خطیب اعظم خوارزمی نے یہ روایت ذکر کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت علی ؓ کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’ اے علی! اگر کوئی شخص اس قدر عرصہ دراز تک اللہ کی عبادت کرے جتنا عرصہ حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم میں ٹھہرے تھے اور احد پہاڑ جتنا سونا اللہ کی راہ میں صرف کرے؛ اور پا پیادہ ایک ہزار مرتبہ حج کرے ؛پھر بحالت مظلومی صفاء و مروہ کے مابین مارا جائے؛ اور اے علی ! وہ تجھے دوست نہ رکھتا ہو تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھے گا اور نہ وہ اس میں داخل ہوگا۔‘‘ [مزید من گھڑت روایات ملاحظہ فرمائیں ]
امام ابن تیمیہشیعہ کی وضع کردہ احادیث؛ خطیب خوارزمی کی روایت
[شبہ] :
شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’خطیب اعظم خوارزمی [اخطب خوارزم(خطیب اعظم خوارزمی) ایک شیعہ ادیب ہے، یہ زمخشری کا شاگرد تھا۔ اس کا نام
الموفّق بن احمد بن اسحاق (۴۸۴۔ ۵۶۸)
ہے۔ دیکھیے:
بغیۃ الوعاۃ، ص: ۴۰۱،
نیز
روضات الجنہ طبع ثانی،ص:۷۲۲۔
اخطب خوارزم کی کتاب کا نام ’’مناقب اہل البیت‘‘ ہے۔
مقام افسوس ہے کہ غریب اہل بیت کی مدح میں شیعہ نے جھوٹی روایات وضع کرکے ان پر کتنا بڑا ظلم ڈھایا ہے۔‘‘]
خطیب اعظم خوارزمی نے یہ روایت ذکر کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا:
’’ اے علی! اگر کوئی شخص اس قدر عرصہ دراز تک اللہ کی عبادت کرے جتنا عرصہ حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم میں ٹھہرے تھے اور احد پہاڑ جتنا سونا اللہ کی راہ میں صرف کرے؛ اور پا پیادہ ایک ہزار مرتبہ حج کرے ؛پھر بحالت مظلومی صفاء و مروہ کے مابین مارا جائے؛ اور اے علی ! وہ تجھے دوست نہ رکھتا ہو تو وہ جنت کی خوشبو بھی
نہ سونگھے گا اور نہ وہ اس میں داخل ہوگا۔‘‘
[مزید من گھڑت روایات ملاحظہ فرمائیں ] :
۱۔ ایک شخص نے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اتنی شدید محبت رکھتے ہیں ؟ انھوں نے کہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ’’ جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی۔اور جس نے علی سے عداوت رکھی یقیناً اس نے مجھ سے عداوت رکھی۔‘‘
۲۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چہرے کے نور سے ستر ہزار فرشتے پیدا کیے ہیں ، جو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان سے محبت رکھنے والوں کے لیے تاقیامت مغفرت طلب کرتے رہیں گے۔‘‘
۳۔ عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی نماز و دعا اور صیام و قیام کو قبول فرماتے ہیں ۔‘‘
۴۔ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ہر رگ و ریشہ کے عوض جنت میں ایک شہر عطا کریں گے۔ جو شخص آل محمد سے محبت کرتا ہے وہ حساب و میزان اور پل صراط سے خائف نہ ہو گا۔ نیز جس کی موت حب آل محمد پرہوگی میں اسے جنت میں انبیاء کرام کے ساتھ لے جانے کا ضامن ہوں ۔ جو شخص آل محمد سے بغض رکھے گا بروزقیامت اس کی پیشانی پر لکھا ہو گا ’’ خداکی رحمت سے ناامید۔‘‘
۵۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے :’’ جس کا یہ خیال ہو کہ وہ مجھ پر اور قرآن پر ایمان لایا ہے مگر وہ علی سے بغض رکھتا ہو‘ وہ جھوٹا ہے ‘ وہ ہر گز مؤمن نہیں ہوسکتا ۔‘‘
۶۔ حضرت ابوبرزہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ایک دن ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! کسی انسان کے قدم بروز ِ قیامت اپنی جگہ سے سرکنے نہیں پائیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس سے چار چیزوں کے بارے میں سوال کرلیں : ’’ اس کی عمر کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ اسے کہاں فنا کیا؟ اور اس کے جسم کے بارے میں سوال کیا جائے گا کہ اسے کس چیز میں بوسیدہ کردیا ؟ اور اس کے مال کے بارے میں سوال ہوگا کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا ؟ اور ہم اہل بیت کی محبت کے بارے میں سوال کیا جائے گا؟‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ کے بعد آپ کی محبت کی نشانی کیا ہے ؟ تو آپ نے اپنا دست مبارک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سر پر رکھا ؛ آپ اس وقت آپ کے پہلو میں کھڑے تھے ؛ اور فرمایا: بیشک میرے بعد میری محبت اس سے محبت رکھنا ہے ۔‘‘
