قتل حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر اجماع کا رافضی دعوی اور اس پر رد
امام ابن تیمیہ[قتل حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر اجماع کا رافضی دعوی اور اس پر رد]
[ شیعہ اعتراض] :
شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ’’ قتل عثمان رضی اللہ عنہ پر سب مسلمانوں کا اجماع قائم ہو گیا تھا۔‘‘
[جواب] :
اس کے جواب میں کئی نکات ہیں :
پہلی وجہ :....یہ بڑا گھناؤنا جھوٹ ہے۔ اس لیے کہ جمہور نے نہ ہی قتل کا حکم دیا؛ نہ ہی اس قتل میں شریک ہوئے او نہ ہی وہ اس پر راضی تھے۔ علاوہ ازیں اکثر مسلمان مدینہ میں اقامت گزیں نہ تھے۔ بلکہ مختلف دیار و امصار مکہ ؛ شام ؛ یمن ؛ کوفہ ؛ بصرہ ؛ مصر اور بلاد مغرب سے لے کر خراسان تک آباد تھے۔اہل مدینہ ان مسلمانوں کا ایک حصہ تھے۔
دوسری وجہ:....یہ کہ چند شریراور فتنہ پروراور اوباش؛ زمین میں فساد پھیلانے والے آدمی اس فعلِ شنیع کے مرتکب ہوئے تھے، صلحائے امت نہ اس میں شریک تھے؛ اورنہ ہی ان میں سے کسی ایک نے آپ کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ حلف اٹھایا کر فرمایا کرتے تھے:
’’ اللہ کی قسم ! میں نے نہ ہی عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کیا اور نہ ہی ان کے قتل کی کوئی سازش کی ۔‘‘ آپ قاتلین عثمان پر بددعا کیا کرتے اور فرمایا کرتے تھے:
’’ اے اﷲ! تو قاتلین عثمان پر بحر و برّ اور کوہ و میدان میں لعنت بھیج۔‘‘
[حضرت علی رضی اللہ عنہ نے متعدد مواقع پر قاتلین عثمان سے براء ت کا اعلان کیا اور ان پر لعنت بھیجی، حافظ ابن عساکر(۷؍۸۵) کی روایت کے مطابق آپ نے آخری اعلان واقعہ جمل کے موقع پر کیا۔ مورخ مذکور لکھتے ہیں : جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جنگ جمل کے لیے تشریف لے گئیں تو کعب بن سُور ازدی اونٹ کی مہار پکڑے آگے آگے چل رہا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کعب کو مخاطب کرکے کہا: ’’ مہار کو چھوڑیے اور آگے بڑھ کر لوگوں کو قرآن کی طرف بلایے۔‘‘ یہ کہہ کر آپ نے کعب کو قرآن کریم کا ایک نسخہ دیا۔دوسری جانب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں سبائی پیش پیش تھے۔ انھیں خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں فریقین میں صلح نہ ہو جائے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی فوج کو پیچھے دھکیل رہے تھے مگر وہ بزور آگے بڑھتے جاتے تھے۔ سبائیوں نے آگے بڑھ کر کعب پر بیک وقت اتنے تیر چلائے کہ وہ موقع پر ہی جان بحق ہو گئے۔ سبائی پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف بڑھے تو آپ نے پہلی مرتبہ ان الفاظ میں ان کو خطاب فرمایا:ارے لوگو! قاتلین عثمان اور ان کے انصارو اعوان پر لعنت بھیجئے۔‘‘حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پھر دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیئے۔ بصرہ والے چیخ چیخ کر دعا کرنے لگے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا یہ آہ و بکا کیسی ہے ؟ جواب ملا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کے حق میں بد دعا کر رہی ہیں ، حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی دعا کرنے لگے۔ آپ نے فرمایا:
’’ اے اللہ! قاتلین عثمان اور ان کے ہم نواؤں پر لعنت بھیج۔‘‘ ]
اس باب میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ: جیسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مدد کا حق تھا ‘ ایسے ان کی مدد نہیں کی گئی۔ چونکہ لوگوں کا خیال تھا کہ معاملہ آپ کے قتل تک نہیں پہنچے گا۔
[جب باغیوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ کیا تھا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو آپ کی حفاظت کا حکم دیا اور فرمایا کہ ہر قیمت پر ان کی حفاظت کرنا خواہ تمہاری جان کیوں نہ چلی جائے۔ مگر حضرت عثمان برابر ان کو مدافعت سے منع کرتے رہے۔ حضرت حسن آخری شخص تھے جو سانحہ شہادت کے دن آپ کے گھر سے نکلے۔ حضرت حسن و حسین کے علاوہ عبد اﷲ بن عمر، عبد اﷲ بن زبیر اور مروان بن حکم بھی آپ کی حفاظت کے سلسلہ میں حاضر ہوئے تھے۔ مگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بتاکید ان سے کہا کہ ہتھیار رکھ کر اپنے گھروں کو چلے جائیں ۔
(دیکھئے:
العواصم من القواصم:۱۳۴)
