Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

جاگیر فدک کا اعتراض اور اس کا جواب

  امام ابن تیمیہ

جاگیر فدک کا اعتراض اور اس کا جواب

[اعتراض] :

شیعہ مصنف رقم طراز ہے: ’’جب فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ: ’’ میرے والد محترم نے مجھے فدک کی جاگیر ہبہ میں عطا کی تھی۔ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواباً کہا کہ ’’کوئی کالا یا گورا لائیے جو اس کی گواہی پیش کرے۔‘‘

سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ام ایمن رضی اللہ عنہ کو گواہ کے طور پر پیش کیا؛ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر اسے واپس کر دیا کہ ’’ یہ عورت ہے لہٰذا اس کی شہادت مقبول نہیں ۔‘‘ حالانکہ روایات میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے کہ ’’ ام ایمن ایک جنتی عورت ہے۔‘‘

پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حق میں شہادت دی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ’’ یہ آپ کے خاوند ہیں لہٰذا ان کی شہادت بھی مقبول نہیں ۔‘‘

تمام لوگوں نے یہ روایت نقل کی ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ علی رضی اللہ عنہ حق پر ہے اور علی رضی اللہ عنہ اور حق لازم و ملزوم ہیں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ بروز قیامت میرے حضور حوض کوثر پر وارد ہوں ۔‘‘ 

 سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا یہ سن کر ناراض ہو گئیں اور حلف اٹھایا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بات چیت نہیں کریں گی اور جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور (بعد از وفات) حاضر ہوں گی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا شکوہ کریں گی۔ جب ان کی وفات کا وقت آیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وصیت فرمائی : ’’ مجھے رات کی تاریکی میں دفن کرنا اور میرا جنازہ پڑھنے کے لیے ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں بلانا ۔

سب روایات میں مذکور ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :فاطمہ رضی اللہ عنہا ! تیری رضا رضائے الٰہی کے موجب ہے اور تیری ناراضگی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہے ۔‘‘سب کتب احادیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’ فاطمہ میرا جگرپارہ ہے؛جس نے اسے تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی ؛ اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے اللہ کو تکلیف دی ۔‘‘ اگر حدیث نبوی

’’لَانُوْرِثُ‘‘

صحیح ہوتی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار؛ عمامہ اور خچر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نہ دیتے۔ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے دعوی کے مقابلہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مطالبہ قابل ترجیح نہ ہوتا۔اور اہل بیت جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نجاست سے پاک قرار دیا ہے ؛اس چیز کے مرتکب نہ ہوتے جو ان کے لیے جائز نہیں ہے ؛ اس لیے کہ ان پر صدقہ لینا حرام ہے۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس بحرین کا مال آیا تو حضرت جابرانصاری رضی اللہ عنہ کے یہ کہنے پر کہ: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا:’’جب بحرین کا مال آئے گا تو میں تمہیں تین لپیں بھر کردوں گا۔‘‘

تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ آگے بڑھواور اس تعداد میں لے لو۔‘‘ اس طرح وہ مال ان کو دے دیا گیااور گواہ بھی طلب نہ کیا؛ صرف ان کے قول پر اعتبار کیا۔‘‘

[انتہی کلام الرافضی] 


جواب:

پہلی وجہ: شیعہ مصنف کے اعتراضات میں سے مذکورۃ الصدرواقعہ روافض کا پہلا بہتان نہیں ہے بلکہ وہ ایسے لاتعداد جھوٹ وفساد اور بہتان تصنیف کر چکے ہیں ۔جیسا کہ ہم آگے چل کر بیان کریں گے۔ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ یہ معاملہ دو حال سے خالی نہیں :

شیعہ مصنف نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے متعلق جاگیر فدک کے جس دعوی کا ذکر کیا ہے؛ یہ دعوی ان کی میراث کے متناقض ہے۔اگر وہ جاگیر بطور ہبہ آپ کی ملی ہوئی تھی تو پھر اسے بطور وراثت ملنے کا سوال باطل ہے۔ یعنی :

۱۔ اگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا فدک کی جاگیر ورثہ کی بنا پر طلب کرتی تھیں ، تو یہ ہبہ نہیں ہو سکتا۔

۲۔ اور اگر یہ جاگیر آپ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کر دی تھی تو ورثہ باطل ہوا۔

اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں یہ جاگیر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کر دی تھی۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے منزہ ہیں ۔ اور اس کے ساتھ یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ دوسروں کی طرح آپ کا ترکہ ورثاء کے مابین تقسیم کیا گیا تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ آپ نے اپنی بیماری کی حالت میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے ان کے حق سے زیادہ مال کی وصیت کی حالانکہ آپ وارث تھیں ۔ اوراس طرح کی وصیت کرنا وارث کے حق میں ناروا ہے۔ [ یا حالت مرض میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ان کے حق سے زیادہ مال عطا کیا] ۔اور اگر حالت صحت میں آپ نے فدک کی جاگیر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو عطا کی تھی، تو وہ ہبہ قبضہ ہونا چاہیے تھا۔ اس لیے کہ ہبہ کرنے والا اگر کوئی چیز ہبہ کرے اور جس کو ہبہ کیا گیا ہے، وہ اس پر قابض نہ ہو ، یہاں تک کہ ہبہ کرنے والے کی موت واقع ہو جائے تو ایسا ہبہ جمہور علماء کے نزدیک باطل ہے۔

یہ امر موجب حیرت و استعجاب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فدک کی جاگیر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو عطا کی اور ام ایمن رضی اللہ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوا جملہ صحابہ میں سے کسی کو بھی پتہ نہ چل سکا۔

دوسري وجہ: سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے متعلق اس قسم کے دعوی کا دعوی کرنا آپ پر بہتان ہے۔امام ابو العباس بن سریج نے جو کتاب عیسیٰ بن ابان کے رد پر تصنیف کی ہے ؛ جس میں انہوں نے ان کیساتھ’’قسم اور گواہ‘‘ کے بارے میں گفتگو کا تذکرہ کیا ہے اور انہوں نے وہاں پر کئی دلائل ذکر کیے ہیں ؛اور عیسیٰ بن ابان کے معارضات کا جواب دیا ہے ۔ آپ فرماتے ہیں : ’’ بحتری بن حسان نے حضرت زید بن علی سے حدیث ذکر کی ہے جس میں انہوں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے متعلق کہا ہے کہ : انہوں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہا تھا کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فدک کی جاگیر عطا کی تھی۔ اور آپ گواہی میں ایک مرد اور ایک عورت کو لیکر پیش ہوئیں ۔ اور فرمایا: مرد کیساتھ مرد اور عورت کیساتھ عورت ۔ سبحان اللہ ! یہ کتنی عجیب بات ہے ۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے اپنی میراث کا سوال کیا ؛ اور آپ نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : ’’ ہم [انبیاء کی جماعت] وارث نہیں بنتے ۔‘‘

دیگر احادیث میں کوئی ایسی چیز روایت نہیں کی گئی کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اس کے علاوہ بھی کسی چیز کا دعوی کیا ہو‘ یا کوئی گواہ پیش کیا ہو۔

جریر نے مغیرہ سے اوراس نے عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے ‘ آپ فدک کی بابت فرماتے ہیں :

’’حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا کہ جاگیر فدک آپ کو ہبہ کردی جائے ‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کردیا۔اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود اس میں سے خرچ کیا کرتے تھے ‘اور بنی ہاشم کی بیواؤں کی شادیاں کراتے اور ان کے کمزور اور ضعیف لوگوں پر خرچ کرتے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں معاملہ ایسے ہی رہا ۔ آپ نے اس کے صدقہ کرنے کا حکم دیا ؛ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اسے قبول کرلیا ۔ اور میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں اس جاگیر کو اسی ڈھنگ پر واپس کرتا ہوں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھی۔‘‘