۷۔ عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ:’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا تھا کہ شب معراج اللہ تعالیٰ نے آپ کو کس زبان میں مخاطب کیا؟ آپ نے فرمایا’’علی کے لہجہ میں ‘‘پھر میں نے بنا بر الہام پوچھا ’’بار خدایا کیا تو نے مجھے مخاطب کیا یا علی نے ‘‘؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں دیگر اشیاء کی طرح نہیں ۔ میں نے تجھے اپنے نور سے پیدا کیا اور علی کو تیرے نور سے خلق کیا۔ جب میں نے تیرے دل کو ٹٹولا تو معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہیں ، لہٰذا اسی کے لہجہ میں آپ کو مخاطب کیا تاکہ آپ مطمئن رہیں ۔
۸۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اگر سب باغات قلمیں بن جائیں اور سمندر سیاہی بن جائیں ۔ جنات حساب دار اور سب بنی نوع انسان کاتب بن جائیں تو پھر بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے محاسن تحریر کرنے سے قاصر رہیں گے۔‘‘
۹۔ اس نے اپنی سند سے روایت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ بیشک اللہ تعالیٰ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل پر اتنا زیادہ اجر رکھا جس کا شمار کرنا ممکن نہیں ۔جو کوئی آپ کے فضائل میں سے کسی فضیلت کا اقرار کرتے ہوئے اس کا تذکرہ کرے ‘ تو اللہ تعالیٰ اس کے اگلے اور پچھلے سارے گناہ معاف کردیتے ہیں ۔ اور جو کوئی آپ کے فضائل میں سے کوئی ایک فضیلت لکھتا ہے ‘ تو ملائکہ اس وقت تک اس کے لیے مغفرت کی دعا کرتے رہیں گے جب تک وہ کتاب اور وہ لکھا ہوا باقی رہے گا ۔ اور جو کوئی آپ کے فضائل میں سے کوئی فضیلت سنتا ہے ؛ تو اللہ تعالیٰ اس کے وہ تمام گناہ معاف کر دیتے ہیں جو اس نے سننے میں کئے ہوں ۔ اور جو کوئی آپ کے فضائل پر مشتمل کتاب کو دیکھے ؛ تو اللہ تعالیٰ نظر کی وجہ سے ہونے والے اس کے تمام گناہوں کو معاف کردیں گے۔ پھر فرمایا: ’’ امیر المؤمنین کے چہرہ کی طرف دیکھنا عبادت ہے ‘ آپ کاذکر خیر کرنا عبادت ہے ؛ اور اللہ تعالیٰ آپ سے دوستی اور آپ کے دشمن سے برأت کے بغیر کسی انسان کا ایمان قبول نہیں فرماتے ۔
۱۰۔ حکیم بن حزام اپنے باپ سے وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں ‘ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے ؛ بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ خندق کے دن عمرو بن عبد ود کے مقابلہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نکلنا میری امت کے قیامت تک کے اعمال سے زیادہ افضل ہے ۔
۱۱۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے انھیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے کا حکم دیا، مگر انھوں نے انکار کردیا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے وجہ پوچھی کہ تم علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کو گالی کیوں نہیں دیتے؟ تو بتایاکہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتیں بتائی تھیں ، اس وجہ سے میں ہر گز آپ کو گالی نہیں دوں گااور اگر ان میں سے ایک بھی مجھے حاصل ہو جائے تو وہ سرخ اونٹوں سے بڑھ کر ہے۔میں نے سناکہ بعض غزوات میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں چھوڑ کر گئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ کر جا رہے ہیں ؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا:’’ اے علی! تجھے مجھ سے وہی نسبت ہے جو حضرت ہارون کو موسیٰ علیہ السلام سے تھی۔بس صرف اتنا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔‘‘ [رواہ البخاری۵؍۱۸۔ علامہ موسیٰ جار اللہ اپنی کتاب’’ الوشیعہ‘‘ میں ’’انت منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ‘‘ کی تشریح میں فرماتے ہیں :دراصل رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا کہ اگرچہ تیرا مقام نیکی میں بلند ہے لیکن سیدنا ہارون علیہ السلام کی طرح تم خلافت کا بوجھ نہیں اٹھا سکو گے، سیدنا ہارون چالیس دن بھی خلافت کا بار نہ اٹھا سکے اور مقصد یہ تھا کہ تم خلافت کے جھنجھٹ میں نہ پڑنابلکہ تعلیم و تعلّم کے کام میں مشغول رہنا۔ حالانکہ ہارون نبی علیہ السلام تھے اور تم نبی بھی نہیں ہو ۔] غزوہ خیبر کے موقع پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( لأعطین الرایۃ غداً رجلاً یحب اللہ و رسولہ و یحبہ اللہ و رسولہ۔ ))
’’ کل میں یہ جھنڈا ایسے آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے ‘ اور اللہ اوراس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں ۔‘‘
ہم آپس میں چہ می گوئیاں کرنے لگے ۔ [جب صبح ہوئی تو] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو طلب کیا۔ آپ کی آنکھیں دکھ رہی تھیں ۔آپ نے [ان کی آنکھوں میں لعاب ڈالا ] اور پھر انہیں جھنڈا عطا کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ پر فتح عطا کی۔
جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
{ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآئَ نَا وَ اَبْنَآئَ کُمْ}
[آل عمران ۶۱]
’’پس آپ فرما دیجیے : آئیے !ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ ۔‘‘
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی ؛ فاطمہ ؛ حسن و حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا ؛ اورفرمایا؛ ’’ اے اللہ ! یہ میرے اہل بیت ہیں ۔‘‘
[شیعہ نے یہ حدیث تفصیلاً ذکر کی ہے اور قبل ازیں یہ بیان کی جا چکی ہے] ۔‘‘
[انتہی کلام الرافضی]
[جواب ] :
خطیب اعظم خوارزمی کی اس بارے میں ایک کتاب ہے ؛ اس میں اتنی جھوٹی روایات ہیں جن کا من گھڑت ہونا کسی ادنی علم رکھنے والے پر بھی مخفی نہیں ۔علماء حدیث کی تو بات ہی کچھ دیگر ہے۔نیز خطیب خوارزمی کا شمار محدثین میں نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کا یہ مقام و مرتبہ ہے کہ دقیق علمی مسائل میں اس کی طرف رجوع کیا جائے۔ اس نے وہ روایات نقل کی ہیں جن کے بارے میں تمام محدثین جانتے ہیں کہ یہ من گھڑت اور جھوٹی روایات ہیں ۔رافضی مصنف نے اپنی کتاب کے شروع میں دعوی کیا تھا کہ وہ اپنی کتاب میں وہی روایات نقل کرے گا جو اہل سنت والجماعت کے ہاں صحیح ہوں گی۔ اور انہوں نے اپنی معتمد کتابوں اور معتمد اہل علم کے اقوال سے نقل کیا ہوگا۔ تو پھروہ ایسی روایات کیونکر ذکر کرتا ہے جن کے من گھڑت اور جھوٹ ہونے پر تمام اہل سنت کا اجماع ہے۔جب کہ معتمد کتب ِ احادیث سے کوئی بھی روایت ہی نقل نہیں کی۔ اور نہ ہی کوئی ایسی روایت ہے جسے ائمہ محدثین نے صحیح کہا ہو۔
یہ دس روایات جو اس نے ذکر کی ہیں ؛ شروع سے لیکر آخرتک دس کی دس روایات محض جھوٹ ہیں ۔سوائے عمرو بن عبدود کے قتل کے واقعہ کے۔
۱۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا بیان کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے انھیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے کا حکم دیا، مگر انھوں نے انکار کردیا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے وجہ پوچھی کہ تم علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کو گالی کیوں نہیں دیتے؟ تو بتایا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتیں بتائی تھیں ،اس وجہ سے میں ہر گز آپ کو گالی نہیں دوں گا؛اور اگر ان میں سے ایک بھی مجھے حاصل ہو جائے تو وہ سرخ اونٹوں سے بڑھ کر ہے....الخ۔
یہ حدیث صحیح ہے اورامام مسلم نے اسے روایت کیا ہے۔
[صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل علی بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ ، (ح:۳۲؍۲۴۰۴)]
