ملاں لوگ بیان کرتے ہیں کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کو شیعوں ہی نے قتل شہید کیا اور اب شیعہ اپنے ان مذموم افعال پر روتے پیٹتے ہیں۔ تو سانحۂ کربلا کے موقع پر اہل سنت نے امام مظلوم کی مدد کیوں نہ کی جبکہ لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں اس وقت اہلِ سنت موجود تھے؟
مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبندملاں لوگ بیان کرتے ہیں کہ حضرت امام حُسین علیہ السلام کو شیعوں ہی نے قتل شہید کیا اور اب شیعہ اپنے ان مذموم افعال پر روتے پیٹتے ہیں۔ تو سانحۂ کربلا کے موقع پر اہلِ سنت نے امام مظلوم کی مدد کیوں نہ کی جبکہ لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں اس وقت اہلِ سنت موجود تھے؟؟
♦️ جواب اہل سُنَّت:-♦️
فرقہ شیعہ کو ہی غدار اور قاتلِ حُسین رضی اللہ تعالٰی عنہ بتانے والے معمولی ملاں نہیں بلکہ ان ملاؤں کے پیشوایان، حضرات اہلِ بیت کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین ہی ہیں، ملا حظہ فرمائیں:
✰... حضرت حُسین رضی اللہ تعالٰی عنہ نے دُعا دی تھی،
"اے اللہﷻ ! ان شیعانِ کوفہ نے مُجھے اپنی مدد کیلئے بلایا، پھر ہمیں قتل کرنے کے درپے ہیں۔
اے اللہﷻ ! ان سے میرا انتقام لے اور حاکموں کو کبھی ان سے خوش نہ رکھ۔"
(جلاء العیون، ص ٤٠٥)
تاریخ میں ہر حکومتوں کے ہاتھوں شیعہ کی بربادی سمجھ میں آ گئی۔
✰... "اے بیوفاؤ ! غدارو ! مجبوری کے وقت اپنی مدد کیلئے تم نے ہمیں بلایا، جب ہم آگئے تو کینے کی تلوار ہم پر چلائی۔"
(جلاء العیون، ص ۳۹۱)
✰... "تُم پر تباہی ہو، حق تعالٰی دونوں جہانوں میں میرا تم سے بدلہ لے گا خود اپنی تلواریں ایک دوسرے کے منہ پر چلاؤ گے اور اپنا خون خود بہاؤ گے اور دنیا سے نفع نہ پاؤ گے، اپنی امیدوں کو نہ پہنچو گے اور آخرت میں تو کافروں والا بدترین عذاب تمہارے لئے تیار ہے۔"
(جلاء العیون، ص ٤٠٩)
✰... جب شیعانِ کوفہ قتل کے بعد بات کرنے لگے تو زین العابدین رحمة اللہ علیہ نے فرمایا:
"تو ہم پر روتے ہو تو بتاؤ ہم کو کِس نے قتل کیا ہے۔"
(جلاء العیون، ص ٤١١)
✰... سیدہ زینب رضی اللہ تعالٰی عنہا نے ان گرگوں کے ماتم پر فرمایا:
"تُم نے ہمیشہ کیلئے اپنے کو جہنمی بنا لیا۔ تُم ہم پر ماتم کرتے ہو جب کہ تم ہی نے خود قتل کیا ہے۔ اللہﷻ کی قسم یہ ضرور ہو گا کہ تم بہت روؤ گے اور کم ہنسو گے۔ تُم نے عیب اور الزام اپنے لیے خرید لیا ہے۔ یہ دھبا کِسی پانی سے زائل نہ ہوگا۔"
(جلاء العيون ص ٤٢٤)
✰... حضرت فاطمہ بنتِ حُسین رضی اللہ تعالٰی عنہا نے فرمایا:
"اے کوفی غدارو ! اور مکارو ! ہمارے قتل کے بعد جلدی اپنے انجام کو پہنچو گے۔ پے در پے آسمان سے عذاب تُم پر نازل ہوں گے جو تُمہیں برباد کریں گے۔ اپنی کرتوتوں کی بدولت اپنی تلواریں اپنوں پر چلاؤ گے۔"
(جلاء العیون، ص ٤٢٥)
شیعہ اگر قاتلِ اہلِ بیت رضی اللہ تعالٰی عنھم نہیں تو واضح کریں یہ بدعائیں، سینہ زنی، خودکشی اور زد و کوب کی سزائیں کِس کو مل رہی ہیں ...؟؟ شیعہ کی تاریخی مظلومیت اور بے کسی میں کیا راز ہے ...؟؟