حافظ ابن عساکرنے کہا کہ جب حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا گیا تو بنو عمرو بن عوف نے حضرت زبیر کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا: ’’ ابوعبد اﷲ! ہم آپ کی خدمت میں حضرت عثمان کی مدافعت کے لیے حاضر ہوئے ہیں ۔‘‘ابوحبیبہ کہتے ہیں : حضرت زبیر نے یہ پیغام دے کر مجھے حضرت عثمان کے پاس بھیجا۔‘‘ بعد از سلام ان سے عرض کیجیے کہ تمہارا بھائی زبیر عرض کرتا ہے کہ بنو عمرو بن عوف نے آپ کی مدافعت کے لیے اپنی خدمات کی پیش کش کی ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں بھی آپ کے یہاں چلا آؤں تاکہ جو تکلیف آپ کو پہنچے وہ مجھے بھی پہنچے۔ یا بنو عمرو بن عوف کے ذریعہ آپ کی مدافعت کروں جیسے آپ کا ارشاد ہو۔‘‘ ابوحبیبہ کا بیان ہے کہ میں حضرت عثمان کی خدمت میں حاضرہوا ۔ آپ کے یہاں حضرت حسن بن علی، عبد اﷲ بن عمر، ابوہریرہ،....اور عبداﷲ بن زبیر بھی موجود تھے، میں نے حضرت زبیر کا پیغام پہنچایا تو فرمانے لگے: اﷲاکبر! اﷲ کا شکر ہے جس نے میرے بھائی زبیر کو محفوظ رکھا۔ میری جانب سے انھیں کہئے: اگر آپ میرے گھر میں تشریف لائیں گے تو آپ کی وہی حیثیت ہو گی جو ایک مہاجر کی ہوتی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ مدافعت کے لیے بنو عمرو بن عوف کا انتظار کریں ۔‘‘ ابو حبیبہ کہتے ہیں کہ یہ سن کر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اٹھے اور لوگوں کو مخاطب کرکے کہا: میرے ان دو کانوں نے آں حضرت کو یہ فرماتے سنا تھا کہ میرے بعد فِتَن و حوادث ظہور پذیر ہوں گے۔ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ! ان سے نجات کی کیا صورت ہو گی؟ آپ نے حضرت عثمان کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: ’’امیر(عثمان) اور اسکی جماعت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیے۔‘‘
(مسند احمد (۲؍۳۴۵) و فضائل الصحابۃ، (۷۲۳) مستدرک حاکم (۳؍۹۹، ۴؍۴۳۳) و صححہ و وافقہ الذہبی)
لوگوں نے عرض کیا ہمیں لڑنے کی اجازت دیجیے، حضرت عثمان نے فرمایا: میں اپنے اطاعت شعاروں کو بتاکید لڑائی سے روکتا ہوں ۔ابوحبیبہ کا بیان ہے کہ بنو عمرو بن عوف کے آنے سے پہلے ہی فتنہ پردازوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا۔
(سیرۃ ابن ہشام(ص:۲۲۷۔۲۲۹)، صحیح بخاری کتاب الصلاۃ۔ باب ھل تنبش قبور مشرکی الجاھلیۃ( ح:۴۲۸)، صحیح مسلم۔ کتاب الصلاۃ۔ باب ابتناء مسجد النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم (حدیث:۵۲۴) ۔]
اس لیے انھوں نے آپ کی عملی مدد کرنے میں سہل انگاری سے کام لیا۔اگر انہیں اس بات کا یقین ہوتا کہ معاملہ اتنا خطرناک ہوجائے گا تووہ ضرور آپ کے دفاع میں کھڑے ہوجاتے اور اس فتنہ کو روک لیتے ۔ بس یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق ہے :
{وَ اتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً }
[الأنفال۲۵]
’’اوراس فتنہ سے بچو!جوتم میں سے خاص کر صرف ظالموں پر واقع نہ ہوگا....‘‘
اس لیے کہ جب ظالم انسان لوگوں پر ظلم کرتا ہے ؛ تواس کی وجہ سے لوگ فتنہ و آزمائش کا شکار ہوجاتے ہیں ‘ اور وہ لوگ بھی اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں جن کااس ظلم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس وقت بڑے بڑے لوگ اس فتنہ کو رد کرنے سے عاجز آجاتے ہیں ۔اس کے برعکس اگر ظالم کو شروع سے ہی روک دیا جائے تو اس فتنہ کا سدباب ہوسکتا ہے ۔
تیسری وجہ :....رافضی انتہائی سخت جھوٹے اور بہت بڑے تناقض کا شکارہیں ۔یہ ایک مسلمہ بات ہے کہ اجماع حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل پر نہیں بلکہ آپ کی بیعت وخلافت پر منعقد ہوا تھا۔
[رواہ البخاري ۳؍۱۸۶۔ ]
تمام ملک کے رہنے والے آپ کی بیعت پر یک زبان تھے ۔ اگر ظاہری اجماع سے دلیل لینا جائز ہے تو پھر واجب ہوتا ہے کہ آپ کی بیعت بھی حق ہو ‘ اس لیے کہ آپ کی بیعت پر تمام لوگوں کا اجماع ہوگیا تھا۔ اگر اس سے استدلال لینا جائز نہیں تو پھر آپ کے قتل پر اجماع کا کہنا کھلم کھلا ایک باطل بات ہے۔ خصوصاً جب کہ آپ کو قتل کرنے والے چند ایک فسادی لوگ تھے۔ پھر اس پر مزیدار بات تو یہ ہے کہ شیعہ آپ کی بیعت خلافت پر اجماع کے منکر ہیں ‘اور کہتے ہیں : اہل حق نے زبردستی اور خوف کے مارے آپ کی بیعت کی۔ [ مگر قتل پر اجماع ثابت کرنے کے چکر میں لگے ہوئے ہیں ] ۔ اس کے بجائے اگر یوں کہتے کہ :’’ اہل حق آپ کے قتل پر متفق تھے: اور اہل حق کو زبردستی آپ کے قتل میں شریک کیا گیا اوروہ اس پر اپنی کمزوری کی وجہ سے خاموش رہے۔ تو پھر بھی ہم کہہ سکتے تھے کہ یہ بات کسی حد تک ممکن ہے۔ اس لیے کہ لوگ یہ بات جانتے ہیں جو کوئی حکومت سے ٹکرا کر تختہ الٹنا چاہتا ہو‘ عام لوگ اس کی مخالفت کرنے سے ڈرتے ہیں ۔بخلاف اس کے جو کوئی حاکم کی بیعت کرنا چاہتا ہو۔اس لیے کہ اسے کسی مخالف سے نہیں ڈرایا جا سکتا۔ جیسے کہ اس انسان سے ڈرایا جاسکتا ہے جو کسی کو قتل کرنا چاہتا ہو۔ کیونکہ قتل کا ارادہ رکھنے والے کا شر زیادہ تیز ہوتا ہے ‘ اور وہ خون بہانے میں دریغ نہیں کرتا ؛ لوگ اس سے ڈرتے رہتے ہیں ۔
