوں کا ہیرو اور قاتل المسلمین کون ٹھہرا اور قُرآنی فتویٰ کِس پر چسپاں ہوا ؟؟

اہلِ سنت نے اس پس منظر کو جانتے ہوئے حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ اور آپ کے لشکر کو اور اسی طرح طالبینِ قصاص کو خطرناک قرآنی فتوے سے بچانے کے لیے متفقہ طور پر استثنائی فیصلہ دیا کہ یہ خانہ جنگیاں اجتہادی غلط فہمی کا نتیجہ ہیں۔ طرفین سے طلب صواب میں ہی یہ کام ہوا، نیت ہر ایک کی نیک تھی۔ دونوں کے صحیح النیت مقتول بھی جنتی ہیں اور طعن و تشنیع بھی کسی پر روا نہیں۔ فرمائیے اس فیصلے سے آپ کو کیا دُکھ ہے ؟؟ اور آپ کا کیا نُقصان ہوتا ہے ؟

ہم تو مسلمان ہیں اور

فاصلحو بين اخویکم

(بصورت لڑائی اپنے بھائیوں میں صلح کرواؤ)

کے تحت یہ مصالحانہ فیصلہ کیا۔ اس مفید مسلمین فیصلے سے آپ کا انکار کیا دُشمنِ اِسلام اور دُشمنِ علی رضی اللہ تعالٰی عنہ ہونے کی صریح پختہ دلیل نہیں ...؟؟

اگر اہلِ سنت کا یہ فیصلہ نہ ہوتا تو مسلمانوں کی عظیم اکثریت ان جنگوں کی بدولت حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اسی طرح الگ ہوتی جیسے خود ان کے دورِ حکومت کے اواخر میں سوائے صوبہ حجاز اور کچھ عراق کے لوگ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی طرفدار ہو گئی اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو مصالحت کرنا پڑی۔"

(طبری ص ١٤٠، ج ۵، ازالة الخلفاء)

اور حضرت عبداللّٰہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یہ اندیشہ صحیح ثابت ہو کر رہا کہ حضرت معاویہ ولی دم عُثمان پوری ملت اسلامیہ کے ایک دن خلیفہ بن جائیں گے کیونکہ ارشاد ہے:

وَ لَا تَقۡتُلُوا النَّفۡسَ الَّتِیۡ حَرَّمَ اللّٰہُ إِلَّا بِالۡحَقِّ ؕ وَ مَنۡ قُتِلَ مَظۡلُوۡمًا فَقَدۡ جَعَلۡنَا لِوَلِیِّہٖ سُلۡطٰنًا فَلَا یُسۡرِفۡ فِّی الۡقَتۡلِ ؕ اِنَّہٗ کَانَ مَنۡصُوۡرًا ﴿۳۳﴾

(پ ١٥، سورة بنى اسرائيل، آيت نمبر ٣٣)

(جو شخص ظلماً قتل ہو جائے اس کے ولی الدم کو ہم غلبہ دیں گے پس وہ قتل میں زیادتی نہ کرے۔ بے شک من جانب اللہ اس کی مدد کی جائے گی)۔

شرکاء و شهداء جمل و صفین کے متعلق معترض کو حضرت علی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کے اس فیصلے پر ایمان لا کر کفر سے توبہ کر لینی چاہیے:

قتلایٰ و قتلٰی معاویة فی الجنة۔

یعنی میرے لشکر کے مقتول اور معاویہ کے لشکر کے مقتول جنت میں ہوں گے۔

(رواه الطبرانی)

نیز حضرت علی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کا یہ مشہور خطبہ ہے جِس میں آپ نے جمل و صفین کی روئیداد اور فیصلہ کو اپنی مملکت میں نشر کیا کہ:

"ہمارے معاملے کی ابتداء یوں ہوئی کہ ہم اور شامی جماعت برسرِ پیکار ہو گئے حالانکہ کھلی بات ہے۔ ہمارا پروردگار ایک، ہمارا نبی ایک (اس میں شیعہ عقیدہ امامت کا ذکر نہیں)، ہماری اِسلام کی طرف دعوت ایک، نہ ہم ان شامیوں سے اللّٰهﷻ پر ایمان لانے اور حضور صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق میں زیادتی کے خواہاں ہیں، نہ وہ ہم سے یہ چاہتے ہیں۔ ہر بات ایک اور متفق علیہ ہے بجز اس کے کہ حضرت عُثمان غنی رضی اللّٰهُ تعالٰی کے خوان میں ہمارا اختلاف ہوا اور ہم اس سے بری ہیں۔"

(نہج البلاغہ، ص ١٢٥ ج ٣)

قاضئ امت حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اس فیصلے نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ و اہلِ شام کو برحق مومن کامل بتا دیا۔ اس فیصلے کا منکر، مُنکرِ علی رضی اللہ تعالٰی عنہ اور مُنکرِ علی رضی اللہ تعالٰی عنہ عند الشیعہ جہنمی ہے۔