ابوبکر رضی اللہ عنہ بقول اہلِ سنت تمام امتِ محمدیہ سے افضل ہیں تو بوقت مواخات یعنی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں میں بھائی چارہ قائم فرمایا، ابوبکررضی اللہ عنہ کو کیونکر اپنا بھائی نہیں بنایا ؟
مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبندابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ بقول اہلِ سنت تمام امتِ محمدیہ سے افضل ہیں تو بوقتِ مواخات یعنی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام مسلمانوں میں بھائی چارہ قائم فرمایا، ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو کیونکر اپنا بھائی نہیں بنایا ؟
جبکہ تاریخ شاہد ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعوتِ ذی العشیرہ اور مدینہ منورہ میں تشریف لانے پر فرمایا :
یا علی انت اخي في الدنیا والآخرۃ۔
کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ بعد از رسولِ خُدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام کائنات سے افضل و اکمل ہیں؟؟ انصاف مطلوب ہے۔
♦️ جواب اہل سُنَّت:-♦️
"ہجرت الٰى المدینہ کے بعد مہاجرین کا معاشی مسئلہ حل کرنے کیلئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ایک مہاجر اور انصاری کے درمیان بھائی چارہ قائم کرا دیا۔ اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا سہل بن حنیف رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ بھائی چارہ قائم کیا۔"
(الاصابۃ)
شیعہ کتاب کشف الغمہ ص ۹۲ ج ١ پر ہے کہ:
"حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا کِسی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عقد مواخات نہیں کیا تو وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر غصہ ہو کر کہیں چلے گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں تلاش کر کے پاؤں سے ٹھوکر ماری اور کہا تُو صِرف ابوتراب (مٹی والا) بننے کے لائق ہے، کیا تُو مُجھ سے ناراض ہو گیا ہے؟ جب میں نے مہاجرین و انصار کے درمیان بھائی چارہ کیا اور تُجھے کِسی کے ساتھ نہیں ملایا۔ سُن لے تو میرا بھائی ہے دُنیا و آخرت میں۔"
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسب سابق حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی معاشی کفالت کو اپنے ذمہ لیا اور تسلی کے لیے یہ فرمایا۔ اس سے مطلقًا حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی افضلیت پر استدلال درست نہیں کیونکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت زید رضی اللہ تعالٰی عنہ بن حارثہ کو بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا بھائی اور محبوب فرمایا۔
(بُخاری ص ٥١٦-٥٢٨ ج ١)
نیز بصورت تسلیم یہ جزوی فضیلت ہی ہے،
✰ جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو
امة قانتا للّٰه حنيفا
(آپ بمنزلہ امت عبادت گزار موحد تھے...)
✰ جیسا کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کو روح اللہ كلمة اللہ...
✰ اور حضرت یوسف علیہ السلام کے تذکرے کو احسن القصص فرمایا...
مگر قُرآن پاک میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اور تذکرے کیلئے یہ صریح الفاظ نہیں مِلتے، جیسے یہاں ان انبیاء کو کلی فضیلت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نہیں دی جاسکتی۔ اسی طرح مواخذات مذکورہ سے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو مطلقاً فضیلت نہیں دی جا سکتی۔ اگر ایسا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بجائے کسی اور کو زِندگی میں امام نماز نہ بناتے۔
(طبری ص ١٩٦ ج ۳، ناسخ التواریخ ص ٥٤٧ ج ١، نجفيہ ص ٢٢٥، ج ٢)
"اور ظاہر ہے کہ علم اور قرأت میں سب سے بڑے اور سب سے افضل کو امام بنایا جاتا ہے۔"
(من یحضرہ الفقیه، ص ۱۰۳)
"آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری وصایا ان سے ارشاد نہ فرماتے۔"
(حیات القلوب ٢٩٥ ج ۲، تفسیر صافی ۵٢۳، مجمع البیان سرہ تحریم)
"تمام مسلمان ان پر اتفاق نہ کرتے، حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ پر کرتے۔"
(حیات القوب ٦٧٦، ج ٢)
اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اپنے سے افضل نہ مانتے تو یہ کیوں کہتے کہ:
"ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ چار باتوں میں مُجھ سے بڑھ گئے۔ پہلے اِسلام ظاہر کیا، مُجھ سے پہلے ہجرت کی، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یارِ غار ہوئے، نماز قائم کی جبکہ وہ اِسلام ظاہر کرتے اور میں چھپاتا تھا۔
(تنزيه المكانة الحيدريه ص ٢٧)
حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بعد از رسولِ خُدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام انبیاء علیہم السلام سے افضل کہنا انبیاء علیھم السلام کی صریح توہین اور شیعی غلو ہے جِس کے متعلق خود حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خبر دی کہ:
"میرے متعلق محبت میں غلو کرنے والا ہلاک بھی ہوگا جِسے محبت ناحق کی طرف لے جائے گی۔"
انبیاء علیھم السلام کے متعلق اللہ سبحانہ و تعالٰی کا یہ ارشاد شیعہ عقیدے کی بیخ کنی کرتا ہے:
"وَكُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَ۔"
یعنی ہر پیغمبر کو ہم نے سب جہانوں پر فضیلت دی ہے۔
(سورۃ الانعام، آیت نمبر ٨٦)