Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

افضلیت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ

  علامہ ڈاکٹر خالد محمود رحمہ اللہ

افضلیّت سیدنا صدیقِ اکبرؓ

الحمداللّٰہ وسلام على عباده الذين اصطفىٰ خصوصاً على سيد الرسل وخاتم الانبياء وعلىٰ اٰله الاتقياء واصحابه الاصفياء اما بعد

زباں پہ بارِ خدایا یہ کِس کا نام آیا 

کہ میرے نطق نے بوسے مری زبان کے لئے 

کسے پتہ تھا کہ تاریخ میں ایک ایسا دور بھی آئے گا کہ مخزنِ عظمت، مرکزِ خلافت، یارِ غارِ مصطفٰی سیّدنا ابوبکرؓ کی افضلیت محتاجِ بیان ہوگی، یہ واضح کرنا

 ہو گا کہ سیّدنا صدیقِ اکبرؓ ماسوائے انبیاء کرام علیہم السلام کے کل بنی نوع انسان سے ارفع و اعلیٰ اور افضل و اکمل ہیں، اس لئے کہ عیاں راچہ بیاں،چڑھتے ہوئے سورج کی نشاندہی اشاروں کی محتاج نہیں ہوتی ہاں چشمِ بینا ہی موجود نہ ہو تو یہ امر دیگر ہےـ

زعشقِ ناتمام ماجمال یار مستغنی است

بآب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبارا

10 ہزار قدوسیوں کے پلڑے میں تلنے والی شخصیت جب آپﷺ مکہ سے نکلے تو ساتھ ایک تھا اور جب مکہ مکرمہ پھر داخل ہوئے تو ساتھ 10 ہزار کا لشکرِ جرار تھا۔حضورﷺ کا داخلہ بھی مُدْخلِ صدق تھا اور وہاں سے نکلنا بھی مُخُرجِ صدق تھا، آنا اور جانا ایک وزن کا تھا جس کی بارگاہِ امامت اور درگاہِ سیادت میں فاروقِ اعظمؓ اور حیدرِ کرارؓ جیسے مقدس و معظم برابر صف بستہ نظر آتے ہیں اور جس کی رفعتِ علمی اور قوتِ عملی سب اپنی اپنی جگہ مثالی شان سے سرفراز ہیں،آج اس مجلس میں اسی ذاتِ قدسی صفات کی افضلیت کا بیان ہو گا۔

یہ نہ سمجھا جائے کہ صحابہ کرامؓ میں افضلیت کی بحث اچھی نہیں سب ایک جیسے ہیں، نہیں حضورﷺ نے انہیں ستاروں سے تشبیہ دی ہے اور ظاہر ہے کہ سب ستارے ایک جیسی چمک نہیں رکھتے کوئی زیادہ چمکتا ہے کوئی کم۔ لیکن ہر ایک سے روشنی ہی ملے گی اندھیرا کسی سے نہ ملے گا اور ہر ایک کا ایک اپنا مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسولوں میں سے بھی بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے تِلۡكَ الرُّسُلُ فَضَّلۡنَا بَعۡضَهُمۡ عَلٰى بَعۡضٍ‌ۘ۔(سورۃ البقرہ: آیت 253)

سو صحابہ کرامؓ کی افضلیت کی بحث کسی پہلو سے محل قدح نہیں حضرت امام ابوحنیفہؒ نے فقہ اکبر میں اور حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ نے غنیتہ الطالبین میں ان میں ایک ترتیب پیش کی ہے۔

اس موضوع پر پہلے ہمیں ایک معیار کی تلاش ہو گی جس پر کسی بزرگ کی کی شانِ فضیلت منطبق کی جا سکے اور ایک ایسے مینار کی ضرورت ہو گی جس کی روشنی میں ہم کسی بزرگ کی زندگی کے مختلف مقامات دیکھ سکیں۔آئیے اس روشنی کے لئے پہلے قرآنِ عظیم کے حضور میں ہی حاضر ہوں اور کتاب اللہ سے ہی اس معیارِ فضیلت کا پتہ چلائیں جو ہمیں اس وقت مطلوب ہے۔

قال اللہ تعالیٰ:

يَرۡفَعِ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡكُمۡ ۙ وَالَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ دَرَجٰتٍ

(سورة المجادله آیت:11)

 ترجمہ: اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے درجات بلند کرتے ہیں جو تم میں سے ایمان لائے اور ان لوگوں کے جو شانِ علم سے سرفراز ہوئے۔

لَايَسْتَوِی الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ

ترجمہ: علم رکھنے اور نہ رکھنے والے کبھی برابر نہیں ہوتے۔

(سورۃ الزمر آیت :9)

ان آیاتِ شریفہ سے پتہ چلتا ہے کہ فضیلت اور بزرگی کا معیار رب العزت کےہاں ایمان اور علم ہے۔

 لَایَسْتَوِیْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَؕ-اُولٰٓىٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَ قٰتَلُوْا

ترجمہ: برابر نہیں تم میں سے وہ جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے ان کی راہ میں خرچ کیا اور جہاد میں شامل ہوئے، ان کا درجہ ان سے زیادہ ہے جو اسکے بعد اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہے اور جہاد میں شامل ہوئے۔

( سورة الحدید آیت: 10)

