Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

دعوت الی اللہ کے لیے ڈٹ جانا اور اس کے لیے مشکلات برداشت کرنا

  علی محمد الصلابی

دعوت الی اللہ کے لیے ڈٹ جانا اور اس کے لیے مشکلات برداشت کرنا

سيدنا عمرؓ مكمل خلوص و للہیت کے ساتھ اسلام میں داخل ہوئے اور پوری طاقت کے ساتھ اسلام کے استحکام کے لیے کام کیا۔

آپ نے رسول اللہﷺ سے فرمایا : اے اللہ کے رسول کیا زنده یا مردہ دونوں حالتوں میں ہم حق پر نہیں ہیں آپ ﷺ نے فرمایا:

يلى والذفي نفسي بيده إنكم على الحق إن ملم وإن حييثم 

ترجمہ: ہاں، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم حق پر ہو خواہ تم وفات پا جاؤ یا تم باحيات ربو آپ نے کہا: پھر چھینا کیوں؟ قسم ہے اس

ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا، آپ ضرور بالضرور کھلے عام نکلیں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ آپﷺ کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ اعلانیہ دعوت کا وقت آ گیا ہے، اور اسلامی دعوت اتنی طاقتور ہو چکی ہے کہ خود اپنا دفاع کر سکے۔ چنانچہ آپﷺ کو اعلانیہ دعوت کی اجازت مل گئی، آپ صحابہ کرامؓ کی دو صفوں کے درمیان نکلے۔ ایک میں عمر تھے اور دوسرے میں حمزہ وہ گرد آلود ہوگئے تھے۔ آپﷺ مسجد میں داخل ہوئے، جب قریش نے آپ کے ساتھ عمر اور حمزہ رضی اللہ عنہما کو دیکھا تو انہیں اس قدر تکلیف ہوئی کہ اتنی تکلیف کبھی نہیں ہوئی تھی۔ اس دن آپﷺ نے سیدنا عمرؓ کو "فاروق" کا لقب دیا. 

(اخبار عمر: الطنطاويات: صفحہ، 17)

 اللہ تعالیٰ نے سیدنا عمر فاروقؓ کے قبولِ اسلام کے ذریعہ سے اسلام اور مسلمانوں کو قوت بخشی آپ بہت نڈر آدمی تھے۔ اس بات کی بالکل پروا نہ کرتے تھے کہ میرے پیچھے کیا ہو رہا ہے۔ آپ اور حمزہ رضی اللہ عنہما کے ذریعہ سے دیگر اصحابِ رسول اللہ ﷺ محفوظ رہے۔

 (فضائل الصحابہ: امام احمد بن حنبل: جلد، | صفحہ، 344)

سیدنا عمر بن خطابؓ نے مشرکینِ قریش کو چیلنج کیا، ان سے لڑائی کی، یہاں تک کہ کعبہ میں خود اور آپ کے ساتھ دوسرے مسلمانوں نے نماز پڑھی سيدنا عمر بن خطابؓ اسلامی دعوت کے دشمنوں کو ہر ممکن تکلیف دینے کے خواہش مند تھے آپ اس سلسلہ میں اپنا مؤقف اس طرح بیان کرتے ہیں۔ میں کسی مسلمان کو دیکھنا نہیں چاہتا تھا، میں اپنے ماموں ابوجہل کے پاس گیا. وہ اپنی قوم میں معزز آدمی تھے۔ ان کا دروازه کھٹکھٹایا، کہا کون ہے؟ میں نے کہا: خطاب کا بیٹا وہ میرے پاس آئے، میں

نے کہا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ میں صابی دین بدل دینے والا بن چکا ہوں، انہوں نے کہا تم ایسا کر گزرے؟ میں نے کہا: ہاں انہوں نے کہا ایسا نہ کرو۔ میں نے کہا: کیوں نہیں۔ انہوں نے پھر کہا ایسا نہ کرو اور مجھے چھوڑ کر اندر سے دروازہ بند کر لیا. میں نے کہا یہ تو کوئی بات نہ ہوئی پھر قریش کے سرداروں میں سے دوسرے آدمی کے پاس گیا، اس کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ پوچھا گیا کون؟

میں نے کہا: خطاب کا بیٹا۔ وہ میرے پاس آئے۔ میں نے کہا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ میں صابی دین بدل دینے والا بن چکا ہوں انہوں نے کہا: تم ایسا کر گزرے؟ میں نے کہا: ہاں انہوں نے کہا ایسا نہ کرو، پھر وہ گھر میں داخل ہوگئے اور دروازہ بند کر لیا۔میں نے کہا یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔

پھر ایک آدمی نے مجھ سے کہا: کیا تم اپنا اسلام عام کرنا چاہتے ہو؟ میں نے کہا: ہاں۔ اس نے کہا: جب لوگ "حجر" میں بیٹھیں تو تم جميل بن معمر جمحی کے پاس جاؤ اور اس کے پہلو میں بیٹھ کر اس سے کہو