[ذکر ابن الجوزِیِ فِی ِکتابِہِ’’سِیرۃِ عمر بنِ عبدِ العزِیزِ،ص:۱۰۹،ط۔المؤیدِ، القاہِرۃِ:۱۳۳۱، ۱۹۲۱، قصۃ عمر بنِ عبدِالعزِیزِ مع أراضیِ فدک التِی ورِثہا عن أبِیہِ وکیف ردہا ِإلی الصدقۃِ۔] 

اس کے علاوہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کبھی یہ نہیں سنا گیا کہ انہوں نے دعوی کیا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ جاگیر ہبہ کردی تھی۔ ایسی کوئی ایک بھی حدیث متصل سند کے ساتھ ثابت نہیں ہے۔اور نہ ہی کسی گواہ نے آپ کے حق میں کوئی ایسی گواہی دی۔اگر کوئی ایسا معاملہ ہوتا تو اسے ضرور نقل کیا جاتا ۔ اس لیے کہ آپ اس جھگڑے میں فریق تھیں ‘ اور آپ کا معاملہ ظاہر تھا۔اس معاملہ میں امت کا بھی اختلاف واقع ہوا؛ اور آپس میں بحث مباحثے ہوئے۔ ان میں سے کسی ایک مسلمان نے بھی یہ گواہی نہیں دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کوئی جاگیر عطا کی ہے۔ یا آپ نے کسی چیز کے بارے میں دعوی کیا ہو۔ یہاں تک کہ بختری بن حسان کا دور آگیا۔اس نے حضرت زید سے کچھ ایسی چیزیں روایت کیں جن کی کوئی اصل ہی نہیں ۔اور نہ ہی یہ پتہ چلتا ہے کہ انہیں اس سے پہلے کس نے روایت کیا ۔یہ سند اہل علم کے ہاں روایت کردہ احادیث [کی اسناد ] میں سے نہیں ہے:

فضل بن مزروق نے البختری سے ؛ اس نے زید سے روایت کیا ہے۔مصنف کو چاہیے تھا کہ بعض ان جملوں پر توقف کرکے غور و فکر کرتا جن کا کوئی معنی ہی نہیں بنتا ۔

اس روایت میں حضرت زید رحمہ اللہ کے یہ الفاظ بھی ہیں : اگر اس جگہ پر میں ہوتا تو میں بھی وہی فیصلہ کرتا جو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا ہے ۔ اس سے کوئی بات نہ ہی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر ثابت ہوتی ہے اورنہ ہی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پر ؛ اگرچہ اس [روایت ] کی مخالفت کرنے والا کوئی ایک بھی نہ ہو۔اور اگرچہ اس بارے میں مناظرہ بھی نہ ہوا ہو ۔ تو پھر کیسے یہ ہوسکتا ہے جب کہ اس بارے میں روایات بھی موجود ہوں ۔ دین کی بنیاد اس پر قائم ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث ثابت ہوجائے ؛ اورپھر ابو بکر رضی اللہ عنہ اس کے خلاف کہیں [توحجت حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوگی] ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسے لوگوں سے ایسی بات ہوسکتی ہے ؛ جیسا کہ دادی کے مسئلہ پر آپ سے غلطی ہوگئی تھی ؛ مگر جب آپ کو صحیح حدیث پہنچ گئی تو آپ نے اس کی طرف رجوع کرلیا ۔

اگر یہ حدیث ثابت بھی ہوجائے تو پھر بھی رافضی کے لیے اس میں کوئی حجت نہیں ۔حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے یہ نہیں فرمایا: میں اپنے گواہ کے ساتھ قسم اٹھاتی ہوں ؛ اور آپ کو منع کردیا گیا ہو۔ یا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا ہو کہ : میں گواہ کیساتھ قسم أٹھانے کو جائز نہیں سمجھتا ۔ نیز علماء کرام رحمہم اللہ یہ بھی کہتے ہیں کہ : یہ حدیث غلط ہے۔ اس لیے کہ حضرت اسامہ بن زیدسے زہری روایت کرتے ہیں ان سے مالک بن اوس بن حدثان روایت کرتے ہیں : آپ نے فرمایا: ’’جس چیز سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے احتجاج کیا ہے ‘ کہ آپ نے فرمایا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تین قسم کے اموال تھے : بنو نضیر ۔ خیبر اور فدک۔‘‘

[سنن ابی داؤد ۳؍۱۹۵ ؛ کتاب الخراج ] 

بنو نضیر کے اموال کوآپ کے نائبین و عمال کے لیے روک کر رکھا گیا تھا۔

فدک کی جاگیر مسافروں اور ابناء سبیل کے لیے تھی۔

خیبر : اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین حصوں میں تقسیم کردیا تھا۔ دو حصے مسلمانوں کے مابین تھے۔اور ایک حصہ آپ کے اہل خانہ کے نان و نفقہ کے لیے تھا۔ جوکچھ آپ کے اہل خانہ کے اخراجات سے بچ جاتا اسے آپ دوحصے کرکے فقراء مہاجرین میں تقسیم کردیتے تھے۔

حضرت لیث نے عقیل سے ؛ وہ ابن شہاب سے ؛ وہ عروہ سے روایت کرتے ہیں : بیشک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو خبر دی کہ: دختر نبی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے(کسی کو)حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے زمانہ خلافت میں بھیجا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مال کی جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو مدینہ اور فدک میں دیا تھا اور خیبر کے بقیہ خمس کی میراث چاہتے ہیں ۔ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

’’ ہمارے مال کا کوئی وارث نہیں ہوتا، جو کچھ ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہے ہاں آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے(بقدر ضرورت)کھا سکتی ہے ۔‘‘اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ میں آپ کے عہد مبارک کے عمل کے خلاف بالکل تبدیلی نہیں کر سکتا ؛اور میں اس میں اسی طرح عمل درآمد کروں گا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔‘‘ یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس میں ذرا سی چیزبھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حوالے کرنے سے انکار کردیا۔‘‘

[صحیح بخاری:ح:۱۴۱۶۔۵؍۲۰ ؛ کتاب فضائِلِ أصحابِ النبِیِ، باب مناقِبِ قرابۃِ رسولِ اللہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ومنقبۃِ فاطِمۃ۔] 

امام زہری رحمہ اللہ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے؛ وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ:

’’ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ صدیق کے پاس آدمی بھیج کر ان سے اپنی میراث طلب کی یعنی وہ چیزیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو فئے کے طور پر دی تھیں ؛ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مصرف خیر جو مدینہ منورہ اور فدک میں تھا اور خیبر کی متروکہ آمدنی کا پانچواں حصہ۔ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

’’ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے ؛آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس مال ؛ یعنی اللہ تعالیٰ کے عطاکردہ مال میں سے کھا سکتے ہیں ‘‘ ان کو یہ اختیار نہیں کہ کھانے سے زیادہ مال لے لیں ۔‘‘

[صحیح بخاری:ح۹۲۵۔] 

صالح ابن شہاب سے ‘وہ عروہ بن زبیر سے ‘ وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں آپ فرماتی ہیں :

’’حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے یہ مال دینے سے انکار کردیااور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ اس میں تصرف فرمایا ہے میں اس میں سے آپ کے کسی عمل کو نہیں چھوڑ سکتا ؛میں ڈرتا ہوں کہ اگر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ عمل سے کچھ بھی چھوڑ دوں گا تو گم کردہ راہ ہو جاؤں گا۔ سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مال موقوفہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو دے دیا تھا۔ لیکن خیبر اور فدک اپنی نگرانی میں رکھا تھا اور کہا تھا کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا وقف ہے اور آپ نے ان دونوں کو ان مصارف و ضروریات کے لیے رکھا تھا جو درپیش ہوتے رہتے تھے۔ اور ان کے انتظام کا اختیار خلیفہ وقت کو دیا تھا ۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ دونوں آج کی تاریخ تک اپنی اسی حالت و کیفیت میں بطور وقف موجود ہیں۔‘‘

[صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر۳۴۴۔] 

یہ احادیث ثابت شدہ اور اہل علم کے ہاں بڑی معروف ہیں ۔ان احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جناب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے اپنے والد کی میراث طلب کی تھی۔اس لیے کہ آپ یہ جانتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث ہے ۔لیکن جب انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بتائی گئی ؛ توآپ نے اسے مان لیا ‘اور واپس چلی گئیں ۔ اور آپ اسے بطور وراثت کیسے طلب کرسکتی تھیں کہ آپ کے متعلق ان چیزوں کی ملکیت ہونے کا دعوی بھی تھا۔ یہ تو ایک لا یعنی سی بات ہے ۔

اس کتاب کے مصنف [ابن مطہر ] کو چاہیے تھا کہ وہ غور و فکر سے کام لیتا۔ مگر کسی بھی چیز کی محبت انسان کو اندھا کردیتی ہے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے : حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا : ....میں بھی [قرآن کو] ایسے ہی پڑھتا ہوں ؛ جیسے آپ پڑھتی ہیں ؛ لیکن میرے علم میں آپ نے کہیں بھی یہ نہیں فرمایاکہ : [یہ سارا مال آپ کے لیے ہے ] 

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا : کیا یہ مال آپ کے لیے اور آپ کے اقارب کے لیے ہے؟

آپ نے فرمایا : نہیں ؛ اور آپ میرے نزدیک سچی اور امانت دار ہیں ۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے اس قسم کا کوئی عہد لیا ہے ‘ یا آپ سے کوئی وعدہ کیا ہے ‘ یا پھر کوئی ایسی بات کہی ہے جس کے موجب یہ صدقات آپ کے ہوسکتے ہیں ؟

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: نہیں ‘ایسی کوئی بات نہیں ؛ صرف اتنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:

’’ اے آل محمد ! تمہیں خوشخبری ہو؛ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تونگری لے آئے ہیں ۔‘‘

حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ‘ اور آپ بھی سچ کہتی ہیں ۔ آپ کے لیے مال فئے ہے۔ اور میرے علم کے مطابق اس آیت کی تاویل کی روشنی میں یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ یہ پورے کا پورا حصہ آپ لوگوں کو دیدیا جائے ۔ لیکن آپ کے لیے آپ کی ضرورت کے مطابق مال فئے ہے ۔‘‘

اس سے واضح ہوتا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بات سنتے اور مانتے تھے۔ تو پھر جب آپ کے ساتھ ایک مرد اور ایک عورت گواہ بھی موجود ہوں تو آپ کی بات کیسے رد کی جاسکتی تھی؟

تیسری وجہ :....اگر اس مفروضہ کی صحت تسلیم کر لی جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ترکہ بھی تقسیم کیا جاتا؛ تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دعویٰ کے مطابق رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم اور آپ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ [اس وراثت میں ] آپ کے شریک ہوتے۔ اور ظاہر ہے کہ ان کے خلاف صرف ایک عورت یا صرف ایک مرد اور ایک عورت کی شہادت جمہور مسلمین کہ نزدیک قابل قبول نہیں ۔اوراگر آپ کاورثہ ناقابل تقسیم تھا تو اس معاملہ میں فریق حریف تمام مسلمان ہیں ؛ ان کے خلاف بھی صرف ایک عورت یا صرف ایک مرد اور ایک عورت کی شہادت جمہور مسلمین کہ نزدیک قابل قبول نہیں ۔ البتہ ایسے واقعات میں فقہاء حجاز اور محدثین کے نزدیک مدعی کے حق میں ایک گواہ کیساتھ اس کی حلف کو شامل کر کے فیصلہ صادر کیا جا سکتا ہے۔

بیوی کے حق میں خاوند کی شہادت کے بارے میں علماء کے دو مشہور اقوال ہیں ، امام احمد سے بھی اس ضمن میں دو روایتیں منقول ہیں :

۱۔ پہلی روایت : مقبول نہیں ، امام ابو حنیفہ، مالک، لیث بن سعد، اوزاعی، اسحاق رحمہم اللہ اور دیگر ائمہ کا مذہب بھی یہی ہے۔

۲۔ امام احمد کا دوسرا قول: خاوند کی شہادت بیوی کے حق میں مقبول ہے، امام شافعی ، ابو ثور اور ابن المنذر کی بھی یہی رائے ہے۔

بنا بریں اگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے اس واقعہ کی صحت کو تسلیم بھی کیا جائے، تو حاکم وقت ایک مرد یا ایک عورت کی شہادت کی بنا پر فیصلہ صادر نہیں کر سکتا، خصوصاً جب کہ اکثر علماء کے نزدیک خاوند کی شہادت بیوی کے حق میں مقبول ہی نہیں ۔اور پھر علماء کرام کا ایک گروہ ایسا بھی ہے جو صرف ایک گواہ اور قسم کی بنا پر فیصلہ کرنے کو جائز نہیں سمجھتے ۔اور جو کوئی ایک گواہ اور قسم کی بنا پر فیصلہ کرنے کا کہتے ہیں : تووہ بھی طالب دعوی کے لیے اس وقت تک فیصلہ کرنے کا نہیں کہتے جب تک اس سے پختہ حلف نہ لے لیا جائے ۔

چوتھی وجہ :....شیعہ مصنف کا یہ قول کہ : پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کو لے کر آئیں ؛ اور انہوں نے گواہی دی تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عورت کی گواہی قبول نہیں کی جاتی۔’’ سب محدثین نے روایت کیا ہے کہ ام ایمن ایک جنتی خاتون ہیں۔‘‘

جواب :

یہ ایک جاہلانہ بات ہے، شیعہ مصنف ایسی روایات سے استدلال کرنا چاہتا ہے جو اس کے حق میں مفید ہونے کی بجائے مضر ہے۔ اگرایسی بات حجاج بن یوسف یا مختار بن ابی عبید جیسے ظالم لوگوں کے منہ سے بھی نکلتی تو اس کی صداقت میں ذرہ بھر بھی شبہ نہ ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مالی معاملات میں ایک عورت کی شہادت کی بنا پر فیصلہ صادر نہیں کیا جا سکتا خصوصاً جب کہ مدعی ایک ایسی چیز کی ملکیت کا دعویٰ کر رہا ہو جو کسی اور کے زیر تصرف ہو اور ظاہر میں وہ کسی غیر کا حق ہو۔مگر یہاں تو اس کے قائل حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسے صادق القول بزرگ ہیں ۔

[اشکال ] :

شیعہ مضمون نگار نے کہا ہے کہ حدیث ’’ ام ایمن ایک جنتی عورت ہے۔‘‘ سب محدثین نے روایت کی ہے۔‘‘

[جواب] :

یہ صریح کذب ہے۔ یہ روایت کتب حدیث میں مذکور نہیں اور نہ ہی کسی محدث نے اسے روایت کیا ہے۔ ام ایمن اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی والدہ اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی دایہ رہ چکی تھیں ۔