اس آیتِ شریف سے معلوم ہوا کہ وہ مالی اور جانی قربانیاں بھی معیارِ فضیلت ہیں جو فتح مکہ سے پہلے کی گئیں۔ اِنفاق فی سبیل اللہ اور قتال فی سیل اللہ کی مجموعی حیثیت میں جو لوگ سبقت لے گئے وہ اُن لوگوں سے بہرحال آگے ہیں جو اس اجتماعی وصف (اتفاق اور قتال) میں پیچھے رہے یا کسی ایک وصف مثلاً (قتال یا انفاق)میں برابر رہے، معیارِ افضلیت وہ بزرگی ہے جو ان دونوں عملوں کے اجتماع سے حاصل ہو گی۔ قرآنِ پاک کی رُو سے یہ ثابت ہو گیا کہ عمل بھی ایک معیارِ فضیلت ہے جس میں مالی اور جانی دونوں قربانیاں درکار ہیں۔

ان اسباب کے علاؤہ اگر کوئی اور معیارِ فضیلت ہے تو وہ اللہ رب العزت کا اپنا فضل ہے جس کے بھی شاملِ حال ہو جائے۔

وَبَشِّرِ ٱلْمُؤْمِنِينَ بِأَنَّ لَهُم مِّنَ ٱللَّهِ فَضْلًا كَبِيرًا

 ترجمہ: اور آپ خوشخبری سنا دیں اور ایمان والوں کو انکے لئے خدا تعالیٰ کی طرف بہت بڑا فضل ہے۔

(سورة الاحزاب آیت :47)

ان تفصیلات سے معلوم ہوا کہ اصل بزرگی اور فضیلت محض اقتدار و حکومت، رنگ و وطن یا نسل و نسب کے امتیازات پر مبنی نہیں بلکہ قرآنی نظریہ فضیلتِ ایمان، علم صحیح، عمل صالح اور فضلِ خداوندی کے امتیازی اوصاف پر مبنی ہے۔ جتنا کسی کو ان ابواب میں تفوق حاصل ہو گا اتنی ہی اس کی افضلیت اور برتری از خود ثابت ہو گی۔ (واللّٰہ على ما نقول شهید)

اب آئیے واقعات کا ایسی چشمِ بصیرت سے مشاہدہ کریں جس نے تعصب اور تخرب کی قوت سے جلا نہ پائی ہو کیونکہ یہ درِ حقیقت نور نہیں ایک ظلمت ہے۔ دیکھنا یہ ہے آنحضرتﷺ نے جب اپنی رسالت کی دعوت دی تو سب سے پہلے کسی بزرگ ہستی نے آپ کو لبیک کہا اور کون سب سے پہلے دولت اسلام سے سرفراز ہوا۔آنحضرتﷺ فرماتے ہیں:

ان اللّٰہ بعثنی اليكم فقلت كذبت وقال ابوبكر صَدَقَ

(بخاری جلد1،صفحہ 517)

 ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہاری طرف مبعوث کیا پر تم نے مجھے جھٹلایا لیکن ابوبکرؓ نے میری تصدیق کی۔

اس ارشادِ نبوت سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے اوّل الاسلام سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو ہی سمجھا ہے اگرچہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے قریب قریب ہی سیدہ خدیجہ الکبریٰؓ اور سیدنا علیؓ بھی ایمان لائے تھے لیکن وہ تو گھر کے اپنے ہی افراد تھے۔ نیز عورتوں اور بچوں کی بات اس قدر ممتاز بھی نہیں ہوتی، مخالفتوں کے پورے طوفان اور ذمہ داریوں کے سارے بوجھ کے ساتھ جس نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اس کے لیے آنحضرتﷺ کا مذکورہ بالا ارشاد خود منہ بولتی شہادت ہے۔

عمدة المحدثین ملا علی قاریؒ لکھتے ہیں:

شهد مع النبي المشاهد كلها ولم يفارقه في جاهلية ولا اسلام وهو اول الترجال اسلاما

(مرقاۃ جلد5 ،صفحہ 52)

ترجمہ: سیدنا ابوبکر صدیقؓ آنحضرتﷺ کے ساتھ تمام جنگوں میں شامل ہوئے اور آنحضرتﷺ سے نہ جاہلیت میں نہ اسلام میں کبھی جدا ہوئے اور آپ سب سے پہلے مرد ہیں جو اسلام لائے۔

یہ تو اسلام کی اوّلیت اور قبولیتِ اسلام میں قربانی کا بیان تھا،اب اس ایمان کی شانِ صداقت قوتِ یقین اور کمال معرفت پر بھی غور کیجئیے۔

اعمال کے اپنے ظواہر بھی ہیں، ایمان ایک فعلِ قلب ہے (کمافی روایتہ احمد) جس کی تصدیق صاحبِ حال یا صاحبِ وحی کی تصدیق کے بغیر علیٰ سبیل القطع والتعین ممکن نہیں۔

امام بخاریؒ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے کئی دفعہ اپنے ایمان کے ساتھ سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا عمرِ فاروقؓ کے ایمان کی شہادت دی تھی حالانکہ یہ دونوں بزرگ اس وقت موجود نہ ہوتے تھے، ایسے موقع پر آنحضرتﷺ کے الفاظ اس قسم کے تھے:

أو من بذلك وابوبكر وعمره:

میں ابوبکرؓ اور عمرؓ اس پر ایمان لاتے ہیں۔

(بخاری جلد 1،صفحہ312،517،694)

دوسروں کے اعمال کی گواہی تو سب دیکھنے والے دے سکتے ہیں لیکن ایمان کی گواہی پیغمبر کا ہی کام ہے جسے کہ خود رب العزت نے اس پر مطلع فرما دیا ہو۔

پھر دیکھئے کہ آنحضرتﷺ نے ان دونوں بزرگوں کے ایمان کو خود اپنے ایمان کے ساتھ جمع فرمایا ہے جس طرح کہ حضرت موسیٰؑ نے اپنی قوم جس نے کہ عمالقہ کے ساتھ جہاد کرنے سے انکار کر دیا تھا، سے جدا ہوتے ہوئے فرمایا تھا:

 اِنِّیْ لَاۤ اَمْلِكُ اِلَّا نَفْسِیْ وَاَخِیْ

(سورة مائده آیت :25)

ترجمہ: میں اپنے آپ اور اپنے بھائی کے سوا کسی کا مالک نہیں۔ 

جس قوتِ یقین کے ساتھ حضرت موسیٰؑ نے اپنے بھائی ہارونؑ کے امر باطنی کی خبر دی، تاجدارِ ختم نبوت اسی قوتِ یقین کے ساتھ سیدنا صدیقِ اکبرؓ اور سیدنا فاروقِ اعظمؓ کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:

او من بذلك وابوبكر و عمره

(بخاری جلد1صفحہ 312،694،517)

میں ابوبکرؓ اور عمرؓ اس پر ایمان لاتے ہیں۔

شیخ الاسلام علامہ عینیؒ فرماتے ہیں:

انما قال ذلك رسول اللہ ثقةبهما لعلبه بصدق ايمانهماوقوت يقينهما وكمال معرفتهما بقدرة اللہ

آنحضرتﷺ نے ایسا ان حضرات پر کامل اعتماد رکھتے ہوئے فرمایا تھا کیونکہ حضورﷺ کو ان کے ایمان کے سچا ہونے اور ان کی قوتِ یقین اور کمالِ معرفت کا قدرتِ خداوندی سے پورا پورا علم تھا۔

پس ایمان کی اس پختگی میں یہ دونوں حضرات باقی سب صحابہ کرامؓ سے آگے ہوں گے اور ان میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا قدم اور آگے رہے گا۔

ایمان کی اوّلیت اور پختگی تو کھل کر آپ کے سامنے آ چکی، لسانِ نبوتﷺ نے خود دونوں باب میں فیصلہ فرما دیا۔اب آئیے ایمان کی فراست میں بھی سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا قدم سب سے آگے دیکھئے، فرمایا:

المومن من لا يخدع ولا يُخْدَعُ

کامل مؤمن وہ ہے جو نہ دھوکا دے اور نہ دھوکا کھائے۔

اس سے پتہ چلا کہ کامل مؤمن کی دیانت یہ ہے کہ کسی کو دھوکا نہ دے اور فراست یہ ہے کہ کسی سے دھوکا نہ کھائے، دھوکا نہ کھانے کے مصداق تو آپ کو بیشمار ملیں گے اور سب صحابہ کرامؓ اس وصف سے متصف تھے لیکن دھوکا نہ کھانے والے لا یخدع کے مصداق آپ کو وہاں بھی بہت کم ملیں گے۔

سیدنا حسینؓ کو جس طرح کوفیوں نے دھوکا دیا اور ان کو بار بار خطوط لکھ کر بلایا اور پھر وقت آنے پر غداری اور بیوفائی کی یا جس طرح سیدنا علیؓ کو جنگِ صفین میں دھوکا دیا گیا یا جس طرح سیدنا طلحہؓ اور سیدنا زبیرؓ کو شاطروں نے دھوکا دیا اور مجلسِ مفاہمت و مصالحت کو جنگِ جمل کی صورت میں بدلا دیا۔ ان واقعات میں ان حضرات کا دھوکے میں آجانا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔

(نبه علیه القرطبی فی تاریخه روافقه الا لوسی فی تفسیر الاحزاب)

ہم یقین رکھتے ہیں کہ دھوکے میں آجانے کی ان بزرگوں سے کوئی باز پرس نہ ہو گی کیونکہ اعمال پر مواخذہ نیّات کے اعتبار سے ہوتا ہے اور دھوکا کھانے والے کی اپنی نیت کا اس میں کوئی دخل نہیں ہوتا، رب العزت کے ہاں تو کسی بزرگ کی کوئی ایسی کمزوری قابلِ مواخذہ نہیں لیکن خلافتِ ارضی اور قیام امور عامہ کے لئے جب نظامِ عدل کا قیام ہوتا ہے تو ایسے امور کا لحاظ بھی بسا اوقات ضروری ہوتا ہے پس جو اکابر کمال ایمان کے ان دونوں جزوں سے متصف ہوں گے وہ لازماً ان سے فائق اور آگے ہوں گے جنہیں وقت کے غلط کار لوگوں نے بار ہا اپنی سازش کا نشانہ بنایا، لیکن یاد رہے کہ اس سے ان کی بزرگی پر کوئی داغ نہیں آتا۔ ہاں افضلیت امرِ دیگر ہے،اس معیار پر جب ہم سیدنا صدیقِ اکبرؓ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں ان کا کوئی سہیم و شریک نظر نہیں آتا اور تاریخ نہیں بتلاتی کہ سیدنا صدیقِ اکبرؓ نے بھی دھوکا کھایا ہو۔ آنحضرتﷺ کی وفات شریفہ کے بعد صحابہ کرامؓ کی مجموعی رائے بھی سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو کوئی مغالطہ نہ دے سکی اور انجام کا پتہ چلا کہ حق وہی تھا جو سیدنا ابوبکر صدیقؓ کہتے تھے۔ فتنہ انکارِ ختمِ نبوت، لشکرِ سیدنا اسامہؓ کی روانگی میں تاخیر کا مطلبہ مانعینِ زکوٰة کی تحریکات اور ان سب کے مقابلے میں سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی اپنی رائے انہیں کسی مغالطے میں نہ کھینچ سکی۔

