اگر حسبنا کتاب اللہ ایک امتحان کا جواب تھا جو عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے درست دیا، تو اس واقعہ قرطاس میں اس بزرگ نے کس سیاست کے تحت ارشاد فرمایا کہ اس مرد کو ہذیان ہو گیا ہے ۔
مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبنداگر حسبنا کتاب اللہ ایک امتحان کا جواب تھا جو عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے درست دیا، تو اس واقعہ قرطاس میں اس بزرگ نے کس سیاست کے تحت ارشاد فرمایا کہ اس مرد کو ہذیان ہو گیا ہے ۔
(دیکھو بُخاری شریف الفاروق ص ١١٢)
♦️ جواب اہل سُنَّت:-♦️
صحاح اہلِ سنت کی روشنی میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی طرف ہذیان کہنے کی نسبت صریح بددیانتی ہے۔ کیونکہ حدیث قرطاس میں،
ایتونی فتنازعوا فقالو ما شانه، اهجر استفهموه، فذهبوا فاختلف أهل البيت فاختصموا...
(بخاری ص ٤٢٩، ٤٩٧ ج ١، ١٠٩٥، ٧٦٣٥ ج ٢ وغیره)
میں یہ سب جمع کے صیغے ہیں۔ جھگڑے کی نسبت بھی اہلِ بیت رضوان اللہ علیھم اجمعین کی طرف ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تو صرف اس قدر فرمایا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سخت تکلیف ہے (لِکھوانے کی تکلیف نہ دو) ہمیں اللّٰہﷻ کی کتاب کافی ہے۔ یہ کہنا کوئی جرم نہیں کیونکہ یہ آیت
أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّآ أَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ (پ ٢١، سورۃ العنکبوت، آیت نمبر ٥١)
"کیا ان کو ہماری نازل کردہ کتاب کافی نہیں"،
کا مفہوم و ترجمہ ہی ہے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نہج البلاغہ میں اور امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ نے کافی میں کئی جگہ کتاب اللہ پر انحصار فرمایا۔ جیسے یہاں مفہوم مخالف مراد لے کر حدیث کی حجیت سے انکار درست نہیں تو قصۂ قرطاس میں بھی درست نہیں تا کہ رد قول پیغمبر پر لازم آئے۔
البتہ صلح حدیبیہ میں حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اپنا اسمِ گرامی مٹانے کا اس سے صریح تر شخصی حکم تھا مگر آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے قسمیہ انکار کیا، پھر خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مٹایا۔
علاوہ ازین اهجر کے معنی ہذیان لینا ہی غلط ہے۔ مشترک و ذوالوجوه لفظ کے معنی محل و قرینہ کے لحاظ سے متعین ہوتے ہیں۔ قرآن پاک میں یہی ٦ بار مادہ و صيغة استعال ہوا ہے مثلًا تهجرون، فاهجرهم، هجرا جميلا... (مزمل) سب جگہ چھوڑنے اور علیحدگی کے معنی میں ہے۔ فهجرت ابا بکر ان يهجر أخاه جیسی احادیث میں بھی ترک اور جدائی کا معنی متعین ہے تو پھر اس قصہ میں ہی یہ معنی کیوں درست نہیں ...؟؟ کیا لغت کے صرف ایک ہی معنی ہذیان پر اصرار، صریح عُمَر رضی اللّٰه تعالٰی عنہ دُشمنی نہیں ...؟؟ یہاں مناسب معنی یہ ہے جیسے قاموس میں تصریح ہے: "کیا آپ دُنیا چھوڑ کر جانے والے ہیں، آپ سے پوچھ لو۔"
اگر ہذیان کے معنی لیے جائیں تو پوچھ لو بے معنی ہو جاتا ہے کیونکہ مخبوط العقل سے پوچھا نہیں جاتا۔
"شارحین اہلِ سنت علامہ کرمانی اور نووی وغیرہ یہی معنی کرتے ہیں۔"
(حاشیہ بخاری ٦٢٨ ج ۲)
فرض کریں کہ معنی وہی ہیں تو استفہام انکاری ہے، ہذیان کی تو نفی ہو گئی۔ شبلی نے صرف ایک معنی لکھ کر پھر اس کی حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے نفی بھی کی ہے۔
الغرض آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قلم دوات مانگنا، امتحان تھا۔ صحیح جواب مِلنے پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے۔ ورنہ اگر (بقول شیعہ) بحکمِ خُداوندی خلافتِ علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا فیصلہ لِکھنا ہوتا تو پھر ضرور لِکھواتے۔ قولِ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اور لوگوں کے اختلاف کی پرواہ نہ کرتے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ اور اہلِ بیت رضوان اللہ علیھم اجمعین ہی قلم دوات لا کر اپنا حق لِکھوا لیتے۔ حتٰی کہ اس واقعہ کے چار دِن بعد تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زِندہ رہے، زبانی ہی وصیت کر دیتے، ورنہ تبلیغِ رسالت میں کوتاہی لازم آتی ہے۔