Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

کیا سیدنا عمرؓ نے سیدہ فاطمہؓ بنت رسولﷺ کے گھر کا دروازہ توڑا اور اسے جلایا پھر سیدہ فاطمہؓ کے بطن میں موجود حمل پر لات مار کر گرایا جس سے محسن دنیا میں آنے سے پہلے ہی فوت ہو گئے؟؟

  دارالتحقیق و دفاعِ صحابہؓ

کیا سیدنا عمرؓ نے سیدہ فاطمہؓ بنتِ رسولﷺ کے گھر کا دروازہ توڑا اور اسے جلایا پھر سیدہ فاطمہؓ کے بطن میں موجود حمل پر لات مار کر گرایا جس سے محسن دنیا میں آنے سے پہلے ہی فوت ہو گئے؟؟

آئیے دیکھتے ہیں اس من گھڑت افسانے کی حقیقت

  اعتراض یا افسانہ

سیدنا عمرؓ کے متعلق جو شیعہ بکواس بکتے ہیں کہ سقیفہ کے واقعہ کے بعد سیدنا علیؓ نے سیدنا ابوبکرؓ  کو بیعت دینے سے انکار کیا تھا اور سیدنا ابوبکرؓ نے سیدنا عمرؓ اور چند دوسرے صحابہ کرامؓ کو حکم دیا کہ  سیدہ فاطمہؓ کے گھر جاؤ اور سیدنا علیؓ کو پکڑ کر لے آؤ۔ صحابہ کرامؓ نے سیدنا عمرؓ کی قیادت میں گھر کا دروازہ توڑا اور سیدنا علیؓ کو گھسیٹتے ہوئے سیدنا ابوبکرؓ کی طرف لے گئے اور زبردستی سیدنا ابوبکرؓ کی بیعت کروائی ۔

اور اس من گھڑت افسانے میں مزید اضافہ اس طرح ہے کہ سیدنا علیؓ کے گرد گھیرا ڈال کے کھڑے ہوئے، ان کے گھر کا دروازہ جلایا اور ان کی مرضی کے خلاف ان کو گھر سے نکالا اور گھر میں موجود  سیدہ فاطمہؓ کو دروازے کے درمیان دبایا اور اس طرح محسن (جن سے فاطمہؓ پانچ یا چھ مہینے کی حاملہ تھیں) کو مار ڈالا۔ (معاذاللہ)

یہ افسانہ سبائی ٹولہ اہلسنت کی کتابوں کا حوالہ دے کر عوام الناس کو دھوکہ دیتا آیا ہے کہ اہلسنت کی کتابوں سے یہ بات ثابت ہے۔ جب ان کتابوں کو کھنگالا گیا تو ہمیں ایسا کوئی من گھڑت افسانہ نہ ملا البتہ ایک مصنف ابن ابی شیبہ اور کنز العمال میں موجود ہے اس کے متعلق یہ دھوکہ دیا جاتا ہے اور روایت کے خلاف معنی بیان کیا جاتا ہے۔ 

اب مصنف ابن ابی شیبہ اور کنز العمال میں روایت کس طرح ہے وہ ملاحظہ فرمائیں:

اس روایت میں یہ درج ہے کہ عمرؓ نے فاطمہؓ  کو کہا کہ ’’ اے دخترِ رسولﷺ، تمام لوگوں میں سے کوئی مجھے آپ کے باپ سے زیادہ محبوب نہیں ہے اور اس کے بعد آپ سے زیادہ پیارا کوئی نہیں ۔ میرے پاس یہ بری خبر آئی ہے کہ یہ یہ لوگ آپ کے گھر میں جمع ہوئے ہیں اور ابوبکرؓ کی خلافت کے خلاف سازش کررہے ہیں ۔ اگر ان لوگوں کو روکا نہیں گیا تو خدا کی قسم میں ان کے گھر جلادوں گا ۔‘‘ یہ کہہ کر حضرت عمرؓ لوٹ آئے اور جب علیؓ  اور زبیر گھر واپس آئے تو فاطمہؓ  نے ان لوگوں سے یہ کہا ’’ کیا آپ کو پتہ ہے کہ عمرؓ  یہاں آئے تھے اور مجھ سے ایک عہد لیا کہ اگر ان لوگوں نے ابوبکرؓ کی خلافت کے خلاف سازش کی تو ان لوگوں کے گھر جلادیں گے؟ خدا کی قسم! عمرؓ اپنے عہد کو پورا کریں گے ۔ اس لئے میرے گھر سے اس ارادے سے آپ لوگ چلے جائیں اور اپنے ارادے اور خیالات کو ملتوی کردیں اور دوبارہ میرے گھر اس ارادے سے نہیں آئیں ۔‘‘ علیؓ  اور زبیر گھر چھوڑ کر آگئے اور دوبارہ وہاں جمع نہیں ہوئے جب تک انہوں نے ابوبکرؓ کی بیعت نہ کر لی ۔ 

