Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

منصب خلافت اور خلیفہ

  علی محمد الصلابی

امتِ اسلامیہ نے اپنے امور کی تنظیم اور مصالح کی رعایت و نگرانی کے لیے جو طرزِ حکومت اور اسلوب سیاست اختیار کیا اور اس پر اجماع و اتفاق کیا وہ اسلامی خلافت کا منہج ہے۔ امت کو جب اس کی ضرورت پیش آئی اور اس پر مطمئن ہوئے تو خلافت کا وجود ہوا، اسی لیے رسول اللہﷺ کا خلیفہ منتخب کرنے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جلدی کی۔ امام ابو الحسن ماوردی فرماتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے جس کی قدرت بڑی بے پایاں ہے امت کو اس قائد کے اختیار کرنے کی طرف متوجہ کیا جس کو نبی کی نیابت عطا کی اور اس کے ذریعہ سے ملت کی حفاظت کی، اسی کو سیاست کی باگ ڈور عطا کی تا کہ دین کی حفاظت ہو سکے اور امت صحیح بات پر اکٹھی ہو جائے۔ پس امامت ایک ایسی اصل قرار پائی، جس پر ملت اسلامیہ کے قواعد کا استقرار ہوا اور عام لوگوں کے مصالح منظم ہوئے، یہاں تک کہ عام امور کے اندر ثبات و استقرار آیا اور اس سے خاص امارتیں وجود میں آئیں۔

(الاحکام السلطانیۃ: صفحہ، 3)

امتِ اسلامیہ کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ رسول اللہﷺ کی وفات کی وجہ سے جو مشکل حالات رونما ہوئے تھے ان کا مقابلہ کرے اور بڑی تیزی اور حکمت کے ساتھ ان کا علاج کرے اور اختلاف و انتشار کے لیے موقع نہ چھوڑے کہ جس سے لوگوں کے نفوس میں شکوک و شبہات جنم لیں اور ضعف و کمزوری کو موقع نہ دے کہ وہ رسول اللہﷺ کے قائم کردہ اسلامی قلعہ پر اثر انداز ہو۔

(عصر الخلفاء الراشدین، د، فتحیۃ النبراوی صفحہ، 22)

خلافت چونکہ اسلامی نظام حکومت ہے اس لیے اس کے اصول و مبادی اسلامی دستور کتاب و سنت سے ماخوذ ہیں۔

(عصر الخلفاء الراشدین، د: فتحیۃ النبراوی: صفحہ، 23)

فقہائے امت نے اسلامی خلافت کی اساس و بنیاد کے سلسلہ میں گفتگو کرتے ہوئے بتلایا ہے کہ شورائیت اور بیعت یہ دو اصول ہیں جن کی طرف قرآن پاک میں اشارہ کیا گیا ہے۔

(عصر الخلفاء الراشدین: صفحہ، 23)

منصب خلافت پر امامت و امارت کا اطلاق بھی ہوتا ہے۔ خلافت کے وجوب پر امت اسلامیہ کا اجماع ہے اور مسلمانوں پر خلیفہ کی تعیین فرض ہے تا کہ وہ امت کے مسائل کی نگرانی کرے، حدود قائم کرے، اسلامی دعوت کی نشر و اشاعت کا اہتمام کرے اور جہاد کر کے دین و امت کی حفاظت کرے، شریعت کا نفاذ کرے، لوگوں کے حقوق کی نگرانی کرے، مظالم کو دور کرے، ہر فرد کی ضروریات کو مہیا کرے۔

یہ کتاب و سنت اور اجماع امت سے ثابت ہے۔

(الخلافۃ و الخلفاء الراشدون: صفحہ، 58)

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ.

(سورۃ النساء: آیت نمبر، 59)

ترجمہ: اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول اللہﷺ کی اور تم میں سے امر والوں (حکام) کی۔

اور ارشاد ربانی ہے،

يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَىٰ فَيُضِلَّكَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَضِلُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا نَسُوا يَوْمَ الْحِسَابِ۔

(سورۃ ص: آیت نمبر، 26)

ترجمہ: اے داؤد! ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنا دیا، تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کرو اور اپنی نفسانی خواہش کی پیروی نہ کرو، ورنہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی، یقیناً جو لوگ اللہ کی راہ سے بھٹک جاتے ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے، اس لیے کہ انہوں نے حساب کے دن کو بھلا دیا ہے۔

