ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں میں سے کِسی کی مثال پیش کی جا سکتی ہے کہ پیغمبر کے انتقال پر امت نے نبی کے جنازے پر خلیفہ کے انتخاب کو فوقیت دی ہو؟ اگر ایسی کوئی مثال ما سلف میں نہ ملے تو امت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنا کیونکر مناسب سمجھا؟
مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبندایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں میں سے کِسی کی مثال پیش کی جا سکتی ہے کہ پیغمبر کے انتقال پر امت نے نبی کے جنازے پر خلیفہ کے انتخاب کو فوقیت دی ہو؟؟ اگر ایسی کوئی مثال ما سلف میں نہ ملے تو اُمَّتِ مُصطفٰی ﷺ نے ایسا کرنا کیونکر مناسب سمجھا ؟؟
♦️ جواب اہل سُنَّت:- ♦️
سابق پیغمبر کے خلفاء بھی تدفین سے قبل متعین ہو جاتے اور امت ان پر اتفاق کر لیتی۔ جیسے حضرت موسٰی علیہ السلام کے خلیفہ حضرت یوشع بن نون علیہ السلام۔ سابقہ کسی پیغمبر کی کیا حاجت ایک شریعت دوسری سے مختلف ہو سکتی ہے۔ جیسے مشکوٰۃ شریف میں صحیحین کی روایت ہے کہ:
"بنی اسرائیل کی سیاست اور حکومت انبیاء علیہم السلام کیا کرتے تھے۔ جب ایک نبی فوت ہوتا دوسرا اس کا جانشین ہو جاتا۔ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا ہاں خلفاء ہوں گے جِن کی تعداد بہت ہو گی۔"
معلوم ہوا کہ سابقہ انبیاء علیہم السلام کے عہد میں انتخاب کی ضرورت ہی نہ تھی، ہاں ختمِ نبوت کی وجہ سے اس امت کو انتخاب کی ضرورت تھی۔ اس کا پہلی امت پر قیاس کرنا باطل ہوا مع ہذا سید الرسل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و اصحابه رضوان اللہ علیھم اجمعین کی امت میں یہی قانون ہے کہ امت کسی وقت بھی قائد کے بغیر نہ ہو۔ خود شیعہ کے ہاں یہ اصول مسلم ہے کہ:
"نبی یا امام کے آخری ایام میں اس کا جانشین بنا دیا جاتا ہے۔"
(في آخر دقيقة من حیات الأول، کافی ص ۲۷۵ ج ١)
"حضرت حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ والد ماجد کی تدفین سے قبل ہی منبرِ خلافت پر جلوہ افروز ہوئے اور اپنے فضائل بیان کرنے کے بعد بیعت لینا شروع کی۔"
(جلاء العيون ٢١٩)
جب ہر شیعہ امام اپنے پیشرو کی وفات سے قبل امام بن جاتا ہے لہٰذا اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جانشین قبل از تدفین بنا دیا جائے تو کیا برائی ہے ...؟؟ "
"صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے چند گھنٹے بھی بلا خلیفہ ہونا مکروہ جانا۔"
(طبری ٢٠٧ ج ۲)
مدینہ کے اس وقت کے مخصوص حالات سے قطع نظر عقلًا یوں بھی انتخاب ضروری ہے کہ امت کا ہر کام امام کی نگرانی میں ہو اور اختلاف پیدا نہ ہو یا امام اسے مٹا دے۔ "چنانچہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے انتخاب کے بعد جائے تدفین میں اختلاف ہوا۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ارشاد پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جائے ارتحال پر دفن کیا گیا۔"
(طبری ۲۱۳ ج ۲)
آخری وصایا تجہیز و تدفین حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ ہی کو فرمائیں اور دوسروں کو بتانے کا حکم دیا"
(جلاء العيون، ص ٧٠)
اور آپ نے بامر نبوی اس کام کو تقسیم کیا۔
جنازہ کے وقت نہ صِرف آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ موجود تھے بلکہ لوگ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بروایت (جلاء العيون ص ۷۰) امام بنانا چاہتے تھے۔ لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مشورے سے فرداً فرداً تمام مہاجرین و انصار رضوان اللہ علیھم اجمعین نے نماز پڑھی اور مدینہ و نوح مدینہ کا کوئی آدمی یا مرد یا عورت باقی نہ رہا جِس نے جنازہ بصورت دعا نہ پڑھی ہو۔"
(اصول کافی باب مدفنه وصلاته عليه، حیات القلوب ص ٦٩٧ ج ٢)
اہلِ سنت کی معتبر تاريخ البدایہ والنہایہ اور طبقات ابن سعد کی روایت کے مطابق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مشورے سے ۱۰ - ۱۰ آدمیوں نے فرداً فرداً حجرے میں بصورتِ دعا نماز جنازہ سب مسلمانوں نے پڑھی۔
(حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما پر تدفین و جنازے میں غیر حاضری کا طعن صریح جھوٹ ہے۔)
بیعت امام ایک اِسلامی فریضہ تھا جو بہر صورت ادا کرنا تھا اگر قبل از تدفین وجود میں آ گیا تو شیعہ کو کیا دکھ ہے ؟ حسب روایت شیعہ (در کافی، ص ٢٤٤- رجال کشی، ص ٨) وغیرہ (کہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا سوائے تین چار شخصوں کے کوئی طرفدار ہی نہ تھا) اگر ایک مہینہ بھی انتخاب مؤخر ہو جاتا تو بھی حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو خلافت نہ مِلتی۔ ہاں امت افتراق و اختلاف کا شکار ہو جاتی۔ منافق سازش کرتے، فتنہ ارتداد اور کفار کی یلغار کو روکنے والا کوئی نہ ہوتا۔ پیغمبرِ اِسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے ساتھ اِسلام کا جنازہ بھی اُٹھ جاتا تو آج شیعہ خوشی سے بغلیں بجاتے۔ جیسا کہ آج بھی ان کا قطعی متفقہ عقیدہ ہے کہ:
"حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد سوائے چار آدمیوں کے سب مرتد ہو گئے۔"
(روضہ کافی، ص ٢٤٦-٢٩٦، مامقانی نے تنقیح المقال ص ٢١٦ میں ان روایات کو متواتر کہا ہے)
یہ ہے اِن کا اِسلام اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور قُربانی سے محبت۔۔۔
حیف ایسے اسلام اور عقیدۂ امامت پر۔ آخر میں بطور الزام یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ بنو ہاشم کو مرض وفات ہی میں خلافت کا فکر تھا۔
"حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے جانا چاہا۔ مگر آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ میں نہ پوچھوں کا کیونکہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انکار فرما دیا تو پھر کوئی امید باقی نہ رہے گی۔"
(بُخاری، مرضِ نبی صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم)
"پھر تجہیز و تدفین سے پہلے انصار سقیفہ میں اگر جمع ہوئے تو بنو ہاشم و علی رضی اللہ تعالٰی عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے گھر میں چھوڑ کر حجرہ فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا میں جمع ہوئے۔ طلحہ و زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہما ان کے ساتھ تھے۔"
(طبری، ١٨٢)