ایمان کی اولیت، قوت و ثقاہت اور بصیرت و فراست کے ساتھ سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے عزم و استقامت کو بھی شامل کر لیں تو پھر ان کی شانِ ایمانی، ایمان کے ہر پہلو کے اعتبار سے سب سے فائق اور آگے نظر آتی ہے اور ہم یقین کرنے پر مجبور ہیں کہ ان کمالاتِ ایمانی میں کوئی بزرگ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے شریک و سہیم نہیں، سیدنا صدیقِ اکبرؓ کا ایمان محض رغبت عقلی کا نتیجہ نہ تھا، صدیقیت کا مقام یہ ہے کہ صدیق رغبتِ طبعی کے ساتھ ایمان قبول کرتا ہے اور یہ اسی کا امتیاز و اختصاص ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا صدیقِ اکبرؓ کو ایمان قبول کرنے میں کسی دلیل کی ضرورت قطعاً محسوس نہ ہوئی۔ 

پہلا معیارِ افضلیت ایمان تو اپنی پوری تفصیلات کے ساتھ آپ کے سامنے آچکا۔اب آئیے اور علم صحیح کے معیار پر بھی سیدنا صدیقِ اکبرؓ کو دیکھئے، وہ یہاں بھی ہر اعتبار سے افضل و اکمل نظر آئیں گے۔ قال اللہ تعالیٰ:

لَايَسْتَوِی الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ

(سورۃ الزمر آیت :9)

ترجمہ: علم رکھنے والے اور نہ رکھنے والے کبھی برابر نہیں ہوتے۔

یہاں علم سے مراد کسی مادی تجربے کا علم نہیں بلکہ قرآنِ عزیز کا علم مراد ہے جس سے حقائق کا ادراک ہوتا ہے اور ظلمت کے پر دے اٹھتے ہیں۔

اب درِمصطفیٰﷺ پر دستک دیجیے اور دربارِ نبوت سے فیصلہ لیجیے کہ آنحضرتﷺ نے تمام صحابہ کرامؓ میں قرآنِ پاک کا سب سے زیادہ عالم اور کتاب اللہ کے ساتھ سب سے زیادہ مشتغل کِس بزرگ کو قرار دیا ہے۔

پہلے یہ پیشِ نظر رکھیے کہ آنحضرتﷺ نے ایک قانون ارشاد فرمایا:

يتقدم القوم اقرأ هم للقرآن فان كانوا في القرأة سواء فاقد مهم هجرة فان كانوافي الهجرة سواء فَا كُبَرَهُمُ ستافان كانوا في السن سواء فاعلمهم بالسنة وافقهو في الدين

(فروع کافی جلد 1، صفحہ 225 مطبوعہ لکھنؤ)

قوم کی امامت وہ کرائے جو ان سب میں قرآن زیادہ پڑھا ہوا ہو اگر اس وصف میں وہ برابر ہوں تو جو ہجرت میں اقدم ہو اگر ہجرت میں بھی وہ سب برابر ہوں تو جو عمر میں بڑا ہو اور اگر عمر میں سب برابر ہوں تو پھر وہ امامت کرائے جو سنتِ پیغمبرﷺ کا اس سے زیادہ عالم ہو اور تفقہ دین میں اسے برتری حاصل ہو۔

احقر عرض پرداز ہے کہ یہاں چوتھے نمبر میں کچھ ترتیب کی غلطی ہے یہ دراصل دوسرا ہونا چاہیئے تھا، سنت کا درجہ قرآن کے متصل بعد ہے، ہجرت کا تقدم اور عمر کی بڑائی علم سنت کے یقیناً بعد ہے۔ 

چنانچہ سنن ابی داؤد میں ہے:

فان كانوا فى القرأة سواء فاعلمهم بالسنة فان كانوا في السنة سواء فاقدمهم هجرة

(فروع کافی جلد 1، صفحہ 86 مطبوعہ لکھنؤ)

پس اگر قرآن دانی میں وہ سب برابر ہیں تو پھر وہ جماعت کرائے جو علم سنت میں آگے ہو اس کے بعد اس کا مرتبہ ہے جو ہجرت میں اقدم ہو۔

بہرحال اس پر تو سب کا اتفاق ہے کہ سب سے پہلا مرتبہ اس کا ہے جو سب سے زیادہ قرآن کا ماہر ہو۔ یہاں اقراهم للقرآن سے مراد یہ رسمی اور لفظی تجوید نہیں۔ قاری اور قرأت کی اصطلاح بہت بعد کی ہے۔ بلکہ یہاں مراد کتاب اللہ کی حقیقی معرفت اور قرآنی علوم ہیں۔اس روایت میں اگر علومِ قرآنیہ کی برتری مراد نہ لی جائے تو پھر اور کئی اشکال لازم آتے ہیں۔ 

اولاً: لفظی تجوید اور رسمی قرأت میں سیدنا ابی بن کعبؓ سب سے آگے تھے مگر آنحضرتﷺ نے انہیں کبھی عملاً امام نہیں بنایا بلکہ مختلف اوقات میں امامت کے فرائض سیدنا صدیقِ اکبرؓ نے سیدنا عبدالرحمٰن بن عوفؓ اور سیدنا ابنِ ام مکتومؓ کے سپرد فرمائے۔ 

ثانیاً:روایت مذکورۃ الصدر میں آگے علم و سنت اور علم فقہ تو اپنے اپنے درجہ پر ہے ہیں لیکن قرآنی علوم کا تفوق یکسر مفقود ہے، یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ارشادِ رسالت نے علم سنت کو تو معیارِ فضیلت میں ملحوظ رکھا ہو مگر علمِ قرآن کو یکسر نظر انداز کر دیا ہو پس سیاق و سباق کے پیشِ نظر یہاں اقراهم للقرآن سے قرآنی علوم کا سب سے زیادہ فاضل اور کتاب اللہ کے ساتھ سب سے زیادہ مشتغل شخص مراد ہو گا۔