کہ کیا تم جانتے ہو کہ میں صابی بن گیا ہوں؟ چنانچہ جب لوگ حجر میں بیٹھے تو میں نے ایسا ہی کیا، وہ اٹھ کھڑا ہوا اور تیز آواز سے اعلان کیا خطاب کا بیٹا صابی دین بدل دینے والا ہو گیا ہے۔ لوگ مجھ پر بيهر پڑے وہ مجھ کو مارتے اور میں ان کو مارتا"

(حلیتہ الأولياء: جلد، | صفحہ، 40 صفتہ الصفوة جلد، | صفحہ، 103،104)

اور عبداللہ بن عمرؓ کی روایت میں اس طرح ہے کہ جب سیدنا عمرؓ اسلام لائے تو قریش آپ کے اسلام کو نہ جان سکے۔ آپ نے کہا: مکہ والوں میں کون ایسا آدمی ہے جو باتوں کو خوب پھیلاتا ہو؟ آپ کو بتایا گیا کہ جمیل بن معمر جمحی آپ اس کے پاس گئے اور میں آپ کے ساتھ پیچھے پیچھے چل رہا تھا اور دیکھ رہا تھا کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ میں اس وقت چھوٹا لڑکا تھا اور جو کچھ دیکھتا یا سنتا تھا اسے سمجھتا تھا۔ آپ اس کے پاس آئے اور کہا: اے جمیل میں مسلمان ہو گیا ہوں اللہ کی قسم آپ نے ابھی دوسرا کلمہ کہا بھی نہ تھا کہ وہ اپنی چادر کو گھسیٹتے ہوئے بھاگا۔ عمر اس کے پیچھے تھے اور میں اپنے والد کے پیچھے، یہاں تک کہ جب وہ مسجد کے دروازه پر کھڑا ہوا تو نیز آواز سے چیخا اے قریش کے لوگو! جبکہ وہ لوگ کعبہ کے اردگرد اپنی مجلسوں میں بیٹھے تھے۔ بے شک عمر بن خطابؓ صابی دین بدل دینے والا ہو گیا اور جناب سیدنا عمرؓ اس کے پیچھے چلتے تھے اور کہتے تھے: اس نے جھوٹ کہا ہے، بلکہ میں اسلام لے آیا ہوں اور گواہی دی ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی حقیقی معبود نہیں ہے اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں۔ لوگ آپ پر چڑھ دوڑے سیدنا عمرؓ نے عتبہ بن ربیعہ پر چھلانگ لگائی اس کو پٹخ دیا اور مارنے لگے اور اپنی دونوں انگلیوں کو اس کی

دونوں آنکھوں میں دھنسا دیا، عتبہ چیخنے لگا، لوگ اس سے دور بٹ گئے۔ پھر سیدنا عمرؓ کھڑے ہوئے، جوں ہی ان میں سے کوئی آپ کے قریب آنے کی کوشش کرتا تو اسے کوئی بزرگ جو اس کے قریب ہوتا پکڑ لیتا۔ اس طرح لوگ آپ سے دور ہٹ گئے۔ پھر آپ ان مجلسوں میں بھی گئے جہاں کفر کی حالت میں اکٹھا ہوتے تھے۔ وہاں آپ نے ایمان کا اعلان کیا۔

(شرح المواہب جلد، 1 صفحہ، 300 أخبار عمر الطنطاويات صفحہ، 19)

آپ برابر ان سے لڑتے رہے یہاں تک کہ سورج ان کے سروں پر آ گیا یعنی دوپہر کا وقت ہو گیا سیدنا عمرؓ تھک کر بیٹھ گئے۔ وہ سب آپ کے سر پر آ گئے۔ آپ نے کہا: جو تمہاری سمجھ میں آئے کر لو، اللہ کی قسم اگر ہم تین سو آدمی ہوتے تو تم اسے ہمارے لیے چھوڑ دیتے یا ہم اسے تمہارے لیے چھوڑ دیتے۔ اسی دوران میں زرق برق ریشمی قمیص میں ملبوس ایک آدمی آیا اور کہا: کیا بات ہے ؟ انہوں نے کہا: خطاب کا بیٹا صابی ہو گیا ہے۔ اس نے کہا: اسے چھوڑ دو، اس نے اپنے لیے دین اختیار کیا ہے۔ تم کیا سمجھتے ہو کہ بنو عدی تم کو اپنا آدمی سونپ دیں گے؟ ان کا ہجوم ایک کیڑے کے مانند تھا جو آپ سے اتر گیا۔ میں نے آپ سے مدینہ میں کہا: اے ابا جان وہ کون آدمی تھا جس نے اس دن آپ سے لوگوں کو ہٹایا تھا ؟ آپ نے فرمایا: اے میرے بیٹے! وہ عاص بن وائل سہمی تھا۔