اور رسول اللہﷺ نے فرمایا:

من خلع یدا من طاعۃ لقی اللہ یوم القیامۃ لا حجۃ لہ ، ومن مات ولیس فی عنقہ بیعۃ مات میتۃ جاہلیۃ۔

ترجمہ: جس شخص نے امام وقت کی اطاعت سے ہاتھ کھینچ لیا قیامت کے دن اس کے پاس کوئی حجت نہ ہو گی اور جس کی گردن میں کسی امام وقت کی بیعت نہیں اور اسی حالت میں وہ مر گیا تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔

(مسلم: جلد، 3 صفحہ، 1477/1851)

رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مسئلہ خلافت کے سلسلہ میں آپﷺ کی تدفین کا انتظار نہ کیا بلکہ امام و خلیفہ کے انتخاب میں جلدی کی اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قبولِ خلافت کا سبب بیان کرتے ہوئے یہ وضاحت فرمائی کہ خلیفہ کے عدم تعیین کی صورت میں امت کے اندر فتنہ رونما ہونے کا خوف تھا۔

(الخلافۃ والخلفاء الراشدون: صفحہ، 59)

چنانچہ امام شہرستانی فرماتے ہیں نہ تو حضرت ابوبکرؓ کے دل میں اور نہ کسی اور کے دل میں یہ خیال آیا کہ زمین کا بغیر خلیفہ کے ہونا جائز ہے۔ یہ سب باتیں اس پر دلالت کرتی ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سب کے سب اس بات پر متفق تھے کہ امام کا ہونا ضروری ہے تو اس طریقہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا یہ اجماع امام مقرر کرنے کے وجوب پر دلیل قاطع ہے۔

(المِلَل والنِّحل للشُّہرستانی: جلد، 7 صفحہ، 83 نظام الحکم، محمود الخالدی، صفحہ، 248/237)

اور دشمنانِ اسلام جو یہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ قیادت و سیادت کے لالچ نے لوگوں کو نبی کریمﷺ کی تدفین سے ہٹا کر خلافت کے مسئلہ میں مشغول کر دیا یہ بالکل بے بنیاد ہے، صحت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔

(الخلافۃ والخلفاء الراشدون: صفحہ، 49)

علامہ ابنِ خلدون خلافت کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں، خلافت اخروی اور دنیوی مصالح میں شرعی فکر و نظر کے مقتضیات پر تمام لوگوں کو ابھارنا و تیار کرنا ہے، کیونکہ دنیا کے جملہ امور شارع کے نزدیک آخروی مصالح کی اساس پر ہی معتبر ہیں، لہٰذا خلافت حقیقت میں دین اسلام کی حفاظت اور دنیا کی سیاست میں صاحب شریعت کی نیابت ہے۔

(المقدمۃ لابن خلدون: صفحہ، 191)

علامہ ابو الحسن علی ندوی نے نبی کریمﷺ کی خلافت کی شرائط اور اس کے تقاضوں کو بیان کیا ہے اور سیرت صدیقی کی روشنی میں دلائل و براہین سے ثابت کیا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اندر خلافت و امامت کی تمام شرائط موجود تھیں، ہم یہاں اختصار کے ساتھ ان شرائط کو بیان کریں گے، ان کے شواہد و دلائل کو ذکر نہیں کریں گے، جن کو علامہ ندویؒ نے ذکر کیا ہے، کیونکہ ان کو اس کتاب کے مختلف مقامات پر ہم بیان کر چکے ہیں۔ ان شرائط میں سے اہم ترین یہ ہیں،

اس کی شخصیت اس حیثیت سے ممتاز حیثیت کی حامل ہو کہ رسول اللہﷺ نے خود اس کی شہادت دی ہو، اور نبی کریمﷺ نے دین کے بنیادی ارکان کی ادائیگی اور اہم امور میں اس کو نیابت سونپی ہو اور انتہائی خطرناک مواقع پر اس کو نبی کریمﷺ کی صحبت کا شرف حاصل رہا ہو اور اس طرح کے مواقع پر انسان اسی کو اپنے ساتھ رکھتا ہے جس پر کلی طور پر اعتماد و بھروسہ کرتا ہے۔