اس حدیث میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے تین فضائل بیان ہوئے ہیں : مگر اس میں ائمہ کی کوئی خصوصیت نہیں ۔اورنہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کوئی خصوصیت ہے۔یہ قول کہ : بعض غزوات میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں چھوڑ کر گئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ کر جا رہے ہیں ؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا:’’ اے علی! تجھے مجھ سے وہی نسبت ہے جو حضرت ہارون کو موسیٰ علیہ السلام سے تھی۔بس صرف اتنا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔‘‘
ہم قبل ازیں بیان کر چکے ہیں کہ حاکم مدینہ مقرر کرنے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کوئی خصوصیت نہیں ، اور نہ ہی آپ کو نائب مقرر کرنا دوسروں کو نائب مقرر کرنے سے زیادہ کامل ہے۔یہی وجہ تھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ عرض کی تھی : آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ کر جا رہے ہیں ؟ اس لیے کہ ہر غزوہ میں مدینہ میں کچھ نہ کچھ مرد مہاجرین و انصار میں سے موجود رہتے تھے؛ سوائے غزوہ تبوک کے ۔اس موقع پر آپ نے تمام لوگوں کو کوچ کرنے کا حکم دیا تھا۔
اس موقع پر مدینہ میں وہی لوگ باقی رہ گئے تھے جو یا تو معذور تھے ‘ یا بچے اور عورتیں یا پھر منافق؛ اوروہ لوگ جو غلطی یا سستی کی وجہ سے پیچھے رہ گئے۔ اسی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پیچھے رہ جانے کو اچھا نہ سمجھا‘ اور عرض کیا :
’’کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ کر جارہے ہیں ؟ یعنی آپ مجھے ساتھ کیوں نہیں لے جارہے ‘ پیچھے کیوں چھوڑ رہے ہیں ؟
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کیا کہ : پیچھے رہنے میں کوئی نقص یا عیب نہیں ۔ بیشک موسی علیہ السلام نے بھی اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کو پیچھے اس وجہ سے چھوڑا تھا کہ وہ آپ کے نزدیک امانت دار تھے۔ایسے ہی میں بھی آپ کو پیچھے اس لیے چھوڑ کر جارہا ہوں کہ آپ میرے نزدیک امانت دار ہیں ۔ مگر اتنا فرق ہے کہ موسی علیہ السلام نے اپنے بعد نبی کو پیچھے چھوڑا تھا ‘ اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔‘‘
[یہ حدیث مندرجہ ذیل کتب میں ملاحظہ کی جائے۔
(۱) مسند احمد:۱؍۳۸۳، ح:۳۶۳۲۔(۲) مستدرک حاکم (۳؍۲۱،۲۲) (۳) ترمذی کتاب تفسیر القرآن۔ سورۃ الانفال(ح:۳۰۸۴) و سندہ ضعیف لانقطاعہ۔ ابوعبیدہ کا اپنے والد عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے۔ (۴) تفسیر ابن کثیر(۴؍۹۴۔۹۵)، (۵) مسند ابی یعلی(۲؍۲۴۱)، (۶) دلائل النبوۃ(۳؍۱۳۸)]
ابن کثیر البدایۃ والنہایہ(۳؍۲۹۷۔۲۹۸)
پر لکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیدیوں کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ’’یا رسول اﷲ !یہ آپ کی قوم و قبیلہ کے لوگ ہیں انھیں زندہ رہنے دیجیے ممکن ہے کہ اللہ ان کو توبہ کی توفیق عطا کرے۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:’’ان لوگوں نے آپ کی تکذیب کی اور آپ کو مکہ چھوڑنے پر مجبور کیا، لہٰذا ان کو تہ تیغ کردیجیے۔‘‘
عبد اﷲ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے کہا:’’ ان کو نذر آتش کردیجیے۔‘‘ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا:’’ آپ نے قطع رحمی کا ثبوت دیا ہے۔‘‘ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سب باتیں سنیں اور کوئی جواب نہ دیا، لوگ طرح طرح کی قیاس آرائیاں کرنے لگے کسی نے کہا، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے قول پر عمل کریں گے، کسی نے کہا، عمر کی تجویز کو عملی جامہ پہنائیں گے۔ کسی نے کہا، عبد اﷲ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے قول پر عمل کریں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اورفرمایا: اﷲ تعالیٰ بعض لوگوں کے دل کو انتہائی نرم بنا دیتے ہیں اور بعض کا دل اتنا سخت ہوتا ہے کہ اس کے سامنے پتھر کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا، آپ کی مثال سیدنا ابراہیم علیہ السلام جیسی ہے، جنھوں نے فرمایا تھا:
{مَنْ تَبِعَنِی فَاِنَّہٗ مِنِّیْ وَ مَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ}
(سورۂ ابراہیم:۳۶)
نیز آپ کی مثال سیدنا عیسیٰ علیہ السلام جیسی ہے جن کا ارشاد ہے:
{ اِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّہُمْ عِبَادُکَ}
(سورۃ المائدۃ:۱۱۸)
پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر فرمایا: آپ کی مثال سیدنا نوح علیہ السلام جیسی ہے، جنھوں نے فرمایا تھا:
{رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکَافِرِیْنَ دَیَّارًا}
(سورۂ نوح:۲۶)
نیز آپ کی مثال سیدنا موسیٰ علیہ السلام جیسی ہے، انھوں نے فرمایا تھا:
{ رَبِّ اشْدُدْ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْا حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَ لِیْمَ}
(سورۂ یونس:۸۸)
پھر آپ نے فرمایا: چونکہ مسلمانوں کی اقتصادی حالت کمزور ہے، اس لیے کفار یا تو فدیہ ادا کریں یا انھیں قتل کردیا جائے۔
یہ تشبیہ اصل استخلاف میں ہے ۔ اس لیے کہ موسی علیہ السلام نے حضرت ہارون علیہ السلام کو تمام بنی اسرائیل پر نائب بنایا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کچھ تھوڑے سے مسلمانوں پر اپنا نائب بنایا تھا۔ جب کہ باقی سارے لوگوں کو آپ اپنے ساتھ جہاد پر لے گئے تھے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اگر ہارون علیہ السلام کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حضرت ابراہیم و عیسیٰ رحمہم اللہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حضرت نوح و موسیٰ رحمہم اللہ کے مشابہ قرار دیا گیا ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ چاروں پیغمبر حضرت ہارون علیہ السلام سے افضل تھے۔ مزید براں حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ہر دو کو دو دو انبیاء کے مشابہ قراردیا ہے، ایک کے نہیں ۔ بنا بریں یہ تشبیہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تشبیہ سے عظیم تر ہے۔ نیز یہ کہ استخلاف علی رضی اللہ عنہ میں دیگر صحابہ بھی ان کے سہیم و شریک تھے مگر اس تشبیہ میں کوئی صحابی حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہماکا شریک نہیں ۔ لہٰذا یہ تشبیہ کسی طرح بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خصوصیت قرار نہیں دی جا سکتی۔
ایسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان :’’ کل میں یہ جھنڈا ایسے آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے ‘ اور اللہ اوراس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں ۔‘‘ [صحابہ کہتے ہیں :] ہم آپس میں چہ می گوئیاں کرنے لگے ۔
[جب صبح ہوئی تو] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو طلب کیا۔ آپ کی آنکھیں دکھ رہی تھیں ۔آپ نے [ان کی آنکھوں میں لعاب ڈالا ] اور پھر انہیں جھنڈا عطا کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ پر فتح عطا کی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل میں روایت کردہ احادیث میں سب سے صحیح حدیث ہے۔اسے امام بخاری اور امام مسلم نے کئی اسناد سے نقل کیا ہے۔مگر یہ وصف بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ یا ائمہ کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر متقی مؤمن سے محبت کرتے ہیں ؛ اور ہر متقی مؤمن اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ لیکن اس حدیث میں نواصب کا بہترین ردّ ہے، جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بغض و عداوت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ؛ آپ سے برأت کا اظہار کرتے ہیں اور آپ سے محبت و دوستی نہیں رکھتے۔نیزخوارج کی تردید ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تکفیر کرتے اور آپ کو فاسق کہتے ہیں ۔کیونکہ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گواہی دی ہے کہ آپ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتے ہیں ۔