[وجدتْ حدیثین في حق ام أیمن ؛ أم أیمن أمي بعد أمي۔‘‘وضعفہ السیوطي و الألباني في ضعیف الجامع الصغیر ۱؍ ۳۸۹۔ والثانی: من سرہ أن یتزوج امرأۃ من أہل الجنۃ فلیتزوج أم أیمن ۔‘‘ذکر السیوطي أن ابن سعد رواہ عن سفیان بن عقبۃ مرسلاً ؛ وضعفہ الألباني في ضعیف الجامع الصغیر ۵؍ ۲۰۵۔ اس کانام برکۃ بنت ثعلبۃ بن عمرو بن حصن تھا۔ الاصابۃ ۴؍۴۱۵۔]

یہ ہجرت کر کے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ پہنچی تھیں اور صحابیات میں بڑی احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں ۔ بایں ہمہ روایت حدیث میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے؛ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل علم پر افترا پر دازی کر کے کوئی روایت بیان نہیں کی جا سکتی ۔

باقی رہی یہ بات کہ بقول شیعہ مصنف ’’ یہ روایت سب نے ذکر کی ہے۔‘‘ بالکل غلط ہے، ایسا دعویٰ صرف حدیث متواتر کے بارے میں کیا جا سکتا ہے۔ جو شخص اکابر صحابہ کی بیان کردہ حدیث ’’ لَانورث ‘‘ کا منکر ہو اور ام ایمن کے بارے میں ذکر کردہ حدیث کو متواتر قرار دیتا ہو اس کے اجہل الناس اور منکر حق و صداقت ہونے کے بارے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے۔

اگر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے بشرط صحت حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کے بارے میں جنت کی بشارت دی ہے؛ توایسا مژدہ آپ نے دیگر صحابہ کے بارے میں بھی سنایا ہے۔ آپ نے دس صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں جنت کی بشارت سنائی ہے۔

نیز یہ بھی فرمایا کہ :بیعت الشجرہ میں شمولیت کرنے والوں میں سے کوئی بھی دوزخ میں نہیں جائے گا۔

[صحیح مسلم۔ کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب من فضائل اصحاب الشجرۃ رضی اللّٰہ عنہم (ح:۲۴۹۶)] 

یہ حدیث سنداً صحیح اور محدثین کرام کے نزدیک مسلّم ہے۔وہ حدیث جس میں آپ نے صحابہ کے بارے میں جنت کی شہادت دی ہے، اہل سنن نے متعدد طرق سے بروایت عبدالرحمن بن عوف، سعید بن زید نقل کی ہے۔

[سنن ابی داؤد۔ کتاب السنۃ۔ باب فی الخلفاء( ح:۴۶۴۹،۴۶۵۰) و سنن ترمذی کتاب المناقب۔ باب مناقب سعید بن زید رضی اللّٰہ عنہ (ح:۳۷۵۷) عن سعید بن زید رضی اللّٰہ عنہ (ح:۳۷۴۷) عن عبد الرحمن بن عوف رضی اللّٰہ عنہ ۔]

یہ روایات محدثین کے نزدیک عام طور سے معروف ہیں ۔

پھر جن احادیث میں صحابہ کے جنتی ہونے کی بشارت دی گئی ہے، شیعہ ان کی تکذیب کرتے ہیں اور صحابہ پر یہ کہہ کر معترض ہوتے ہیں کہ وہ اس حدیث کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس لیے کہ انہوں نے ایک عورت کی گواہی قبول نہیں کی ؛ جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ اسے جنتی ہونے کی بشارت دی گئی ہے، کیا اس سے بڑا جہل و عناد اور بھی ہوسکتا ہے؟

علاوہ ازیں یہ ضروری نہیں کہ جو شخص جنتی ہو وہ مقبول الشہادۃ بھی ہو۔اس لیے کہ اس امر کا احتمال موجود ہے کہ وہ شہادت دینے میں غلطی کا ارتکاب کررہا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اگر حضرت خدیجہ، فاطمہ و عائشہ رضی اللہ عنہم جیسی جنتی عورتیں شہادت دیں تو قرآن کے حکم کے مطابق ان کی شہادت کو مرد کی شہادت کے مقابلہ میں نصف شہادت قرار دیا جائے گا۔ جس طرح ان میں سے کسی ایک کا میراث میں حصہ مرد کے مقابلے میں نصف ہوتا ہے۔ اور اس کی دیت بھی مرد سے آدھی ہے۔ اس میں کسی کا اختلاف مذکور نہیں ،تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے۔پس کسی عورت کے جنتی ہونے سے اس کا مقبول الشہادۃ ہونا لازم نہیں آتا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ شہادت دینے میں غلطی کر رہی ہو۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک جھوٹا شخص دروغ گوئی سے تائب ہو کر جنت میں جا سکے۔

پانچویں وجہ :....شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت اس لیے قبول نہ کی کہ وہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے خاوند تھے۔‘‘ یہ صریح کذب ہے ، اگر اس کی صحت کو تسلیم کر لیا جائے تو بھی ہمارے حق میں مضر نہیں ۔ اس لیے کہ بیوی کے حق میں خاوند کی شہادت اکثر علماء کے نزدیک ناقابل قبول ہے۔ جو علماء اس کی قبولیت کے قائل ہیں وہ اس شرط کے ساتھ قبول کرتے ہیں کہ شہادت کا نصاب پورا ہوجائے، مثلاً خاوند کے ساتھ ایک مرد گواہ اور بھی ہو یا دو عورتیں ہوں ، ایک آدمی اور ایک عورت کی شہادت کی بنا پر فیصلہ صادر کرنا جب کہ مدعی سے حلف بھی نہ لیں ؛ ناروا ہے۔

چھٹی وجہ :....شیعہ مصنف کی پیش کردہ روایت کہ ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ حق پر ہیں اور حق آپ کے ساتھ لگا لپٹا ر ہے گا؛ اور یہ اس وقت تک جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض پر وارد ہوجائیں ۔‘‘اور پھر یہ کہنا کہ یہ روایت سب علماء نے بیان کی ہے۔یہ کذب و جہالت کی انتہا ہے۔ یہ روایت بسند صحیح یا ضعیف کسی نے بھی نقل نہیں کی۔ پھر یہ کہنا کس حد تک صحیح ہے کہ ’’ یہ روایت سب محدثین نے بیان کی ہے۔ ‘‘ اس شخص سے زیادہ جھوٹا اور کون ہو سکتا ہے، جو کسی روایت سے متعلق کہے کہ سب صحابہ و علماء نے یہ روایت بیان کی ہے، حالانکہ وہ حدیث اصلاً کسی ایک سے بھی منقول نہ ہو؛ یہ کھلا ہوا کذب و افترا ہے۔

البتہ اگر یوں کہا جاتا کہ بعض علماء نے یہ روایت بیان کی ہے تو یہ بات کسی حد تک دائرہ امکان کے اندر ہوسکتی تھی ۔

لیکن اس روایت کا اعتبار ہی کیا ہے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سراسر بہتان اورجھوٹ ہے ۔ بخلاف اس روایت کے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ : ’’ام ایمن جنتی عورتوں میں سے ہے ۔‘‘ ایسا کہنا ممکن ہے ۔ اس لیے کہ ام ایمن رضی اللہ عنہا نیک عورت تھیں ‘ آپ مہاجرات صحابیات میں سے تھیں ؛ آپ کو جنت کی بشارت دیے جانے میں کوئی حرج والی بات نہیں ۔بخلاف اس کے کہ کسی ایک انسان کے متعلق کہا جائے کہ : ’’حق اسی کیساتھ ہوگا وہ جہاں کہیں بھی ہوگا اور یہ اس وقت تک جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض پر وارد ہوجائیں ۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی ایسے کلام سے منزہ ومبراء ہے۔

[مذکورۃ الصدر حدیث درج ذیل وجوہ و اسباب کی بنا پر معنوی اعتبار سے بھی ناقابل قبول ہے] :

