اہل سنت کے نزدیک کتے کی کھال پہن کر نماز پڑھنا جائز ہے۔ معاذاللہ
امام ابن تیمیہ[اہل سنت پر اعتراضات ] :
اہل سنت کے نزدیک کتے کی کھال پہن کر نماز پڑھنا جائز ہے۔ معاذاللہ
[انتہیٰ کلام الرافضی] ۔
جواب:
کتے کا چمڑا اور دباغت کا مسئلہ :
رہا کتے کے چمڑے میں نماز کا مسئلہ ؛ توامام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اسے اس شرط کے ساتھ جائز قرار دیتے ہیں کہ چمڑے کو دباغت دی گئی ہو۔ علماء کی ایک جماعت کا یہی خیال ہے ۔آپ اس مسئلہ میں منفرد نہیں ہیں ۔ان کی دلیل یہ حدیث نبوی ہے :
(( اَیُّمَا إِہَابٍ دُبِغَ فَقَدْ طَہُرَ )) [صحیح مسلم۔ کتاب الحیض۔ باب طہارۃ جلود المیتۃ بالدباغ(ح:۳۶۶) سنن ترمذی۔ کتاب اللباس ۔ باب ما جاء فی جلود المیتۃ اذا دبغت،(ح:۱۷۲۷) واللفظ لہ....]
(جو چمڑا بھی رنگا جائے وہ پاک ہوجاتا ہے ) ۔ [
عموم حدیث کے پیش نظر کتے کا چمڑا بھی دباغت سے پاک ہوجاتا ہے]
یہ مسئلہ اجتہادی ہے۔یہ ان شنیع مسائل میں سے نہیں ہے۔ اگر اس کے منکر [شیعہ] سے اس کی حرمت کی قطعی دلیل طلب کی جائے تو بتا نہ سکے گا۔بلکہ اگر اس سے کتے کے حرام ہونے پر دلیل طلب کی جائے ؛ تاکہ امام مالک رحمہ اللہ سے منقول ایک قول پر رد کیا جا سکے۔اس لیے کہ امام مالک اپنے ایک قول میں کتے کو مکروہ قراردیتے ہیں ؛ حرام نہیں کہتے۔ تو اس کا رد کرنا رافضی کے بس کی بات نہ ہوگی۔حالانکہ صحیح بات جس پر جمہور علمائے کرام رحمہم اللہ کا مذہب یہی ہے کہ کتے اور باقی درندوں کا چمڑا دباغت دینے سے پاک نہیں ہوتا۔اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی ایک اسناد کے ساتھ منقول ہے کہ:
’’ آپ درندوں کے چمڑوں کو دباغت دینے سے منع فرمایا کرتے تھے۔‘‘
[سننِ أبِی داود:۴؍۹۶؛ کتاب اللِباسِ،باب ما جاء فِی جلودِ النمورِ والسِباعِ، سننِ التِرمِذِیِ:۳؍۱۵۲؛ ِکتاب اللِباسِ، باب ما جاء فِی النہیِ عن جلودِ السِباع، سننِ النسائِیِ:۷؍۱۵۶؛ ِکتاب الفرعِ والعتِیرِۃ، باب النہیِ عنِ الِانتِفاعِ بِجلودِ السِباع ، المسندِ ط۔ سننِ النسائِیِ:۷؍۱۵۵؛ کتاب الفرعِ والعتِیرِ، باب الرخصِ فِی الِاستِمتاعِ بِجلودِ المیتِ إذا دبِغت۔]
رہ گیا یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:
(( اَیُّمَا إِہَابٍ دُبِغَ فَقَدْ طَہُرَ )) ’’
جو چمڑا بھی رنگا جائے وہ پاک ہوجاتا ہے ۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور دوسرے محدثین نے ضعیف قراردیا ہے۔حالانکہ اسے امام مسلم رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے۔
[مسلِم:۱؍۲۷۷؛ کتاب الحیضِ، باب طہارۃِ جلودِ المیتۃِ بِالدِباغ، ولفظہ: ِإذا دبِغ الإِہاب فقد طہر، وانظر شرح النووِیِ علی مسلِم:۴؍۵۳؛ والحدِیث فِی سننِ أبِی داود:۴؍۹۳؛ِکتاب اللِباسِ، باب فِی أُہُبِ المیتۃ،سننِ التِرمِذِیِ:۳؍۱۳۵؛کتاب اللِباسِ، باب ما جاء فِی جلودِ المیتۃِ إِذا دبِغت، سننِ النسائِیِ:۷؍۱۵۳؛کتاب الفرعِ والعتِیرۃِ، باب جلودِ المیتۃِ، سننِ ابنِ ماجہ:۲؍۱۱۹۳، کتاب اللِباسِ، باب لبسِ جلودِ المیتۃِ إِذا دبِغت۔]
ایسے ہی کتے کے حرام ہونے پر شرعی دلائل موجود ہیں ۔لیکن ان امامیہ کے بس میں نہیں ہے کہ یہ امام مالک رحمہ اللہ سے وارد ہونے والے ایک قول پر رد کرسکیں ۔