Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

"حضور صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم  کے پاس ایک پرندہ بھونا ہوا پڑا تھا تو آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے اللّٰه ! مُجھے وہ آدمی دے جو تیری ساری مخلوق سے تُجھے پیارا ہو اور وہ آ کر میرےساتھ بھونے ہوئے پرندے کو کھائے، پس حضرت علی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ آئے اور آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے کھایا۔"  معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ افضل تھے

  مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند

♦️شیعہ مغالطہ نمبر 13♦️

{عن انسٍ قال کان عنه النبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم طیر فقال أللّٰھمَّ اٰتنِی باحب خلقك الیك یأکل متی ھٰذا الطیر فجاء علیٌّ فاکل۔}

(اخرجه الترمذی)

ترجمہ:-

"حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے پاس ایک پرندہ بھونا ہوا پڑا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے اللہ ! مُجھے وہ آدمی دے جو تیری ساری مخلوق سے تُجھے پیارا ہو اور وہ آ کر میرےساتھ بھونے ہوئے پرندے کو کھائے، پس حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھایا۔"

 معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ افضل تھے۔


⬅️جواب اہلسنّت نمبر 1:➡️

باتفاق فریقین تمام مخلوقات میں سے اللہ تعالٰی کو سب سے زیادہ محبّت سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے۔

{تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعۡضٍ}

{وَ مَاۤ أَرۡسَلۡنٰكَ إِلَّا رَحۡمَةً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ}

{وَ مَاۤ أَرۡسَلۡنٰكَ إِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ}

جیسی آیتیں بتاتی ہیں کہ جو مقام اللہ تعالٰی نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عنایت فرمایا ہے اور کِسی کو نہیں دیا۔ اور اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ احب الخلق عنداللّٰہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں۔ جہاں تک ان کی فضیلت کا تعلق ہے مسلّم ہے لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا مقام افضل الانبیاء سے بہت کم ہے۔

پس معلوم ہوا کہ مذکورہ بالا حدیث کا مطلب آیاتِ خُداوندی سے ٹکرا جانے کی وجہ سے ناقابلِ قبول ہے۔

⬅️ جواب اہلسنّت نمبر 2:➡️

اور اگر آیاتِ خُداوندی سے ٹکرا جانا تسلیم نہ کیا جائے تو پھر افضلیت پر استدلال قائم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ خُدا تعالٰی کے نزدیک ہر نیکی کا اپنا اپنا شعبہ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ خُدا تعالٰی کو اشجع ہونے کی حیثیت سے احب ہوں اور صدیقِ اکںبر رضی اللہ تعالٰی عنہ اتقٰی ہونے کی حیثیت سے اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ اقراء ہونے کی حیثیت سے۔ بہرحال حیثیت کے تغیر و تبدل سے احب ہونا بھی متعدد ہوتا جائے گا۔

⬅️جواب اہلسنّت نمبر 3:➡️

جِس طرح صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے احب الی الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہونے سے سیّدنا حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے احب الی الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے میں فرق نہیں آتا اسی طرح سیّدنا علی المُرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے احب الی اللہ ہونے سے سیّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے احب الی الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہونے میں فرق نہیں آتا۔

یہ حدیث ملاحظہ فرمائیے:-

{عن عائشة قالت کان ابوبکر (رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ) احب النّاس الٰی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ثم عمر(رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ)۔}

(قرۃ العینین ص 205)

ترجمہ:-

"ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب لوگوں سے زیادہ محبوب تھے، اس کے بعد عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ۔"

{قُلۡ إِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ} (الآیة)

ترجمہ:-

"اے محمد مُصطفٰی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کہہ دیجیے اگر تُم خُدا کے محب ہو تو تُم میری تابعداری کر لو خُدا تُم کو محبوب بنا لے گا۔"

✳️ معلوم ہوا کہ اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں محبوبیت الی اللہ حاصل ہوتی ہے۔ پس جو شخص زیادہ تابعدار ہو گا وہ زیادہ محبوب ہو گا۔ اس آیت کے پیشِ نظر اجلیّتِ کسبی معلوم ہوتی ہے جِس کی کِسی سے تخصیص کرنا نصِ قُرآن کے خلاف ہے۔