اوّل :....حوض نبوی پر اشخاص وارد ہوں گے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا تھا:

’’ تم صبر کرو یہاں تک کہ حوض پر مجھ سے آملو۔‘‘

[البخاری ۵؍۳۳ کتاب مناقب الانصار؛ باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم للأنصار: ’’اصبروا حتی....۔‘‘و مسلم ۳؍ ۱۴۷۴ ؛ کتاب الإمارۃ ؛ باب الأمر بالصبر عند ظلم الولاۃ‘‘۔] 

اور دوسری روایت میں ہے :

’’ بیشک میرا حوض ایلہ سے لیکر عدن تک بڑا ہوگا۔ اور اس حوض پر آنے والے سب سے پہلے لوگ فقراء مہاجرین ہوں گے ۔ پراگندہ سروں والے؛ میلے کپڑوں والے ‘ جو مال دار عورتوں سے شادی نہیں کرسکتے ‘ اور جن کے لیے بند دروازے نہیں کھولے جاتے ۔ان میں سے کسی ایک کی موت آتی ہے تو اس کی خواہش اس کے سینے میں ہوتی ہے۔ اس کی خواہش پوری نہیں ہوسکتی ۔‘‘

[رواہ مسلم ۴؍۱۹۰۲؛کتاب الفضائل ؛ باب اثبات حوض نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم و صفاتہ؛ البخاری ۳؍۱۹۰]۔سنن الترمذي ۴؍ ۴۷ ؛ کتاب صفۃ القیامۃ ؛ باب ما جاء في صفۃ أواني الحوض ۔] 

جب کہ حق کوئی مجسم چیزیا اشخاص میں سے نہیں جو حوض پر وارد ہونے کے قابل ہو۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے :

’’ میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں ؛ وہ کتاب اللہ اور میرے اہل بیت کی عترت ؛یہ دونوں جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض پر وارد ہوجائیں ۔‘‘

[سنن الترمذي ۵؍۳۲۸ ؛ کتاب المناقب ؛ باب مناقب أہل بیت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔ حسن غریب۔] 

وہ حدیث [حضرت علی رضی اللہ عنہ والی] بھی اسی باب سے ہے ۔اس میں کچھ کلام بھی ہے جو کہ اپنے موقع پر ذکر کیاجائے گا۔

اگر اس کو صحیح بھی تسلیم کرلیا جائے تو اس سے مراد قرآن کاثواب ہوگا۔ رہا یہ مسئلہ کہ حق ایک شخص کیساتھ گھومتا ہو ‘ اور وہ شخص حق کے ساتھ گھومتا ہو ؛ وہ اس شخص کی صفت [لازمہ ] ہو کہ اس سے آگے تجاوز نہ کرسکتا ہو۔ تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ اس کا قول سچا ہوگا؛ عمل نیک اور صالح ہوگا ؛ اس سے یہ مراد ہر گزنہیں ہوسکتی کہ اس کے علاوہ کسی غیر کے پاس حق میں سے کچھ بھی نہیں ہوگا۔

حالانکہ حق صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ گردش کرتا ہے اور دوسرا کوئی انسان اس خصوصیت کا حامل نہیں ۔ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ میں یہ وصف تسلیم کیا جائے تو اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح معصوم ہونا لازم آتا ہے۔ شیعہ جہالت کی بنا پر عصمت علی رضی اللہ عنہ کا دعویٰ کرتے ہیں ۔جو شخص اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ علی،ابوبکر و عمراور عثمان رضی اللہ عنہم کی نسبت معصوم تر نہ تھے؛بلکہ یوں کہیے کہ ان میں سے کوئی بھی معصوم نہیں ۔ اورلوگ شیعہ کی دروغ گوئی سے بخوبی واقف ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مسائل و فتاویٰ بالکل اسی طرح ہیں جس طرح ابوبکر و عمراور عثمان رضی اللہ عنہم کے فتاویٰ۔ ایسا ہر گز نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فتاویٰ خلفاء ثلاثہ کے فتاویٰ کی نسبت اولیٰ بالصواب ہوں ۔ یہ بات بھی غلط ہے کہ خلفاء ثلاثہ کے اقوال حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ارشادات کی نسبت ضعیف و مرجوح ہیں ۔یہ بھی درست نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیگر خلفاء کی نسبت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ خوش اور ان کے زیادہ ثنا خواں تھے۔ بخلاف ازیں اگر کوئی شخص کہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم عمر بھر میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کبھی ناراض نہیں ہوئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو متعدد مرتبہ زجر و عتاب فرمایا تو اس میں ذرہ بھر مبالغہ نہیں ہوگا۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کرنے کا ارادہ کیا اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے بارگاہ نبوی میں یہ شکوہ پہنچایا اور کہا: ’’ لوگ کہتے ہیں کہ آپ اپنی بیٹیوں کی حمایت نہیں فرماتے۔‘‘ تو آپ مسجد نبوی میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا:

’’بنی ہشام بن مغیرہ نے مجھ سے اپنی بیٹی کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دینے کی اجازت طلب کی ہے۔واضح رہے کہ میں اس کی اجازت نہیں دیتا،میں اس کی اجازت نہیں دیتا،میں اس کی اجازت نہیں دیتا، [ آپ نے تین مرتبہ یہ الفاظ دہرائے] ۔ البتہ علی رضی اللہ عنہ اگر میری بیٹی کو طلاق دے دیں تو ان کی بیٹی کے ساتھ نکاح کر سکتے ہیں ۔ فاطمہ! میرا جگر پارہ ہے جو اس کو شک میں ڈالتا ہے، وہ مجھے شک میں مبتلا کرتا ہے اور جو چیز اس کو ایذا دیتی ہے وہ مجھے ایذا دیتی ہے۔ پھر آپ نے اپنے ایک داماد


[ان کا نام ابو العاص بن ربیع بن عبدالعزی بن عبد شمس بن عبد مناف ہے، یہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے پہلے داماد اور آپ کی سب سے بڑی دختر فرخندہ اخترحضرت زینب رضی اللہ عنہا کے خاوند تھے، ان کی بیٹی کا نام امامہ تھا جن کو حالت نماز میں آپ کندھے پر اٹھا لیا کرتے تھے، جب سجدہ کو جاتے تو زمین پر رکھ دیتے اور جب کھڑے ہوتے اٹھا لیا کرتے تھے،

(صحیح بخاری۔ کتاب الصلاۃ ، باب اذا حمل جاریۃ صغیرۃ علی عنقہ فی الصلاۃ (ح:۵۱۶) ،صحیح مسلم۔ کتاب المساجد، باب جواز حمل الصبیان فی الصلاۃ(حدیث:۵۴۳)

یہ وہی امامہ بنت ابوالعاص ہیں کہ جب ان کی خالہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوگیا توحضرت علی نے ان سے نکاح کر لیا تھا۔ ابوالعاص متاخر الاسلام ہیں ۔ غزوۂ بدر میں یہ قریش کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑنے کے لیے گئے تھے، اور قید کر لئے گئے، جب اہل مکہ نے اپنے قیدیوں کو چھڑانے کے لیے فدیہ بھیجا توحضرت زینب نے وہ ہار مدینہ روانہ فرمایا جو رخصتی کے وقت ان کی والدہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان کو پہنایا تھا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہار پہچان لیا اور آبدیدہ ہو کر فرمایا: ’’ اگر تم مصلحت دیکھو تو زینب کے قیدی کو رہا کر دو اور ہار اسے واپس دے دو۔‘‘

(سنن ابی داؤد۔ باب فی فداء الاسیر بالمال، (ح:۲۶۹۲) (]


