Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حضرت علی رضی اللہ عنہ ذہنا اور طبعا ذکی تھے، اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اقضی فرمایا۔

  مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند

♦️شیعہ مغالطہ نمبر 8♦️

حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ ذہناً اور طبعاً ذکی تھے، اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو اقضٰی فرمایا۔


⬅️جواب اہلسنّت نمبر 1:➡️

ذکی ہونا فطری امر ہے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ذکی اور شیخین کا ذکی نہ ہونا کہیں بھی لکھا ہوا نہیں ہے۔

حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا اقضٰی ہونا ہمارے نزدیک بھی مسلّم ہے، یہی تو وجہ ہے کہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خلفائے ثلاثہ رضی اللہ تعالٰی عنھم کی خلافت کے ایام میں یہی فیصلہ کیا کہ ان کے خلاف نہیں کرنا چاہیے کے وہ اذکٰی اوراقضٰی نہ ہوتے تو ایسا دانشمندانہ فیصلہ نہ کرتے۔

⬅️ جواب اہلسنّت نمبر 2:➡️

آپ اقضٰی کیوں نہ ہوں جبکہ آپ دربارِ نبوّت سے دربارِ عُثمانی تک سب فیصلوں کو بچشمِ خود دیکھ چُکے تھے اور مہارتِ تامّہ حاصل کر چُکے تھے۔

⬅️ جواب اہلسنّت نمبر 3:➡️

شیخین میں افضلیت یہ تھی کہ وہ کِسی صاحب الرائے کے رائے دینے پر اپنی رائے کو بدل دیتے تھے لیکن سیّدنا علی المُرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنی رائے پر ڈٹ جاتے تھے اور انجام کا خیال نہ فرماتے تھے۔ شاید آپ فاذا عزّمت فتوکّل علی اللہ پر ہی عمل فرماتے تھے۔

بہرحال جنگِ جمل اور جنگِ صفین اور عزل سیّدنا معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سلسلے میں اپنوں میں سے بعض حضرات نے اس اقدام کے خلاف مشورہ دیا لیکن آپ نے اس میں بہتری سمجھی اور جو نتیجہ برآمد ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ جِس پر ایمانی حیثیت سے کِسی کو اظہارِ خیال کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا جبکہ سب کےقدموں پر نثار ہو جانا ہمارا اعتقاد ہے اور ہمیں کہنا پڑتا ہے۔

۔ ہوتا ہے وہی جو منظورِ خُدا ہوتا ہے...

⬅️جواب اہلسنّت نمبر 4➡️

بے شک حضرت علی المُرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ اقضٰے تھے جِس کا ہمیں اقرار ہے۔

لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس قسم کے متعدد القاب صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنھم کے لیے بھی وضع فرمائے جِن کا کِسی کو انکار نہیں کرنا چاہیے۔

مثلًا:-

♦️1۔ صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ و فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کو مقتدائے اُمّت فرمایا۔

{ اقتدوا بالّذین من بعدی أبا بکر و عُمَر۔ }

ترجمہ:-

"میرے بعد ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کی اقتدا کرنا۔"

♦️2۔ ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اقراء القُران  فرمایا۔

{اقرء کم ابی ابن کعب۔}

ترجمہ:-

"تُم سے زیادہ قاری ابی بن کعب ہے۔"

♦️ 3۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اُستاذ القراء فرمایا۔

{اِقرء والقرآن من اربعة فمن عبد اللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰهُ تعالٰی عنه۔}

ترجمہ:-

"قرآن چار شخصوں سے پڑھنا پہلا عبداللہ بن مسعود ہے۔"

♦️ 4۔ معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اَعلمْ کا خطاب عنایت فرمایا۔

{أَعْلَمُکُمْ بالحلال والحرام معاذ ابن جبل۔}

ترجمہ:-

"حلال و حرام کا سب سے زیادہ جاننے والا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ ہے۔"

♦️ 5۔ زید بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہ کو افرض کا لقب دیا

{ أَفْرَضُکمْ زَیْدٌ۔ }

♦️ 6۔ ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالٰی عنہ کو امینِ اُمّت فرمایا

{ لِکُلِّ اُمَّةٍ امین وَامین ھٰذِہِ الامّة ابُو عُبیْدہ۔ }

ترجمہ:-

"ہر اُمّت کے لیے امین ہے اور اس امت کا امین ابو عبیدہ ہے۔

♦️ 7۔ زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو حواری کا لقب دیا۔

{ لِکُلِّ نبی حواری وحواری الزُّبیْر۔ }

ترجمہ:-

"ہر نبی کے لیے معاون ہوتے ہیں میرا معاون زبیر ہے۔"

♦️ 8۔ سیّدتنا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو معلم العلوم فرمایا۔

{ خذوا ربع العلم من ھٰذہ الحمیراء۔ }

ترجمہ:-

"علم کی چوتھائی سیّدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے حاصل کرنا۔"

✳️  پس جِس طرح صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ و فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مقتداء اور ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اقراء ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اُستاذ القراء اور معاذ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اعلم اور زید رضی اللہ تعالٰی عنہ کے افرض اور ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے امین اور زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حواری اور عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے معلّمہ ہونے سے سیّدنا علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اعلم اقراء افرض اور معاون ہونے کا انکار نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اقضٰے ہونے سے یا قابل للقضاء ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

⬅️ جواب اہلسنّت نمبر 5➡️ 

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیّدنا علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اقضٰی فرما کر ایک نفیس اشارہ کیا ہے وہ یہ کہ اقضٰی اُسے کہتے ہیں جو کِسی کی رعایت کیے بغیر مسئلہ حقہٗ کو بیان کر دے۔

چونکہ شیعہ حضرات حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے متعلق یہ الزام لگایا کرتے ہیں کی آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تقیہ میں زِندگی بسر کی، اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے عہدِ نبوّت میں سیّدنا علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فطرت واضح کر دی کہ وہ اقضٰی ہیں کیونکہ جو اقضٰی ہو وہ تقیہ نہیں کرتا اور جو تقیہ کرنا اپنا شعار بنا لیتا ہے وہ اقضٰی نہیں ہوتا۔