ثالثاً:امام اعظمؒ، امام مالکؒ، شیخ ابو الحسن اشعریؒ اور شاہ ولی الله محدث دہلویؒ کے نزدیک اس کے یہی معنیٰ مراد ہیں، شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں:

وسبب تقديم الإقراء لانه صلى الله عليه وسلم حدللعلم حدا معلوما كما بينا وكان اول ما هنالك معرفت كتاب الله لانه أصل العلم و ايضا فانه من شعار الله فوجب ان يقدم صاحبه ثم من بعدها معرفة السنة لانها تلوا الكتب وبها قيام الملة وهي ميراث النبي صلى الله عليه وسلم في قومه ثم بعده اعتبرت الهجرة

(حجتہ اللہ البالغہ جلد 2، صفحہ 25)

حاصل یہ کہ یہاں اقراءھم سے مراد صاحبِ معرفت کتاب اللہ ہے کیونکہ یہ علم کی بنیاد ہے اور شعائر اللہ میں اس کا شمار ہے، اس کے بعد معرفت سنت کا درجہ ہے اور وہی آنحضرتﷺ کی میراث ہے، اس کے بعد ہجرت کا اعتبار ہے۔ اس تمہید کے بعد اب یہ دیکھیے کہ آنحضرتﷺ نے اپنی عین حیاتِ اولیٰ تمام اکابر صحابہ کرامؓ کی موجودگی میں کس بزرگ ہستی کو امامت کا حکم دیا، لسانِ رسالت کا یہ فیصلہ جسں کے حق میں ہو گا وہ یقیناً قرآنی علوم اور معرفتِ کتاب اللہ میں سب سے فائق اور آگے ہو گا۔

امرسول الله صلى الله عليه وسلم ابابكر ان يصلى بالناس في مرضه فكان يصلى بھم

(بخاری جلد اول، صفحہ 94)

آنحضرتﷺ نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو حکم دیا کہ وہ حضورﷺ کے ایامِ مرض میں امامت کرائیں چنانچہ وہ لوگوں کو نماز پڑھاتے رہے۔

امامیہ کی معتبر کتاب شرح نہج البلاغہ دُرِ نجیفہ میں ہے:

فلما اشتد به المرض امرا بابكر ان يصلي بالناس وان ابابكر صلى بالناس بعد ذلك يومين

(درہ نجفیہ صفحہ 225، مطبوعہ ایران)

جب آنحضرتﷺ پر مرض کی تکلیف بڑھ گئی تو آپﷺ نے سیدنا ابو بکرصدیقؓ کو نماز پڑھانے کا حکم دیا اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ اس کے بعد دو دن لوگوں کو نماز پڑھاتے رہے۔

پھر حضورﷺ نے ایک دن سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے حجرہ مبارکہ سے پردہ اُٹھا کر خود سیدنا صدیقِ اکبرؓ کو جماعت کراتے دیکھا اور تبسم فرما کر اپنے اطمینان کا اظہار فرمایا، یہ اس حکم سابق کی عملی تصدیق تھی۔ 

كشف ستر حجرة عائشة فنظر الیھم وھم في صفوف الصلوٰۃ ثم تبسم يضحك

(بخاری جلد 2، صفحہ 640)

آپ نے سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے حجرے کا پردہ اٹھایا اور مسلمانوں کو دیکھا کہ وہ نماز کی صفیں باندھے ہوئے تھے حضورﷺ مسکرا دیئے۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اسے 9 صحابہ کرامؓ سے روایت کیا ہے اور اسے حدیث مستفیض قرار دیا ہے۔

(ازالتہ الخفاء جلد 1، صفحہ 309 فارسی)

اور قرۃالعین میں اسے متواتر بتلایا ہے۔

(دیکھیے صفحہ 5، مطبوعہ دہلی)

پس یہ حدیث اپنی انتہائی شان میں لائق یقین اور قابلِ اعتماد ہے۔ قانون امامت کی پہلی حدیث اور امر امامت پھر عمل امامت کی اس دوسری حدیث سے یہ نتیجہ نہایت واضح طور پر حاصل ہوتا ہے کہ سیدنا صدیقِ اکبرؓ تمام اکابر صحابہ کرامؓ میں سب سے زیادہ قرآنی علوم پر نظر رکھتے تھے اور قرآن دانی میں ان کا قدم سب سے آگے تھا۔ایمان کے بعد یہ دوسرا معیارِ فضیلت ہے جس میں ہم سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو سب سے فائق اور اقدم دیکھتے ہیں۔حافظ ابنِ کثیر شیخ ابوالحسن اشعریؒ سے نقل کرتے ہیں:

تقديمه له دليل على انه اعلم الصحابة واقرأهم لماثبت فی الخبر المتفق على صحته بين العلماء

(البدایہ و النہایہ جلد 5، صفحہ 236، وکذٰلک فی شرح الفقہ الاکبر للعلی القاری صفحہ 75)

آنحضرتﷺ کا سیدنا ابوبکرصدیقؓ کو نماز میں آگے کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ تمام صحابہ کرامؓ میں سب سے زیادہ عالم اور کتاب اللہ کے ساتھ سب سے زیادہ مشتغل تھے۔

