Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

یزید بن ابی مریم حضرت علیؓ سے روایت کرتے ہیں کہ میں اور نبی کریم ﷺ کعبہ میں آئے پھر آپ ﷺ میرے کندھے پر سوار ہوئے۔ میں نے اٹھنا چاہا مگر نہ اٹھ سکا۔ آپ میری کمزوری دیکھ کر اتر آئے پھر آپ بیٹھے اور میں آپ کے کندھے پر سوار ہو گیا۔ آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور میں خانہ کعبہ پر چڑھ گیا۔ کعبہ پر تانبہ کی ایک مورتی تھی۔ میں نے اسے اکھاڑ کر پھینک دیا اور وہ ٹوٹ گئی۔ پھر ہم بھاگنے لگے: یہاں تک کہ ہم گھروں میں نظروں سے اوجھل ہو گئے؛ ہمیں خوف تھاکہ کہیں لوگ ہمیں پکڑنہ لیں۔

  امام ابن تیمیہ

بیت اللہ سے بت توڑنے کی روایت


[اشکال] :

شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’یزید بن ابی مریم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ میں آئے پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے کندھے پر سوار ہوئے۔ میں نے اٹھنا چاہا مگر نہ اٹھ سکا۔ آپ میری کمزوری دیکھ کر اتر آئے پھر آپ بیٹھے اور میں آپ کے کندھے پر سوار ہو گیا۔ آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور میں خانہ کعبہ پر چڑھ گیا۔ کعبہ پر تانبہ کی ایک مورتی تھی۔ میں نے اسے اکھاڑ کر پھینک دیا اور وہ ٹوٹ گئی۔ پھر ہم بھاگنے لگے: یہاں تک کہ ہم گھروں میں نظروں سے اوجھل ہو گئے؛ ہمیں خوف تھاکہ کہیں لوگ ہمیں پکڑنہ لیں ۔‘‘

[انتہی کلام الرافضی] 


[جواب] :

ہم کہتے ہیں کہ بشرط صحت

[مسند احمد(۱؍۸۴)۔ مستدرک حاکم(۲؍۳۶۶۔۳۶۷، ۳؍۵) من طریق ابی مریم عن علی ۔ و ابو مریم الثقفی ھو مجہول۔ وقال الذہبی۔ اسنادہ نظیف والمتن منکر۔‘‘]

اس واقعہ میں ایسی کوئی بات نہیں پائی جاتی جو ائمہ و خلفاء کے خصائص میں شمار ہونے کے قابل ہو۔ احادیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حالت نماز میں امامہ بنت ابی العاص کو اٹھائے ہوئے ہوتے تھے۔

[صحیح بخاری ۔ کتاب الصلاۃ باب اذاحمل جاریۃ صغیرۃ علی عنقہ‘‘ (حدیث: ۵۱۶) ، صحیح مسلم ، کتاب المساجد۔ باب جواز حمل الصبیان فی الصلوۃ(حدیث: ۵۴۳)۔]

جب آپ سجدہ کرتے تو اسے نیچے چھوڑ دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو اسے اٹھا لیتے ۔
٭ ایک دفعہ حالت سجدہ میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ آکر آپ پرسوار ہو گئے

[سنن نسائی، کتاب التطبیق ۔ باب ھل یجوز ان تکون سجدۃ أطول من سجدۃ (ح:۱۱۴۲) ]

تو آپ نے سجدہ لمبا کردیا۔پھر بعد میں آپ نے فر مایا: ’’ میرے بیٹے کی وجہ سے مجھے سجدہ لمبا کرنا پڑا۔

[رواہ النسائي ۲؍۱۸۲؛ أحمد ۳؍۴۹۳۔] 

٭ آپ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو بوسہ دیا کرتے تھے۔
٭ جب آپ ایک لڑکے اور لڑکی کو اٹھا سکتے ہیں ۔ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اٹھانے کا یہ مطلب نہیں کہ یہ آپ کی کوئی خصوصیت ہے۔بلکہ اس معاملہ میں دوسرے لوگ بھی آپ کے شریک ہیں ۔ جبکہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس لیے اٹھایا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھانے سے قاصر تھے۔
٭ بنا بریں اس واقعہ کو مناقب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں شمارکرنا زیادہ قرین قیاس ہے۔ اس پر مزید یہ کہ جو شخص نبی کو اٹھاتا ہے وہ اس سے افضل ہے جو نبی پر سوار ہو۔ جیسے طلحہ بن عبید اﷲ نے غزوہ احد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھایا تھا ۔

[سنن ترمذی۔ کتاب المناقب ، باب مناقب ابی محمد طلحہ بن عبید اللّٰہ، (حدیث:۳۷۳۸) ]

ظاہر ہے کہ جس شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھایا اس نے نبی کو فائدہ پہنچایا اور جو نبی پر سوار ہوا اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فائدہ حاصل کیا۔ اس میں شبہ نہیں کہ نبی کو فائدہ پہنچانے والا نفع حاصل کرنے والے کی نسبت بہت زیادہ افضل ہے۔