ان کا ذکر کیا جو بنی عبد شمس کے قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔آپ نے فرمایا:’’ اس (آپ کے داماد ابوالعاص) نے جب بات کی تو سچ بولا اور جب وعدہ کیا تو اسے پورا کیا۔‘‘


[صحابہ نے تعمیل ارشاد کر دی۔ بعد ازاں حضرت زینب نے ابو العاص سے ہجرت کی اجازت طلب کی جو اس نے دے دی، ابوالعاص ایک تجارتی قافلہ کو لے کر ملک شام گئے، ساحل سمندر پر مسلمانوں کی ایک جماعت آباد تھی جس میں ابو جندل اور ابو بصیر بھی شامل تھے۔ انہوں نے آگے بڑھ کر ابو العاص کو قید کر لیا اور مدینہ پہنچادیا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا: زینب نے ابوالعاص کو مال و متاع سمیت پناہ دی ہے۔قید کرنے والوں نے ابوالعاص کو اسلام لانے کی ترغیب دلائی اور ابو العاص کو مخاطب کر کے کہا ’’ ابوالعاص! آپ اشراف قریش میں شمار ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ آپ رسول اﷲ کے چچا زاد اور داماد بھی ہیں اگر آپ مشرف باسلام ہوجائیں تو اہل مکہ کا سب مال آپ کو غنیمت میں مل جائے گا۔ابوالعاص نے جواباً کہا ’’ تم نے یہ بہت بری بات کہی ہے، کہ میں مکر و فریب کے ساتھ اپنے مذہب کو چھوڑوں ۔‘‘ جب آپ نے ابوالعاص کو رہا کیا تو پہلے مکہ گئے اور حق داروں کی ایک ایک پائی ادا کی، پھر کھڑے ہوکر اہل مکہ کو مخاطب کر کے کہا ’’ مکہ والو! بتائیے کیا میں نے واجب الاداء حقوق ادا کیے یا نہیں ۔‘‘؟ انہوں نے کہا ’ اﷲ کی قسم!ضرور۔‘‘ تب ابوالعاص نے کلمہ شہادت پڑھا اور عازم مدینہ ہوئے، سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب کو ابوالعاص کے یہاں بھیج دیا، اور نکاح جدید کی ضرورت نہ سمجھی۔

(مستدرک حاکم (۳؍۲۳۶۔ ۲۳۷) سیرۃ ابن ہشام (ص:۳۱۲،۳۱۴) سنن ابی داؤد۔باب الی متی ترد علیہ امراتہ (ح۲۲۴۰) بذکر النکاح فقط۔

ابوالعاص اموی اور ان کے اشباہ و امثال جن بلند اخلاق اور اوصاف کے حامل تھے، ان کا ذکر و بیان یہاں ممکن نہیں ۔] 

ظہور اسلام سے قبل وہ جس طرح عرب بھر میں ممتاز تھے، اسلام لانے کے بعد تاریخ اسلام میں بھی انہیں بلند مقام حاصل ہوا۔ عربوں کے اخلاق جلیلہ اور ان کی بلند پایہ عربی فطرت ہی ہے جس کی بنا پر اﷲ تعالیٰ نے اس عظیم قوم کو اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے منتخب فرمایا۔

صحیح بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی ا للّٰہ علیہ وسلم ۔ باب ذکر اصھار النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم (ح: ۳۷۲۹ ،۵۲۳۰) ۔ صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب من فضائل فاطمۃ رضی اللّٰہ عنہ ، (ح:۲۴۴۹ )


ایک مرتبہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دروازہ پر دستک دے کر دریافت فرمایا:

’’ کیا تم نماز (تہجد) نہیں پڑھتے۔‘‘؟

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ہماری جانیں اﷲ کے قبضہ میں ہیں جب چاہتا ہے جگا دیتا ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر افسوس کے عالم میں اپنی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے چل دئیے، زبان مبارک پر بے ساختہ یہ الفاظ جاری تھے:

{ وَکَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شَیْئٍ جَدَلًا }

[الکہف۵۳] 

’’انسان جھگڑا کرنے میں سب چیزوں سے بڑھا ہوا ہے۔‘‘

[البخاری، کتاب التہجد۔ باب تحریض النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی قیام اللیل ، (ح: ۱۱۲۷) صحیح مسلم ۔ کتاب صلاۃ المسافرین۔ باب الحث علی صلاۃ اللیل و ان قلت۔(حدیث:۷۷۵)۔] 

جہاں تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مسائل و فتاویٰ کا تعلق ہے، آپ نے فتوی دیا تھا کہ جب کسی عورت کا خاوند فوت ہوجائے اور وہ حاملہ ہو تو اس کی عدت

’’اَبْعَدُ الَاجَلَیْنِ‘‘

(عدت وفات اور وضع حمل ہر دومیں سے جو بعید تر ہو) ہے،

عہد نبوت میں جب ابو سنابل بن بعکک نے یہی فتوی دیا، تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابو سنابل جھوٹ کہتا ہے۔

[صحیح بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب فضل من شھد بدراً(ح:۳۹۹۱) صحیح مسلم۔ کتاب الطلاق ، باب انقضاء عدۃ المتوفی عنھا زوجھا، (ح:۱۴۸۴) مسند احمد(۱؍۴۴۷)۔] 

اس کے نظائر و امثال بہت ہیں ۔بہر کیف صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی بنا پر فیصلہ صادر نہیں کیا جا سکتا تھا۔جیسا کہ وہ خود اپنے حق میں فیصلہ نہیں کرسکتے تھے۔

ساتویں وجہ :....شیعہ مضمون نگارنے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا جو واقعہ ذکر کیا ہے وہ ان کے شایان شان نہیں ۔اس سے کوئی جاہل ترین انسان ہی حجت پکڑ سکتا ہے۔ شیعہ مصنف اس زعم باطل میں مبتلا ہے کہ اس سے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی مدح و ستائش ہو رہی ہے، حالانکہ یہی واقعہ ان کے حق میں تنقیص شان کا موجب ہے ۔ بشرط صحت اس واقعہ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حق میں فیصلہ صادر نہ کیا تو آپ کس لیے ناراض ہو گئیں ....؟ اس لیے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ حق و صداقت پر مبنی تھا، جس کی خلاف ورزی کسی کے لیے بھی درست نہیں ، لہٰذا اس میں ناراض ہونے کی کوئی بات نہ تھی۔ جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے برخلاف اس کے حق میں فیصلہ صادر کیا جائے اور جب حاکم ایسا نہ کر سکے تو وہ اس سے ناراض ہو جائے اور بات چیت ترک کرنے کی قسم کھالے تو یہ بات اس شخص کے لئے نہ موجب مدح ہے اور نہ حاکم کے حق میں سبب جرح و قدح۔ بخلاف ازیں یہ بات ایسا تقاضا کرنے والے کے لیے جرح و قدح سے قریب تر ہے۔

ہم اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا و دیگر صحابہ سے اس قسم کے جو واقعات منقول ہیں ان میں سے اکثر صریح کذب اور بعض تاویل پر مبنی ہیں ۔ اور اگر ان میں سے بعض گناہ کے موجب بھی ہوں تو ہمیں کب اس سے انکار ہے، کیونکہ ہم صحابہ کو معصوم نہیں مانتے۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ صحابہ اولیاء اللہ اور اہل جنت میں سے ہونے کے باوصف گناہوں سے بری نہ تھے۔ ہم پر امید ہیں کہ اﷲتعالیٰ ان کے گناہوں کی مغفرت فرمائے گا۔

