’’اعتراض: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے تشریف لائے صفیں کھڑی ہوگئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم امامت کیلئے کھڑے ہوگئے،یاد آیاکہ جنبی ہیں(یعنی بیوی سے مباشرت کے بعد غسل نہیں کیا)آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹ گئے اور غسل کیا۔‘‘
محمد حسین میمن’’خیر خواہی ‘‘‘کے نام پراٹھاونواں(58)اعتراض:
’’اعتراض: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے تشریف لائے صفیں کھڑی ہوگئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم امامت کیلئے کھڑے ہوگئے،یاد آیاکہ جنبی ہیں(یعنی بیوی سے مباشرت کے بعد غسل نہیں کیا)آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹ گئے اور غسل کیا۔‘‘
ڈاکٹر شبیررقمطراز ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے تشریف لائے صفیں کھڑی ہوگئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم امامت کیلئے کھڑے ہوگئے،یاد آیاکہ جنبی ہیں(یعنی بیوی سے مباشرت کے بعدغسل نہیں کیا)آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹ گئے اور غسل کیا۔‘‘
( [ تفسیر سورۃ نمبر:7آیت:87،تفہیم القرآن،سید مودودی،بحوالہ:صحیح بخاری:روایت نمبر:264جلد:1.] )
(اسلام کے مجرم صفحہ 79)
قارئین ِکرام!اس صحیح حدیث کے ذکر کرنے کے بعد ڈاکٹر شبیر اپنی سوچ کا اظہار کرتے ہیں کہ:
’’رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)رہبر ِانسانیت تھے غائب دماغ نہ تھے۔‘‘
ازالہ:۔
قارئین ِکرام!نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی چیز میں بھولنا کوئی عیب نہیں،اس لئے کہ قرآنِ کریم ذکر کرتا ہے کہ:
قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ
( [ سورہ الکہف،آیت110.] )
’’آ پ صلی اللہ علیہ وسلم فرمادیجئے کہ میں بھی تمہارے جیسا انسان ہوں۔‘‘
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رہبر ِانسانیت یقینا تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسان بھی تھے اور قرآنِ کریم سے یہ بات ثابت بھی ہے کہ انبیاء علیہم السلام سے بھول واقع ہوسکتی ہے۔اگر آپ قرآنِ کریم پڑھیں(مگر افسوس کہ ڈاکٹر شبیرکا مطالعہ قرآن پر بھی بہت کمزور ہے)تو قرآنِ کریم فرماتا ہے:
سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسَى(6)إِلَّا مَا شَاءَ اللّٰهُ
( [سورہ الأعلیٰ،آیت 6،7.] )
’’ہم آپ کو پڑھائیں گے پھر آپ بھولیں گے نہیں،مگر جو اللہ چاہے۔‘‘(یعنی جو اللہ چاہے گا وہ خود ہی بھلا دے گا۔)
قارین ِکرام!اب غور کریں صحیح بخاری کی اس حدیث پر جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غسل کرنا بھول گئے۔اس میں کتنی بڑی حکمت ہے ؟اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:
’’یقینا تمہارے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین اُسوہ ہے۔‘‘
( [سورہ الاحزاب،آیت21.] )
معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص نماز کیلئے آئے اور اسے یاد آجائے کہ اس پر غسل فرض ہے تو وہ غسل کرنے چلا جائے۔یہ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ سے معلوم ہوتا ہے۔
لہٰذا اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھلواکر یہ مسئلہ بتا نا چاہا تھا کہ اگر کسی کے ساتھ یہ مسئلہ ہوجائے تو وہ اس کے حل کیلئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سیرت کو دیکھ لے،کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بہترین اسوہ ہے۔
لہٰذا حدیث پر اعتراض فضول ہے۔