’’اعتراض: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ جس نے کہا لاإلہ إلا اللہ وہ جنت میں ضرور جائے گا(صحیح مسلم)۔جب عمر رضی اللہ عنہ نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ حدیث بیان کرتے سنا تو انہوں نے بڑھ کر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے سینے پر اتنے زور سے مکاّ مارا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ زمین پر گرپڑے۔‘‘
محمد حسین میمن’’خیر خواہی ‘‘‘کے نام پچپنواں(55)اعتراض:
’’اعتراض: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ جس نے کہا لاإلہ إلا اللہ وہ جنت میں ضرور جائے گا(صحیح مسلم)۔جب عمر رضی اللہ عنہ نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ حدیث بیان کرتے سنا تو انہوں نے بڑھ کر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے سینے پر اتنے زور سے مکاّ مارا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ زمین پر گرپڑے۔‘‘
( [ صحیح مسلم:کتاب الایمان،البلاغ،صفحہ:2.] )
(اسلام کے مجرم صفحہ70)
ازالہ:۔
قارئین ِکرام !معلوم نہیں ڈاکٹر شبیرکو اس حدیث میں کونسا اعتراض نظر آیا ہے ؟اس حدیث پر کوئی اعتراض ہے ہی نہیں اس لئے مصنف نے بھی اپنی طرف سے کوئی اعتراض نقل نہیں کیا بس حدیث ذکر کرکے خاموشی اختیار کی ہے۔
لیکن میں وضاحت کرتا چلوں کہ اس حدیث پر کافی لوگوں نے(جو احادیث کو دین تصور نہیں کرتے)اعتراض کیا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو مکا ّکیو مارا؟
میں پوچھتا ہوں کہ آپ جواب دیجئے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو مکا ّکیوں مارا؟
قارئین ِکرام!ڈاکٹر شبیر نے یہاں پر بھی حسب سابق بددیانتی سے کام لیتے ہوئے حدیث کو ادھورا نقل کیا ہے،حالانکہ صحیح مسلم کی اسی روایت می مکمل وضاحت موجود ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ الفاظ سننے کے بعد لوگوں کو یہ خوشخبری سنانے جارہے تھے کہ:
’’جس نے لاإلہ إلا اللہ کا اقرارکیا وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعلین لیکر لوگوں کو یہ خوشخبری سنانے نکلے تھے کہ راستے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ان کی ملاقات ہوئی،انہوں نے پوچھا کہاں جارہے ہو؟آپ رضی اللہ عنہ نے انہیں یہ حدیث سنائی اور ارشادفرمایا میں لوگوں کو یہ خوشخبری سنانے جارہا ہوں۔تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے سینے پر اپنا ہاتھ مارا،تاکہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس جائیں اور بات کی تحقیق ہوجائے۔
بس یہی وجہ تھی کہ عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں مکاّ مارا،نہ کہ کسی دشمنی یا ان پرعدم اعتماد کی وجہ سے جیسا کہ مصنف نےاس حدیث کو پیش کرنے کے بعد خاموشی اختیار کر کے یہ مقصد لوگوں کوبیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
( [شرح صحیح مسلم للنووی،ج:1صفحہ:278. )
لہٰذا حدیث پر اعتراض فضولیات پر مبنی ہے۔