1. حضور ﷺ اکثر اوقات حضرت علی ؓ کو جنگوں میں بھیج دیا کرتے تھے اور صدیق و عمر رضی اللہ تعالٰی عنھما کو کبھی کبھی، اور فرق ظاہر ہے۔
2. حدیث میں آتا ہے کہ کچھ لوگ حوضِ کوثر سے راندے جائیں گے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمائیں گے میرے صحابی تو جواب آئے گا آپ نہیں جانتے کہ آپ کے بعد انہوں نے کیا عمل کئے!
3. جب قیامت کا دن ہوگا تو خُدا تعالٰی مُجھے اور علی بن ابی طالب کو فرمائیں گے اپنے مُحبّین کو بہشت میں داخل کرو اور دُشمنوں کو جہنّم میں داخل کرو۔ معلوم ہوتا ہے کہ افضلیت حضور صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کے بعد سیّدنا علی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کے لیے ہے۔
4. "حضور صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک پرندہ بھونا ہوا پڑا تھا تو آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے اللّٰه ! مُجھے وہ آدمی دے جو تیری ساری مخلوق سے تُجھے پیارا ہو اور وہ آ کر میرےساتھ بھونے ہوئے پرندے کو کھائے، پس حضرت علی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ آئے اور آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے کھایا۔" معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ افضل تھے
5. سیّدنا علی ؓ جب خیبر کو جانے لگے تو حضور ﷺ نے اپنا لعاب دہن اُن کی آنکھوں پر لگایا جِس سے وہ شفایاب ہو گئے۔ یہ وہ فضیلت ہے جو بغیر علی مُرتضٰی ؓ کے کِسی میں نہیں ہے۔
6. سیّدنا علی کو حضور اکرم نے خدا کے حکم سے سُلایا مگر صدیقِ اکبر بغیر بُلانے کے تشریف لے گئے۔
7. شبِ ہجرت حضور ﷺ نے سیِدنا علی المُرتضٰی ؓ کو اپنے بستر پر سُلایا، معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کے بِستر پر سونے کی اہلیّت بغیر علی المُرتضٰی ؓ کے اور کِسی میں نہیں تھی۔
8. سیّدنا علی المُرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ بہت سخی تھے اس لیے افضل ہیں۔
9. حضرت علی ؓ ذہناً اور طبعاً ذکی تھے، اسی لیے حضور ﷺ نے آپ کو اقضٰی فرمایا۔
10. پیغامِ برأت کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بھیجا لیکن جب یہ پورا نہ ادا کر سکے تو علی المُرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بھیجا۔ اہلیت اور عدمِ اہلیت واضح ہے چہ جائیکہ افضلیت پر بحث کی جائے۔
11. صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ تو مدۃ العمر تک کِسی غزوے میں امیر بھی نہیں بنائے گئے، اور آپ اُن کی افضلیت کے قائل ہیں۔
12. حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی افضلیت کا ثبوت یہ ہے کہ نُصیریہ نے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو خُدا تسلیم کر لیا ہے اگرچہ وہ خُدا نہیں تھے مگر پھر بھی افضل تو ضرور تھے۔ رہے آپ کے صدیق و عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما ان کا حال تو آپ کے سامنے ہی ہے۔
13. ہر معرکے میں صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ و فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مشورے لیا کرتے تھے، اگر اُن کا رُتبہ اور مقام افضل نہ ہوتا تو مشورے کیوں لیتے؟
14. صدیقِ اکبر ؓ جنگوں میں فرار کر گئے تھے اور حضرت علی ؓ ثابت قدم رہے۔ لہٰذا افضل حضرت علی ؓ رہے۔
15. اے علی ! تُو مُجھ سے ہے اور میں تُجھ سے ہوں۔(حدیث نبوی)
16. حضرت علی المُرتضٰی ؓ نے تو کفر کا زمانہ ہی نہیں پایا اور صدیقِ اکبر ؓ، فاروقِ اعظم ؓ وغیرہ کفر سے اِسلام کی طرف آئے ہیں۔ اس لیے سیّدنا علی المُرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ افضل ٹھہرے۔
1. حضور ﷺ اکثر اوقات حضرت علی ؓ کو جنگوں میں بھیج دیا کرتے تھے اور صدیق و عمر رضی اللہ تعالٰی عنھما کو کبھی کبھی، اور فرق ظاہر ہے۔
2. حدیث میں آتا ہے کہ کچھ لوگ حوضِ کوثر سے راندے جائیں گے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمائیں گے میرے صحابی تو جواب آئے گا آپ نہیں جانتے کہ آپ کے بعد انہوں نے کیا عمل کئے!