وہ اس حیثیت سے امتیازی خصوصیت کا مالک ہو کہ وہ اسلام کے خلاف اٹھنے والے طوفان اور تیز و تند آندھیوں کے سامنے پہاڑ بن کر کھڑا رہے جو دین کو جڑ سے اکھاڑ دینے اور نبی کریمﷺ کی تمام کوششوں کو برباد کر دینے اور بہت سے قوی الایمان اور طویل الصحبت افراد کے دلوں میں تزلزل پیدا کر دینے کے لیے کافی ہو۔ نیز وہ ان تمام فتنوں کے سامنے بلند پہاڑوں کی طرف ڈٹا رہے۔ انبیاء علیہم السلام کے سچے جانشینوں کا دور یاد دلائے، لوگوں کی آنکھوں سے پردہ اٹھائے اور دین کی اساس و بنیاد اور صحیح عقیدہ سے گرد و غبار کو دور کرے۔

فہم اسلام کے سلسلہ میں اس کی شخصیت ایک منفرد اور ممتاز ہو، رسول اللہﷺ کی حیاتِ طیبہ میں مختلف حالات، جنگ و صلح، خوف و امن، وحدت و اجتماع، شدت و آسودگی ہر حال میں آپﷺ کے ساتھ رہا ہو۔

اس کی شخصیت انتہائی غیرت مند ہو، دین کی اصل اور اس کی اصلی شکل میں بقاء پر اس کو اس قدر غیرت ہو جو لوگوں کے یہاں عزت و آبرو، ماں، بیٹی، بیوی سے متعلق غیرت سے بڑھی ہوئی ہو۔ اور اس سلسلہ میں اس کو کوئی خوف یا لالچ، تاویل یا اقرباء و اصدقاء کی عدم موافقت آڑے نہ آئے۔

رسول اللہﷺ کی خلافت کے لیے ضروری ہے کہ وہ شخص رسول اللہﷺ کی خواہشات کی تنفیذ کا انتہائی حریص اور اس میں انتہائی دقیق ہو، رائی برابر بھی اس سے انحراف نہ کرے اور نہ کسی طرح کی سودے بازی کرے اور نہ ملامت گروں کی ملامت سے ڈرے۔

وہ دنیا کی چیزوں سے لطف اندوز ہونے کے سلسلہ میں انتہائی درجہ کا زاہد ہو، نبی کو چھوڑ کر اس طرح کا زہد کسی اور کے پاس نہ ہو۔ اس کے دل و دماغ میں کبھی حکومت و سلطنت کی تشکیل و تاسیس اور اپنے کنبے اور ورثاء کے لیے اس کی توسیع کا خیال نہ گزرا ہو، جیسا کہ جزیرہ عرب کے قرب و جوار مثلاً روم و فارس میں شاہی خاندان کے یہاں چلا آرہا تھا۔

(المرتضی سیرۃ ابی الحسن بن ابی طالب: صفحہ، 65/66)

یہ تمام صفات و شروط سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اندر یکجا موجود تھیں اور یہ آپؓ کی زندگی کا جزو لاینفک بن گئی تھیں۔ رسول اللہﷺ کی زندگی میں، خلافت سے قبل اور خلافت کے بعد پوری زندگی سیدنا ابوبکرؓ اس پر قائم رہے، کوئی انکار کرنے والا اس کا انکار کر سکتا ہے اور نہ اس سلسلہ میں کوئی شک ڈال سکتا ہے۔ یہ چیز تواتر اور بداہت سے ثابت ہے۔

(المرتضی: صفحہ، 67)

سقیفہ بنو ساعدہ کے اجتماع میں اصحاب حل و عقد نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے خصوصی بیعت کی اور پھر دوسرے دن لوگوں کے سامنے پیش کیا، پھر امت نے مسجد میں آپؓ سے عام بیعت کی۔

(الخلافہ والخلفاء الراشدون: صفحہ، 66/67)

سقیفہ بنو ساعدہ کے اجتماع میں جو گفتگو ہوئی اور قرارداد سامنے آئی اس سے مختلف مبادی و اصول سامنے آتے ہیں،

1: امت کی قیادت بذریعہ انتخاب و اختیار عمل میں آنی چاہیے۔

2: قیادت کی مشروعیت اور انتخاب و اختیار کے اصولوں میں سے بیعت بنیادی اصول ہے۔

3: منصب خلافت پر وہی فائز ہو گا جو دین میں مضبوط اور انتظامی و اداری امور میں مکمل اہلیت و صلاحیت رکھتا ہو۔

