اگر کسی شخص کی بیٹی مشرق میں سکونت پذیر ہو اور خود مغرب میں رہتا ہو، پھر وہ مغرب ہی میں غائبانہ طور پر کسی آدمی سے اپنی لڑکی کا نکاح کر دے، رات و دن میں کسی وقت بھی ان کاجوڑ نہیں ہواہو۔ چھ ماہ کے بعد اس لڑکی یہاں بچہ پیدا ہو تو وہ بچہ اسی خاوند کا قرار دیا جائے گا۔اوروہ مغرب میں اس کا باپ قرار پائے گا۔حالانکہ اس انسان کا اس عورت تک پہنچنا کئی سال کے بعد ہی ممکن ہوسکتا ہے۔بلکہ اگر کسی انسان کو حکمران اس کے نکاح کے وقت سے ہی قید کردے ؛ اور پچاس سال تک کے لیے اس پر پہرہ بیٹھادے ؛ پھر جب وہ اپنی بیوی کے شہر میں پہنچے تو وہاں پر اپنے بچوں اور پوتوں وغیرہ کا ایک جم غفیر دیکھے ؛ تو پھر بھی ان سب کا نسب اس انسان کیساتھ لگایا جائے گاجو ایک دن کے لیے بھی اس عورت کے [یا کسی دوسری عورت کے] قریب تک نہیں گیا۔
امام ابن تیمیہ[اہل سنت پر اعتراضات ] :
اگر کسی شخص کی بیٹی مشرق میں سکونت پذیر ہو اور خود مغرب میں رہتا ہو، پھر وہ مغرب ہی میں غائبانہ طور پر کسی آدمی سے اپنی لڑکی کا نکاح کر دے، رات و دن میں کسی وقت بھی ان کاجوڑ نہیں ہواہو۔ چھ ماہ کے بعد اس لڑکی یہاں بچہ پیدا ہو تو وہ بچہ اسی خاوند کا قرار دیا جائے گا۔اوروہ مغرب میں اس کا باپ قرار پائے گا۔حالانکہ اس انسان کا اس عورت تک پہنچنا کئی سال کے بعد ہی ممکن ہوسکتا ہے۔بلکہ اگر کسی انسان کو حکمران اس کے نکاح کے وقت سے ہی قید کردے ؛ اور پچاس سال تک کے لیے اس پر پہرہ بیٹھادے ؛ پھر جب وہ اپنی بیوی کے شہر میں پہنچے تو وہاں پر اپنے بچوں اور پوتوں وغیرہ کا ایک جم غفیر دیکھے ؛ تو پھر بھی ان سب کا نسب اس انسان کیساتھ لگایا جائے گاجو ایک دن کے لیے بھی اس عورت کے [یا کسی دوسری عورت کے] قریب تک نہیں گیا۔
[انتہیٰ کلام الرافضی] ۔
جواب:
اسی طرح مشرق میں سکونت رکھنے والی عورت کے بچے کامغربی آدمی کے ساتھ الحاق بھی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا انفرادی مسلک ہے اور دوسرے ائمہ اس کی تائید نہیں کرتے۔ دراصل امام صاحب کا نقطہ نظریہ ہے کہ نسب کا اثبات صرف میراث حاصل کرنے کے لیے کیا جاتا ہے،اس مقصود کے مطابق وراثت تقسیم کی جائے گی ۔ جیسا کہ جب دوعورتیں ایک بچے کی وراثت کادعوی کریں تو وہ وراثت ان دونوں کے درمیان تقسیم کی جائے گی؛ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ وہ ان دونوں عورتوں سے پیدا ہوا ہے۔
ایسے ہی جب کوئی انسان اپنی بیوی کو وطی سے پہلے طلاق دیدے؛ توبچے کو اس کی طرف منسوب کیا جائے گا؛اس سے مراد یہ ہے کہ یہ ایک دوسرے کے وارث بنیں گے۔اس سے مراد یہ نہیں کہ وہ بچہ اس کے پانی سے پیدا ہوا ہے۔ امام صاحب رحمہ اللہ کے مذہب کی حقیقت یہ ہے کہ آپ نسب کے ثبوت کے لیے حقیقی ولادت کو شرط نہیں مانتے ۔ بلکہ آپ کے نزدیک بیٹا خاوند کا ہوگا۔ جو کہ اصل میں صاحب فراش ہے ۔حالانکہ اسے قطعی یقین ہے کہ یہ عورت اس سے حاملہ نہیں ہوئی ۔ [اصل میں امام صاحب اس حدیث کے مطابق فیصلہ دے رہے ہیں جوحضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے روایت کی ہے: بچہ چارپائی والے کا ہوگا؛ اورزنا کارکے لیے پتھر ہوں گے۔‘‘ مختصر الطحاوی۔]