سیدنا صدیقِ اکبرؓ کا علومِ قرآنیہ اور اس کے اسرار و آثار میں سب سے ممتاز ہونا یہ اس لئے بھی ہے کہ مرتبہ صدیقیت خود بابِ علم میں سے ہے جس طرح کہ قتال و جہاد بابِ عمل میں سے ہے، مرتبہ نبوت جو علمِ صحیح اور عملِ کامل کا جامع ہے، اپنی دلالت لفظی میں خود بابِ علم میں سے ہے۔ نبی کے عام معنیٰ ہیں خبر دینے والا یا خبر دیا ہوا ہو، اور ظاہر ہے کہ خبر شانِ علم میں سے ہے، اسی طرح صدیق کا لفظ بھی اپنی دلالت لفظی میں شانِ علم کا حامل ہے جس کے معنیٰ ہیں تصدیق کرنے والا اور ظاہر ہے کہ تصدیق نشانِ علم میں سے ہے عمل اگر اس میں داخل ہے تو ثانوی اعتبار سے ہے۔حاصل اینکہ مرتب صدیقیت خود ایک علم کی شان ہے، پس علوم کے یہ مراتب اور اسرار و آثار بھی خاتم مراتب صدیقیت سیدنا ابوبکر صدیقؓ پر منتہٰی ہیں۔

ترجمان القرآن حبر الاُمت سیدنا ابنِ عباسؓ کی شہادت

سیدنا ابنِ عباسؓ جنہیں قرآن دانی میں یہ مقام حاصل تھا کہ سیدنا فاروقِ اعظمؓ انہیں مشائخ بدر میں شمار فرماتے تھے۔ چنانچہ ایک دن سیدنا عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے سوال کیا تو سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے سورۃ نصر کے معنیٰ سیدنا ابنِ عباسؓ سے بیان کروا کر سب اکابر کو حیران کر دیا ہے۔ 

(صحیح بخاری جلد 2، صفحہ 743)

آنحضرتﷺ کی وفات شریفہ پر جب سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: 

وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِهِ الرُّسُلُ‌ؕ اَفَا۟ئِنْ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انْقَلَبۡتُمۡ عَلٰٓى اَعۡقَابِكُمۡ‌ؕ وَمَنۡ يَّنۡقَلِبۡ عَلٰى عَقِبَيۡهِ فَلَنۡ يَّضُرَّ اللّٰهَ شَيۡــئًا‌ ؕ وَسَيَجۡزِى اللّٰهُ الشّٰكِرِيۡنَ 

(سورۃ آل عمران:آیت 144)

 تو یہی ترجمان القرآن ارشاد فرماتے ہیں:

واللہ لکان الناس لم یعلموا ان الله انزل ھٰذہ الایۃ حتیٰ تلاھا ابوبکر فتلقا ھامنه الناس کلھم فما اَسُمَعُ بشراً من الناس الا یتلوھا

(بخاری جلد 2، صفحہ 640)

بخدا سیدنا ابوبکرصدیقؓ کے اس وقت اس آیت کو بیان کرنے کا یہ اثر ہوا کہ اس سے پہلے گویا لوگ اس آیت کو جانتے ہی نہ تھے بس سب صحابہ کرامؓ نے اس آیت کو سیدنا ابوبکرصدیقؓ سے ہی لیا اس وقت حال یہ ہوا کہ میں جس کسی کو سنتا وہ یہی آیت پڑھ رہا تھا۔

کتاب اللہ کی معرفت اور علمی سرفرازی کس بلند درجہ کی تھی کہ ایک آیت کے بیان نے سب سامعین

 کو یہ ذوق قرآنی بخش دیا۔ سیدنا صدیقِ اکبرؓ نے قرآنی ہدایت معنویت سے آگے لا کر گویا محسوسات کی صورت میں آگے رکھ دی، علم کو ان کی آنکھوں کے سامنے محسوس کرا کر رکھ دیا۔

لقد بصر ابوبکر الناس الھدی وعرفھم الحق الذی علیھم وخرجوا به یتلون

(ایضاً جلد 1، صفحہ 518)

بےشک سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے ہدایت ان کی آنکھوں کے سامنے لا کر رکھ دی اور جس حق پر وہ قائم تھے اس کی انہیں پوری معرفت عطاء کی پھر سب اسی آیت کو پڑھتے نکلتے۔

قرآنی نظریہ فضیلت کے دو معیار ایمان اور علم اپنی اپنی تفصیلات کے ساتھ واضح ہو چکے اور واقعات کی دنیا دلائل و شواہد کے ساتھ اعتراف کرچکی کہ ان سب امور میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا قدم سب سے آگے ہے۔ 

تیسرا معیارِ فضیلت

اب آئیے تیسرے معیارِ فضیلت کو دیکھیں، قال اللہ تعالیٰ:

لَایَسْتَوِیْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَؕ-اُولٰٓىٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً

(سورۃ الحدید،آیت: 10)

برابر نہیں تم میں سے جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے اللہ کی راہ میں خرچ کیا اور جہاد میں شامل ہوئے ان کا درجہ دوسروں سے بہت اونچا ہے۔

اس آیت شریفہ نے انفاق(خرچ کرنا) اور قتال (جہاد) کہ مجموعہ کو بشرطیکہ فتح مکہ سے پہلے کی یہ قربانیاں ہوں بطریقِ نص معیارِ افضلیت قرار دیا ہے۔

اب آئیے دیکھیں اس عملے انفاق میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ کس درجہ میں تھے، حضورﷺ نے فرمایا:

ما نفعتی مال قط ما نفعنی مال ابی بکر، فبکی ابوبکر وقال یارسول اللہﷺ ھل انا ومالی الالک

(ابنِ ماجہ، صفحہ 10)

مجھے کسی مال سے اتنا فائدہ نہیں پہنچا جتنا ابوبکر صدیقؓ کے مال سے پہنچا ہے، اس پر سیدنا ابوبکر صدیقؓ رو پڑے اور کہا یا رسول اللہﷺ میں اور میرا مال تو ہے ہیں ہی آپ کے لئے۔