[فرض محال شیعہ کی بات تسلیم کرتے ہیں ]
کہ تمام لوگوں کا آپ کے قتل پر اجماع ہوگیا تھا؛ توپھر اس کا کیا جواب دو گے کہ جمہور صحابہ کرام آپ کے قتل کا انکار کرتے تھے۔اور جن لوگوں نے آپ کے گھر میں رہتے ہوئے آپ کا دفاع کیاجیسے حضرت حسن و حسین حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم وغیرہ؛ یہ علیحدہ داستان ہے۔
مزید برآں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر جو اجماع منعقد ہوا ایسا اتفاق حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت وخلافت اور قتل عثمان رضی اللہ عنہ پر اور دوسرے کسی معاملہ میں نہیں ہوا تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت خلافت سے صرف چند اشخاص پیچھے رہے تھے۔ جن میں سے ایک حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے رہ جانے کا سبب معلوم ہے۔
(واللہ یغفرلہٗ ویرضی عنہ) ۔
آپ سابقین اولین انصار میں سے ایک نیک فرد تھے جنہیں جنت کی بشارت سنائی گئی تھی۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے واقعہ افک والی روایت میں ہے آپ فرماتی ہیں : ’’ آپ منافقین کے سردار عبداللہ بن ابی کا دفاع کرنے لگے۔ اس سے قبل آپ ایک نیک انسان تھے ؛ مگر قبائلی حمیت کی وجہ سے ان سے اس حرکت کاارتکاب ہوگیا ۔‘‘
ہم قبل ازیں بیان کر چکے ہیں کہ جس آدمی کے لیے جنت کی شہادت دی گئی ہو وہ بعض اوقات گناہ کا مرتکب بھی ہوتا ہے [ اس لیے کہ وہ معصوم نہیں ] ۔مگر پھر وہ ان سے توبہ کرلیتا ہے؛ یا اس گناہ کو اس کی نیکیاں مٹا دیتی ہیں ۔ یا مصائب و آلام اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں ؛ یا کوئی دوسرا سبب ایسا پیدا ہوجاتا ہے۔
[گناہ کی سزا سے بچنے کے اسباب ]
جب کوئی انسان گناہ کرلیتا ہے تو اس کے لیے اس گناہ کی سزا بچنے کے دس اسباب ہوتے ہیں ۔ تین سبب اس کی ذات سے ؛ تین سبب لوگوں کی طرف سے ؛ اور چار اسباب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ۔ توبہ و استغفار ؛ گناہ مٹانے والی نیکیاں ؛ اس کے لیے مؤمنین کی دعا؛ نیک اعمال کا ہدیہ ؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت؛ دنیا میں کفارہ بننے والے مصائب ؛ برزخ اور میدان محشر میں اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کا فضل اور اس کی جانب سے بخشش ۔
یہاں پر اس بیان سے مقصود یہ ہے کہ : یہ کہ مسئلہ اجماع ظاہر ہے اور اسے سبھی جانتے ہیں ۔ توپھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل جیسے مسئلہ پر کیسے اجماع کا دعوی کیا جاسکتا ہے؟ بلکہ یہ بات سبھی جانتے ہیں جو لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر قتال کرنے سے پیچھے رہ گئے تھے وہ تعداد میں ان لوگوں سے کئی گنابڑھ کر تھے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل میں شریک ہوئے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ تین گروہوں میں بٹ گئے تھے : ایک گروہ جنہوں نے آپ کے ساتھ مل کر قتال کیا؛ ایک گروہ جو آپ سے برسر پیکار رہا؛ اور تیسرا گروہ جو نہ آپ کے ساتھ تھے اور نہ ہی آپ کے خلاف ۔ سابقین اولین کی اکثریت اسی گروہ سے تعلق رکھتی تھی ۔ اگراور کچھ بھی نہ ہوتا صرف وہی لوگ آپ کی بیعت سے پیچھے رہ گئے ہوتے جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے؛ کیونکہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ہمنواؤں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کی تھی۔ وہ تعداد میں ان لوگوں سے کئی گناہ بڑھ کر ہیں جنہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کیا تھا۔ نیز جو لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کاانکار کررہے تھے وہ بھی ان لوگوں سے تعداد میں کئی گنا بڑھ کر تھے جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تھی۔ [تو پھر اگر] یہ کہنا باطل ہے کہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ پر متفق ہوگئے تھے ؛ پھر یہ کہنا بھی سب سے بڑا باطل ہے کہ لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل پر متفق ہوگئے تھے۔
اگر یہ کہنا جائز ہے کہ لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل پر جمع ہوگئے تھے؛ کیونکہ یہ واقع پیش آیا اور آپ کا دفاع نہیں کیا جاسکا۔ تو پھر معترض کا یہ قول بھی بجا ہے کہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کرنے پراور آپ کی بیعت سے پیچھے رہنے پر متفق ہوگئے تھے ؛ بلکہ اس قول کا جواز سب سے بڑھ کر ہے۔ اس لیے کہ یہ واقعہ بھی پیش آیا ؛ مگر اس کا دفاع نہیں کیا گیا۔