4: خلیفہ کا انتخاب اسلامی، شخصی، اخلاقی عناصر کے مطابق ہو۔

5: خلافت کا نسبی اور قبائلی وراثت سے تعلق نہیں۔

6: سقیفہ بنو ساعدہ کے اندر قریش کی ترجیح موجودہ حالات اور امر واقع کے مطابق تھی، جس کا خیال رکھنا ضروری ہے اور ہر اس چیز کا اعتبار کرنا ضروری ہے جو موجودہ حالات کے اعتبار سے موزوں ہو، بشرطیکہ اسلامی اصول سے متصادم نہ ہو۔

7: سقیفہ بنو ساعدہ میں جو گفتگو عمل میں آئی وہ مسلمانوں کے درمیان قائم نفسیاتی تحفظ و سلامتی کے اصولوں پر تھی۔ وہاں کوئی فتنہ و فساد، تکذیب، سازش، بدعہدی اور نقض اتفاق نہ تھا بلکہ تسلیم و رضا کا ماحول تھا، نصوصِ شرعیہ ہی اصل مرجع تھے۔

(دراسات فی عہد النبوۃ والخلافۃ الراشدۃ، للشجاع: صفحہ، 256)

تھی۔ وہاں کوئی فتنہ وفساد، تکذیب، سازش، بدعہدی اور نقض اتفاق نہ تھا بلکہ تسلیم ورضا کا ماحول تھا، نصوص شرعیہ ہی اصل مرجع تھے۔

ڈاکٹر توفیق شاوی نے واقعہ سقیفہ سے بعض ان مثالوں پر استدلال کیا ہے جو خلفائے راشدین کے دور میں اجتماعی شورائیت سے وقوع پذیر ہوئی ہیں،

سقیفہ بنو ساعدہ میں اس شورائیت کے اصول پر عمل کرتے ہوئے جس کی قرآن نے تنصیص فرمائی ہے، پہلی قرارداد جو پاس کی گئی وہ یہ تھی کہ نظامِ حکومت اور دستور سلطنت آزاد شورائیت سے پاس ہو گا۔ اسی لیے یہ اصول محل اجماع رہا اور اس اجماع کی اصل وہ قرآنی نصوص ہیں جو شورائیت کو فرض قرار دیتی ہیں، یعنی اس اجماع نے اسلامی نظام حکومت کے پہلے شرعی اصول شورائیت کو واضح کیا اور اسے ضروری قرار دیا۔ رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد یہ پہلا دستوری مبتدا تھا جو بالاجماع مقرر ہوا اور یہ اجماع کتاب و سنت میں شورائیت کو واجب کرنے والے نصوص کی تائید و تطبیق تھی۔

سقیفہ بنو ساعدہ کے اجتماع میں دوسری قرارداد جو پاس ہوئی وہ یہ تھی کہ خلیفہ وقت کا انتخاب اور اس کے اختیارات کی تحدید شورائیت کے ذریعہ سے عمل میں آئے۔ یعنی آزاد بیعت جو حاکم کو ان شرائط اور قیود کے ساتھ زمام حکومت سنبھالنے کی صلاحیت تفویض کرتی ہے جو عقد بیعت یعنی دستور کے ضمن میں آتے ہیں۔ یہ دوسرا دستوری اصول تھا جو بالاجماع پہلی قرارداد کی طرح پاس کیا گیا۔

مذکورہ دونوں اصولوں کو نافذ کرتے ہوئے اس اجتماع میں حضرت ابوبکرؓ کو بحیثیت خلیفہ اوّل منتخب کیا گیا۔

(فقہ الشوری والاستشارہ: د/ توفیق الشاوی: صفحہ، 140)

پھر اس انتخاب نے آخری شکل اس وقت اختیار کی جب عام بیعت عمل میں آ گئی، یعنی جمہور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دوسرے دن مسجد نبویﷺ میں موافقت کی اور پھر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان شرائط کے ساتھ اس کو قبول کیا جنہیں اس مناسبت سے دیے گئے اپنے پہلے خطبہ میں ذکر فرمایا تھا۔

(فقہ الشوری والاستشارہ: د/ توفیق الشاوی: صفحہ، 142)

 ان شاء اللہ ہم انہیں بالتفصیل ذکر کریں گے۔