اس مقام پر یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ حضورﷺ نے تو صرف مال کا ذکر فرمایا تھا سیدنا ابوبکرؓ نے ساتھ ہی اپنی جان کا تذکرہ بھی فرما دیا، معلوم ہوا کہ جان کا آنحضرتﷺ کے لئے وقف ہونا حضورﷺ کے نزدیک پہلے ہی مسلمات میں سے تھا حضورﷺ نے جب ان کے انفاق(خرچ) کا اس اعترافِ عظمت کے ساتھ ذکر کیا تو سیدنا ابوبکرؓ نے اسے اپنے آپ کو ہی حضورﷺ کے لئے وقف کیے ہونے کے ساتھ ملا کر پوری تواضع کے ساتھ اس استعجاب کو رفع کر دیا۔

یہاں یہ انفاق اور قتال کی مجموعی کیفیت دربارِ رسالت سے سند منظوری لے رہی ہے۔

عن عائشه قالت الفق ابوبکر علی النبیﷺ اربعین الفاً اخرجه، ابو حاتم

(مرقات جلد 5، صفحہ 527)

سیدہ عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے آنحضرتﷺ پر 40 ہزار دینار خرچ کر دئیے تھے۔

پھر محدث عبدالرزاقؒ نقل کرتے ہیں کہ

کان رسول اللہﷺ یقضی فی مال ابوبکر کما کان یقضی فی مال نفسهٖ۔

آنحضرتﷺ سیدنا ابوبکرؓ کے مال میں اسی طرح تصرف فرماتے ہیں جس طرح کہ اپنے مال میں تصرف کرتے۔

اس روایت اور ان الفاظ پر غور فرمائیے کہ کس طرح نفسِ رسالت کا نفسِ صدیقیت میں انجذاب ہو چکا ہے، غیریت کے پردے سب اٹھ چکے ہیں اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے جان و مال کو رب العزت کے ہاں وہ درجہ قبولیت حاصل تھا کہ گویا آنحضرتﷺ کے ہاں وہ اپنے ہی جان و مال ہیں۔ 

اب آئیے! لسانِِ رسالت سے پھر ان دونوں مالی اور جانی قربانیوں کی سند حاصل کریں، آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا:

ان اللہ بعثنی الیکم فقلتم کذبت و قال ابوبکر صدق و واسانی بنفسهٖ ومالهٖ

(بخاری جلد 1، صفحہ 517)

اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہارے پاس بھیجا تم نے میری تکذیب کی لیکن سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے میرے بارے میں کہا کہ سچ کہہ رہے ہیں اور اپنے جان و مال سے میرا ساتھ دیا۔

حضورﷺ کے دعویٰ رسالت کے جواب میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے یہ کہا کہ میں ایمان لاتا ہوں بلکہ فرمایا کہ وہ سچ کہہ رہے ہیں یہ ایک نہایت بلند پایہ شانِ علم ہے جس کے آئینہ میں اظہار ایمان جلوہ گر ہے۔ اس ایک حدیث میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی شانِ ایمان، شانِ علم اور جان و مال آنحضرتﷺ کے لئے وقف کر دینے کا نہایت روشن بیان ہے اور یہ سب اُمور خود لسانِ رسالت سے شرفِ قبولیت حاصل کر رہے ہیں۔

اکابر صحابہ کرامؓ میں ایسے بزرگ بھی ہیں جو انفاق (خرچ کرنے میں) زیادہ ممتاز ہیں جیسے سیدنا عثمانؓ اور ایسے بھی ہیں جنہیں قتال میں امتیاز حاصل ہوا جیسے سیدنا علی المرتضیٰؓ اور جنہیں کہ ان کی مالی پوزیشن باب انفاق میں زیادہ نمایاں نہ کر سکی مگر انفاق اور قتال کی یہ مجموعی شان جسے کہ قرآنِ کریم نے اُولٰٓىٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً کے پُر عظمت الفاظ میں ذکر کیا ہے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی شانِ افضلیت پر مہرِ تصدیق ثبت کر رہی ہے۔ جن بزرگوں کو ان کے مالی مسائل نے یہ موقع نہ دیا کہ وہ اللہ کی راہ میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر خرچ کریں، تو اس تکوینی مجبوری سے ان پر ہرگز کوئی حرف نہیں آتا، لیکن قرآنِ حکیم نے افضلیت کی بحث میں جسے معیار کے طور پر پیش کیا ہے وہ یہی فیصلہ ربانی ہے:

لَا يَسْتَوِىْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ ۚ اُولٰٓئِكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً

( سورۃ الحدید،آیت: 10)

فتح مکہ سے پہلے انفاق (خرچ کرنے) اور قتال (شرکتِ جہاد) کہ مجموعی وصف سے ممتاز ہونے والے بعد کے لوگوں کے برابر نہیں۔

افضلیت کا چوتھا معیار

افضلیت اور برتری کا چوتھا معیار فضلِ خداوندی ہے جس کے بھی شاملِ حال ہو جائے اور پھر جس جس درجہ میں جس کے شاملِ حال ہو گا اُسی درجہ میں اس کی بزرگی اور برتری ثابت ہو گی جہاں اسباب کی منزلیں طے ہو جائیں وہاں فضلِ خداوندی کی ہی بشارت ملتی ہے۔

وَ بَشِّرِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ بِاَنَّ لَہُمۡ مِّنَ اللّٰہِ فَضۡلًا کَبِیۡرًا

(سورۃ الاحزاب آیت: 47)

ترجمہ: اور آپ بشارت دے دیں مؤمنین کو کہ ان کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑا فضل ہے۔