اگریہ کہا جائے کہ : جو لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے ان کے لیے ممکن نہیں تھا کہ لوگوں پر آپ کی بیعت کو لازم کریں ۔ اور ان سب کو آپ کے جھنڈے کے نیچے جمع کردیں ؛ اور انہیں آپ سے جنگ کرنے سے روکیں ۔اس لیے کہ وہ اس سے عاجز آگئے تھے۔ تو پھر اس کا جواب دیا جائے گا کہ: محاصرہ کے وقت جو لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے ‘ ان کے لیے بھی آپ کا دفاع کرنا ممکن نہ رہا ۔
اگر یہ کہا جائے کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں سے تقصیر ہوئی ؛ اور وہ عاجزی کی وجہ سے جنگ پر قابونہ پاسکے ؛ یا ان پر وہ لوگ غالب آگئے جو جنگ کرنا چاہتے تھے۔ یا وہ لوگوں کو آپ کی بیعت پر جمع کرنے میں ناکام رہے ۔
تو اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ: ’’ جو لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے ؛ ان سے بھی ایسے ہی کوتاہی و تقصیر ہوئی ؛ یہاں تک فتنہ پرداز آپ کو قتل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ پھر یہ دعوی کرنا یہ ایک کھلا ہوا واضح جھوٹ ہے کہ لوگوں کا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل اجماع ہوگیا تھا ؛ حالانکہ جمہور امت اس کا انکار کرتی ہے ؛ اور لوگ آپ کی مدد کے لیے اور پھر بعد میں آپ کے خون کا بدلہ لینے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے ۔
شیعہ مصنف کا یہ قول اس کی جہالت کا آئینہ دار ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل پر اجماع منعقد ہوا تھا۔ یہ تو بعینہٖ اسی طرح ہے جیسے ناصبی کہتے ہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے اجماع کے مطابق قتل کیے گئے تھے۔ وہ اس کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ لڑنے والوں اور آپ کو قتل کرنے والوں میں سے کسی نے بھی آپ کی مدافعت نہیں کی تھی۔
حالانکہ آپ کو شیعی ماحول (عراق) میں قتل کیا گیا تھا۔ وہ شیعہ جو کرۂ ارضی کے دور افتادہ گوشوں سے چل کر آپ کے مقتل پر جمع ہوتے ہیں یہی آپ کو دھوکہ دینے والے تھے۔ پہلے بڑے زور و شور سے خط لکھ کر بلایا۔ جب آپ تشریف لے آئے تو آپ کا ساتھ چھوڑ کر صف ِ اعداء میں شریک ہو گئے۔ استاد موسیٰ یعقوبی نجفی ایک معاصر شیعہ ادیب لکھتا ہے:
قَدْ کَاتََبَتْہُ اُوْْلُوا الْخِیَانَۃِ اَنَّہَا جُنْدٌ وَّلَیْسَ لَہَا سِوَاہُ اِمَامٌ
خیانت کار لوگوں نے آپ( حضرت حسین) کو لکھا تھا کہ ہم آپ کے مددگار ہیں اور آپ کے سوا ہمارا کوئی امام نہیں ۔‘‘
لٰکِنَّہُمْ خَانُوْا الذِّمَامَ وَلَمْ یَفُوْا اَنّٰی وَ مَا لِلْخَائِنِیْنَ ذِمَام
’’مگر انھوں نے اپنے عہد میں خیانت کی اور اسے پورا نہ کیا اور خیانت پیشہ لوگ عہد کے پابند ہی کب ہوتے ہیں ۔‘‘
اگر شیعہ خود فریبی کا شکار نہ ہوتے تو وہ اپنے گھروں میں مقیم رہتے اور خط لکھ کر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو دعوت نہ دیتے تو لوگوں کا خون ضائع ہونے سے بچ جاتا اور امت اس عظیم فتنہ میں مبتلا نہ ہوتی۔ اپنی قدر نہ جاننے کا یہ ثمرہ برآمد ہوا کہ شیعہ تاقیامِ قیامت یہ داغ دور نہ کر سکیں گے۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہما جب عاشوراء کے بعد کوفہ میں داخل ہوئیں اور اہالیان کوفہ حضرت زینب اور ان کے بھائی کاخوشامدانہ الفاظ میں استقبال کرنے نکلے تو انھوں نے اس وقت یہی الفاظ کہے تھے۔ مزید براں حضرت حسین سے خیانت کرنے والے شیعہ بعد میں آنے والے شیعہ سے بہر حال بہتر تھے۔
اس قول میں ناصبی اتنے ہی جھوٹے ہیں جتنے شیعہ اپنے اس دعویٰ میں کہ قتل عثمان رضی اللہ عنہ پر اجماع منعقد ہوا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ قتل عثمان رضی اللہ عنہ کی مذمت قتل حسین رضی اللہ عنہ سے زیادہ کی گئی ہے۔
علاوہ ازیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی تائید و نصرت اور ان کے قصاص کا مطالبہ
[حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فوج میں طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما جیسے گرامی قدر صحابہ شامل تھے، جو عشرہ مبشرہ میں شمار ہوتے ہیں ، اور جن کا مقصد وحید قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص لینا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مصالحت کرنا تھا۔ جنگ صفین انہی مقاصد کی جدو جہد کے دوران وقوع میں آئی تھی۔]
کرنے والے لوگوں کی تعداد حامیانِ حسین سے بہت زیادہ تھی۔
قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے سب سے پہلے ذاتِ باری تعالیٰ نے انتقام لیا۔
تفصیلات ملاحظہ فرمائیے:
۱۔ جہجاہ بن سعید غفاری:
یہ وہ بدبخت ہے کہ جب حضرت عثمان مسجد نبوی کے منبر پر خطبہ دے رہے تھے تو اس نے عصائے نبوی آپ کے ہاتھ سے چھین لیا اور اس زور سے آپ کے دائیں گھٹنے پر مارا کہ عصا ٹوٹ گیا۔ اﷲ تعالیٰ نے بہت جلد اس سے انتقام لیا۔ عصائے نبوی کاایک ٹکڑا اس کے زانو میں گڑ گیا اور اس میں کیڑے پڑ گئے پھر پتہ نہ چل سکا کہ اس کا کیا انجام ہوا۔ ظن غالب ہے کہ وہ اسی تکلیف سے جہنم رسید ہوا۔
۲۔ حرقوص بن زہیر سعدی:
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مخالفت کے بعد اس نے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ پر خروج کیا تو آپ نے یوم النہروان ۳۹ہجری میں اسے مروا ڈالا۔
۳۔ حکیم بن جبلہ عبدی:
جنگ جمل میں اس کا پاؤں کٹ گیا تھا۔قریب الموت تھا کہ کسی نے ان الفاظ میں پکارا امام مظلوم پر مظالم ڈھانے کی بنا پر جب اﷲ کی گرفت میں آئے ہو تو اے خبیث! اب چلا رہے ہو، تم نے مسلمانوں کے شیرازہ کومنتشر کیا اور ناحق خون بہائے۔ اب انتقام الٰہی کا مزہ چکھو۔‘‘
۴۔ ذریح بن عباد عبدی:
یہ حکیم بن جبلہ عبدی کا رفیق کار تھا جنگ جمل میں مارا گیا۔
بصرہ کے قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ میں سے جو جنگ جمل میں زندہ بچ گئے تھے ان کے قبیلہ والے پکڑکر ان کو کتوں کی طرح طلحہ و زہیر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں لائے اور وہ سب تہ تیغ کر دیے گئے۔ بصرہ والوں میں سے صرف حرقوس بن زہیر بچا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے یوم النہروان میں قتل کیا۔
۵۔ جندب بن زبیر غادری:
معرکہ صفین میں قبیلہ ازد کے ایک شہسوار کو للکارا تو ازدی نے اسے قتل کردیا۔ اسکا خالہ زاد بھائی مخنف بن سُلَیم کہا کرتا تھا کہ جندب بچپن میں بھی اور بڑا ہو کر بھی دونوں حالتوں میں منحوس تھا۔ جاہلیت و اسلام دونوں اَدوار میں جندب ہمیشہ بری چیزکا انتخاب کیا کرتا تھا۔
۶۔ ابوزنیب بن عوف:
یہ ۳۷ ہجری میں معرکہ صفین میں مارا گیا۔
۷۔ شریح بن اوفیٰ عَبَسی:
اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کیا تھا۔ پہلے اس کا پاؤں کاٹا گیا اور پھر قتل کیا گیا۔ بوقت قتل اس نے یہ اشعار پڑھے:
اَضْرِبُـہُمْ وَلَوْ اَرٰی اَبَا حَسَنٍ ضَرَبْتُہٗ بِالسَّیْفِ حَتّٰی یَطْمَئِنَّ
اَضْرِبُہُمْ وَ لَوْ اَرٰی عَلِیًّا اَلْبَسْتُہٗ اَبْیَضَ مُشْرِقِیًّا
’’ میں ان کو مارتا رہوں گا اور اگر کہیں علی کو دیکھ پایا تو اس کو ضرورتلوار ماروں گا۔ یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہو جائے۔میں ان کو مارتا جاؤں گا اور اگر علی کو دیکھ لیا تو میں اس کو صیقل شدہ مشرقی تلوار کا لباس پہناؤں گا۔‘‘
۸۔ علباء بن ہُشَیم سدوسی:
عمرو بن یثربی قاضی بصرہ نے اسے جنگ جمل میں قتل کیا۔
۹۔ عمرو بن حمق خزاعی
:۵۱ ہجری تک زندہ رہا پھر موصل میں اسے نیزے کی اتنی ہی ضربیں لگیں جتنی اس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو لگائی تھیں ۔
۱۰۔ عمیر بن ضابی:
یہ وہ بدبخت ہے جس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان کی پسلی توڑ دی تھی۔ جب حجاج عراق کا حاکم قرار پایا تو یہ اس کی خدمت میں حاضر ہو کر رحم وکرم کا طالب ہوا۔ اس کا خیال تھا کہ حجاج اس سے واقف نہیں ۔ حجاج نے کہاکیا تو وہی شخص نہیں جس نے یہ شعر کہا تھا:
ہَمَمْتُ وَ لَمْ اَفْعَلْ وَکِدْتُّ وَلَیْتَنِیْ تُرِکْتُ عَلٰی عُثْمَانَ تَبْکِیْ حَلَائِلُہٗ
’’میں نے ( قتل عثمان کا) ارادہ کیا تھا مگر یہ کام نہ کر سکا اے کاش! مجھے اس معاملہ میں کھلی چھٹی ملتی تو عثمان رضی اللہ عنہ کی بیویاں ان پر رونے لگتیں ۔‘‘پھر حجاج کے حکم سے اس کو قتل کردیا گیا۔
۱۱۔ کعب بن ذی الحبکہ نَہدی:
بسربن ابی ارطاۃ نے اس کو قتل کیا۔
۱۲۔ کنانہ بن بشر تُجیبی:
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے مصر میں اسے قتل کیا۔ یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا شدید مخالف تھا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کیا تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر میں جو لوگ قتل کیے گئے تھے۔ یہ ان کو دفن کرنے سے روکتا تھا۔
۱۳۔ ابن الکوّاء یشکری:
اس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے علاوہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بھی خروج کیا تھا اور قتل ہوا۔
۱۴۔ محمد بن ابی حذیفہ:
اس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے احسانات کی ناشکری کی۔ سزا کے طور سے یہ ۳۶ ہجری میں بمقام عریش مقتول ہوا۔‘‘ علی ہذا القیاس قاتلین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے آخرت سے پہلے دنیا میں ہی اپنے کیے کی سزا پالی تھی۔ قاتلین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ میں سے جو لوگ پیش پیش تھے ان کے انجام سے بچے بھی آگاہ ہیں ۔