یہ بالکل ویسے ہی ہے جب کوئی انسان اپنی دو بیویوں میں سے کسی ایک کو طلاق دے ‘اور خود مرجائے ؛ یہ پتہ نہ چلے کہ اس نے کونسی بیوی کو طلاق دی ہے ؟ تو اس کی وراثت دونوں بیوں میں تقسیم کی جائے گی۔جبکہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں : دونوں بیویوں کے درمیان قرعہ ڈالاجائے گا۔اورامام شافعی رحمہ اللہ نے اس میں توقف کیا ہے ‘ ان کے نزدیک کوئی فیصلہ اس وقت تک نہیں کیا جائے گا جب تک معاملہ واضح نہ ہوجائے یا پھر دونوں آپس میں صلح کرلیں ۔جبکہ جمہور علماء کرام رحمہم اللہ [اس مسئلہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی] مخالفت کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے جب یہ ثابت ہوجائے کہ بچہ اس کا نہیں ہے تو پھر نہ ہی اس سے نسب ثابت ہوگا اورنہ ہی کوئی دوسرا حکم ۔ جب کہ امام صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں : بچے کی نفی کے باوجود بعض احکام ثابت ہوتے ہیں ۔
یہ مطلب نہیں کہ وہ اس کا صلبی بچہ ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ اگر یہ فقہی مسائل غلط ہیں تو اس میں شبہ نہیں کہ جمہور ائمہ ان کے خلاف ہیں اور اگر درست ہیں تو اقوال اہل سنت سے خارج نہ ہوں گے۔
جیسا کہ امام صاحب رحمہ اللہ نے یہ بھی کہاہے کہ : اگر کوئی انسان اپنے سے بڑی عمر کے غلام سے اگر یہ کہے کہ تم میرے بیٹے ہو۔ تواسے اس غلام کے آزاد کرنے سے کنایہ سمجھا جائے گا؛ اس سے نسب ثابت نہیں ہوگا۔ جبکہ جمہور علماء کرام رحمہم اللہ فرماتے ہیں یہ ایسا اقرار ہے جس کا جھوٹ ہونا ظاہر ہے ۔ اس کی بنا پر کوئی بھی حکم ثابت نہیں ہوگا۔پس امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جو الزام لگایا جارہا ہے ‘اگر وہ حق ہے تو جمہور اہل سنت آپ کی موافقت کرتے ہیں ۔اوراگر جھوٹ و باطل ہے تو اس سے باقی لوگوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔حالانکہ الزام لگانے والا اس خیال سے الزام لگاتا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ یہ کہتے ہیں کہ : یہ اولاد اسی آدمی کے پانی سے ہے ؛ اگرچہ اس کا اپنی بیوی سے جماع نہ بھی ہوا ہو۔ایسی بات تو انتہائی درجہ کا بیوقوف انسان بھی نہیں کہہ سکتا۔توپھر ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے متعلق اس قسم کے الزام کو کیوں سچ سمجھا جاسکتا ہے ۔ مگر آپ کایہ خیال ضرور ہے کہ آپ ولادت کا نہیں ؛ بلکہ نسب کا حکم لگاتے ہیں ۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جس میں آپ منفرد ہیں ؛ جمہور نے آپ کی مخالفت کی ہے ‘ اور اس قول کو مبنی بر خطاء کہا ہے ۔ بعض علماء کرام رحمہم اللہ نے شوہر کے لیے وطی ممکن ہونے کی صورت میں نسب ثابت ہونے کا حکم لگایا ہے؛جیسے امام شافعی اور امام احمد کے بہت سارے ساتھی یہی کہتے ہیں ۔ رحمہم اللہ ۔ان میں سے بعض یہ بھی کہتے ہیں : نسب اس وقت تک ثابت نہیں مانا جائے گا جب تک ان دونوں کے مابین خلوت [دخول] حاصل نہ ہوجائے۔یہ امام مالک رحمہ اللہ وغیرہ کی رائے اور امام احمد رحمہ اللہ کا دوسرا قول ہے ۔