مصنف ابن ابی شیبہ: جلد نمبر 33 روایت نمبر 38042
کنز العمال: جلد نمںر 5 روایت نمبر 14138 

سکین میں یہ روایت عربی متن کے ساتھ دیکھی جاسکتی ہے۔ اور دیکھا جا سکتا ہے دھوکہ دینے کے لئے کس طرح سبائی ٹولہ توڑ مروڑ کر اپنی مرادیں پیش کرتا آیا ہے اور دوسری بات یہ روایت شاذ اور مرسل ہے۔

اس بات سے اتنا تو ثابت ہوا کہ جب ایسی کوئی سازش رچائی ہی نہیں گئی تو نہ گھر جلانے کا کوئی واقعہ پیش آیا اور نہ سیدہ فاطمہؓ کا حمل کو گرایا گیا۔ بلکہ سیدنا علیؓ  نے سیدنا ابوبکرؓ  کی بیعت بھی کرلی۔

اور جہاں تک اسکے شاذ اور مرسل ہونے کی بات ہے تو اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں: 

اس روایت کی سند اس طرح ہے:

حدثنا محمد بن بشر ثنا عبیداللہ بن عمر حدثنا زید بن اسلم عن ابیہ اسلم 

اسلم (سیدنا عمرؓ کے غلام) تابعی ہیں اور صحابی نہیں ہیں۔ لہذا اس روایت میں بھی تابعی براہ راست ایک واقعہ بیان کر رہے ہیں۔ ان کا اس واقعہ میں موجود ہونا ثابت نہیں کیونکہ رسولﷺ کی وفات 11 ہجری میں ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی۔ سیدہ فاطمہؓ کی وفات رسولﷺ کی وفات کے چھ ماہ بعد رمضان یا شوال میں ہوئی۔ 

جس واقعہ میں سیدنا عمرؓکی طرف الزام لگایا جاتا ہے وہ واقعہ رسولﷺ کی وفات کے فوراً بعد کا ہوگا۔

اسلم تو ان تینوں واقعات میں موجود نہ تھے۔ مطلب آپ ﷺ کی وفات کے وقت، دوسرا جب یہ دھمکی والا واقعہ ہوا اور تیسرا  سیدہ فاطمہؓ کی وفات کے وقت۔ بلکہ وہ تو  سیدہ فاطمہؓ کی وفات کے بعد مدینہ آۓ۔

امام بخاری ان کے متعلق لکھتے ہیں کہ اسلم ، غلامِ عمرؓ یمن کے قیدیوں میں سے تھے ابن اسحاق سے نقل ہوا ہے کہ عمرؓنے اسلم کو 11ہجری میں خریدا جب وہ ابوبکرؓ  کی طرف سے امیر حج تھے۔

تاریخ الکبیر از امام بخاری: جلد 2، روایت 1565، صفحہ 23, 24) 

مطلب اسلم 11 ہجری میں حج کے بعد مدینہ آئے یعنی سیدہ فاطمہؓ کی وفات کے بھی دو ماہ بعد۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلم نے یہ واقعہ کس سے سنا کیونکہ وہ بعد میں مدینہ آئے اور اس واقعے کے چشم دید گواہ نہیں ہیں۔ 

لہٰذا ثابت ہوا کہ مصنف ابن ابی شیبہ اور کنز العمال کی روایت مرسل ہونے کی وجہ سے ناقابل استدلال ہے۔ 

اسی طرح کی روایت تاریخ طبری میں موجود ہے کہ:

سیدنا علیؓ  و زبیر اور جو دوسرے مہاجرین گھر میں موجود تھے سیدنا عمرؓ  نے انہیں کہا کہ چلو اور بیعت کرو ورنہ میں اس گھر میں سب کو آگ لگا دوں گا۔ اس پر سیدنا زبیرؓ اپنی تلوار لے کر آگے بڑھے اور کسی چیز سے ٹکرا کر گر گئے اس پر مہاجرین نے انہیں اٹھایا اور قابو میں کیا۔

(تاریخ طبری: جلد 8، صفحہ 15)

اس روایت کی سند ملاحظہ ہو جسے اسکین میں دیکھا جاسکتا ہے، اس طرح سے ہے:

حدثنا ابن حمید ، قال حدثنا جریر عن مغیرۃ عن زیاد بن کلیب قال

جریر بن حازم ثقہ ہیں لیکن ان کو آخری عمر میں اختلاط ہو گیا تھا

(تقریب التھذیب: روایت نمبر 923 صفحہ 196)

مغیرہ بن مقسم تدلیس کرتے ہیں اور یہ روایت عن سے ہے 

یہ اہلسنت کا مشہور اصول حدیث ہے کہ مدلس کی روایت غیر صحیحین ( بخاری و مسلم کے علاوہ) اگر عن سے ہو تو وہ روایت ضعیف ہوتی ہے.

یہ روایت بھی تاریخ طبری میں عنعنہ سے ہے۔

تقریب التھذیب: صفحہ نمبر 966
تذھیب تھذیب الکمال: جلد نمبر 9 صفحہ نمبر 80 

زیاد بن کلیب ثقہ ہیں لیکن وہ تابعی ہیں صحابی نہیں ہیں۔

زیاد بن کلیب یہ واقعہ براہ راست بیان کر رہے ہیں حالانکہ وہ اس واقعہ میں موجود نہ تھے بلکہ وہ تو رسولﷺ کی وفات کے کافی دیر بعد اسلام لائے دوسرا ان کی وفات 110 یا 119ہجری میں ہوئی جبکہ رسولﷺ 11 ہجری میں وفات پا گئے۔

یہ واقعہ آپ ﷺ کی وفات کے فورا بعد کا ہے لہٰذا یہ ثابت ہی نہیں ہوتا کہ زیاد بن کلیب اس واقعہ میں موجود تھے۔  یہ روایت اس طرح منقطع ہو جاتی ہے۔ 

(تذھیب تھذیب الکمال۔ جلد 3، صفحہ 325, 326)

لہٰذا یہ روایت بھی سخت ضعیف اور ناقابل استدلال ہے۔ 

عجیب بات یہ ہے کہ یہ روایت نہ ہی شیعہ کی کتبِ اربعہ میں موجود ہے اور نہ ان کے ائمہ معصومین سے ثابت ہے۔

البتہ شیعہ کی کتاب احتجاج طبرسی میں یہ روایت موجود ہے لیکن وہاں بھی صرف دھمکی کا ذکر ہے وہ بھی دھمکی ان لوگوں کے لئے تھی جو گھر میں جمع ہوئے تھے نہ کہ  سیدہ فاطمہؓ  کو دھمکی دی گئی اور گھر جلا دینے اور  سیدہ فاطمہؓ کو مارنے اور ان کے حمل کو ضائع کرنے کا ذکر وہاں بھی نہیں۔

(احتجاج طبرسی: حصہ اول و دوم صفحہ 145) 

اسی طرح کا صریح الزام سیدنا ابوبکرؓ پر بھی لگایا جاتا ہے اور اس روایت کو بھی تاریخ طبری سے پیش کیا جاتا ہے۔ آئیے یہ روایت بھی دیکھ لیتے ہیں! 

سیدنا ابوبکرؓ نے کہا کہ ہاں میرے دل میں دنیا کی حسرت نہیں ہے ، مگر تین چیزیں ایسی ہیں جو میں نے کی ہیں مگر کاش نہ کرتا ، اور تین چیزیں ایسی ہیں جو میں نے چھوڑ دی ہیں مگر کاش ان کو کرتا اور تین چیزیں ایسی ہیں کہ کاش میں رسول اللہ سے ان کے متعلق دریافت کر لیتا۔ وہ تین چیزیں جن کو میں چھوڑ دیتا تو اچھا ہوتا ان میں سے ایک یہ ہے کہ کاش میں فاطمہؓ کا گھر نہ کھولتا۔

(تاریخ طبری: جلد 8، صفحہ 152, 153) 

سبائی ٹولہ اس روایت سے گھر جلانا مراد لیتا ہے حالانکہ اس میں گھر جلانے کا کوئی تذکرہ نہیں

جبکہ اس روایت کی سند سخت ضعیف اور منکر ہے کیونکہ اس کی سند میں " علوان بن داؤد" جسے علوان بن صالح کہا جاتا ہے منکر الحدیث ہے۔

(لسان المیزان: جلد  5، صفحہ 472)

لہٰذا یہ روایت بھی کسی طرح حجت نہیں۔

اب دیکھتے ہیں کہ شیعہ کے یہاں اس منگھڑت افسانے کا اصل ماخذ کیا ہے!

