Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

یعقوب علیہ السلام بھی تو یوسف علیہ السلام کے غم میں روئے تھے یہاں تک کہ رو رو کر ان کی آنکھوں کی بینائی جاتی رہی تھی۔

  مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند

ماتم کے دلائل اور انکے جوابات

ماتم کے حق میں دی گئی دلیلوں کے آسان اور عام فہم شافی جوابات نوجوان حضرات پڑھ کر رٹ لیں شيعوں کا منہ بند کرنے کے کام آئیں گے۔

  ♦️*شیعہ دلیل*♦️

حضرت یعقوبؑ بھی تو یوسفؓ کے غم میں روئے تھے یہاں تک کہ رو رو کر ان کی آنکھوں کی بینائی جاتی رہی تھی، چنانچہ قرآن پاک میں آتا ہے کہ:

*’’وَتَوَلَّى عَنْهُمْ وَقَالَ يَا أَسَفَى عَلَى يُوسُفَ وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيمٌ ‘‘:* (سورة یوسف آیت 84)

''اور اس نے منہ پھیر لیا اور کہنے لگا ہائے افسوس! یوسف پر اور غم واندوہ کی وجہ سے اس کی دونوں آنکھیں سفید ہوگئیں۔''

تو جب ایک نبی دوسرے نبی کے غم میں رو رو کر آنکھیں سفید کرسکتا ہے تو امام عالی مقام کا غم منانے پر کیا اعتراض ہے؟

✳️*الجواب اہلسنّت* ✳️

*ماتمی شیعہ نے اس آیت کے لفظ *’’فَهُوَ كَظِيمٌ‘‘*  پر غور نہیں کیا، جس کا ترجمہ ہے کہ *’’وہ اپنے غم کو روکنے والے تھے‘‘*

معلوم ہوا کہ غم لاحق ہونا حضرت یعقوبؑ کا غیر اختیاری فعل تھا اور انہوں نے اپنا ارادہ و اختیار غم منانے پر نہیں بلکہ غم ختم کرنے پر صرف کیا۔ اسی کو صبر جمیل کہتے ہیں جس پر انعامات کی بشارتیں اللہ کا قرآن سناتا ہے۔

 2-آیت میں نہ *''منہ پیٹنے''*  کا لفظ ہے نہ  *''سینہ کوبی''*  اور  *''ماتم''*  کا بلکہ صرف *''حزن''*  کا لفظ ہے جس کا معنی صرف * ''غم واندوہ''*  ہے۔

3-حضرت یوسفؑ کے فراق کا صدمہ حضرت یعقوبؑ کو مسلسل رہا۔ لیکن جب دور فراق ختم ہوا اور آپؑ کو حضرت یوسفؑ کے تخت ِمصر پر متمکن ہونے کی بشارت ملی تو پھر آپؑ کا غم بھی جاتا رہا اور آنکھوں کی روشنی بھی واپس لوٹ آئی۔ اس سے ثابت ہوا کہ جب تک کسی محبوب کی مصیبت باقی ہو اور اس کا صدمہ لاحق رہے لیکن صبر کے خلاف کوئی حرکت نہ کرے تو یہ غیر اختیاری ''غم و اندوہ ''گناہ نہیں اور جب وہ مصیبت ختم ہو جائے تو پھر غم بھی ختم ہو جاتا ہے۔

اسی طرح ہم کہتے ہیں کہ میدان کربلا میں حضرت امام عالی مقام اور آپ کے اعزہ واحباب پر جو مصیبت نازل ہوئی وہ وقتی تھی۔ شہادت کا درجہ پانے کے بعد جب آپ کو جنت مل گئی تو پہلی مصیبت ختم ہوگئی۔

اب شہدائے کربلا کی روحوں کو حسبِ آیاتِ قرآنی جنت کا رزق ملتا ہے اور وہ وہاں خوش ہیں تو اب رونے اور ماتم کرنے کا کیا موقعہ ہے؟ ہم تو حضرت یعقوبؑ کی پیروی کرتے ہیں کہ جب تک آپؑ مصیبت میں مبتلا تھے اس وقت بھی صبر کیا اور جب حضرت یوسفؑ کے بلند مقام کی بشارت ملی تو پہلا غم بھی بالکل ختم ہوگیا۔ مصر کے تخت سے جنت کا مقام تو اعلیٰ درجہ رکھتا ہے کیا ماتمیوں کو حضرت حسینؓ کے جنتی ہونے اور وہاں خوشیاں منانے کا یقین نہیں ہے اور اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ جنت میں بھی وہ مصیبت میں ہیں۔

4- حضرت یوسفؑ کو مصر کی سلطنت ملنے کے بعد بھی کیا حضرت یعقوبؑ نے اس گزری ہوئی مصیبت کی یادگار میں ہر سال غم کی مجلس منعقد کی تھی؟

5-حضرت حسینؓ کے لیے سانحہ کربلا ایک بہت بڑا ایمانی امتحان تھا۔ جس میں آپؓ اعلیٰ نمبروں سے پاس ہوئے تو اب  *''واہ واہ حسینؓ''* امام کربلا کی شان کے لیے مناسب ہے یا *''ہائے حسینؓ، ہائے حسینؓ''*  جو امام عالی مقام کو پاس سمجھتا ہے وہ ''واہ واہ'' کرے اور جو نعوذ باللہ فیل سمجھتا ہے وہ ''ہائے ہائے'' کرتا رہے ۔ نگاہ اپنی اپنی، پسند اپنی اپنی.

6- پاکستان میں کتنے ماتمی شیعہ ایسے ہیں جو امام حسینؓ کے غم میں اندھے ہوئے ہیں؟