3. جب قیامت کا دن ہوگا تو خُدا تعالٰی مُجھے اور علی بن ابی طالب کو فرمائیں گے اپنے مُحبّین کو بہشت میں داخل کرو اور دُشمنوں کو جہنّم میں داخل کرو۔ معلوم ہوتا ہے کہ افضلیت حضور صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کے بعد سیّدنا علی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کے لیے ہے۔
4. "حضور صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک پرندہ بھونا ہوا پڑا تھا تو آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے اللّٰه ! مُجھے وہ آدمی دے جو تیری ساری مخلوق سے تُجھے پیارا ہو اور وہ آ کر میرےساتھ بھونے ہوئے پرندے کو کھائے، پس حضرت علی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ آئے اور آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے کھایا۔" معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ افضل تھے
5. سیّدنا علی ؓ جب خیبر کو جانے لگے تو حضور ﷺ نے اپنا لعاب دہن اُن کی آنکھوں پر لگایا جِس سے وہ شفایاب ہو گئے۔ یہ وہ فضیلت ہے جو بغیر علی مُرتضٰی ؓ کے کِسی میں نہیں ہے۔
6. سیّدنا علی کو حضور اکرم نے خدا کے حکم سے سُلایا مگر صدیقِ اکبر بغیر بُلانے کے تشریف لے گئے۔
7. شبِ ہجرت حضور ﷺ نے سیِدنا علی المُرتضٰی ؓ کو اپنے بستر پر سُلایا، معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کے بِستر پر سونے کی اہلیّت بغیر علی المُرتضٰی ؓ کے اور کِسی میں نہیں تھی۔
8. سیّدنا علی المُرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ بہت سخی تھے اس لیے افضل ہیں۔
9. حضرت علی ؓ ذہناً اور طبعاً ذکی تھے، اسی لیے حضور ﷺ نے آپ کو اقضٰی فرمایا۔
10. پیغامِ برأت کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بھیجا لیکن جب یہ پورا نہ ادا کر سکے تو علی المُرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بھیجا۔ اہلیت اور عدمِ اہلیت واضح ہے چہ جائیکہ افضلیت پر بحث کی جائے۔
11. صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ تو مدۃ العمر تک کِسی غزوے میں امیر بھی نہیں بنائے گئے، اور آپ اُن کی افضلیت کے قائل ہیں۔
12. حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی افضلیت کا ثبوت یہ ہے کہ نُصیریہ نے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو خُدا تسلیم کر لیا ہے اگرچہ وہ خُدا نہیں تھے مگر پھر بھی افضل تو ضرور تھے۔ رہے آپ کے صدیق و عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما ان کا حال تو آپ کے سامنے ہی ہے۔
13. ہر معرکے میں صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ و فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مشورے لیا کرتے تھے، اگر اُن کا رُتبہ اور مقام افضل نہ ہوتا تو مشورے کیوں لیتے؟
14. صدیقِ اکبر ؓ جنگوں میں فرار کر گئے تھے اور حضرت علی ؓ ثابت قدم رہے۔ لہٰذا افضل حضرت علی ؓ رہے۔
15. اے علی ! تُو مُجھ سے ہے اور میں تُجھ سے ہوں۔(حدیث نبوی)
16. حضرت علی المُرتضٰی ؓ نے تو کفر کا زمانہ ہی نہیں پایا اور صدیقِ اکبر ؓ، فاروقِ اعظم ؓ وغیرہ کفر سے اِسلام کی طرف آئے ہیں۔ اس لیے سیّدنا علی المُرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ افضل ٹھہرے۔