سادات کے مظالم
مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبندسادات کے مظالم
ہم سُنی چونکہ اسلام کے پیروکار ہیں اس لیے کسی کے برے پہلو سے اعراض کرنے اور صرف قابل اتباع امور کی نشر و اشاعت کو خدمتِ دین جانتے ہیں۔ جو لوگ سُنی نقطہ نظر سے ہٹ کر سوچتے ہیں وہ پھر سادات و اہل بیت کو بھی جب تنقیدی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو تاریخ ان کو بھی بہت کچھ ناقابل سماع مواد مہیا کرتی ہے۔ اور حرمِ مدینہ، خانہ کعبہ اور شعائر اسلام کی عظمت کی دھجیاں سادات کے ہاتھوں فضا میں بکھرتی نظر آتی ہیں۔یہ کوئی انصاف نہیں کہ حضرت معاویہؓ، یزید، حجاج کو تو ہر وقت اعتراضات اور الزامات کا نشانہ بنایا جاۓ مگر قاتلان عثمانؓ کی مدینہ میں سفاکی، جمل و صفین میں ان کی تباہ کاریاں، مختار بن عبید کی سیاہ کاریاں، علویوں کے خروج کے مظالم، خاندان بنی بویہ اور فاطمینِ مصر کی چیرہ دستیاں یکسر معاف و فراموش کردی جاٸیں۔
ہم مجبوراً یہاں چند واقعات نقل کرتے ہیں۔
1: محمد بن حسین بن جعفر بن موسٰی کاظم اور علی بن حسین بن جعفر بن موسٰی کاظم دونوں بھائیوں نے مل کر 271ھ میں المعتمد عباسی کے زمانے میں خروج کیا۔ یہ دونوں بھائی شیطنت، خباثت، بےحیاٸی اور ظلم و جور کے مجسمے تھے۔ چند روز ان کا مدینہ منورہ پر قبضہ رہا۔
علامہ ابن کثیر رحمہ اللّٰہ لکھتے ہیں۔
”مدینہ کے باشندوں کی بڑی تعداد کو قتل کر ڈالا، ان کا مال و اسباب چھین لیا، پورے چار ہفتے مسجد نبویﷺ میں نماز نہ ہوسکی۔ مدینہ کے علاوہ مکہ میں بھی یہی فتنہ برپا کیا۔ مسجد حرام (خانہ کعبہ) کے دروازہ پر لوگوں کو قتل کیا۔
البدایہ جلد11، صفحہ39۔
علامہ ابن حزم نے جمہرة انساب العرب صفحہ54 پر یہی کچھ لکھا ہے۔
تشیع کا محافظ طبری مؤرخ بھی ایک علوی شاعر کے قطعہ میں یہ الفاظ کہتا ہے۔
ان لوگوں کا برا ہو جنہوں نے مدینہ اور مسجد نبویﷺ کو برباد کیا اور ایک ملعون ظلم ڈھانے والے کے ظلم کے سامنے واقعہ حرہ اور کعبہ کی بے حرمتی کی فرضی داستانیں گرد ہیں۔
طبری جلد11، صفحہ329۔ بحوالہ عترت رسولﷺ صفحہ177
2: علی محمد جو حسین الافطس بن حسن بن زین العابدین کے بیٹے تھے اور محمد بن جعفر بن محمد باقر بن زین العابدین نے مل کر 199ھ میں مکہ میں مامون الرشید کے زمانہ میں خروج کیا۔ حسین الافطس کو اکثر مؤرخین نے احد المفسدین فی الارض کہا ہے۔
جمہرة انساب العرب: صفحہ47
مکہ معظمہ کی تاریخ میں انہیں بدترین سیرتوں والا کہا گیا ہے۔ حسین الافطس نے کعبہ سے غلاف اتارلیا اور اس کے بجاۓ ابوالسرایا کا بھیجا ہوا غلاف چڑھایا۔
لوگوں کے مال زور زبردستی چھیننے لگا اکثر لوگ جان و مال کے خوف سے مکہ چھوڑ کر بھاگ گئے۔ اس کے ہمراہیوں نے حرم شریف کی جالیوں کو توڑدیا۔ خود الافطس نے کعبہ شریف کے ستونوں پر چڑھا ہوا سونا کھرچ کر اتارلیا۔ کعبہ کا تمام خزانہ لوٹ کر ہمراہیوں میں تقسیم کردیا۔
مشہور شیعہ مٶلف ”عمدة الطالب“ میں لکھتا ہے کہ اس نے کعبہ کا مال لوٹ لیا۔ جب اسے ابوالسرایا کے مرنے کی اطلاع ملی تو بہت گھبرایا۔ جناب جعفر صادقؒ کے بیٹے محمد کے پاس آیا جو ایک نیک سیرت عالم فاضل تھے کہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں، پہلے تو انہوں نے انکار کیا آخر اپنے بیٹے علی کے کہنے پر (اس بیعت پر) آمادہ ہوگئے۔ اب لوگ انہیں امیرالمٶمنین کہنے لگے۔ علی بن محمد اور حسین الافطس نے محمد کی آڑ میں ہاتھ پاؤں نکالنے شروع کیے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ جہاں کسی خوبصورت عورت پر نظر پڑی اٹھا کر لے گئے۔ مکہ کے قاضی کے لڑکے کو منہ کالا کرنے کے لیے پکڑ کر لے گئے۔ آخر تنگ آکر مکہ کے لوگوں نے ایک جلسہ کیا اور متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ محمد بن جعفر کے مکان سے لڑکا رہا کیا جاۓ۔ تاریخ کامل ابن اثیر کے حوالے سے ابن خلدون لکھتا ہے کہ قاضی کا نام محمد اور اس کے لڑکے کا نام اسحاق تھا جو بڑا خوبصورت تھا۔ اسے دیکھتے ہی ان شیطانوں کی رال ٹپک پڑی۔