یہ منگھڑت افسانہ سب سے پہلے شیعہ کی کتاب سلیم بن قیس الھلالی میں بیان ہوا:

سیدنا عمرؓ نے سیدہ فاطمہؓ کے گھر کے دروازے کو توڑا اور پھر جلایا پھر  سیدہ فاطمہؓ کو مارا جس کی وجہ سے وہ اس دنیا سے رخصت ہوئیں

(کتاب سلیم بن قیس الھلالی: صفحہ 386, 387) 

سبائی ٹولے کی تاریخ میں سب سے پہلے یہ واقعہ کتاب سلیم ابن قیس العامری الھلالی میں نقل ہوا

یہ کتاب روایات سلیم ابن قیس الھلالی پر مشتمل ہے مگر یہ کتاب سلیم ابن قیس کی اپنی لکھی ہوئی نہیں، بعض سبائی کہتے ہیں کہ سلیم ابن قیس نے خود لکھی تھی۔

سچ و حق یہ ہے کہ کتاب سلیم ابن قیس کے دو مرتب ہیں: ایک نسخہ ابان بن ابی عیاش اور دوسرا نسخہ باقرالانصاری کا مرتب کردہ ہے۔

ان دو مولفین نے سلیم ابن قیس کی بیان کردہ روایات کتاب کی صورت میں تالیف کی ہیں۔

اس کتاب کے شروع میں لکھا ہے کہ ابان بن ابی عیاش اس کتاب کو مرتب کرنے والا ہے

(کتاب سلیم ابنِ قیس الھلالی: صفحہ نمبر 9) 

فہرست ابن ندیم میں ہے کہ سبائی ٹولے کی تاریخ میں سب نے ابان بن ابی عیاش سے اس کتاب کو روایت کیا ہے اس کے سوا کسی نے نہیں.

(فہرست ابن ندیم: صفحہ نمبر 307) 

یہاں سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ اس کتاب کا راوی ابان ابی عیاش ہے۔

آئیے اب شیعہ ہی کی کتب سے اس راوی کا حال معلوم کرتے ہیں۔ 

ابان بن ابی عیاش تابعی ضعیف ہے اس کی روایت پر توجہ و اعتماد نہ کیا جاے خاص کر اس نے ایک کتاب سلیم بن قیس بیان کی جو جھوٹ ہے

(خلاصہ اقوال  فی معرفۃ الرجال از علامہ حلی: صفحہ 325) 

ابان بن ابی عیاش نے جھوٹی کتاب گھڑی سلیم بن قیس جو کہ بالکل جھوٹی اور غیر ثقہ کتاب ہے

(تصحیح اعتقاد امامیہ للشیخ المفید: صفحہ 149) 

ابان بن ابی عیاش ضعیف ہے اس نے کتاب سلیم بن قیس گھڑی ہے

(کتاب الرجال از تقی الدین الحلی: جلد  2 صفحہ 414) 

ابان بن ابی عیاش ضیعف راوی ہے اسکی رویت قبول نہ کریں اور کتاب سلیم اس نے گھڑی ہے۔

(نقد الرجال تفرشی: جلد 1، صفحہ 39)

ابان بن ابی عیاش ضعیف راوی ہے 

(رجال طوسی از شیخ طوسی: صفحہ 126) 

یہاں سے اتنا ثابت ہوجاتا ہے کہ سبائی ٹولے کے گھر سے ہی اس افسانے کا من گھڑت ہونا ثابت ہوا اور اصل ماخذ کا ہی من گھڑت ہونا ثابت کیا گیا اس کے بعد جتنی کتب میں یہ واقعہ بیان ہوا وہ سب جھوٹ اور افسانے کے سوا کچھ نہیں۔