فاعتبرو یا اولی الابصار ۔۔۔
حضرت امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ پر بھی شیعہ ہی نے قاتلانہ حملہ کیا، ران کاٹی اور مصلّٰی سمیت سب مال ومتاع لوٹ لیا۔ تبھی تو امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا تھا:
"میرے شیعہ کہلانے والوں سے معاویہ رضی اللّٰه تعالٰی عنہ میرے لیے بہتر ہیں۔"
(احتجاج طبرسی، ص ١٥٧)
شیعہ کتاب اعلام الوری ص ۲۱۹ پر قاتلینِ امام کی کیا خوب نشاندہی کی گئی ہے:
"اہلِ کوفہ نے آپ کی بیعت کی، نصرت کے ضامن بنے پھر بیعت توڑ دی اور آپ کو بے یار و مددگار دُشمن کے حوالے کیا۔ آپ پر خروج کر کے آپ کا محاصرہ کر لیا جہاں حضرت حُسین رضی اللّٰه تعالٰی عنہ کا کوئی مددگار تھا اور نہ جائے فرار۔ ان لوگوں نے آپ پر دریائے فرات کا پانی بند کر دیا پھر قدرت پا کر آپ کو اس طرح شہید کر دیا جس طرح آپ کے والد اور بھائی (ان کے ہاتھوں) شہید ہوئے تھے۔"
اُمید ہے اب معترض کوتسلی ہو چکی ہو گی۔
پہلی صدی ہی میں کروڑوں اہلِ سنت کا وجود تسلیم کر کے ان کی قدامت اور صداقت پر اور مذہب شیعہ کے خود ساختہ بدعت ہونے پر معترض نے مہر تصدیق ثبت کر دی۔
رہا یہ امر کہ اہلِ سنت نے کیوں حضرت حُسین رضی اللّٰه تعالٰی عنہ کی مدد نہ کی تو وضاحت یہ ہے کہ:
"کوفہ شیعستان تھا۔"
(مجالس المومنین ص ٥٦)۔
ایک لاکھ تلواریں مہیا کر کے حکومت کے لئے آپ کو بلانے والے شیعہ (جلاء العیون ص ۲۷۰) کے متعلق یہ گمان نہ تھا کہ وہ خود ہی امام مظلوم مخدوع کو شہید کر کے اِسلام زِندہ کر دِکھائیں گے۔ سب حضرات اہلِ مکہ اور حضرت علی رضی ﷲ تعالٰی عنہ کے کئی صاحبزادوں اور دامادوں نے آپ کو کوفہ جانے سے روکا۔
(جلاء العیون، ص ۳۷۰)
مگر حضرت جانے پر ہی مصر رہے، تمام احتیاط کے طور پر ٥٠-٦٠ نوجوان، اہلِ سنت نے آپ کے ساتھ کر دیے جو آخر دم تک شرطِ وفاداری میں آپ کے ساتھ شہید ہوئے اور جِن کے فرشتوں نے بھی کبھی مذہبِ شیعہ کا دعوی نہ کیا تھا (مسسن ادعی فعلیه البیان) یہی وجہ ہے کہ شیعہ ذاکرین مجالس میں ان کا نام لینا ہی گناہ سمجھتے ہیں۔ پھر اہلِ سنت کے شہر دمشق میں قافلہ اہلِ بیت رضی اللّٰه تعالٰی عنھم کے ساتھ کوفہ کی نسبت عمدہ سلوک ہوا۔
(جلاء العیون، ٤٤٩ وغیرہ)۔
حسن صلہ میں حضرت زینب رضی اللّٰه تعالٰی عنہا تو اسی شہر میں ٹھہر گئیں اور شام میں تاہنوزان کا مزار مرجع خلائق ہے۔ پھر اہلِ سنت کے قابل صد افتخار مرکز مدینہ منورہ اہلِ بیت رضی اللّٰه تعالٰی عنھم کو ہمیشہ کے لیے باعزت اپنے دامن میں ٹھہرایا۔ پھر ان حضرات نے کوفہ کا نام ہی نہیں لیا۔ اہلِ مکہ و مدینہ کا احترامِ اہلِ بیت رضی اللّٰه تعالٰی عنھم ایک تاریخی حقیقت ہے۔ ان کے سنی مذہب ہونے پر قاضی نور اللّٰه شوستری کی شہادت کافی ہے:
اما مکہ و مدینہ محبت ابوبکر و عمر بر ایشاں غالب است...
مکہ اور مدینہ والوں پر حضرت ابوبکر و عمر رضی اللّٰه تعالٰی عنہما کی محبت غالب تھی۔
(مجالس المومنین، ص ٥٥، حال کوفہ)