علاوہ ازیں اس حدیث سے ان روافض کی تردید ہوتی ہے، جو کہتے ہیں کہ جو احادیث فضائل صحابہ میں وارد ہوئی ہیں وہ ان کے مرتد ہونے سے پہلے کی ہیں ۔ خوارج بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہی کہتے ہیں ۔ حالانکہ خوارج و روافض دونوں کے اقوال سرے سے باطل ہیں ۔ [اہل سنت و الجماعت ان کے اقوال سے بری ہیں ] ۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ اس شخص سے خوشنودی کا اظہار نہیں کر سکتے جس کے متعلق اس کو معلوم ہو کہ اس کی موت کفر پر ہوگی۔
اسی طرح یہ حدیث ان اہل ہویٰ اور گمراہ فرقوں جیسے معتزلہ ؛مروانیہ وغیرہ؛ پر بھی حجت ہے جو اپنی خواہشات کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتے ہیں ‘ اور آپ پر سب و شتم کرتے ہیں ۔
واقعہ مباہلہ اور حدیث کساء
اسی طرح مباہلہ بھی آپ کی خصوصیت نہیں ، کیونکہ حضرت فاطمہ حسن و حسین رضی اللہ عنہم بھی اس میں آپ کے ساتھ شریک تھے۔جیسا کہ یہی لوگ چادر کے نیچے چھپائے جانے میں بھی آپ کے شریک تھے۔ پس اس سے معلوم ہوا یہ حدیث نہ ہی مردوں کے ساتھ خاص ہے ‘ اور نہ ہی ائمہ کے ساتھ خاص ہے۔بلکہ اس میں عورت ؛ بچے اور دوسرے لوگ بھی شریک ہیں ۔ کیونکہ مباہلہ کے وقت حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہماچھوٹے بچے تھے۔ مباہلہ کا واقع سن نو یا دس ہجری میں فتح مکہ کے بعد اس وقت پیش آیا جب نجران کے عیسائیوں کا وفد آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو اس وقت حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی عمر سات سال بھی نہیں تھی ۔ جب کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ آپ سے ایک سال بڑے ہیں ۔ان کو بلانے کی وجہ یہ تھی کہ حکم یہی ملا تھا کہ ہر گروہ اپنے قرابت داروں بیٹوں اورعورتوں کو بلائے اور خود بھی حاضر ہو۔ تو ان دونوں فریقین میں سے ہر ایک نے اپنے قریب تر رشتہ داروں کو بلانا تھا۔ یہ لوگ نسب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریبی تھے۔ اگرچہ بعض دوسرے لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ان سے افضل تھے۔ اس لیے کہ آپ کو یہ حکم نہیں ملا تھا کہ اپنے افضل ترین اتباع کاروں کو بلائیں ۔ مقصود یہ تھا کہ لوگوں میں سب سے قریبی اورخاص افراد کو بلایا جائے۔ اس لیے کہ انسان کی فطرت میں ہے کہ [ایسے مواقع پر] اسے اپنی ذات اور اپنے قریبی خونی رشتہ داروں کا ایک خوف سا رہتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ چادر والی روایت میں اور دعا میں بھی انہیں ہی خاص کیا ہے۔
مباہلہ تو برابری کی بنا پر قائم تھا۔اس لیے عیسائیوں کو چاہیے تھا کہ وہ نسب کے لحاظ سے اپنے قریب تر رشتہ داروں کو بلا لائیں ۔ انہیں بھی اپنی اولاد کے بارے میں ایسے ہی خوف تھا جیسا خوف کسی اجنبی پر نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ لوگ مباہلہ کرنے سے رک گئے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہیں علم ہوچکا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حق پر ہیں ۔اور اگر انہوں نے مباہلہ کیا تو آپ کی بددعا ان کے لیے اور ان کے اقارب کے لیے قبول ہوجائے گی۔ اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ کبھی انسان کو اپنی اولاد کے بارے میں اتنا خوف محسوس ہوتا ہے کہ اتنا خوف اپنی جان کے بارے میں محسوس نہیں ہوتا۔
اگر یہ کہاجائے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جو فضائل صحیح سند کے ساتھ ثابت ہیں ؛ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان :
’’ کل میں یہ جھنڈا ایسے آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے ‘ اور اللہ اوراس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں ۔‘‘
اور حدیث : کیا آپ اس بات پر راضی نہیں ہے کہ آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہو جو حضرت ہارون کو موسیٰ علیہ السلام سے تھی۔‘‘
اور یہ حدیث: ’’یا اللہ ! یہ بھی میرے اہل بیت ہیں ۔ان سے پلیدی کو دور کردے ‘ اور انہیں بالکل پاک کردے ۔‘‘
