Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

اہلِ سنت کی حدیث کی کتابوں میں ابوہریرہؓ، عبداللّٰہ بن عمرؓ اور عائشہؓ سے کثرت احادیثِ پیغمبر صلیﷺ مروی ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ حضرت علی المُرتضیؓ، فاطمہؓ، حسنؓ، حُسینؓ اور دیگر بزرگوں سے علم میں کم تھے یا انہیں آنحضرتﷺ کے پاس رہنے کا ابو ہریرہؓ  وغیرہ سے کم موقع ملا ؟؟

  مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند

اہلِ سنت کی حدیث کی کتابوں میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ، عبداللّٰہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اور عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے کثرت احادیثِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مروی ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ حضرت علی المُرتضی رضی اللہ تعالٰی عنہ، فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا، حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ، حُسین رضی اللہ تعالٰی عنہ اور دیگر بزرگوں سے علم میں کم تھے یا انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس رہنے کا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ وغیرہ سے کم موقع ملا ؟؟

اس سوال کا جواب تلاش کرتے وقت حدیثِ نبوی ۔

"انا مدينة العلم و على بابها و اعلم امتي بعدی علی بن ابی طالب"

زیرِ نظر رہے۔

♦️ جواب اہل سُنَّت:-♦️

اللہ تعالٰی مخصوص خدمات کیلئے بعض بندوں کو چُن لیتے ہیں، ہر جگہ ایک ہی حیثیت سے مقابلہ نہیں ہوتا۔

✰... حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نہایت کم گو اور شرمیلی تھیں اور عمر بھی بعد از پیغمبر صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم ٦ ماه پائی۔ ان سے روایت کم ہوئیں۔

✰... حضرت حسنین رضی اللہ تعالٰی عنہما نے صغر کم سنی کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کم روایات کیں، پھر سیاسیات میں زیادہ مشغول رہے۔

✰... حضرت حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ڈھائی تین صد شادیوں نے بھی کافی وقت لیا۔

(جلاء العیون، ص ٢٧٧)۔

تاہم آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ٢٥٢٠ روایات مروی ہیں۔

✰... حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ و دیگر خلفاء کی طرح سیاسیات اور امورِ سلطنت میں مشغول رہے اس لئے علم کی نسبت کم احادیث مروی ہیں، جیسے کہ خود خلفاء ثلاثہ رضی اللہ تعالٰی عنہم سے بھی مکثرین کی نسبت کم احادیث مروی ہیں۔

✰... رہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ۵۸ ھ، عبد اللّٰہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ٧٠ ھ اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا ۵۸ ھ، اہلِ سنت کے کثیر الروایۃ حضرات، تو انہوں نے اپنی طویل زندگی کا نصب العین بی قال اللہ وقال الرسول کو بنایا۔ ان کے بڑے بڑے علمی حلقے درسگاہیں بن گئی تھیں اور امت پر ان کا یہ عظیم احسان ہے۔

شیعہ حضرات بھی اپنا مذہب پنج تن کرام سے ثابت نہیں کرتے بلکہ ان کی روایات کا ٩٠، ٩٥ فیصد ذخیره حضرت باقر رحمۃ اللہ علیہ اور جعفر رحمۃ اللہ علیہ سے ہے۔ فرمائیے کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علمِ شریعت ان سے کم تھا یا حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ، حسنین رضی اللہ تعالٰی عنہما، زین العابدین رضی اللہ تعالٰی عنہ، ان تابعین بزرگوں سے کم رتبہ اور کم علم تھے کہ ان سے شاذو نادر ہی کسی باب میں ایک آدھ روایت مِلتی ہے ؟؟؟ اگر یقین نہ آئے تو اصول الکافی کا تجزیہ کر لیں۔

رہی حدیث انا مدينہ العلم تو یہ منکر، غیر صحیح، بے اصل بلکہ موضوع ہے۔

(موضوعات کبیر ملا علی قاری ص ٤٠)

اسی طرح اعلم امتی بعدی علی ابن ابی طالب ساقط الاعتبار اور موضوع ہے، صحاح تو کجا، کتب موضوعات میں بھی نظر سے نہیں گُزری۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے علم و روایات نقل نہ کر کے خود شیعہ نے ان حدیثوں کو موضوع اور غلط ثابت کر دِکھایا ۔ ولللہ الحمد !