Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حضورصلی اللہ علیہ وسلم اکثر اوقات حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جنگوں میں بھیج دیا کرتے تھے اور صدیق و عمر رضی اللہ تعالی عنھما کو کبھی کبھی، اور فرق ظاہر ہے۔

  مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند

♦️شیعہ مغالطہ نمبر 16♦️

حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر اوقات حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو جنگوں میں بھیج دیا کرتے تھے اور صدیق و عمر رضی اللہ تعالٰی عنھما کو کبھی کبھی، اور فرق ظاہر ہے۔

⬅️جواب اہلسنّت نمبر 1:➡️

ان سے چونکہ اللہ تعالٰی نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد علٰی سبیل الاتصال خلافت کا کام لینا تھا اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں چاہتے تھے کہ یہ کِسی وقت جُدا ہوں، لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے چونکہ چوتھے نمبر پر خلافت کی ڈیوٹی ادا کرنی تھی اس لیے ان کے متعلق یقین تھا کہ جِن امور کی وہ مُجھ سے اطلاع نہ پاسکیں گے خلفاء ثلاثہ سے ہی پا لیں گے۔

⬅️ جواب اہلسنّت نمبر 2:➡️

بجائے اس کے کہ ہم اس سوال کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہیں، سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی نقل کیے دیتے ہیں، پڑھیے اور اطمینان کیجیے۔

{عن حذیفة بن ریحان قال سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم یقول ھممت ان ابعث الی الافاق رجالا یعلمون الناس السنن والفرائض کما بعث عیسٰی ابن مریم الحوارتین قیل لهٗ فأین انت عن ابی بکر و عمر قال انهٗ لا غنی لی عنھما انھما من الدین کالسمع والبصر ۔ رواہ الحاکم فی المستدرك}

ترجمہ:-

"حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدّس زبان سے سُنا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں نے قصد کیا ہے کہ میں سنن و فرائض کی تعلیم اور امورِ دین کی تبلیغ کے لیے لوگوں کو بھیجوں جِس طرح عیسٰے بن مریم اپنی جماعت کو بھیجتے تھے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں سوال کیا گیا یا رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالٰی عنھما کو کیوں نہیں بھیجتے تھے۔ فرمایا کہ وہ دین کے لیے آنکھ اور کان کے مثل ہیں یعنی اگر وہ چلے جائیں تو پھر پیچھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

(ف) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو نہ بھیجنا غزوات و سرایا کے اکثر معرکوں میں یا لوگوں کو تعلیم کے لیے اس لیے نہ ہوتا تھا کہ وہ حقیر فی الدین ہیں بلکہ اس لیے ہوتا تھا کہ ان کا رہنا ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اطمینان کا باعث ہوتا تھا۔ سابقہ روایات اور قدیمی قربانیوں نے ان کا مقام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہوں میں اتنا بلند کر دیا تھا کہ اب اُن سے ایسے کٹھن کام لینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی تھی۔

✳️مزید تائید ✳️

{عن ابی اروی الدرسی قال کنت جالسًا عند النبی صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم فاطلع ابو بکر و عمر فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم ألحمدللّٰه الذی ایّدنی بھما۔۔رواہ الحاکم۔}

ترجمہ:

"ابی راوی فرماتے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا کہ صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ و فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جھانک کر دیکھا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالٰی کا شُکر ہے جِس نے ان دو شخصوں کے ذریعہ میری تائید فرمائی۔"