سوال :....اگر یہ کہا جائے کہ : یہ باتیں آپ کے خصائص میں سے نہیں ہیں ؛ بلکہ ان میں دوسرے لوگ بھی آپ کے شریک اور حصہ دار ہیں تو پھر بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ تمنا کیوں کی تھی کہ ایک کاش ! یہ مقام اسے مل جاتا ۔جیسا کہ حضرت سعد اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے ۔
جواب:
اس کا جواب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظاہراً و باطناً حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مومن ہونے کی شہادت دی تھی۔اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے موالات کا اثبات اور آپ کے لیے اہل ایمان کی محبت وموالات کا وجوب تھا۔ اس میں ان نواصب کا رد ہے جو آپ کے کافر یا فاسق ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔ اوراسلام سے خارج گروہ خوارج پر رد ہے ؛ جو لوگوں میں سب سے بڑھ کر عبادت گزار تھے؛ جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:
’’ تم ان کی نماز کے مقابلہ میں اپنی نماز اور ان کے روزہ کے مقابلہ میں اپنے روزے ؛ اور ان کی تلاوت قرآن کے مقابلہ میں اپنی تلاوت کو حقیر سمجھوگے۔وہ قرآن پڑھیں گے، جو ان کے حلق سے تجاوز نہ کرے گا۔ دین سے وہ ایسے نکل جائے گی، جیسے تیرکمان سے نکل جاتا ہے ؛ تم انہیں جہاں کہیں بھی پاؤ تو قتل کر ڈالو۔‘‘
[صحیح بخاری:ح ۵۲]عن علِی وأبِی سعِید الخدرِیِ وجابِرِ بنِ عبدِ اللّٰہِ رضِی اللّٰہ عنہم فِی البخارِیِ:۴؍۲۰۰، کتاب المناقب باب علاماتِ النبوۃِ، مسلِم:۲؍۷۴۰، کتاب الزکاۃ، باب ذِکرِ الخوارِجِ وصِفاتِہِم، باب التحرِیضِ علی قتلِ الخوارِجِ، وانظر: جامِع الأصولِ لِابنِ الأثِیرِ:۱۰؍۴۳۶۔ سنن أبِی داود:۴؍۳۳۶، کتاب السنۃِ باب فِی قِتالِ الخوارِجِ، سنن ابنِ ماجہ:۱؍۶۰۔ المقدمۃ، باب فِی ذِکرِ الخوارِجِ، المسندِ ط۔ الحلبِیِ:۳؍۶۵۔]
یہ خوارج حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کافر اور فاسق کہتے تھے ؛ اور آپ کو قتل کرنا حلال اور مباح سمجھتے تھے(معاذاللہ)۔ یہی وجہ تھی کہ ان خوارج میں سے ہی ایک شخص نے آپ کو قتل کردیا تھا۔اس قاتل کا نام عبد الرحمن بن ملجم المرادی تھا۔ حالانکہ یہ انسان لوگوں میں سب سے بڑا عبادت گزار تھا۔
اہل سنت والجماعت کو خوارج و نواصب سے مناظرہ کرتے ہوئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایمان اور دین داری کے اثبات کے لیے کہیں بہت زیادہ اور قوی دلائل کی ضرورت ہوتی ہے ؛ ایسے دلائل کی ضرورت شیعہ سے مناظرہ کرتے ہوئے پیش نہیں آتی۔ اس لیے کہ خوارج بڑے سچے اور دیندار لوگ ہوتے ہیں ۔اور ان کے ہاں جو شبہات پائے جاتے ہیں ؛ وہ شیعہ کے شبہات کی نسبت زیادہ طاقتور ہیں ۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے مسلمان جب حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں جب یہود و نصاری سے مناظرہ کریں ؛ تو انہیں ان دلائل کی بھی ضرورت ہوتی ہے جن سے یہودیوں کے اس دعوی پر ردّ کرسکیں کہ آپ ولد الزنا یا جھوٹے ہیں ۔العیاذ باللہ ۔ اور انہیں ان دلائل کی بھی ضرورت ہوتی ہے جن سے عیسائیوں پر رد کرسکیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو رب اور معبود بنائے بیٹھے ہیں ۔ یہودیوں سے مناظرہ کرنا عیسائیوں سے مناظرہ کرنے کی نسبت زیادہ مشکل کام ہے۔ ان کے ایسے شبہات ہیں جن کو رد کرنا نصاری کے بس کی بات نہیں ۔ بلکہ ان کا جواب مسلمان ہی دے سکتے ہیں ۔ یہی حال نواصب کا ہے۔ ان کے ایسے شبہات ہیں جن کا جواب دینا شیعہ کا کام نہیں ۔ بلکہ ان کا جواب اہل سنت ہی دے سکتے ہیں ۔
