سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا کو روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں تدفین کی اجازت کیوں نہیں دی گئی؟
مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبندحضرت فاطمۃالزہراء رضی اللّٰہ عنہا کا انتقال بقولِ اہلسنت رسول ﷺ کی رحلت کے چھ ماہ بعد ہوا حضرت ابوبکرؓ کا انتقال اڑھائی برس رسول ﷺ کے بعد اور حضرت عمرؓ نے 26 ذی الحجہ 24 ہجری کو انتقال کیا تو کیا وجہ تھی کہ ان دونوں بزرگوں کو جو کافی عرصے کے بعد انتقال کرتے ہیں، روضۂ رسول ﷺ میں دفن ہونے کے لئے جگہ مل سکی اور رسول ﷺ کی اکلوتی بیٹی سیدہ طاہرہؓ مادرِ حسنیؓن کو باپ کے پاس قبر کی جگہ نہ مل سکی کیا خود حضرت فاطمؓہ نے باپ سے علیحدگی قبر کی وصیت کی تھی یا حضرت علیؓ نے حکومت وقت کی پیشکش کو ٹھکرا دیا تھا یا مسلمانوں نے بضعةالرسول ﷺ کو قبر رسول ﷺ کے پاس دفن نہ ہونے دیا ؟؟؟
فاعتبروایاولی الابصار۔
♦️جواب اہلسنّت:♦️
شیعہ کے اس سوال سے بھی معلوم ہوتا کہ ان کے سارے مذہب کا دارومدار ہی ان کے فاسد قیاس پر ہے۔ دلیل پر نہیں ہے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا روضہ مبارک میں دفن نہ ہونے سے یہ کہاں سے ثابت ہوا کہ اس تدفین میں صحابہ کرامؓ آڑے آئے، دونوں بزرگ ابوبکرؓ و عمرؓ کی تدفین کی طرف اشارہ تو سرکارِدوعالمﷺنے فرما دیا تھا۔ ایک مرتبہ شیخین کریمیینؓ سرکارِدوعالمﷺ کے اردگرد تھے ایک دائیں طرف دوسرے بائیں طرف دونوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر سرکارِدوعالمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہم قیامت کے روز اپنی قبور سے اسی طرح اکٹھے اٹھیں گے۔
اوکما قال علیہ الصلواۃ السلام۔
*(جامع ترمذی جلد 2 صفحہ 208* *مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 560، مستدرک جلد 4 صفحہ 280 ،کنزالاعمال جلد 13 صفحہ 17، مصابیح السننہ جلد 4 صفحہ 164)*
ہم نے تو سرکاردوعالمﷺ کی معیت میں شیخین کریمیینؓ کی تدفین پر صریح روایت پیش کردی ہے اب تم اپنے موقف کی کوئی صحیح صریح روایت لاؤ۔ مگر یہ تمہارے بس میں نہیں ہے۔ کوئی روایت ایسی لاؤ کے حضرت علیؓ نے روضۂ مبارک میں تدفین کا سیدہ فاطمہؓ کا ہی فرمایا ہو اور صحابہ کرامؓ نے انکار کیا ہو جب ایسی کوئی روایت نہیں ہے تو تمہارا اپنے قیاسِ فاسد سے جمع و تفریق کرکے عقیدہ باطلہ تیار کرنا باطل و مردود ہے۔
جس چیز پر حضرت علیؓ کی خاموشی و رضا ہے۔ تمہیں 14صدیوں بعد کیوں تکلیف پیدا ہوگئی ہے۔ گویا اعتراض ان جلیل القدر صحابہ کرامؓ پر نہیں ہے بلکہ خدا رسولﷺ اور حضرت علیؓ ہے اس سے ثابت ہوا تمہارا دعویٰ محبتِ اہلبیت جھوٹا ہے۔* تمہارا یہ کہنا کہ علیحدگی قبر کی وصیت دکھادو یہ بھی غلط ہے۔ اسلیے کہ یہ نہ سہی تو تم وصیت روضۂ مبارک میں تدفین ہی دکھادو تمہارے قیاس فاسد سے کچھ ثابت نہیں ہوسکتا۔
پھر تمہاری شیعہ کتاب تمہارے اعلام الورٰی صفحہ 158 پر لکھتا ہے کہ حضرت علیؓ نے سیدہ فاطمہؓ کی وصیت کے مطابق آپ کو پوشیدہ دفن کیا۔
کیوں شیعہ صاحب اب بولو تمہارا جھوٹ تمہارے اپنے گھر سے ہی ظاہر ہوگیا پھر تمہارے مولوی نجم الحسن کراروی نے لکھا کہ حضرت علیؓ نے سیدہ فاطمہؓ کو جنت البقیع میں لے جا کر دفن کیا۔*
*(چودہ ستارے صفحہ 252)*
پھر شیخین کریمیین (سیدنا ابوبکرؓ و عمرؓ) کا روضۂ مبارک میں دفن ہونے کی دلیل ایک اور ملاحظہ ہو حدیث صحیح سے ثابت ہے کہ ہر شخص کی قبر وہاں بنتی ہے جہاں سے اس کا خمیر تیار کیا جاتا ہے مولوی مقبول شیعی حسین دہلوی
*منہا خلقنکم* کے تحت لکھتے
ہیں کہ کافی میں امام جعفر صادقؒ سے منقول ہے کہ نطفہ جب رحم میں پہنچ جائے تو خدا تعالیٰ ایک فرشتے کو بھیج دیتا ہے کہ اس مٹی میں کہ جس میں یہ شخص دفن ہونے والا ہے تھوڑی سی لے آئے۔ چنانچہ فرشتہ لاکر نطفہ میں ملا دیتا ہے اور اس شخص کا دل اس مٹی کی طرف مائل ہوتا رہتا ہے۔ اس غیرِحسی میلان کا ہر شخص کو پتہ نہیں لگ سکتا جب تک کہ اس میں دفن نہ ہو جائے۔
*(ترجمہ مقبول صفحہ 377)*
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہر بچہ جو پیدا ہوتا ہے اس کی ناف میں وہ مٹی ہوتی ہے جس سے وہ پیدا کیا جاتا ہے اور جب وہ ارذل کے طرف لوٹایا جاتا ہے تو وہ اس مٹی کی طرف لوٹایا جاتا ہے جس سے وہ پیدا کیا جاتا ہے حتیٰ کہ اس مٹی میں اس کو دفن کیا جاتا ہے۔ اور میں اور ابوبکر و عمر ایک ہی مٹی سے پیدا کیے گئے ہیں اور اس مٹی سے ہم اٹھائے جائیں گے۔
*فردوس الاخبار جلد 4 صفحہ 235*
*حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں اور ابوبکرؓ اور عمرؓ ایک ہی مٹی سے پیدا کیے گئے ہیں*
*(فردوس الاخبار جلد 2 صفحہ305*
*کنزالعمال جلد 11 صفحہ 259)*
حضرت انسؓ کی طرح پوری روایت حضرت ابن مسعودؓ سے بھی مروی ہے *کنز الاعمال جلد 11 صفحہ 258*
اس پر مزید دلائل محفوظ ہیں اختصار مانع ہے۔
تو ان روایات واحادیث سے حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ کے روضۂ مبارک میں دفن ہونے کی وجہ واضح ہوگئی۔ پھر سیدہ فاطمہؓ کے سوا سر کار دوعالمﷺ کی تین صاحبزادیاں اور تھیں *۔(اصول کافی* )
وہ بھی روضہ مبارک میں دفن نہیں ہوئیں اس سے تنقیص کا نتیجہ نکالنا شیعہ کی جہالت و خباثت ہے۔