جب باغیوں نے مدینہ طیبہ کا رخ کیا تو اس وقت عساکر اسلامی مختلف بلاد شرق و غرب میں کفار کے خلاف مصروف جہاد تھیں ۔ اسلامی لشکر زیادہ تر ان ممالک میں برسرپیکار تھے جو آج کل روس کے زیر تسلط ہیں ۔
قتل عثمان رضی اللہ عنہ سے امت میں جو شروفساد پھیلا؛ قتل حسین رضی اللہ عنہ کے فتنہ کو اس سے کوئی نسبت
ہی نہیں ۔ اس پر مزید یہ کہ قتل عثمان رضی اللہ عنہ قباحت و شناعت کے اعتبارسے اﷲ، رسول اور مومنین کے نزدیک قتل حسین رضی اللہ عنہ سے بڑھ چڑھ کر تھا۔ اس لیے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سابقین اوّلین اور حضرت علی،طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم کے طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ خلیفۂ برحق تھے اور آپ کی خلافت پر مسلمانوں کااجماع منعقد ہوا تھا۔ آپ نے کسی مسلمان پر تلوار اٹھائی نہ کسی کوموت کے گھاٹ اتارا۔ آپ کی ساری عمر جہاد کفار میں بسر ہوئی۔ خلافت صدیقی و فاروقی کی طرح خلافت عثمانی میں بھی مسلمانوں کی تلوار اہل قبلہ سے الگ تھلگ اور کفار کے سر پر آویزاں اور اہل قبلہ سے ہر لحاظ سے دور رہی۔
حالت خلافت میں شرپسندوں نے آپ کو قتل کرنا چاہا تو آپ نے صبر سے کام لیا اور مزاحمت نہ کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ نے جام شہادت نوش فرمایا۔
[محب الدین الخطیب
’’العواصم من القواصم‘‘ ص:
۱۳۲ کے حاشیہ پر لکھتے ہیں کہ:’’اخبار و آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ باغیوں کی مدافعت کرنے یا تقدیر ربانی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے بارے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ وارضاہ کا موقف یہ تھا کہ آپ فتنہ پردازی اور خون ریزی سے ڈرتے تھے۔ آخر کار آپ اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ اگر آپ ایسی قوت سے بہرہ ور ہوں جس کے سامنے باغیوں کو لا محالہ جھکنا پڑے اور جدال و قتال کی نوبت نہ آئے تویہ بڑی اچھی بات ہے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ملک شام سے ایک ایسی فوج بھیجنے کی پیش کش کی تھی جو آپ کے اشارہ کی منتظر رہے، لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ پیش کش ٹھکرا دی تھی کہ میں مدینہ میں ایسی فوج نہیں رکھنا چاہتا جو یہاں مقیم رہے۔
(تاریخ طبری :۵؍۱۰۱)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ مسلمان اس حد تک جرأت نہیں کر سکتے کہ دین اسلام کے اوّلین مہاجر( حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ) کا خون تک بہانے سے گریز نہ کریں ۔ جب باغی اکھٹے ہو کر آگئے اور آپ نے سمجھا کہ مدافعت کرنے میں ناحق خون ریزی ہو گی، تو آپ نے اپنے حامیوں کو بہ تاکید تشدد سے روک دیا۔ اہل سنت و شیعہ سب کی تصانیف ایسے اخبار و آثار سے پُر ہیں ۔ تاہم اگرایسی منظم قوت و شوکت بروئے کار آتی جو باغیوں کی شرارت و جہالت کو بزور روک دیتی تو یہ بات حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے راحت و مسرت کی موجب ہوتی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی نظر انداز کرنے کے قابل نہیں کہ آپ شہادت کے متمنی تھے اور اس کے سوا کوئی چیزآپ کے لیے موجب سکون واطمینان نہ تھی۔]
اس میں شبہ نہیں کہ حضرت عثمان ،حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی نسبت زیادہ اجروثواب کے مستحق ہیں ۔اسی نسبت سے قاتلین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے والوں کی نسبت بڑے مجرم ہیں ۔ اور ان کا گناہ زیادہ گھناؤنا ہے۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا معاملہ اس سے یکسر مختلف ہے۔ آپ اقتدار سے محروم تھے اور طلب اقتدار کی خاطر گھر سے نکلے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو لوگ برسراقتدار تھے ان کے اعوان وانصار آپ کے خلاف نبرد آزما ہوئے اور آپ نے اپنی مدافعت کرتے ہوئے شہادت پائی۔ یہ ایک مسلمہ بات ہے کہ جو شخص اپنی خلافت و ولایت کا دفاع کرنا چاہتا ہے وہ اس شخص کی نسبت لڑنے کا زیادہ حق دار ہے جو دوسروں سے اقتدار کو چھیننے کا خواہاں ہو ۔ اس پر مزید یہ کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت سے دفاع بھی نہیں کیا تھا۔ بنا بریں آپ حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے ہر حال میں افضل ہیں اورآپ کا قتل قتل ِ حسین سے شنیع تر ہے ۔جیسے حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اقتدار کے لیے جنگ نہیں لڑی تھی بلکہ جدال و قتال سے کنارہ کش رہ کر امت میں صلح کرائی تھی۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح جوئی کے اس اقدام پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی مدح و ستائش کرتے ہوئے فرمایا:
’’میرا یہ بیٹا سردار ہے، اس کے ذریعہ اﷲتعالیٰ مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا۔‘‘
[صحیح بخاری ۔ کتاب الصلح۔ باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم للحسن بن علی رضی اللّٰہ عنہما (حدیث:۲۷۰۴)]
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حامی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام تھے۔ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے قصاص لینے والے مختار بن ابی عبید ثقفی اور اس کے اعوان و انصار تھے۔ کوئی سلیم العقل آدمی یہ بات کہنے میں تامل نہیں کرے گا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ،مختار ثقفی سے افضل تھے، مختار کذاب تھا اور اس نے نبوت کو دعویٰ بھی کیا تھا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی طرف سے شیعہ کے جواب میں یہ بات الزاماً کہی گئی ہے ورنہ مختار کو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے کیا نسبت؟ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ خلفاء راشدین کے بعد پہلے قابل فخر خلیفہ تھے۔
حافظ ابن کثیر البدایۃ والنہایۃ:۸؍۱۳۳
پر مصر کے مشہور امام اور عالم لیث بن سعد المتوفی ۱۷۵ ہجری سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد اس گھر والے( حضرت معاویہ) سے زیادہ کسی کو حقوق کا پورا کرنے والا نہیں دیکھا۔‘‘
حافظ ابن کثیر کتاب مذکورہ(۸؍۱۳۵)
پر عبد الرزاق بن ہمام صنعانی سے جو بڑے عالم و حافظ تھے روایت کرتے ہیں ، انھوں نے معمر بن راشد سے اورمعمر نے ہمام بن منبہ صنعانی سے جو ثقات تابعین میں سے تھے، سنا انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:’’ میں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما سے بڑھ کر کسی شخص کو حکومت و سلطنت کا اہل نہیں دیکھا۔‘‘
ظاہر ہے کہ سلطنت کی اہلیت وصلاحیت اسی شخص میں ہوتی ہے جو حکیم، حلیم اور عادل ہو۔ ملک کا دفاع کرتا اور دین اسلام کی نشرو اشاعت کے لیے کوشاں رہتا ہو اور اس کے ساتھ ساتھ جو امانت اﷲ نے اس کو تفویض کی ہے، اس میں خیانت کو راہ نہ دیتا ہو۔امام ترمذی ابو ادریس خولانی سے روایت کرتے ہیں : جب عمر رضی اللہ عنہ نے عمیر بن سعدانصاری کو حمص کی ولایت سے معزول کرکے ان کی جگہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا تو لوگوں نے ازراہِ تعجب یہ کہنا شروع کیا۔ ’’ عمیر جیسے آدمی کو معزول کرکے معاویہ کو مقرر کیا۔‘‘
(سنن ترمذی، باب مناقب معاویۃ بن ابی سفیان (ح:۳۸۴۳) ۔
علامہ بغوی معجم الصحابہ میں لکھتے ہیں کہ عمیرکو لوگ
’’ نَسِیْجُ وَحْدِہٖ‘‘
(اپنی مثال آپ) کہا کرتے تھے۔ ابن سیرین رحمہ اللہ کاقول ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کثرت زہد کی وجہ سے عمیر کو یہ نام دیا تھا۔ عمیر نے لوگوں کی یہ گفتگو سن کر کہا:’’معاویہ کاذکر اچھے انداز میں کیجیے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ اے اﷲ معاویہ کے ذریعہ لوگوں کو ہدایت عطا فرما۔‘‘
(سنن ترمذی،، باب مناقب معاویۃ بن ابی سفیان رضی اللّٰہ عنہ (ح:۳۸۴۳)
بعض روایات میں ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں یہ شہادت خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دی تھی۔بشرط صحت حضرت فاروق کی شہادت سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی عظمت و فضیلت ثابت ہوتی ہے، تاہم اگر یہ شہادت دینے والے عمیر ہوں ....اس کے باوصف کہ آپ کو معزول کرکے حضرت معاویہ کو ان کا قائم مقام بنایا گیا تھا....تو بھی اس شہادت کا درجہ حضرت عمر کی گواہی سے کم نہیں ہے، اس لیے کہ عمیر اصحاب رسول اور زہاد انصار میں سے تھے۔ امام بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب’’ مناقب الصحابہ‘‘ میں ابن ابی ملیکہ تمیمی سے روایت کیا ہے کہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا گیا کہ امیر المومنین معاویہ رضی اللہ عنہ ایک وتر پڑھتے ہیں ۔ یہ سن کر انھوں نے فرمایا: ’’ معاویہ رضی اللہ عنہ فقیہ ہیں ۔‘‘
(صحیح بخاری۔ باب ذکر معاویۃ رضی اللہ عنہ ، حدیث:۳۷۶۵)
عبد الرحمن بن ابی عمیرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ دعا فرمائی:
’’اَللّٰہُمَّ اجْعَلْہُ ہَادِیًا مَّہْدِیًّا وَاہْدِبْہِ‘‘
( سنن ترمذی۔ کتاب المناقب۔ باب مناقب معاویۃ بن ابی سفیان رضی اللّٰہ عنہ (ح: ۳۸۴۲)
عبد الرحمن بن ابی عمیرہ سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں یہ دعا فرمائی:
’’ اَللّٰہُمَّ عَلِّمْہُ الْکِتَابَ وَالْحِسَابَ وَقِہِ الْعَذَابَ‘‘
(معجم کبیر طبرانی (۱۸؍۲۵۲)
مذکورہ بالا روایت امام بخاری نے اپنی تاریخ میں ابو مسہر سے نقل کی ہے۔
(تاریخ کبیر بخاری (۷؍۳۲۷) ،
امام احمد یہی روایت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ۔
(مسند احمد (۴؍۱۲۷) ، صحیح ابن حبان(۲۲۷۸: الموارد)
مفسر ابن جریر اسے ابن مہدی سے روایت کرتے ہیں ۔ علاوہ ازیں مندرجہ ذیل محدثین نے یہ روایت اپنی تصانیف میں نقل کی ہے:
۱۔ اسدبن موسیٰ المتوفی ۱۳۲۔۲۱۲ ہجری
جن کو ’’ اسد السنہ‘‘ کہا جاتا تھا۔
۲۔ بشر بن السری الافواہ البصری(۱۳۲۔۱۹۵)
یہ امام احمد کو استاد تھے ان کی روایت میں ’’ اَدْخِلْہُ الجنۃَ‘‘ کے لفظ بھی ہیں ۔
۳۔ عبد اﷲ بن صالح مصری یہ امام لیث بن سعد کے کاتب تھے۔
۴۔ ابن عدی وغیرہ نے یہ روایت ابن عباس سے نقل کی ہے۔
۵۔ محمد بن سعد۔ صاحب الطبقات یہ روایت مسلمہ بن مخلد فاتح و امام مصر سے بیان کرتے ہیں ۔
حضرت معاویہ کے بارے میں مذکورہ دعائے نبوی کے ناقل لا تعداد صحابہ ہیں ۔(دیکھیے
البدایۃ النہایۃ:۸؍۱۲۰۔۱۲۱)
نیز ترجمہ
معاویہ حرف المیم تاریخ دمشق حافظ ابن عساکر)۔
مذکورۃ الصدر روایات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ حضرت معاویہ ہدایت یافتہ اور لاتعداد فضائل و مناق کے حامل تھے۔ ظاہر ہے کہ ان کے مقابلہ میں شیعہ کے مفروض مہدی کی کیا حقیقت جو نہ ابھی پیدا ہوا اور نہ اس سے کوئی اس سے مستفید ہو سکا۔ جو شخص دانستہ ان احادیث کو تسلیم نہ کرے وہ حدیث نبوی کامنکر ہے مقام حیرت ہے کہ بعض شیعہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر لعنت بھیجنے اور ان سے بغض و عداوت رکھنے کے باوجود اپنے آپ کو مسلمان قرار دیتے ہیں ان کو دراصل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض رکھنا چاہئے کہ آپ نے حضرت معاویہ کے حق میں ایسی دعا کیوں فرمائی:
’’بے حیا باش ہرچہ خواہی کن‘‘
حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ امام ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص نے ان سے کہا: ’’ میں معاویہ سے بغض رکھتا ہوں ۔‘‘ تو ابو زرعہ رحمہ اللہ نے کہا:’’ معاویہ کا رب بڑا رحیم وکریم ہے اور آپ کے حریف( حضرت علی) بھی بڑے شریف آدمی تھے۔ تم دونوں کے درمیان مداخلت کرنے والے کون ہو۔‘‘
امام بخاری اپنی صحیح میں جو قرآن کریم کے بعد اس کرۂ ارضی پر صحیح ترین کتاب ہے نیز امام مسلم اپنی صحیح کی کتاب’’ الامارۃ‘‘ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مقام قباء میں تشریف لے گئے اور انس کی خالہ ام حرام بنت ملحان کے یہاں قیلولہ فرمایا تو آپ ہنستے ہوئے بیدار ہوئے۔ آپ نے خواب میں دیکھا کہ آپ کی امت کے کچھ لوگ تاج و تخت سے آراستہ اعداء دین سے بحری جنگ لڑ رہے ہیں آپ پھر سو گئے اور وہی خواب دیکھا ام حرام نے کہا :یارسول اللہ! دعا فرمائیے کہ اﷲ تعالیٰ مجھے ان مجاہدین میں شامل کردے۔ آپ نے فرمایا تو پہلے مجاہدین میں شامل ہے۔‘‘
(صحیح بخاری کتاب الاستئذان۔ باب من زار قوماً فقال عنھا (حدیث: ۶۲۸۳، ۶۲۸۲) ، صحیح مسلم۔ کتاب الامارۃ ۔ باب فضل الغزو فی البحر (حدیث:۱۹۱۲) حافظ ابن کثیر’’البدایۃ والنہایۃ‘‘(۸؍۳۲۹)
پر لکھتے ہیں :’’ حدیث میں جس غزوہ کی پیش گوئی کی گئی ہے اس سے مراد وہ بحری لڑائی ہے جو ۳۷ ہجری میں حضرت عثمان کی خلافت کے زمانہ میں حضرت معاویہ کے زیر قیادت لڑائی لڑی گئی اور جس میں آپ نے جزیرہ قبرص کو فتح کیا۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کیلئے یہ فخر کیا کم ہے کہ آپ اوّلین اسلامی بحری بیڑے کے بافی تھے۔یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں شامل ہے کہ ام حرام رضی اللہ عنہا جس نے مجاہدین کے زمرہ میں شریک ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تھا اور آپ نے اس کو پہلے مجاہدین میں شمولیت کی بشارت دی تھی امیر معاویہ کے بحری بیڑہ میں شریک تھیں ان کے خاوند حضرت عبادہ بن صامت اور دیگر صحابہ میں سے ابودرداء اور ابو ذر رضی اللہ عنہما بھی رفیق لشکر تھے۔ ام حرام نے اسی جگہ وفات پائی اور آج تک آپ کی قبر قبرص میں موجود ہے۔
احادیث صحیحہ میں وارد ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ ثقیف کے قبیلہ میں ایک کذاب اور ایک قاتل ہو گا۔‘‘
کذاب سے مختار مراد ہے اور قاتل سے مراد حجاج بن یوسف۔ مختار کا والد ابو عبید ثقفی بڑا نیک آدمی تھا اس نے مجوس سے لڑتے ہوئے شہادت پائی۔ مختار کی بہن صفیہ بنت ابی عبید حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں ۔ یہ بڑی نیک دل خاتون تھیں ۔جب کہ مختار بد ترین شخص تھا۔