Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

عہد فاروقی میں

  علی محمد الصلابی

عہدِ فاروقی میں

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا انتہائی بلند مقام تھا، لوگ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کچھ منوانا چاہتے تو حضرت عثمانؓ اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کا سہارا لیتے۔ دورِ فاروقی میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ردیف کہا جاتا تھا۔ عربی میں ردیف شہسوار کے پیچھے سوار ہونے والے کو کہتے ہیں، اور عرب بادشاہ کے ہم نشین اور ثانی کو ردیف کہتے ہیں۔ جب ان دونوں سے کام نہیں بنتا تو تیسرے نمبر پر سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کا سہارا لیتے۔

(تاریخ الطبری: جلد، 4 صفحہ، 83 المرتضیٰ، ابو الحسن علی الندوی: صفحہ، 131)

ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کو لے کر مدینہ سے نکلے اور مقام صرار پر پڑاؤ ڈال دیا۔ سیدنا عثمانؓ، سیدنا عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا، کیا خبر ہے؟ کہاں کا ارادہ ہے؟ سیدنا عمرؓ ’’الصلاۃ جامعۃ‘‘ کے ذریعہ سے اعلان کرنے یا پھر لوگوں کو اپنے عزم سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا: میں عراق پر حملہ کرنا چاہتا ہوں۔

(عثمان بن عفان، الخلیفۃ الشاکر الصابر: صفحہ، 63)

جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مسندِ خلافت کو سنبھالا تو کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بیت المال سے وظیفہ لینے سے متعلق مشورہ لیا تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کھایئے اور کھلایئے۔ 

(عثمان بن عفان، الخلیفۃ الشاکر الصابر: صفحہ، 63)

جس وقت سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بیت المقدس فتح کرنے کے لیے وہاں پہنچنے کی دعوت دی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس سلسلہ میں لوگوں سے مشورہ لیا، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا: آپؓ وہاں تشریف نہ لے جائیں تاکہ اس سے نصاریٰ کو ذلت و رسوائی حاصل ہو، اگر آپؓ وہاں نہیں گئے تو وہ سمجھ جائیں گے کہ آپؓ کو ان کی پروا نہیں ہے اور آپؓ ان سے قتال کے لیے تیار ہیں، پھر وہ جلد ہی اپنی شکست تسلیم کر کے جزیہ ادا کرنے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔

(عثمان بن عفان، محمد حسین ہیکل: صفحہ، 47، 48 بحوالہ السیاسۃ المالیۃ لعثمان بن عفان: صفحہ، 24) 

اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یہ مشورہ دیا کہ آپؓ تشریف لے جائیں، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں پر آسانی چاہتے ہوئے اور جنگی مشکلات کو ختم کرنے کے لیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مشورہ پر عمل کیا۔

(عثمان بن عفان، الخلیفۃ الشاکر: صفحہ، 63)

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی حیثیت خلیفہ کے وزیر کی تھی۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ دورِ فاروقی میں آپؓ کا وہی مقام تھا جو خلافتِ صدیقی میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا مقام تھا۔ اللہ رب العزت نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی وزارت سے وہ کام کیا جو اپنے خاص بندوں کے لیے کرتا ہے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے لیے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی وزارت سے وہ کام کیا جو اپنے خاص بندوں کے لیے کرتا ہے۔

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ انتہائی رحم دل تھے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ حق کے لیے انتہائی سخت تھے۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کی رحمت اور سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ کی شدت کے درمیان امتزاج قائم کر دیا جس سے صدق کی خلافت، عدل کی سیاست اور عزم کی قوت برپا ہوئی۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ رحمت میں سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کے زیادہ مشابہ تھے اور سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ اپنی شدت پر قائم تھے تو جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد خلافت کی باگ ڈور سنبھالی تو اللہ تعالیٰ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی وزارت کے ذریعہ سے سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کی رفق و رحمت کا عوض انہیں عطا کر دیا اور دونوں کے باہمی تعاون و امتزاج سے نظامِ حکومت و سیاست محکم ترین اور عادل ترین سیاست کی مثال قائم ہوئی۔ خلافتِ فاروقی میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا یہ مقام و مرتبہ لوگوں کے درمیان معروف تھا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ہی نے دیوان اور تاریخ نویسی کی تجویز پیش کی۔