اور جس طرح قرآن کریم نے آنحضرتﷺ کے لئے خصوصی طور پر فضل کا ذکر فرمایا ہے:

وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ ۚ وَكَانَ فَضْلُ اللّـٰهِ عَلَيْكَ عَظِيْمًا

 (سورۃ النساء،آیت: 113)

اور اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو وہ کچھ سکھایا جو آپ پہلے نہ جانتے تھے اور اللہ تعالیٰ کا فضل آپ پر بہت ہے۔

اسی طرح قرآنِ کریم نے سیدنا ابوبکرصدیقؓ کی نسبت بھی فضل کی تصریح فرما دی ہے، سیدنا صدیقِ اکبرؓ مسطح بن اثاثہ پر اللہ کی راہ میں بہت مال خرچ کرتے تھے۔

(بخاری جلد2،صفحہ698)

جب وہ واقعہ افک میں لوگوں کی غلط افواہوں میں آگئے تو سیدنا صدیقِ اکبرؓ نے قصد کر لیا کہ آئندہ انہیں کچھ نہ دیں گے، اس پر قرآنِ کریم نے کہا:

وَلَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَ السَّعَةِ

(سورۃ النور آیت:22)

اور جن لوگوں کو فضل(دین کی بزرگی اور رزق کی وسعت) حاصل ہے وہ ایسی قسمیں نہ کھائیں۔

مفسرین کا اجماع ہے کہ یہاں فضل کی نسبت سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی طرف ہی کی گئی ہے۔

جس انداز اور جس صراحت کے ساتھ فضلِ خداوندی کی نسبت آنحضرتﷺ کی ذاتِ مقدس اور سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی ذات قدسی صفات کے ساتھ قرآنِ کریم میں موجود ہے، اس میں کوئی اور معین فرد ان حضرات شریک نہیں، تمام مؤمنین عمومی فضل سے بہرہ ور ہے لیکن یہ خصوصی فضل غار کے ان دو ساتھیوں کے ہی شاملِ حال رہا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ کہتے ہیں کہ آنحضرتﷺ سے جب پوچھا گیا کہ ای الناس افضل:

کل مخموم القلب صدوق للسان

(سنن ابنِ ماجہ صفحہ 391)

ہر وہ شخص جو دل کا صاف اور خدا ترس انسان ہے۔ اور اس کی زبان صداقت سے متصف ہے وہ دوسروں سے افضل ہے۔

سیدنا صدیقِ اکبرؓ کا نرم دل، صاف دل اور خدا ترس ہونا حدیث سیدہ عائشہؓ میں موجود ہے اور صدیق تو وہ تھے ہی، بس اس اعتبار سے بھی ان کی فضیلت صاف ظاہر ہے، چنانچہ سیدنا علی المرتضیٰؓ سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے بارے میں صاف ارشاد فرماتے ہیں:

کان افضلھم فی الاسلام

(شرح نہج البلاغہ ابن میسم بحرانی جلد 31، صفحہ 486)

سیدنا ابوبکرؓ اسلام میں تمام صحابہ کرامؓ سے افضل ہیں۔

سیدنا ابنِ عمرؓ کہتے ہیں کہ:

کنا نقول فی عھد النبیﷺ لا نعدل بابی بکر احداً ثم عمرؓ

ہم آنحضرتﷺ کے زمانے میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ برابر کسی کو نہ سمجھتے تھے اور ان کے بعد سیدنا عمرِ فاروقؓ کا درجہ قرار دیتے تھے۔

سیدنا ابنِ عمرؓ کے اس قول میں آنحضرتﷺ کے زمانے کا ذکر اس لئے ہے کہ یہ فیصلہ صرف صحابہ کرامؓ کا اجماع ہی نہ سمجھا جائے بلکہ اسے آنحضرتﷺ کی منظوری کا بھی شرف حاصل ہے جیسا کہ تقریری حدیث میں ہوتا ہے:

عن ابن عمرو قال کنا نقول و رسول اللہﷺ حیٌ ابوبکر ثم عمر ثم عثمان رضی الله عنھم (ایضاً)

ہم آنحضرتﷺ کے زمانے میں کہا کرتے تھے کہ آنحضرتﷺ کے بعد اس اُمت میں سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیقؓ ہیں پھر سیدنا عمرِ فاروقؓ اور پھر سیدنا عثمانِ غنیؓ، اللہ تعالیٰ ان سب سے راضی ہو گیا ہے۔

اور یہ فیصلہ صرف دوسرے صحابہ کرامؓ کا ہی نہیں سیدنا علیؓ بھی اس میں شریک ہیں، سیدنا علی المرتضٰیؓ سے ان کے صاحبزادے سیدنا محمد بن الحنیفہؓ نے پوچھا:

ای ان الناس خیر بعد رسول اللہﷺ

آنحضرتﷺ کے بعد افضل الناس کون ہے؟

تو آپؓ نے ارشاد فرمایا سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور ان کے بعد سیدنا عمرِ فاروقؓ۔

(ایضاً جلد 2، کتاب السنتہ باب فی التفضیل، صفحہ 636)

چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اس امت میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔

حضورﷺ نے خود ارشاد فرمایا:

اما انک یا ابا بکر اول من یدخل الجنۃ من امتی

(ایضاً صفحہ 636)

سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا عمرِ فاروقؓ پر کسی اور بزرگ کو فضیلت دینے والے کا کوئی عمل آسمان کی طرف اٹھتا (درجۂِ قبولیت حاصل کرتا) نظر نہیں آتا کیونکہ اوپر پاک کلمے اور صحیح اعمال ہی اٹھتے ہیں۔

الیہ یصعد الکلم الطیب۔ واللہ اعلم۔