رافضی مصنف نے جو ذکر کیا ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سے گفتگو نہ کرنے کی قسم کھا لی اور کہا کہ اپنے والد محترم (صلی اللہ علیہ وسلم ) سے مل کر اس کا شکوہ کریں گی؛ یہ بات شان فاطمہ رضی اللہ عنہا کے منافی ہے۔ شکوہ صرف بارگاہ ربانی میں کیا جا سکتا ہے اور بس!قرآن میں ارشاد ہوتا ہے اللہ کے ایک نبی نے کہا تھا:

{ اِنَّمَا اَشْکُوْ بَثِّیْ وَحُزْنِی اِلَیْ اللّٰہِ }

(یوسف:۷۶) 

’’میں بارگاہ ایزدی میں اپنے حزن و ملال کا شکوہ کرتا ہوں ۔‘‘

موسیٰ علیہ السلام دعا فرمایا کرتے تھے:

’’بارالٰہی ! مدح و ستائش صرف تیرے لیے ہے، تیرے حضور ہی میں شکایت کی جاتی ہے تجھی سے مدد چاہی جاتی ہے اور تجھی سے فریادرسی کی جاتی ہے، ہمارا تکیہ صرف تیری ہی ذات پر ہے۔‘‘

سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما کو مخاطب کر کے فرمایا تھا :

’’ سوال کرنا ہو تو صرف اﷲ سے کیجئے،اور اگر مدد طلب کرنا ہو تو اﷲ سے کیجئے۔‘‘

[مسند احمد (۱؍۲۹۳،۳۰۷) سنن ترمذی۔ کتاب صفۃ القیامۃ۔ باب (۵۹) (حدیث: ۲۵۱۶) ۔] 

آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ مجھ سے سوال کیجئے یا مجھ سے طلب امداد کیجئے، قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:

{ فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَاِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ}

(الانشراح:۷۔۸) 

یہ ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ جب کوئی شخص حاکم سے مال طلب کرے اور غیر مستحق ہونے کی بنا پر حاکم اس کا مطالبہ پورا نہ کرے اس پر مزید یہ کہ حاکم اس مال کو اپنے عزیز و اقارب پربھی صرف نہ کر رہا ہو بلکہ حسب موقع و مقام سب مستحق مسلمانوں کو دیتا ہو۔


[اگر حدیث نبوی ’’ لانورث ‘‘ سے صرف نظر کر لیا جائے تو اس میں شبہ نہیں کہ سیدہ عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا اور حفصہ بن عمر رضی اللہ عنہا دونوں ورثاء میں شامل تھیں ،حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے مذکورۃ الصدرحدیث کی تعمیل میں دونوں کو ورثہ سے محروم کر کے آپ کے صدقہ کو عام صدقات میں جمع کر دیا تھا، تاہم آپ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے، اہل بیت کو بیت المال سے اپنی ضروریات پوری کرنے کی اجازت دے دی تھی،حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جملہ امور میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کے التزام کو قائم رکھا اور ہر صورت میں اسے نبھانے کی کوشش کی، آپ نے بدعات سے کنارہ کش رہنے کی قسم کھائی تھی۔ ظاہر ہے کہ اس سے بڑی بدعت اور کیا ہوتی کہ آپ حدیث ’’ لانورث ‘‘ کی خلاف ورزی کرتے، حالانکہ یہ روایت کثیر صحابہ سے مروی ہے، اور خود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی یہ روایت بیان کی ہے۔]


پھر کہا جائے کہ وہ طالب ِمال حاکم سے بگڑ گیا۔ تو ظاہر ہے کہ اس کی ناراضگی کا موجب صرف یہ امر ہے کہ حاکم نے اس کو مال نہ دیا اور یہ کہہ دیا کہ دوسرے لوگ اس کی نسبت اس مال کے زیادہ مستحق ہیں ۔ اس ناراضگی میں طالب مال کے لیے مدح و ستائش کا کوئی پہلو باقی نہیں رہتا اگرچہ طالب مظلوم بھی ہو۔ تا ہم اس کی ناراضگی صرف دنیوی مال کی خاطر ہے۔ اس صورت میں طالب مال کو متَّہم کرنا حاکم کو مطعون قرار دینے کی نسبت اقرب الی الصحت ہے۔ خصوصاً جب کہ حاکم یہ مال خود نہیں لے رہا اور طالب مال اسے خود اپنی ذات کے لیے حاصل کرنے کے درپے ہے۔ حاکم واشگاف الفاظ میں کہہ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم مجھے مال دینے سے مانع ہے، میرے لیے یہ کیوں کر روا ہے کہ مستحق سے مال لے کر غیر مستحق کو دے دوں ؟ طالب مال اس کے سوا آخر کیا کہہ سکتا ہے کہ میری ناراضگی کا باعث صرف قلیل مال ہے دگر ہیچ۔

جو شخص سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے متعلق ایسا واقعہ بیان کر کے اسے ان کی مدح پر محمول کرتا ہے، اس کا جاہل ہونا کسی شک و شبہ سے بالا ہے، اللہ تعالیٰ منافقین کی مذمت ان الفاظ میں فرماتے ہیں :

{وَ مِنْہُمْ مَّنْ یَّلْمِزُکَ فِی الصَّدَقٰتِ فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْہَا رَضُوْا وَ اِنْ لَّمْ یُعْطَوْا مِنْہَآ اِذَا ہُمْ یَسْخَطُوْنَ o وَ لَوْ اَنَّہُمْ رَضُوْا مَآ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ وَ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ سَیُؤْتِیْنَا اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ وَ رَسُوْلُہٗٓ اِنَّآ اِلَی اللّٰہِ رٰغِبُوْنَ}

(التوبہ: ۵۸۔ ۵۹) 

’’بعض منافق صدقات کے متعلق آپ پر طعن کرتے ہیں ، اگر صدقات مل گئے تو خوش، ورنہ ناخوش اور اگر وہ اﷲ کے عطا کردہ مال پر رضا مندی کا اظہار کرتے، اور یوں کہتے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لیے کافی ہے اور وہ ہمیں اپنے فضل و کرم سے دیتا رہے گا؛اور اس کا رسول، ہماری رغبت صرف بارگاہ ربانی کی جانب ہے ۔‘‘

اس آیت میں منافقین کی یہ خصوصیت بیان کی گئی ہے کہ وہ دیے جانے کی صورت میں خوش ہوتے ہیں اور اگر نہ دیا جائے تو غیظ و غضب کا اظہار کرنے لگتے ہیں ، منافقین کی زندگی کا یہی پہلو ان کی مذمت کا موجب ہوا ہے۔ یہ امر قابل غور ہے کہ جو شخص اسی خصوصیت کی بنا پر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی مدح سرائی کرتا ہے، جس کی مذمت بیان کی گئی ہے تو وہ بلاشبہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے۔ اس سے یہ حقیقت اجاگر ہوتی ہے کہ روافض نے اہل بیت کی شان میں جو گستاخیاں کی ہیں اور جس طرح ان کی زندگیوں کو داغ دار کرنے کی کوشش کی ہے،وہ کسی بھی اہل بصیرت پر مخفی نہیں ہے ۔ اہل بیت کی جانب سے اللہ تعالیٰ ہی اس کا انتقام لے گا۔

[اشکال ] :

اگر کوئی شخص یہ کہے:سیدہ فاطمہ اپنا حق طلب کرنے آئی تھیں اور حق کا مطالبہ کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ۔‘‘

[جواب] :

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تو یہود و نصاری تک کے حقوق ادا کرنے میں تامل نہیں کرتے تھے، بھلا آپ سیدۃ النساء سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا حق ادا کرنے سے کیوں کر انکار کر سکتے تھے؟، مزید برآں اﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی شہادت دی ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنا مال اﷲ کی راہ میں صرف کیا کرتے تھے، پھر آپ لوگوں کے حقوق اداکرنے سے کیوں کر باز رہ سکتے تھے۔

[سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے ایک عزیز مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ کی مالی امداد فرمایا کرتے تھے، اس ضمن میں سورہ نور کی یہ آیت نازل ہوئی:

{وَلَا یَاتَلِ اُوْلُوا الْفَضْلِ مِنْـکُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ یُؤْتُوْا اُوْلِی الْقُرْبٰی وَالْمَسَاکِیْنَ وَالْمُہَاجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ } (نور: ۲۲) (صحیح بخاری کتاب المغازی، باب حدیث الافک،(حدیث:۴۱۴۱) صحیح مسلم، کتاب التوبۃ، باب فی حدیث الافک (حدیث: ۲۷۷۰)] 

سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مال کا مطالبہ کیا تھا؛اور آپ اسے پورا نہ کر سکے۔ بخاری و مسلم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بارگاہ نبوت میں خادم طلب کرنے آئیں اور آپ نے خادم عطا کرنے کی بجائے ان کو تسبیح کے کلمات پڑھتے رہنے کی تلقین فرمائی۔

[صحیح بخاری کتاب فضائل الصحابۃ باب باب مناقب علی بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ (ح:۶۳۱۸) ،صحیح مسلم کتاب الذکر والدعاء باب التسبیح اوّل النھار و عند النوم (حدیث:۲۷۲۷) ۔


یہ پوری حدیث اس طرح ہے: فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے چکی پیسنے کی تکلیف کی شکایت کی ، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے تو فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس آئیں لیکن آپ موجود نہیں تھے ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ان کی ملاقات ہوئی تو ان سے اس کے بارے میں انہوں نے بات کی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔


اگر یہ آیت کریمہ کسی انسان کے بارے میں انبیاء علیہم السلام میں سے کسی نبی پر نازل ہوتی تو اس نبی کی امت کا سخت بے شرم آدمی بھی اس شخص کی شان میں گستاخی کرنے سے شرم محسوس کرتا، جس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی مگرحضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی کرنے والے جذبہ حیاء سے عاری ہیں ، اس لیے کہ حیا ایمان کا جزء ہے،اور انہیں ایمان سے کوئی سروکار نہیں ۔

جب یہ جائز ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی چیز طلب کریں اور آپ یہ مطالبہ پورا نہ کریں اور اس کا پورا کرنا آپ پر واجب بھی نہ ہو؛ تو اسی طرح یہ بھی درست ہے کہ وہ خلیفہ رسول سے کوئی چیز طلب کریں اور آپ اس مطالبہ کی تکمیل سے قاصر رہیں ۔ خصوصاً جبکہ ہم اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا معصوم نہیں اور ممکن ہے آپ ایسا مطالبہ کریں جس کی تکمیل ضروری نہ ہو۔ جب مطالبہ کا پورا کرنا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ پر واجب نہ ہوا تو ایک غیر واجب امر کے ترک کرنے پر آپ ہر گز قابل مذمت نہیں ، یہ امر مباح ہی کیوں نہ ہو۔جب ہم یہ فرض کر لیں کہ اس مطالبہ کا پورا کرنا سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے مباح بھی نہ تھا تو اس کی عدم تکمیل پر آپ مدح کے قابل ہوئے نہ کہ مذمت کے مستحق اور یہ کبھی معلوم نہیں ہوسکا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اور آپ کے بعد کسی کا حق ادا کرنے سے کبھی انکار نہیں کیا۔

شیعہ مصنف کا یہ قول کہ: سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے وصیت فرمائی تھی کہ:’’ انھیں رات کو دفن کیا جائے تاکہ ان میں سے کوئی ایک بھی ان کا جنازہ نہ پڑھے۔‘‘ صرف وہی شخص اس قصہ کو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرسکتا ہے جو بالکل جاہل ہو اور سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا پر ایسے الزامات لگانا چاہتا ہو جو کہ آپ کی شان کے لائق نہیں ۔ آپ کی شان میں ایسے کلمات کہے جو آپ کی عزت وعظمت کے منافی ہوں ۔ بشرط صحت یہ بات چنداں مفید نہیں ۔ اس لیے کہ جنازہ پڑھنے سے میت کو فائدہ ہی پہنچتا ہے کسی ضرر کا اندیشہ نہیں ۔ نیز یہ کہ اگر ایک کم درجہ کا شخص افضل الخلق کا جنازہ پڑھے تو اسے کچھ نقصان نہیں پہنچتا۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی لیجیے کہ سب ابرار و اشرار اور منافقین آپ پر درود و سلام بھیجتے ہیں ۔ بفرض محال اگر اس سے آپ کو نفع نہیں پہنچتا تو ضرر بھی لاحق نہیں ہوتا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ آپ کی امت میں منافقین بھی ہیں ۔ اس کے باوصف آپ نے کسی کو بھی درود وسلام سے نہ روکا، بلکہ مومن و منافق سب کو درود و سلام کا حکم دیا۔

مذکورۃ الصدرحقائق اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ قبل ازیں ذکر کردہ واقعہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی مدح و ستائش پر دلالت نہیں کرتا اور اس سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت پر وہی شخص استناد کرتا ہے جو جاہل مطلق ہو۔ مزید برآں یہ مسئلہ اپنی جگہ پر ثابت ہے کہ اگر کوئی شخص وصیت کرے کہ مسلمان اس کا جنازہ نہ پڑھیں تو اس کی وصیت نافذ نہیں کی جائے گی اس لیے کہ نماز جنازہ اُس کے لیے ہرحال میں مفید ہے۔

[تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فاطمہ رضی اللہ عنہا کے آنے کی اطلاع دی ، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود ہمارے گھر تشریف لائے ، اس وقت ہم اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے ، میں نے چاہا کہ کھڑا ہو جاں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوں ہی لیٹے رہو ، اس کے بعد آپ ہم دونوں کے درمیان بیٹھ گئے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی ، ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگوں نے مجھ سے جو طلب کیا ہے کیا میں تمہیں اس سے اچھی بات نہ بتاں ، جب تم سونے کے لیے بستر پر لیٹو تو چونتیس مرتبہ اللہ اکبر ، تینتیس مرتبہ سبحان اللہ اور تینتیس مرتبہ الحمدللہ پڑھ لیا کرو ، یہ عمل تمہارے لیے کسی خادم سے بہتر ہے۔

‘‘ح: ۳۷۰۷۔] 

امام ابن عبد البر رحمہ اللہ نے الاستیعاب میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی اس وصیت کا ذکر کیا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیوی اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا اورحضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کو غسل دیں ۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیوی ہی نے آپ کے لیے نعش کا انتخاب کیا تھا جیسا کہ وہ ملک حبشہ میں بچشم خود ملاحظہ کر چکی تھیں ۔ دیکھئے

حلیۃ الاولیاء، ابونعیم:۲؍۴۲، نیز السنن الکبریٰ امام بیہقی :۴؍۳۴، نیز ۳؍۹۶۔

یہ ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ اگر کسی انسان پر کسی نے ظلم کیا ہو اور مظلوم وصیت کرجائے کہ ظالم اس کے جنازہ میں شریک نہ ہو تو اس کا یہ فعل ایسی نیکی نہیں ہے جو اس کے لیے قابل ستائش ہو۔ اﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کا حکم نہیں دیا۔ مقام تعجب ہے کہ حضر ت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تعریف و توصیف کرنے والے ایسے واقعات کس لیے بیان کرتے ہیں جو ان کے لیے موجب مدح ہونے کی بجائے ان کی شان میں قدح وارد کرتے ہیں جیسا کہ کتاب و سنت اور اجماع سے مستفاد ہوتا ہے۔