صفحہ102
3: ابراھیم الجزار بن موسٰی کاظم نے 199ھ میں مامون کے خلاف خروج کیا۔ یہ ابراھیم بھی ابوالسرایا کی جانب سے یمن کا عامل مقرر کیا گیا تھا۔ اہل یمن کو کثرت سے قتل کرنے اور ان کے اموال لوٹنے کی وجہ سے قصاب کے نام سے مشہور ہوا۔
البدایہ: جلد10 صفحہ296
4: محمد بن جعفر بن علی نقی شیعوں کے دسویں امام کے اس پوتے نے 300ھ میں دمشق میں المعتضد کے خلاف خروج کیا۔ محمد کے والد جعفر کو شیعہ "جعفر کذاب" کہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے بھائی حسن عسکریؒ کے لاولد فوت ہونے کا بھانڈا پھوڑ کر ان کے بارہویں امام کی پیداٸش کے جھوٹ کا افشاں کرنے کا موجب بنے۔ حسن عسکری کی کئی کنیزیں تھیں۔ شیعہ کہتے ہیں کہ صیقل نامی کنیز کے بطن سے مہدی موعود پیدا ہوکر غاٸب ہوگئے۔ ملا باقر علی مجلسی کنیز کا نام نرجس لکھتا ہے۔ ابھی تک یہ لوگ اپنے بارہویں امام کی ماں کے نام کا فیصلہ نہیں کرسکے۔ جعفر بن علی نقی نے حسن عسکری کے لاولد مرنے پر ان کے ترکہ کا دعوٰی کیا تھا۔ ترکہ تو مل گیا مگر عترت رسولﷺ کے محبین نے انلیں کذاب بنا کر رکھ دیا۔ عترت رسولﷺ
5: اسماعیل بن یوسف بن ابراھیم بن موسٰی بن عبداللّٰہ بن حسن مثنیٰ اس ذات شریف نے 251ھ میں مکہ معظمہ میں المستعین باللّٰہ کے زمانے میں بغاوت کی۔ یہ حضرت اپنے پیشرؤں میں سب سے بڑھ کر نکلے۔ مکہ معظمہ، مدینہ منورہ اور جدہ میں نہ صرف گورنروں اور حکومت کے تمام کارندوں کے مکانات لوٹنے پر اکتفاء کیا بلکہ کعبہ کے وقفی خزانہ میں جو سونا چاندی تھا وہ بھی لوٹ لیا اور کعبہ کا غلاف تک اتارلیا۔
البدایہ جلد11 صفحہ9 / طبری جلد11 صفحہ136
اہالیان مکہ سے دوہزار اشرفیاں جبراً وصول کیں پھر مدینہ میں تشریف لے گئے، وہاں کے لوگوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا۔ جدہ میں تاجروں کا مال لوٹ لیا۔ حج کا موسم تھا ایک ہزار حاجیوں کو قتل کیا۔ اللّٰہ کی مخلوق الامان الامان پکار اٹھی۔ پانی کی صراحی کی قیمت 3 درہم تک پہنچ گئی۔ ضروریات زندگی کا ملنا محال ہوگیا۔ چنانچہ عمدة المطالب کا شیعہ مٶلف لکھتا ہے۔
واعترض الحجاج فقتل منھم کثیرا او نہبہم صفحہ2
ان مفسدین کے خوف و ہراس سے لوگوں نے مسجد نبوی میں نماز پڑھنی چھوڑ دی۔ علامہ ابن حزم لکھتے ہیں۔ ”اس نے مدینہ کا محاصرہ کیا۔ لوگ بھوک پیاس سے مرنے لگے۔ مسجد نبوی میں کوئی ایک شخص بھی نماز نہ پڑھ سکا۔ پچاس دن تک اسماعیل مکہ، مدینہ اور جدہ میں بلاۓ ناگہانی بنا رہا۔ لشکر خلافت پہنچنے پر لوگوں کو امن کا سانس لینا نصیب ہوا اور اسماعیل چیچک کی وبا سے ہلاک ہوا۔
بحوالہ حقیقت مذہب شیعہ صفحہ384
بہرحال سادات کے مسلمانوں پر مظالم کی دلخراش و جاں سوز داستان طویل ہے۔ صرف ان پانچ مثالوں پر اکتفاء کر کے شیعہ سے درخواست گزار ہیں کہ وہ منفی پروپیگنڈہ ختم کر کے نیکی اور تقویٰ کی تلقین کریں یا پھر "عترتِ رسولﷺ" کے ننگ و شرم ان یزیدوں کے کارناموں سے بھی دنیا والوں کو آگاہ کیا کریں۔
اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو قرآن و سنت اور صحابہ و اہلبیت کی متفقہ محبت اور اتباعِ کامل نصیب فرمائیں۔ آمین!
وصلی اللّٰہ علی محمد واٰلہ واصحابہ وازواجہ وجمیع امتہ اجمعین۔