مذکورہ بالا احادیث صحیح ہیں ‘ جو ظاہری و باطنی طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایمان پر دلالت کرتی ہیں ۔ان میں نواصب پر رد ہے ؛ اگرچہ ان دلائل کا شمار آپ کے خصائص میں نہیں ہوتا؛ یہ احادیث ویسے ہی ہیں جیساکہ اہل بدر اور اہل بیعت رضوان کے ایمان پر دلالت کرنے والی نصوص ظاہر و باطن میں ان کے ایمان پر دلالت کرتی ہیں ۔اس میں اختلاف کرنے والے دونوں گروہوں خوارج اور روافض پر رد موجود ہے۔اگرچہ ان میں سے کسی بھی روایت سے آپ کے خصائص پر استدلال نہیں کیا جاسکتا۔ ظاہر ہے کہ کسی معین شخص کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم شہادت دیں ؛ یا اس کے لیے دعا کریں ‘ تو بہت سارے لوگ چاہتے ہیں کہ اس کے لیے بھی ایسی ہی گواہی دی جاتی؛ یا پھر اس کے لیے بھی ایسی ہی دعا کی جاتی۔اگرچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سارے لوگوں کے حق میں ایسی گواہی دی ہے‘ اور بہت سارے لوگوں کے لیے ایسی دعائیں بھی کی ہیں ۔مگر خاص طور پر کسی کے لیے ایسی دعاکرنا اس کے عظیم ترین فضائل و مناقب میں سے ہے۔ یہ ایسے ہی جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت شماس بن قیس رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اور دوسرے لوگوں کے لیے جنتی ہونے کی بشارت دی تھی۔
[مسلِم:۱؍۱۱۰کتاب الإِیمانِ باب مخافۃِ المؤمِنِ أن یحبط عملہ، أن ثابِت بن قیس رضِی اللہ عنہ لما نزل قولہ تعالیٰ: { يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ النبِیِ} [ الحجراتِ: ۲] حزِن واحتبس عنِ النبِیِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وقال کلاما، آخِرہ: فأنا مِن أہلِ النارِ، فذکر ذلکِ سعد بن معاذ لِلنبِیِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال رسول اللہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : بل ہو مِن أہلِ الجنۃِ، والحدِیث فِی المسندِ ط۔ الحلبِیِ: ۳؍۱۳۷، وفضائل عبداللّٰہ بن السلام رضی اللّٰہ عنہ روی البخارِی:۵؍۳۷، کتاب مناقِبِ الأنصارِ، باب مناقِبِ عبدِ اللّٰہِ بنِ سلام رضِی اللّٰہ عنہ، ومسلِم: ۴؍۱۹۳۰کتاب فضائل الصحابۃ، باب: مِن فضائِلِ عبدِ اللّٰہِ بنِ سلام رضِی اللّٰہ عنہ۔]
آپ نے ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی جنت کی بشارت دی ہے۔اور جیسے کہ صحابی عبد اللہ الحمار رضی اللہ عنہ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گواہی دی تھی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہے ؛ حالانکہ اسے شراب نوشی پر مار پڑ رہی تھی۔ اگرچہ آپ نے اس قسم کی گواہی ان لوگوں کے لیے بھی دی ہے جو اس صحابی سے افضل تھے۔ جیسا کہ آپ نے بنوعمرو بن تغلب کے بارے میں فرمایا کہ: انہیں نہ دینے کی وجہ ان کے دلوں میں بے نیازی اور خیر کی موجودگی ہے۔ صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا :
’’ میں کسی کو دیتا ہوں اور کسی کو نہیں دیتا ہوں ۔ اور جسے میں نہیں دیتا ہوں وہ میرے نزدیک اس سے زیادہ محبوب ہوتا ہے، جسے میں دیتا ہوں ۔ لیکن میں ان لوگوں کو دیتا ہوں ، جن کے دلوں میں بے چینی اور گھبراہٹ دیکھتا ہوں ۔ اور جنہیں میں نہیں دیتا ہوں ان لوگوں کو میں اس تونگری اور بھلائی کے حوالہ کر دیتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رکھی ہے۔ اور انہی میں سے عمرو بن تغلب بھی ہے۔‘‘
[صحیح بخاری:ح۸۸۰]
حدیث میں آیا ہے کہ آپ نے ایک شخص کا جنازہ پڑھتے ہوئے جب یہ دعا فرمائی:
(( اللہم اغفِر لہ وارحمہ وعافِہِ واعف عنہ وأکرِم نزلہ ووسِع مدخلہ واغسِلہ بِالمائِ والثلجِ والبردِ؛ ونقِہِ مِن الخطایا کما ینقی الثوب البیض مِن الدنسِ وأبدِلہ دارا خیرا مِن دارِہِ وأہلا خیرا مِن أہلِہِ وقہ من فتنۃ القبرعذابِ القبرِ و أفسح لہ في قبرہ ونوّر لہ فیہ۔ ))
’’ یا اللہ اس کو بخش اور رحم کر اور اسے عافیت عطا فرما اور اسے معاف فرما اور اس کے اترنے کی جگہ کو کرم والی بنادے اور اس کی قبر کو کشادہ فرما اور اسے پانی برف اور اولوں سے دھو دے اور اسکے گناہوں کو اس طرح صاف کر دے جیسا کہ سفید کپڑا میل کچیل سے صاف ہو جاتا ہے اور اسے اس کے گھر کے بدلے بہتر گھر عطا فرما؛ اوراسے قبر کے فتنہ سے نجات دے ؛ عذاب قبر سے بچا ؛ اور اس کی قبر کو وسیع کردے؛ اور اس کی قبر کو روشن کردے ۔‘‘
تو عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کہہ اٹھے:’’ اے کاش! اس میت کی جگہ میں ہوتا۔
[صحیح مسلم، کتاب الجنائز، باب الدعاء للمیت فی الصلاۃ (حدیث:۹۶۳) ۔]
حالانکہ یہ دعا اس میت کے ساتھ مختص نہ تھی۔